donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghulam Ibne Sultan
Title :
   Rana Aziz Ahmad Nazir : Alfaz Ke Khazino Ka Malik Chala Gaya

  رانا عزیز احمد ناظرؔ:الفا ظ کے خزینوں کا مالک چلا گیا


غلام ابن سلطان


     دیوانہ  اپنے آ پ سے تھا بے خبر تو کیا 
     کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا
     باقی ؔ ابھی یہ کون تھا موجِ صبا کے ساتھ
    صحرا میں اِک درخت لگا کر چلا گیا


(باقی صدیقی:1908-1972)
 


       میں ممتاز ماہر تعلیم،نقاد ،محقق ،فلسفی اور دانش ور پروفیسر غلام قاسم خان کے پاس بیٹھا تھاکہ سیاہ فام خاکروب اکرو بھٹیارا اچانک نمودا ر ہوا ۔ اکڑیاں والا سے کچھ دُور جنڈی والا کے کھوکھا چوک کی نواحی کچی آبادی میں اکر و بھٹیارا طویل عرصے سے بھاڑ جھونکتا ہے ۔گدا حسین افضل کہا کرتے تھے کہ اکر وبھٹیارا صرف ظاہری شکل و صور ت کے اعتبار سے کالا نہیں اس کی زبان بھی کالی ہے اور کردار بھی اس کی رنگت کے عین مطابق ہے ۔نا معلوم کن وجوہات کی بنا پر توہم پرست لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ جب بھی اکر وبھٹیارا نمودار ہو ،اس کی آمد کو کسی الم نصیب کی مرگِ ناگہانی کی اطلاع سمجھو ۔باطنِ ایام پر نظر رکھنے والے اہلِ علم بھی یہ کہتے سُنے گئے کہ خالقِ کا ئنات کی طر ف سے ہر روز فرشتۂ ا جل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھمایا جاتا ہے اکرو بھٹیارا کن انکھیوں سے اپنے محلے کے ان لوگوں کے نام پڑھ لیتا ہے جو پیمانہ  ٔ عمر بھر گئے ہیں اور جو اُس روزکسی وقت زینہ ٔ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب کُوچ کرنے والے ہیں۔ آج اسے پریشانی و اضطراب کے عالم میں دیکھ کر پروفیسر غلام قاسم خان نے گلو گیر لیجے میں پُو چھا:

       ’’ سناؤ میاں اکرو بھٹیارے!آج ہمارے محلے میں سے کس کے نہ ہونے کی ہونی کا جان لیوا صدمہ دکھانے کا ارادہ کر کے یہاں پہنچے ہو  ؟‘‘

       اکرو بھٹیارا مگر مچھ کے آنسوبہاتے ہوئے بولا’’  تمھارا دیرینہ رفیق اور نامور سماجی کارکن رانا عزیز احمد ناظر اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔‘‘

        یہ کہہ کر اکرو بھٹیارا توپان کی جگالی کرتا ہوا گلی کے موڑ سے آگے نکل گیا اور ہماری آ نکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ شاید کسی اور کی دائمی مفارقت کی سُن گُن بھی اس نے لے رکھی تھی ۔

      ہم یہ سوچتے رہ گئے کہ یہ پُر اسرار بھٹیارا بہ ظاہر تو قسمت کا مارا دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے پاس اس قسم کی دِل دہلا دینے والی الم ناک خبریں پلک جھپکتے میں کیسے پہنچ جاتی ہیں؟

   پروفیسر غلام قاسم خا ن کی آ نکھوں سے جوئے خوں روا ں تھی وہ گلو گیر لہجے میں بولے ’’ کیسے کیسے نیر تاباں ،سورج اور ستارے اندھیروں میں کھو جاتے ہیں اور چاند چہرے ہمیشہ کے لیے فراموش ہو جاتے ہیں ۔رانا عزیزاحمدناظر کی رحلت سے محبتوں اور دیرینہ رفاقتوں کی سب رُتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں اور فصلِ بہار کی تمنا سینے میں دم توڑ گئی۔‘‘

       رانا عزیزاحمد ناظر کے آبا و اجداد کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ بر طانوی سامراج کے دور میںاس کے چچا احمد خان نے یونیورسٹی آ ف مدراس(Chennai) سے انگریزی ادبیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔قیام ِ پاکستان کے بعد تین بھائی احمد خان ،برکت علی اور غلام محمد نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک قافلے کے ہمراہ معمولی زاد سفر اورآبائی جائیدادکے کاغذات لیے گھر سے روانہ ہونے کی تیاری کرنے لگے۔ابھی وہ اپنا رختِ سفر باندھ رہے تھے کہ بلوائیوں نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا اور سب کچھ لُوٹ کر ان کے گھر کو آگ لگا دی۔یہ تینوں بھائی اپنے اہلِ خانہ کو ساتھ لے کر دامن جھاڑ کر بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلے اور صعوبتوں کا سفر طے کر کے واہگہ کے راستے سے لاہور پہنچے۔ جائیداد اور ملکیت کے کاغذات اور سامان تو بلوائیوں نے نذرِ آتش کر دیا تھا۔کوئی دستاویزی ثبوت نہ ہونے کے باعث محکمہ آبادکاری اس خاندان کو رہائشی مکان الاٹ کرنے پر رضامند نہ ہوا۔ہر طرف سے مایوس ہو کر یہ خاندان جھنگ پہنچا اور اس قدیم ضلع کے ایک دُور افتادہ گاؤں کوٹ عیسیٰ شاہ میں مستقل ڈیرے ڈال دئیے۔احمد خان نے نجی طور پر درس و تدریس کا آغاز کیا،برکت علی نے خیاط کا پیشہ اختیار کیا اور غلا م محمد نے ڈرائیونگ سیکھی ہوئی تھی اس لیے وہ ایک نجی مسافر بس کا ڈرائیور بن گیا۔اس طرح اس خاندان نے اپنے پاؤںپر کھڑا ہونے کی کوششوں کاآغاز کر دیا۔غلام محمدکے تین بیٹے تھے جن کے نام بشیر احمد ،عزیزاحمد اور ظہیر احمد تھے۔ عزیز احمد میرا ہم جماعت اور بچپن کادوست تھا ۔عزیزاحمد کے گاؤں سے دو میل جنوب میں میرا گاؤںتھا جو دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان میں واقع ہونے کی وجہ سے دوآبہ کہلاتا تھا۔دوآبہ میں کوئی سکول نہ تھا اس لیے دوآبہ کے طالب علم علی الصبح دو میل پیدل چل کر کوٹ عیسیٰ شاہ کے وسطانی سکو ل میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے اور شام کو گھر لوٹتے تھے۔

