donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gul Bakhshalvi
Title :
   Yeh Sab Tumhara Karam Hai Aaqa


یہ سب تمہارا کرم ہے آقا  


:گل بخشالوی

 
ممتاز کالم نگار ادیب وشاعراشرف سہیل جسے میں نے 40سال قبل اُس کے افسانے ”اُونچے لوگ“میں پڑھا تھا میں مختلف اخبارات ورسائل میں اُن کوپڑھتا رہا ہوں۔امریکہ میں جب ان سے میری ملاقات ہوئی تو انہیں نہ صرف ایک قلم کار بلکہ ایک عظیم فیملی کے سربراہ کے روپ میں دیکھا اور آج اس خاندان کی عظمت کو اپنے قلم کے سپرد کر رہا ہوں ۔اشرف سہیل کی اہلیہ طیبہ اشرف وہ عظیم ماں ہیں جو گزشتہ 32سال سے اپنے معذور بیٹے محمد علی کی اُسی طرح نگہداشت کر رہی ہیں جیسے کوئی ماں اپنے چارماہ کے بچے کی کیا کرتی

ہیں ۔4ماہ کی عمر میں زندگی کی حقیقی مسرتوں سے محروم ہونے والے محمد علی آج جس کی عمر 32سال ہے وہ ناتوبول سکتا ہے ،نابیٹھ سکتا ہے ،ناکروٹ لے سکتا ہے اُسے اُس کی ماں طیبہ اشرف ،جی ٹیوب کے ذریعے خوراک دے رہی ہیں وہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ غذا جی ٹیوب سے کھاتا ضرور ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کھارہا ہے ماں اُسے کیاکھلارہی ہے اس لےے کہ وہ
منہ کے ذریعے کچھ کھاپی نہیں سکتا ۔دن رات کے کسی بھی پہرمحمد علی سے ملنے جائیں تو ایسے لگے گا کہ وہ ابھی نہادھوکر سورہا ہے یا لیٹاہوا ٹی وی دیکھ رہا ہے ۔وہ اپنے مخصوص درجہ حرارت والے کمرے میں ہر آنے والے کو اپنی انگڑائی سے خوش آمدید اور اُسی انداز میں رخصت ہونے پر خدا حافظ کہتا ہے ۔یہی وہ اداہے جس کی وجہ سے اُس سے ملنے والا کوئی بھی فرد اُس کی حالت پر ترس کھا کر اداس نہیں ہوتا بلکہ اُس کی آنکھوں میں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل اُٹھتی ہے ۔

اشرف سہیل کے گھر کی رونق 32سال سے چارپائی پر ہے اس طویل مدت میں اُس کے جسم پر ایسا کوئی نشان نہیں ہے جس سے انداز ہ ہو کہ والدین نے اس بچے کو بوجھ سمجھ کر کر نظر انداز کر دیا ایسے لگتا ہے وہ آج بھی ماں کی گود میں ہے ۔محمد علی نہ صرف والدین بلکہ ان کے ملنے والوں کو بھی بڑا پیارا لگتا ہے گھرمیں آنے والا چھوٹا ہویا بڑا ،یا اپنوں جیسا ! محمد علی سے ضرور ملتا ہے اُس سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں اُس کے کمرے میںدرجہ حرارت کی کمی بیشی کی وجہ سے جب اُس کی طبیعت خراب ہوگئی تو یہ خبر امریکہ میں اُس کے چاہنے والوں سے ہوتی ہوئی پاکستان پہنچ گئی دیس اور پردیس سے پوچھنے والوں میں امریکہ کے ممتاز مزاحیہ شاعر خالدعرفان نے فون پر اشرف سہیل سے پوچھا علی بابا کیسے ہیں ۔

کاش! انسان کا سینہ اُس کے وجود کا شوکیس ہوتا تو ہم طیبہ اشرف اور اشرف سہیل کے دل پر لگے وہ زخم بھی دیکھتے جب اُن کا جواں سال بیٹا شہزاد اشرف 18سال کی عمر میں

