donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghul Khan
Title :
   Dr Md Younus Butt

 ڈاکٹر محمد یونس بٹ

   
غل خان

 

 وہ چپ بھی ہوں تو تب لگتا ہے کہ بول رہے ہیں ایک بار بولیں تو کئی بار سنائی دیتے ہیں، لہجہ ایسا کہ کانفرنس کو بھی خانفرنس کہتے ہیں، پشتو سے اس قدر محبت ہے کہ انگریزی تک پشتو میں بولتے ہیں، بولتے وقت کان کا لفظ اور غصہ بہت دکھاتے ہیں، اگر ان کی بات بہت طویل ہو جائے تو سمجھ لیں وہ اپنی بات کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں، انہیں اپنی ہر بات پر اس قدر یقین ہوتا ہے کہ خود کو ولی کہتے ہیں، بات کے اس قدر پکے کہ جو بات کہیں  گے ، بیالیس سال بعد بھی وہ کہتے ہیں، وہ تو جو لطیفہ ایک بار سنا دیں پھر جب بھی لطیفہ سنائیں گئے وہ ہی سنائیں گے ،ضیا کے مارشل لا لگانے پر اک بار یہ لطیفہ سناتے کہ ایک شخص گدھے پر چوڑیوں کی گٹھڑی لئے جا رہا تھا، ایک سپاہی نے روکا اور ڈنڈا مارتے ہوئے پوچھا اس میں کیا ہے ؟ تو اس شخص نے کہا اگر آپ نے ایک بار پھر ڈنڈا مارا تو پر اس میں کچھ نہیں ہے ، وہ زبان  سے سوچتے ہیں، اس لئے  جب بول رہے ہوں تو سمجھ لیں سوچ رہے ہیں، غصے میں بول رہے تو تب بھی یہی لگتا ہے کہ فائرنگ کر رہے ہیں، سنا ہے وہ غصے میں اپنے علاوہ کسی کی بات نہیں سنتے ، یہ غلط ہے ، وہ غصے میں اپنی بھی بات نہیں سنتے ۔

اس خاندان میں آنکھ کھولی جس نے ابھی تک آنکھ نہیں کھولی، جیسے میرا دوست ف کہتا ہے کہ مجھ سے تمیز سے بات کرو، میرے سات بھائی ہیں، اور ان میں سے ایک کشمیری بھی ہے ، یہ کہتے ہیں مجھ سے سیاست کی بات ہوش میں کرو، میرا باپ گاندھی بھی رہا ہے ، پہلے نیشنل عوامی پارٹی کو بیگم نسیم ولی خان سمجھتے ، آج کل نسیم ولیخان کو نیشنل عوامی پارٹی سمجھتے ہیں، ان کے والد کی اتنی بڑی ناک تھی کہ دھوپ میں انہیں چھتری کی ضرورت نہ پڑتی تھی، ناک منہ پر سایہ کئیے رکھتی تھی، غل خان کی بھی ایسی خوب ناک ہے کہ وہ خاک کی اوٹ میں چھپ سکتے ہیں، ان کی تو چھوٹی انگلی بھی بڑی ہے ، دونوں باپ بیٹوں میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہ کہ باپ عمر میں بڑا تھا، ان کے کان دیکھ کر بندہ سوچتا کہ قدرت کتنی فیوچرسٹک ہے ، اس نے اس وقت ایسے کان بنانے شروع کر دئیے ، جب ابھی انسان کے ذہن میں عینک بنانے کا خیال تک نہ آیا تھا، اس عمر میں ہیں جس میں وگ کے بال بھی سفید ہو جاتے ہیں، لیکن بال سفید ہوئے تو کیا ہوا عینک تو سیاہ ہے ، ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں یا اللہ ایسی چشم بینا عطا فرما کہ دیکھنے کیلئے عینک کی ضرورت نہ پڑے ، ان کی نظر گاندھی آشرم میں لاٹھی لگنے سے خراب ہوئے ، تب پاکستان کو اسی خراب نظر سے دیکھتے تھے ، وہ کام جو دل لگا کر کرنے چاہیں وہ کام بھی عینک لگا کر کرتے ہیں، نہر جیکٹ پہنتے ہیں، جو اپنی حالات سے واقعی نہرو کو ہی لگتی ہے ، طویل عرصہ خان قیوم خان اور آشوب چشم میں مبتلا رہے ، تاہم اب بھی صحت کا پوچھو تو کہیں گے ، Fit Fighting ہوں۔ ویسے بھی جس پٹھان  کا لڑنے کو دل نہ چاہے ، یقین کر لیں وہ فٹ نہیں ہے ، ڈاکٹروں کو اپنی آنکھیں دکھا دکھا کر حالت ہو گئی کہ کہ اب جو بھی ملے ، اسے آنکھیں دکھانے لگتے ہیں، یادداشت کو اتنی اہمیت دیتے ہیں، کہ اب جو بھی ملے اسے آنکھیں دکھانے لگتے ہیں، یادداشت کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ یادداشتہ لگتی ہے ، جب کہ نسیم ولی خان کا حافظہ تو اتنا کمزور ہے کہ ان کے اپنے بیٹے بھی تھے ، سوتیلے بیٹے بھی مگر اب ان سے پوچھو کہ سوتیلا کون سا ہے تو کہیں گی میں بھول گئی۔