      سرکاری وسطانی مدرسہ میں چُھٹی کی گھنٹی بجتے ہی سب طالب علم ساتھ ہی واقع احمد خان تدریسی مرکز پہنچ جاتے ۔یہاں ماسٹر احمد خان سب طالب علموں کوانگریزی پڑھاتے تھے۔کھجور کے پتوں سے تیار کی گئی بڑی بڑی چٹائیوں پر سب طلبا کلاس کے اعتبار سے با ادب بیٹھ جاتے اور اس یگانۂ روزگار فاضل سے اکتساب فیض کرتے تھے۔احمد خان تدریسی مرکز کی فیس ایک روپیہ ماہانہ مقرر کی گئی تھی۔یتیم، مسکین اور مفلس وقلاش والدین کی اولاد سے کوئی فیس وصول نہیںکی جاتی تھی بل کہ ان کوکتب ،قلم ،روشنائی اور کاپیاں بلا قیمت فراہم کی جاتی تھیں۔طالبات کا الگ سرکاری وسطانی سکول بھی اس گاؤں میں موجو دتھا ۔چھٹی کے بعدسب طالبات بھی ماسٹر احمد خان کے گھر کا رخ کرتیں جہاں گھر کی چاردیواری کے اندر عزیزاحمد کی والدہ خالہ سکینہ ان طالبات کو صاف دری پر بٹھاتی اور اپنی حقیقی بیٹیوں کی طرح تربیت کرتی تھی۔طالبات کے لیے گھر کے صحن میں گھڑونچی پر رکھے کورے گھڑوں میںہینڈ پمپ کاتازہ پانی رات کو بھر کررکھ دیا جاتا۔اسی طرح طلبا کے پینے کے لیے بھی پانی بھر کے سامنے ایک بڑے چھپر کے نیچے گھڑاٹھیوں پر پانچ گھڑوں میں پانی بھر کر رکھ دیا جاتا اور ساتھ ہی مٹی کے پیالے بھی رکھ دئیے جاتے تھے۔ماسٹر احمد خان ایک شانِ استغناکے ساتھ پہلے طالبات کوانگریزی کا سبق پڑھاتے اس کے بعد طلبا کی جانب متوجہ ہوتے تھے ۔ سبق سنانے کے بعدپہلے طالبات کو چھٹی ملتی اس کے نصف گھنٹہ بعد طلبا کو بھی چھٹی مِل جاتی اور سورج غروب ہونے سے پہلے سب طلبا و طالبات اپنے اپنے گھروں میں پہنچ جاتے تھے۔گرمیوں اور سردیوں کی تعطیلات میں سرکاری مدارس تو بند ہو جاتے مگر احمد خان تدریسی مرکز میں طلبا کی پڑھائی کا سلسلہ جاری رہتا۔

      عزیزاحمد کاشمار انتہائی مودب اور فطین طلبا میں ہوتا تھا۔ والدین اور اساتذہ کے فیضانِ نظر سے اس ہو نہار طالب علم نے ہر جماعت کامتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔پانچویں جماعت کے امتحان میں عزیزاحمد نے پُورے ضلع میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔اس موقع پر عزیزاحمد کی والدہ ،والد ،بڑے بھائی ،چچا برکت علی اور تایا احمدخان نے اس کے ہم جماعتوں کو اتوار کے دِن دعوت پر اپنے گھر بُلایا ۔ مقررہ تاریخ کو اتوار کے دِن ہم سب طالب علم اور طالبات پُھولوں کے ہار لے کر عزیزاحمد کے گھر پہنچے۔عزیزاحمد اور اس کے والدین کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور اس فطین طالب علم کے رشتہ داروں پر پُھولوں کی پتیاں نچھاور کیں ۔ عزیز احمد کے اہلِ خاندان نے عزیزاحمد کے ہم جماعت طالب علموں کے لیے دیدہ و دِ ل فرش راہ کر دیا۔ ایک بکرا ذبح کیا گیا اور گاؤں کے ماہر خانساماں نے اس کے گو شت سے قورمے کی د ودیگیں پکائیں ۔ طالب علموں کا منھ میٹھا کرنے کے لیے سُپر کرنل پکی باسمتی مقامی تاجر محرم کی دکان سے خریدی گئی اور زردے کی ایک دیگ بھی پکوائی گئی۔ ساتھ ہی دائی نوراں کا تندور تھا وہاں سے گرما گرم روٹیاں پکوائی گئیں۔طالبات نے گھر کے اندر کھانا کھایا جب کہ ہم سب طلبا نے باہر کھلے میدان میں چھپر کے نیچے  چٹائیوں پر بیٹھ کر جی بھر کر کھانا کھایا اورزردہ بھی مزے سے کھایا ۔یہ یادگار لمحے تھے جو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ جلبِ منفعت کے مارے انسانیت سے محروم درندے حرص و ہوس کے خالی کشکول تھامے وقت کے ابولہول کے سامنے اپنی احتیاج بیان کرتے ہیں ۔تہی مایہ قلوب اورفہم وخرد سے عاری لوگ در کسریٰ کے کھنڈرات پر صدا لگاکر لاشوں ،مُردوں اور پتھروں کے رو بہ رو زندہ انسانوں کے مصائب و آلام کی روداد بیان کرنے میں مصروف ہیں ۔اسی کو اس عہد کے سب سے بڑا المیہ قرار دیا جاتاہے۔ اس قسم کی دعوتیں اور ملاقاتیں اب ماضی کا حصہ بن گئی ہیں ۔جب ہم کھانا کھا چکے تو ماسٹر احمد خان نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور کہا :

     ’’پروردگارِ عالم رحمت اللعالمینﷺ کے طفیل ان سب بچوں کا مستقبل روشن کر دے،ان کا مقدر سنوار دے اور یہ بچے بڑے ہو کر والدین کا سہار بنیں اور ملک و قوم کا نام روشن کریں۔‘‘

        ہم سب نے مِل کر کہا ’’آمین‘‘ اور اس کے بعد ہم ہنستے کھیلتے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔
        ہمارے اساتذہ اس بات پراکثر دِل گرفتہ ہو جاتے کہ شہر،قصبے ،قریہ و مکاں اور گوٹھ و گراںاب ہوس کے باعث ویرانی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔جیتی جاگتی آنکھوں سے خواب رخصت ہو رہے ہیںاور ان میں بے آب و گیاہ صحراکی ویرانی جھلک رہی ہے ۔سنسان شہروں کے بد گمان مکینوں کے گھروں میں افراد تو موجود ہیں مگر انسانیت عنقا ہے ۔ وفا،خلوص ،درد مندی اور ایثار کا کہیں سراغ نہیں ملتا ۔خو ف و دہشت کی فضا میں ہمکتے اطفال کے سر پر دہشت کے آ سیب اور خوف کا وبال منڈلا رہا ہے ۔ 

        آٹھویں جماعت کے امتحان میںبھی عزیزاحمد نے اپنا اعزازبرقراررکھااور پہلی پوزیشن پر اپنا استحقاق ثابت کر دیا۔اس بار پہلے سے بڑھ کر ہماری ضیاف کااہتمام کیا گیا ۔ اس نشاط ِ لمحہ کی بعد میں وہ بھاری قیمتیں چُکانی پڑیں کہ ان کے تصور سے کلیجہ منھ کو آتا ہے اور خوشی کے ایک لمحے کو دیکھ کر بھی دِ ل لرزتاہے کہ کہیں یہ سب کچھ سراب نہ ہو ۔ثانوی کلاسز میں داخلہ کے لیے ہم سب نے جھنگ شہر کا رُخ کیا ۔جماعت نہم میںہم نے سائنس کے مضامین کا انتخاب کیا۔ عزیزاحمد اور ہم سب نے میٹرک کاامتحان لاہور بورڈ سے پاس کیا۔سال اول میں ہم سب نے تاریخی گورنمنٹ کالج جھنگ میں داخلہ لیا ۔یہاں بھی ہم نے سائنس کے مضامین میںداخلہ لیا۔ سال  1968میںانٹر میڈیٹ کاامتحان پاس کرنے کے بعد عزیزاحمد عازم لاہورہوا اور میں اپنے بڑے بھائی کے پاس ملتان چلا گیا۔اس کے بعد ہمارے رابطوں میںتعطل پیدا ہو گیا اور ایسے بچھڑے کہ شاید کبھی خوابوں میں ملتے تھے۔ مستقبل کے بارے میں ہماری تشویش میں پیہم اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔قحط الرجال کے اس دور میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال سے یہ اندازہ لگایاجا سکتا تھا کہ آنے ولے دور کی ہیبت ،سفاکی اوردہشت سینہ چاکانِ چمن پر بہت بھاری ثابت ہوگی ۔وقت پر لگا کر اُڑتا رہا اور اس عرصے میں ہم ایک دوسرے کے حالات سے بے خبررہے۔ہمارے ذہین ساتھی پرویز اقبال،محمداسلم،غلام محمد،ارشد علی،سلیم خان ،غلام قاسم خان،دلاورخان اور شہباز نہ جانے کس جہاں میں گم ہو گئے کہ مجھے بھری دنیا میں جدائی اور تنہائی کی مسموم فضا نے ہمہ وقت پریشان رکھا۔کبھی کبھی اُڑتی سی یہ خبر طیور کی زبانی معلوم ہوتی کہ فلاں دوست کسی بڑے شہر میںبلند منصب پر فائز ہے مگر اتنی فرصت کہاںکہ ان رفیقوں کی جستجوکے لیے گھر سے باہر نکلیں ۔  