پاکستان بننے سے پہلے وہ کانگریس کے رکن تھے ، پاکستان بننے کے بعد سے کانگریس انکی رکن ہے ، گاندھی جی سے بہت متاثر ہیں، گاندھی جی کو غریب رہنے کیلئے بہت خرچ کرنا پڑتا، ایسے ہی انہیں چپ رہنے کیلئے بہت بولنا پڑتا تھا، اپنی پارٹی کو اپنی ذات سمجھتے ہیں اس لئے ان کی پارٹی پر فقرہ کسو تو سمجھتے ہیں کہ ذاتیات پر اتر آئے ہیں، ان کی پارٹی میں کوئی دوسرا آ جائے تو اسے یوں دیکھتے ہیں جسے گھر میں کوئی دوسرا آگیا، وہاں تو شیر باز مزاری بھی شیر ہوتا ہے ، نہ باز، بس مزاری ہوتا ہے ، کسی کو معاف نہیں کرتے ، انہوں نے تو کبھی خود کو بھی معاف نہیں کیا، کبھی کبھی اپنی پارٹی کو سیرا کرانے لاہور لاتے ہیں مگر وہ ان کے واپس چار سدہ پہنچنے سے پہلے ہی چار سدہ پہنچ چکی ہوتی ہے ، میں تا حکم ثانی محب وطن ہوں، اپنی سیاسی اہمیت و اہلیت کی وجہ سے پاکستان میں اہم مقام رکھتے ہیں اور یہ اہم مقام چار سدہ ہے ، والد سے سیاست سے زیادہ باغبانی کا شوق ورثے میں ملا، وہ تو باغ باغ ہونا سے مراد  دو باغ ہونا لیتے ہیں، ولی باغ میں رہتے ہیں، مگر یوں جیسے باغی باغ می رہنے والے کو ہی کہتے ہیں، وہ کسی مہمان کے سامنے چائے کے ساتھ بسکٹ رکھ دیں تو مہمان کو یقین ہو جاتا ہے کہ یا تو بسکٹ اصلی نہیں یا یہ اصلی غل خان نہیں، وہ سانپ پر لاٹھی نہیں مارتے ، لاٹھی پر سانپ کو مار دیتے ہیں، تقریر میں ضرب الامثال یوں لگاتے ہیں کہ جیسے امثال کو ضرب لگا رہے ہوں، کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کیلئے نسیم الغات نہیں، بیگم نسیم کو دیکھتے ہیں، انکی پارٹی کا نصف  بہتر ان کی نصف بہتر ہے ، گفتگو میں جی بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں، اگر وہ فقرے کے آخر میں جی لگائیں تو سمجھ لیں گھر سے بارہ گفتگو کر رہے ہیں، گھر میں وہ فقرے سے پہلے جی لگاتے ہیں۔

وہ بیگم نسیم والی خان کا مردانہ روپ ہیں، لیکن  وہ بیگم صاحبہ سے بڑے سیاست دان ہیں، پندرہ سولہ سال بڑے ہیں، انگلینڈ جا کر جم کر لکھتے ہیں ، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں اتنی سردی پڑتی ہے ، کہ بندہ نہ لکھے تو پھر بھی جم جاتا ہے ، اپنے بھائی عبدالغنی خان کی طرح تخلیقی آدمی ہے ، وہ تو تاریخ بھی لکھ رہے ہوں تو لگتا ہے تخلیق کر رہے ہیں، البتہ ان کی آپ بیتی کم اور اپنے آپ بیتی زیادہ لگتی ہے ، جیل میں تنہائی اور فرصت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خدائی خدمت گار تحریک کے دو حصے مکمل کر لئیے اور کہا جونہی پھر  تنہائی اور فرصت میسر آئی کتاب کا آخری حصہ بھی مکمل کر لوں، اس اعلان کے بعد کسی حکومت نے انہیں جیل نہیں بھیجا، یاد رہے خدائی خدمت گار اتنی مذہبی پارٹی رہی کہ اس کے سربراہ کا انتخاب براہ راست خدا کے ہاتھ میں ہوتا، جس کو سربراہ کی کرسی سے اٹھاتا خدا ہی اٹھاتا۔