       اس عالمِ آب و گِل کے معمولات بھی عجیب ہیں ہر کوئی اپنی فضا میں مست پھرتا ہے ۔تارک الدنیا لوگ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ اس کائنات میں رقصِ زیست سرابوں کے عذابوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔ہوس پرست انسان بے مقصد و بے ارادہ  زندگی کی شبِ تاریک میں ٹامک ٹوئیے مارتا پھرتا ہے ۔ہوائے جہاں کے تند و تیزبگولے اس قدر سبک سر ہیں کہ سب کچھ خس و خاشاک کے مانند اس طرح اُڑا لے جاتے ہیں کہ نہ تو کوئی نقش باقی رہتا ہے اور نہ ہی کوئی جادہ دکھائی دیتا ہے ۔سال 1972میں مجھے معلوم ہوا کہ عزیزاحمد لاہورسے بر قیات میںاعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے بعد پانی اور بجلی کے ترقیاتی ادارے میں ملازم ہو گیا ہے اور اس نے لاہور میں مقبرہ جہاں گیر کے نواح میں واقع ایک آبادی میںاپنا گھر بنا لیا ہے ۔اگلے سال مجھے ایک مکتوب ملا جس میں عزیز احمد کی شادی کا دعوت نامہ تھا۔اس نے جھنگ میں مقیم اپنے سب ہم جماعتوں کو اپنی شادی پر بُلایا تھا۔یہ شادی لاہور کے ایک معزز راجپوت خاندان میں ہو رہی تھی ۔اس خاندان کا تعلق عزیز احمد کے ننھیال سے تھا۔ عزیز احمد کے قریبی دوستوں اور بچپن کے ساتھیوں کا یہ قافلہ جو رانا ارشدعلی،نور محمد سوز،غلام احمد ،شہباز ،دلاور،قاسم خان،ریاض اور پرویز پر مشتمل تھامقررہ تاریخ کو علی الصبح ’’البرق‘‘ پرسوار ہوا جو اس زمانے جھنگ سے لاہور کے لیے سب سے تیز رفتار بس سروس سمجھی جاتی تھی۔ہم نے گندا ٹوڑا(گندے پانی کا جوہڑ) جھنگ کے کنارے رہنے والے دھریسی ’’ہوش ربا دھریس پارٹی ‘‘ کو بھی ساتھ لیا ۔یہ دھریس پارٹی اپنے لوک گیتوں اور رقص کی وجہ سے پُورے ملک میں مشہور تھی ۔سولہ افراد پر مشتمل اس پارٹی کا ہر رکن ایک خاص لباس زیب تن کرتا جو طرہ دار پگڑی ،پیلی بوسکی کی قمیص ،  پیلی بوسکی کی تِلے دار جیکٹ ،خوشاب کی لُنگی اور پاؤں میں پہننے کے لیے موچی وال کے کُھسے پر مشتمل تھا ۔البرق کی برق رفتار بس صبح چھے بجے جھنگ سے لاہور کے لیے روانہ ہوئی اور فیصل آباد ، مانانوالہ،کھرڑیاں والا ،بھکھی اور شیخوپورہ سے ہوتی ہوئی ایک بجے سہ پہر لاہور پہنچ گئی۔ شاہدرہ کے مقام پر ہم بس سے اترے تودھریس پارٹی کے رقاص پوری طرح تیار تھے۔انھوں نے گھنگھرووں والی  پھٹیاں اپنے ہاتھوں میں تھام لیںاور ڈھول کی تھاپ پر اس گیت پررقص شروع کر دیا: 

       اساں لائیاں اکھیاں جل بھریاں 
      ایہناں بے قدراں نال لائیاں اکھیاں جل بھریاں
      بدھیاں ڈھول دیاں اساں بنھ گڈھڑی سر چائیاں 
       اساں لائیاں اکھیاں جل بھریاں
     ترجمہ:
       پُر نم آ نکھوں سے ہم نے سہے عشق کے سب جھمیلے  
       تنہا چھوڑ کے کہاں گئے تم اے ساجن البیلے
      تیرے ہجرکی گٹھڑی سر پہ اُٹھا کے دیکھے دنیا کے میلے
      پُر نم آ نکھوں سے ہم نے سب صدمے سر پر جھیلے

        لوک گیت کی سریلی تان ،ڈھول کی تھاپ پر رقص اور ہاتھوں اور پاؤں کے گھنگھرووں کی آواز سے وہ سماں بندھا کہ ہزاروں راہ گیر خوشی کے یہ لمحات دیکھنے کے لیے رُک گئے اور وارفتگی کے عالم میں دیوانہ وار ناچنے اور ویلوں کی صورت میں کرنسی نوٹ لٹانے لگے ۔کسی دانا کا قول ہے کہ پرائی برات پر صرف احمق ہی نا چتا ہے اور سرمنڈوا کر ویلیں ڈالتا ہے ۔اس لحاط سے عزیزاحمد کی شادی کی یہ تقریب یادگار بن گئی کہ اس میں سب شرکا اپنے حال میں ایسے مست تھے کہ وہ دنیا و ما فیہا سے خبر دکھائی دیتے تھے۔ اندرون لاہور سے بھی ہزاروں لوگ ہوش ربا دھریس پارٹی کا پُر جوش رقص دیکھنے کی خاطر پہنچے اور رقاص پارٹی پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں اور کرنسی نوٹ نچھاور کیے ۔جس وقت برات مقبرہ جہاں گیر کے سامنے سے گزری تو برات کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بِن بلائے مہمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد راستے پر جمع ہو گئی۔ پُرجوش لوگوں کے ازدحام کے باعث ٹریفک رُک گئی۔اس موقع پر آسُو بقال نامی ایک کہنہ مشق ڈھولچی شاید تاریخ کی کچھ شُد بُد رکھتا تھا۔ جب وہ جہاں گیر کے مقبرے کے نزدیک پہنچا تو اُس کے چہرے پر ناگواری اور غصے کے آثارپیدا ہو گئے اور وہ ٹسوے بہا کر پُر سوز آواز میں گانے لگا۔ اُس نے انار کلی کی قبر جہاں دِن کو بھی شبِ تاریکی کا سماں ہوتا ہے ،کے سامنے کے سامنے زور سے ڈھول بجا کر جب مقبرہ جہاں گیر کی طر ف انگلی کا اشارہ کر کے یہ ماہیا پڑھا تو لوگوں کی آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔

      ایہہ لسوڑا
     راہے مینوں چھوڑ گیاایں
     ہانویں کُوڑے دا کُوڑا
       ترجمہ: 
     لسوڑے کا بُوٹا
     رستے ہی میں چھوڑدیا
    تُو نکلاجُھوٹے کاجُھوٹا

      اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مر مریں قبر کے اندر تہہِ ظلمات پڑا باد شاہ جس کا بدن ملخ و مُورکے جبڑوں میں تھا وہ یہ سب کچھ سُن رہا تھا۔ جب یہ درد بھری سریلی تان ان مقبروں کی ٹوٹتی ہوئی محرابوں سے ٹکراتی تو قدیم مقبرے کے دروبا م تھر تھرانے لگتے۔ یہ دلدوز آواز فضا میں گُونجی تو اچانک جہاں گیر کے مقبرے کے مینار لرزنے لگے یہ  منظرد یکھ کر لوگوں کو انار کلی کی مظلومیت کا یقین ہو گیا۔ مغل شہنشاہ اکبر کی کنیزانار کلی اور شہزادہ سلیم کی ناکام محبت کاالم ناک انجام جسے ولیم فنچ کی اختراع سمجھاجاتا ہے اس کا منظر سب کی آ نکھوں کے سامنے آ گیا۔ مغل آمریت کے مظالم سے نالاں پنجاب کے باشندوں کو عبرت کی مثال بنانے کے لیے مغل شہنشاہ اکبر نے دہلی چھوڑ کر بیس برس تک لاہور کے شاہی قلعہ میں ڈیرے ڈل دئیے۔اس عرصے میں پنجاب میں اس مطلق العنان شہنشاہ کی انصاف کُشی کے سب افسانے ہر آمر کے لیے عبرت کے تازیانے ثابت ہوئے۔پنڈی بھٹیاں کے کسان عبداللہ بھٹی(1569-1599) نے جب فاقہ کش مزدوروں، غریب مزارعین اور افلاس زدہ دہقانوں کے تلخ اوقات کی بات کی تو اس جابر بادشاہ نے اُسے دار پر کھنچوا دیا۔ پنڈی بھٹیاں شہر کے باشعور باشندوں نے شہر کے مرکزی چوک کا نام ’’دُلابھٹی چوک ‘‘  رکھ دیاہے جو سلطانی ٔ جمہور کے حامی اور حریتِ فکر کے اس مجاہد کو شان دار خراج تحسین ہے ۔پروفیسر غلام قاسم خان نے ملازمت کے سلسلے میں بھکر کے قریب واقع گاؤں دُلے والامیں کچھ عرصہ قیام کیا۔یہی وہ علاقہ ہے جہاںعبداللہ بھٹی نے مغل شہنشاہ اکبر کی استبدادی حکومت کی بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں سے بچنے کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت گم نام زندگی گزاری۔غلام قاسم خان نے مغل شہنشاہ اکبر کی شقاوت آمیز ناانصافیوں کے حوالے سے بتایا کہ مغل شہنشاہ اکبر نے عبداللہ بھٹی کو دار پر کھنچوانے سے پہلے یہ کیوں نہ سوچا کہ عبداللہ بھٹی اور شہزادہ سلیم رضاعی بھائی ہیں ۔عبداللہ بھٹی اور شہزادہ سلیم ایک ہی دن پیدا ہوئے اور دونوں کوعبداللہ بھٹی کی ماں لاڈھی نے اپنا دودھ  پِلاکر پالا اور ان کی تربیت کی ۔ہمارے معاشرے میں دُھوپ چھاؤں کی عجیب کیفیت ہے ہر طرف دُکھوں کے جال بچھے ہیں ۔عملی زندگی میں ہمارا واسطہ مختلف مزاج کے لوگوں سے پڑتا ہے ۔ ہر انسان کی سرشت اور داخلی کیفیت کوسمجھناایک کٹھن مر حلہ ہے ۔ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ تو جان مار کر ایثار اوردردمندی سے دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے اور درد کا درماں تلاش کرنے کے کام میں مصروف ہیں مگر کچھ مارِ آ ستین بھی ہماری صفوںمیں گھس گئے ہیں۔ہماری روح بے لوث محبتوں ،بے باک صداقتوں اور ایثار کی تشنگی محسوس کرتی ہے ۔ہمارے دسترخوان پر مشروبات سے لبریز ساغر موجود ہیں۔ ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے یہ سب ساغر ایک جیسے ہیں ۔اصل مسٔلہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ ساغر تو آبِ حیات سے لبریز ہیں جب کہ کچھ ساغر ایسے بھی جن میں زہرِ ہلاہل بھردی گئی ہے ۔ہماری زندگی اسی کشمکش میں گزر جاتی ہے کہ اپنی تشنگی بجھانے کے لیے کون سے ساغر کو اپنے ہاتھ میںتھام کر غتا غٹ پی کر اپنی پیاس بُجھائیں ۔ 

       عزیز احمد تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل پر یقین رکھتا تھا۔اس نے آہ بھر کر کہا دوستو! محبت کے دستور نرالے ہوتے ہیں ۔ کسی بھی فوج کا دانش مند سپہ سالار جب یہ محسوس کرتا ہے کہ محاذ جنگ پر پیش قدمی کی صورت میں بھاری جانی نقصان کا خطرہ ہے تو وہ پس پائی اختیار کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتا مگر محبت میں اُٹھنے والے قدم کسی صورت میںپلٹ نہیںسکتے ۔ محبت کرنے والے موت کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ میں گجرات گیا تو چناب کے کنارے آج بھی سوہنی کی بے قرار روح مہینوال!مہینوال پکارتی  پِھرتی ہے ۔بھنھور کے بے آب و گیاہ سنسان ریگستان میں سسی کی دل دہلا دینے والی چیخیں سنائی دیتی ہیں جو پُنوںکو مدد کے لیے پکارتی ہے ۔ یہ شہر بھی عجیب ہے جس کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ یہ کو فے کے قریب ہے یہاں بدھو کمھار کا آواہ ، اس کے مقبرے کی تعمیر اور تزئین گزشتہ وقت کا پچھتاوا اور نئے دور کا بہلاوا بن کر سامنے آتا ہے ۔ بُدھو کمھار یہ نہیں جانتا تھا کہ میرتقی میرؔکی قبر پر لکھنو کا ریلوے سٹیشن بن جائے گااور بُدھو کا آو ا لاہور میںاورنج ٹرین چلنے سے محض دکھاوا بن جائے گا۔ جگنی آ ج بھی راول کو پکارتی ہے اور لاہور شہر میں انارکلی بازار کے درو بام سے نادرہ (انار کلی )کی چیخیں سنائی دیتی ہیں ۔وہ سلیم! سلیم! پُکارتی ہے تو سننے والوں کے دل دہل جاتے ہیں ۔میانی صاحب کے شہر خموشاں سے عبداللہ بھٹی کی آخری آرام گاہ سے فسطائی جبر کے خلاف سینہ سِپر ہونے کی للکارسنائی دیتی ہے ۔جاہ و منصب کے نشے سے مخمور لوگوں کے جسم و جاں پر بے حسی کا قہر ہمارے عہد کا سب سے بڑاالمیہ ہے ۔ محبت میں کسی کی مرضی ، ارادے یا عزم کا کوئی دخل نہیں یہ تو ایک جذبہ ٔ بے اختیار ہے ۔ محبت ایک ایسی چنگاری ہے جو از خود بھڑکتی ہے اور اس کے شعلوں میںمتاع زیست تک جل کر راکھ ہوجاتی ہے۔ جب تنہا ئیوں کا زہر فرد کے رگ و پے میں سرایت کر نے لگتا ہے تواس کا تر یاق صرف اور صرف محبت ہے ۔ محبت ایک طلسم ہوش ربا ہے جو ہجوم یاس میں گھرے مضمحل انسان کو ذاتی کرب کے حصار سے نکال کر اس کے جذبات اور احساسات کو ایسی سمت عطاکرتی ہے کہ غیر ذات سے بے ارادہ ایک قلبی اور روحانی تعلق استوار ہوجاتا ہے ۔ یہ ایسا تعلق ہے کہ جب تک سانس اور ہوش رہتا ہے کہ یہ آس اور امید بندھا کر تسکین قلب کے امکانات سامنے لاتا رہتا ہے۔    