لائبریری اچھی جگہ ہے بس وہاں کتابیں نہ ہوں، ویسے کتاب سے رشتہ تب شروع نہیں ہوتا جب آپ کتاب شروع کرتے ہیں، بلکہ تب سے شروع ہوتا ہے کہ آپ کتاب ختم کیسے  کرتے ہیں، غل خان کتابوں کے پرانے رشتے دار ہیں، چپل اور چپل کباب پسند ہیں، بڑھاپے میں اتنے جوان ہیں، پتہ نہیں جوانی میں کتنے بوڑھے رہے ہوں گے ، انہیں غصہ بہت آتا ہے ، کبھی تو اس بار پر غصہ آ جاتا ہے کہ مجھے فلاں بات پر غصہ کیوں نہیں آیا، غصہ اتنا غصب ناک کہ وہ تو اپنے ہی غصے سے ڈر کر کانپنے لگتے ہیں، بقول پیر پگاڑہ ایک تو الی جو ہوتا ہے گرم ہے اور اوپر سے پٹھان یعنی بہت ہی گرم۔ قابل کو کابل کہتے ہیں، بھٹو نے انہیں اس لئیے نا پسند کیا کہ اس کی وجہ سے اندر جانا پڑا بلکہ اس وجہ سے کہ بیگم نسیم کو باہر آنا پڑا، تب سے بیگم نسیم والی خان باہر ہیں اور خان صاحب اندر، کہتے ہیں بھٹو  دور میں تقریر پر پابندی تھی حالانکہ یہ درست نہیں، تقریر پر کپ پابندی تھی مقرر پر تھی، بھارت سے اس کی زبان میں بات کرتے ہیں، جب پاکستان سے پشتو میں بات کرتے ہیں، ایک بار حکومت نے انہیں بھارت میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیجنا چاہا تو بھارت کی حکومت نے کہا آپ کسی پاکستانی کو بھیجیں۔

ارسطو نے کہا ہے ، انسان ایک سیاسی جانور ہے ، پتہ نہیں یہ بات انہوں نے جانوروں سے ملنے کے بعد کہی یا سیاست دانوں سے ، تاہم غل خان ایسے سیاست دان نہیں، ایک سیاست دان کو پتہ چلا کہ غل خان پان کھاتے ہیں نہ سگریٹ پیتے ہیں شراب سے دلچسپی ہے نہ شباب سے تو اس نے کہا، آپ نے یہ کچھ کرنا ہی نہیں تو پھر سیاست کیوں کر رہے ہیں؟ ترقی پسند نظریات کی وجہ سے چل رہے ہیں، قوم پرست ہیں، ہر وقت آہ و افغان کرتے رہتے ہیں، وہ بیگم نسیم والی کے مزاجی خدا ہیں، ان کا مزاج اس پٹھان کی طرح ہے جو ہینگ لے کر آیا اور چلا چلا کر کہتا اینگ لے لو، جو چپ کر کے گزر جاتا اسے کچھ نہ کہتا، اگر کوئی کہہ دیتا کہ مجھے ہینگ نہیں چاہئے تو خان غصے میں آ کر کہتا و تم اینگ کیوں نہیں لیتا، ام تمہارے باپ کا نوکر ہے جو تمہاری واسطے اتنی دور سے اینگ لایا۔

غل خان لوگوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھیں نہ رکھیں، جس رگ پر ہاتھ رکھتے وہ ضرور دکھتی، وہ ان سیاست دانوں میں سے ہیں جس کے پاس ہر حل کیلئے ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے ، وہ ہے انا، سرحد میں پیدا ہی نہیں ہوئے ، سیاست کے لحاظ سے بھی ہمیشہ سرحد پر ہی رہتے ہیں، پٹھانوں کا تو محبت کرنے کا اندازہ بھی اپنا ہوتا ہے ، وہ تو کہتے ہیں کہ خانان وہ ہم کو اتنا اچھا لگتا ہے کہ دل چاہتا ہے اسے گولی ماردوں، سردی گرمی ہر موسم میں گرم، ایک زمانہ تھا، وہ لطیفہ بھی سنا رہے ہوتے تو لگتا دھمکی دے رہے ہیں، مگر اب حال ہے کہ دھمکی بھی دیں تو لطیفہ سنا رہے ہیں، ہم انہیں ضدی تو نہیں کہتے مگر جسے ضدی کہنا ہو اسے غل خان کہتے ہیں۔

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 645