       شادی کی تقریب کے لیے دولھا اور دلھن کے لیے جو ملبوسات اورتحفے تحائف ہم اپنے ساتھ لے گئے تھے وہ ہم نے اپنے دوست کے حوالے کیے ۔نو بیاہتا جوڑے کے لیے دِل سے دعا کی اورضیافت میں شرکت کی ۔ عزیز احمد نے ہم سب ساتھیوں کو گلے لگا لیااور ممنونیت کے جذبات کے ساتھ کہا:
       ’’ایسے دوست اللہ سب کو دے ،مجھے برادرانِ یوسف کے بجائے آپ جیسے دوستوں پر ناز ہے ۔چور محل میں جنم لینے والے سانپ تلے کے بچھو تو یہاں کثرت سے مِل جاتے ہیںمگر میرے رفیق تم جیسے گُدڑی کے لعل نایاب ہیں۔تم جیسے نایاب ساتھی تومُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مِل سکتے۔‘‘ 

        شادی کی تقریب اور خوشی کے لمحات اگلی صبح تکمیل کو پہنچے تو وہ ہمیں الوداع کہنے آزادی چوک سے آگے بڑھا اورمینارِ پاکستان کو سلام کرتا ہوا بادامی باغ کے بس سٹینڈ تک پیدل آیا ۔ لاہور سے جھنگ جانے والی البرق ٹرانسپورٹ کی بس روانگی کے لیے تیار تھی ۔جب بس روانہ ہونے لگی تو اس نے ہاتھ ہلا کر ہم سب کو خداحافظ کہا۔اس کے جواب میں ہم نے بھی اپنے دوست کو الوداعی سلام کیا ۔کسے معلوم تھا کہ آنے والے دنوں میںحالات کیارخ اختیار کریںگے۔رخشِ حیات سر پٹ دوڑ رہا ہے ،یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور حشرتک جاری رہے گا ۔ انسان کا نہ تو  رخشِ حیات کی باگ پر ہاتھ ہے اور نہ ہی  رکاب میں پاؤ ں ہے ۔

      اپنے تایااحمدخان کی وفات کے بعد عزیز احمد نے اپنے آبائی گاؤں میں ’’احمد خان میموریل مدرسہ‘‘ قائم کیا ۔اپنی نوعیت کا یہ واحد تعلیمی ادارہ تھا جس میں یتیم ،مسکین اور بے سہارا بچوں سے کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی ۔مفلس وقلاش اور نادار والدین کی اولاد کی فیس معاف تھی اس کے علاوہ ان بچوں کی وردی اور کتابوں کے تمام اخراجات اس مدرسے کی انتظامیہ کے ذمے تھے۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے اور انسانی ہمدردی میںعزیز احمد اس قدر بلند پایہ تھا کہ لوگ اسے گنبدِ نیلو فری کاہمسایہ قرار دیتے۔عزیز احمدکی مقبولیت کا راز احترامِ انسانیت اور خدمتِ خلق میں پوشیدہ تھا۔اپنے احباب ، اجنبی لوگوں اور کسی کام کی غرض سے ملنے والوں سے عجز و انکسار،اخلاق واخلاص سے پیش آنااس کا معمول تھا۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ساری دنیا میں انقلاب کی دستک زنی کا سلسلہ جاری ہے مگر کوئی نہیں جانتا کہ الم نصیبوں کی شبِ غم کی سحر کب ہوگی؟ احمد خان میموریل مدرسہ میں ثانوی جماعتوں تک تدریس کا انتظام کیاگیا۔طلبا و طالبات کے لیے الگ الگ عمارت حاصل کی گئی اور طالبات کی تدریس کے لیے قابل خواتین اساتذہ کی خدما ت حاصل کی گئیں۔عزیز احمد کی اہلیہ محترمہ اور بہنیںطالبات کی تعلیم و تربیت میں گہری دلچسپی لیتی تھیں ۔عزیزاحمد اکثر یہ بات زور دے کر کہاکرتا تھا کہ صبر و تحمل ، عجز و انکساراور خوش اخلاقی ایسامخلص بدرقہ ہے جوزندگی کے سفر میں ہر راہی کو سرابوں کے جان لیوا عذابوںاورہوس کے خرابوں سے بچا کرمنزلِ مقصود تک پہنچانے میں بے حد ممد و معاون ثابت ہوتا ہے ۔سماج اور معاشرے میں اجتماعی زندگی کوصحت مند بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے وہ زندگی کی اقدارِ عالیہ کے تحفظ پر اصرار کرتا تھا۔  

       تقدیر کی تحریر کسی تدبیر سے بدلی نہیں جاسکتی عزیزاحمدجہاں بھی جاتاگردشِ ایام ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی۔مقدر نے اس کے ساتھ عجب کھیل کھیلے وہ لوگ جو اس کی آ نکھوں میں بستے تھے اور جنھیں دیکھ دیکھ کر وہ جیتاتھا ،سب لوگ آ نکھوں سے اوجھل ہوگئے۔احمدخان ،برکت علی ،غلام محمد،عبدا لغنی اور بشیر احمدنے اسے اللہ بیلی کہااور چُپکے سے زینۂ ہستی سے اُتر کر سوئے عدم روانہ ہو گئے۔والدہ کی وفات کے بعد عزیز احمد کا دِل بُجھ گیا اور وہ دُنیاکی محفلوں سے کنارہ کش ہو گیا۔وہ واپڈا ہاؤس،لاہور کے دفاتر میں ملازم تھا ،دوسال قبل میں نور خان کے ہمراہ اس سے لاہور میں ملا ۔اب وہ کرائے کے مکان کے بجائے اپنے کشادہ ذاتی مکان میں منتقل ہو گیا تھا اور اس کے بچے بھی ثانوی کلاسز میں لاہور کے معیاری تعلیمی اداروں میںزیر تعلیم تھے ۔ دردمندوں اور ضعیفوں کی خدمت کا جذبہ اب بھی بر قرار تھا ۔ عزیزاحمد اپنی ذات میں انجمن تھا اس نے اپنے گاؤں کی بیس کے قریب یتیم اور فاقہ کش بچیوں کو جہیز کا سامان فراہم کیا،تیس یتیم اورمفلوک الحال بچوں کی تعلیمی ا خراجات برداشت کیے اور انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا۔  وہ منھ اندھیرے اُٹھتا ،نمازتہجد کے بعدوہ با جماعت نماز فجر ادا کرتااور اپنے مکان کی چھت پر اناج کے دانے بکھیر دیتا تا کہ طیور یہ دانے خود بھی چُگ لیں اور اپنے بچوں کے لیے بھی لے جائیں۔ اس نے اپنے دُُور افتادہ گاؤں کے بیمار ،معذور اور ناتواں غریبوں کے علاج پرتوجہ دی اور گاؤں میں مناسب طبی سہولیات کے فقدان کے باعث کئی پیچیدہ اور لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ضعیفوں کو اپنے ساتھ لا ہور اپنے گھرلایا اور لاہور شہر کے سرکاری ہسپتالوں میںداخل کرا کے ان کا علاج کرایا۔ اسی پر اکتفا نہ کیا گاؤں کے غریب کسانوں ،مزارعوں اور محنت کشوں کے مویشی اکثر بیمار پڑ جاتے ۔علاقے کے توہم پرست لوگ اسے جادو ٹونے کا اثر سمجھتے ہوئے کسی جعلی عامل،ٹھگ یا اُچکے کے ہتھے چڑھ جاتے جو جنتر منتر اور گنڈے دے کر ان سے بھاری رقوم ہتھیا لیتا۔شرح خواندگی کم ہونے کے باعث علاقے میں اس قسم کے اُٹھائی گیروں اور نام نہاد عاملوں کی پانچوں گھی میں تھیں۔ عاملوں ،ٹھگوں اور جعل سازوں سے غریب کسانوں کو نجات دلانے کے لیے عزیز احمد پندرہ بیس روز کے بعد بیلہ سُربانہ میں مقیم  اپنے ہم جماعت اور لس بیلا یونیورسٹی(بلوچستان) کے فارغ التحصیل ویٹرنری ڈاکٹر شیخ رمضان کو چُھٹی کے دِن اپنے ہاں دعوت دیتا۔ ویٹرنری ڈاکٹر شیخ رمضان کو دریائے جہلم کے کنارے واقع اس جنگل بیلے کے باشندوں کے مسائل کا احساس تھا۔وہ دوست کی دعوت پر بلا تامل پہنچ جاتااور کسانوں کے مویشیوں کا طبی معائنہ کرتا اور عزیز احمد کے مالی تعاون سے غریب کسانوں کو مویشیوں کے علاج کے لیے ادویات بھی بلا قیمت مِل جاتیں۔بعض سادہ لوح اور جاہل کسان اپنے بیمار مویشیوں کی دوا لینے کے بعد اپنا ہاتھ ڈاکٹرشیخ رمضان کی طر ف بڑھا دیتے تا کہ وہ ان کی نبض دیکھ کر ان کا علاج بھی کریں ۔یہ طرفہ تماشا دیکھ کر عزیزاحمد جاہل کسان کا ہاتھ جھٹک دیتا اوراسے انسانوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیتا ۔نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ،ایسے ابلہ اور بُز اخفش ٹس سے مس نہ ہوتے اورتلخ کلامی پر اُتر آ تے ۔ڈاکٹر شیخ رمضان مسکراتے ہوئے اس قماش کے مسخروں کو ٹال دیتا مگر دِل بُرا نہ کرتا۔ فیض کے اسباب مہیا کر کے عزیز احمد کی زندگی شمع کے مانند گزررہی تھی اس کے باوجود  وہ قدرے مضمحل دکھائی دیتا۔ اس کے ہاتھوں میں رعشہ تھا، سر کے بال سفیدہو چکے تھے ،موٹے شیشوں والی نظر کی عینک ناک پر دھری تھی اور کمر میںذرا ساخم بھی آ گیا تھا ۔ عزیزاحمد کا یہ عجب رنگ دیکھ کر میرے دِل کو شدید دھچکا لگا۔اس کا خاص دبنگ لہجہ اور الفاط کی ترنگ نا پید تھی ۔پُرانے آشنا چہروں اورعزیزوں کو دیکھ کر اس نے ہجومِ یاس میںدِل کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر اُس کی پُرنم آ نکھوں نے دِل کے سب افسانے نگاہوں کی زباں سے سنا دئیے۔اس موقع پر عزیزاحمد نے محمود ایازکے یہ شعر پڑھے تو ہم سب بہت دل گرفتہ ہوگئے۔     

         غمِ دِل ہمرہی کرے نہ کرے
        انجمِ شب ہم تو ڈُوب چلے
       پاس تھی منزل ِ مراد مگر
        ہم غمِ رفتگاں کے ساتھ چلے
        شمعِ شب تاب ایک رات جلی
        جلنے والے تمام عمر جلے

     وہ جوان رعنا جس نے اپنے شباب کے شب و وز ملک و قوم اورآلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پِسنے والی مظلوم انسانیت کادکھ درد بانٹنے کے لیے وقف کر دیا ،حالات نے اسے ضعفِ پیر ی سے نڈھال
 کر دیا تھا۔ اپنے رفتگاں کو یاد کر کے اپنے دِلِ ناشاد کو ان کی یادوں کے کرب سے آباد رکھنے کی سعی میں وہ خود بِکھر کر رہ گیا۔ اس کے شب وروز کو یادِ رفتگاں کے کرب نے ایسا ڈسا کہ غم کے اس سم کا کوئی تریاق نہ مِلا۔اُس کی صبح ِ تمنا کو غمِ آلام کی شام نے اس طرح گہنا دیا کہ اُس کے دِل کا گلشن بے آ ب و گیاہ ریگستان میں بدل گیا۔اس نے بہت کوشش کی کہ اس ریگستان کو آنکھوں سے رواں ہونے والے چشموں سے سیراب کر کے یہاں پھر سے اُمیدوں کے گُل ہائے رنگ رنگ اُگائے جائیں مگر جب اس نے مُڑکر دیکھا تو وقت کی یہ ندا صاف سنائی دی کہ اب تو تمھارا زمانہ بِیت چُکا ہے ۔ پے در پے دائمی مفارقت دینے والوں کے غم نے عززیاحمد کو عارضہ ٔ قلب میں مبتلا کر دیا ۔ اُس کا دِ ہی اس کا دردبن گیاکرب کے اس  عالم میں اس کا ہاتھ دِل سے جُدا نہیں ہوتا تھا۔شام کے سائے ڈھل رہے تھے اور عزیزاحمد کی زندگی کی شام کے وقت غم وآلام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے۔ اس کے بعدچشم کے مُرجھا جانے کا حادثہ ہو کے رہا۔اس سانحہ پر شہر کا شہرسوگوار اور ہر آ نکھ اشک بار تھی ۔جنازہ شہر خموشاں ’’بے ثبات‘‘کی جانب روانہ ہوا۔اس علاقے کی صدیوں پرانی روایت کے مطابق سیاہ لباس میں ملبوس نوحہ خانوں کی ٹولی نے ترنم سے یہ رُلا دینے والے شعر پڑھے:

       اج ہوئیاں نیں کُوچ تیاریاں 
       سجن روندے نیں کر کر زاریاں
       اج روندیاں سنگتاںساریاں 
          پڑھو لاالہ الا اللہ 
        ترجمہ:
      آج عدم کے کُوچ کی ہوگئی تیاری
     سارے ساجن کرتے ہیں گریہ و زاری
      آج زار و قطارروتی ہے محفل ساری
       سب مِل کے پڑھیں لا الہ الا اللہ

       جنازے میں شریک سب سوگوار نوحہ پڑھنے والوں کی آواز میںآواز مِلاکر کلمہ شہادت اور کلمہ طیبہ کا وِرد کررہے تھے۔نماز جنازہ ادا کر دی گئی عزیز احمد کے سوگوار عزیز میت کوکندھا دے کر لحد کے کنارے لائے۔اس کے دیرینہ رفیقوں نے اس چاند چہرے کو لحد میں اتارااور اس کے بعد انکسار اور مروّت کا یہ پیکر ردائے خاک اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا۔ گھر اور مدرسہ عزیز احمد کا شدت سے منتظر ہے مگر آج تک رفتگاں کا سراغ کب مِل سکا ہے ۔مُدتیں بیت جاتی ہیں مگر رفتگاں کے ساتھ گزرنے والے مہ و سال کی حسین یادوں کے سہانے خواب کی تعبیر نہیں مِلتی ۔ یہ سارے منظردستِ قضا میں آتے ہی نقش بر آب بن جاتے ہیں۔ احمد خان میموریل مدرسہ کے اُداس بام اور کُھلے در دُہائی دے رہے ہیں کہ حسین خواب اور خنک سائے کے مانند لوٹ آؤ مگر تم تو اس ادا سے بچھڑے کہ دائمی جدائی ہمارا مقدر کر دی۔ایک یتیم طالب علم نے پُر نم آ نکھوں سے بتایا کہ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ہم مجبوروں کے جسم کاایک حصہ قطع کر لیاہے ۔اس علاقے کے غریب اور قسمت سے محروم باشندے انسانیت کے اس محسن کواپنا حقیقی خیر خواہ سمجھتے تھے۔عزیز احمد جیسے انسانی ہمدردی سے سرشار انسان کے اس جہاں سے اُٹھ جانے کے بعد علاقے کے مظلوم انسان دنیا کو بیگانہ واردیکھتے ہیںاور انھیں کہیں بھی کوئی اپنا نظر نہیں آ تا۔وہ طائرانِ خوش نوا جو عزیزاحمد کے گھر کی منڈیروں پر روزانہ چہچہاتے تھے اب اُس کی لحد پر کُرلاتے ہیں۔عزیزاحمد ایک سر چشمۂ فیض تھے جس سے سیراب ہونے  والے یہ کہتے ہیں کہ اجل نے عزیز احمد کو ہماری محفل سے نکال دیا مگر ہمارے دِل سے اسے نکالنا اجل کے بس کی بات نہیں ۔جب تک دم میں دم ہے عزیزاحمد کی دائمی مفارقت کا غم دِل میں موجود رہے گا ۔ زندگی کی شب تاریک میں ان یادوں سے اجالاہو گا۔زندگی کا ساز بھی عجیب ساز ہے یہ ہمہ وقت بج رہا ہے مگر اس کی آواز سنائی نہیںدیتی۔حیف صد حیف اجل کے بے رحم ہاتھوں نے عزیزاحمد کی زندگی کے ساز کو توڑ دیامگر اس ساز سے نکلنے والی دُھنیں ہمیشہ کانوں میں رس گھولتی رہیںگی۔

Ghulam Ibn-eSultan

(Mustafa Abad Jhang City) 
      

******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 728