22مئی 1992ءکو بون ٹاون نیوجرسی کے راک وے نامی دریا میں آبشار کے قریب اپنے دوستوں کےساتھ تیراکی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے 76فٹ کی گہرائی کے گرداب میں پھنس گیا اور اُس کی زندگی کا سورج ہمیشہ کیلئے ڈوب گیا ۔محمد علی کی معذور زندگی کے دکھ کے بعد شہزاداشرف کی ناگہانی موت کا زخم والدین اور اُس کے بھائی ،بہنوں ،فہداشرف ،مریم فاطمہ اور ارم فاطمہ کیلئے معمولی نہیں تھا لیکن خدا کی عطاورضا پر ایمان رکھنے والے اس خاندان نے سب کچھ رضا بر ضائے رب قبول کر لیا اور گھر کے ماحول کو زندگی زندہ دلی کا نام ہے کی خوشبو
میں مہکائے رکھا ہے۔

محمد علی کی عمر اُس وقت صرف 4ماہ تھی جب اُسے تیز بخار نے آلیا ڈاکٹر نے اُسے علاج کی غرض سے برف کے ٹھنڈے پانی میں ڈال دیا تو اُس کی دماغی نشونما ہیں رُک گئی اشرف سہیل اُس وقت سعودی عرب میں فیلڈ انجینئر تھے طیبہ اشرف نے پاکستان میں بچے کے علاج کیلئے ہرممکن کوشش کی لیکن تقدیر میں کچھ اور لکھاتھا ۔اشرف سہیل نے اپنے خاندان کو سعودی عرب بُلالیا اور اُس وقت کے بادشاہ شاہ خالد بن عبدالعزیز سے شاہی خاندان کے ہسپتال میں محمد علی کے علاج کیلئے درخواست کی خادم حرمین شریفین نے درخواست منظور کی اور محمد علی کو شاہی خاندان کے ہسپتال میں دنیا کے ماہر ترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہنے کیلئے داخل کر دیا تو پتہ چلا کہ محمد علی کے دماغی شریان کی نشوونما چارماہ کی عمر میں منجمد ہوگئی ہیں اس اطلاع پر شاہ خالدبن عبدالعزیز نے شاہی اخراجات پر علاج جاری رکھنے کے احکامات جاری کر دےے۔ڈاکٹروں نے ہر ممکن کوشش کی لیکن محمد علی نے دنیا اور دنیا والوں نے طیبہ اشرف کے روپ میں اولاد سے ماں کی محبت کا بے مثال مظاہرہ دیکھنا تھا ۔ڈاکٹروں نے محمد علی کے مرض کو لاعلاج قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ جب تک زندہ رہے گا دماغی طور پر 4ماہ کا بچہ ہی رہے گا اس کا دماغ نہ صرف مزید سوچ سکے گا بلکہ دماغ کی خونی شریانوں کے عدم استحکام کا اثر اس کے وجود پر بھی پڑے گا۔یہ بچہ زمین پر اپنے قدموں کا بوجھ ڈال سکے گا اور نہ ہی عام زندگی سے لطف اندوز ہوسکے گا زندگی کی آخری سانس تک ماں کی گود میں 4ماہ کا بچہ ہی
رہے گا طیبہ اشرف ،اشرف سہیل اور بھائی کی نگہداشت کیلئے شہزادہ اشرف اور ارم فاطمہ نے یہ چیلنج قبول کر لیا ۔

ماں کی گود اولاد کی پہلی درس گاہ ہے اس درس گاہ سے تہذیب واخلاق ،محبت ،خلوص،ایثار اور قربانی کادرس لینے والے بچے زندگی کی رعنائیوں سے سرفراز رہتے ہیں طیبہ اشرف کی ممتا اپنی جگہ اس قربانی میں اس کے شوہر اشرف سہیل کا کردار بھی نمایاں ہے اُس نے اپنے وجود کے عرق اور اپنی رسائی تک کی ہر دولت سے اپنے خاندان کو زندگی کی مسرتوں سے مالا مال رکھا ہے وہ کہتے ہیں میں نے شریک حیات کی ممتا میں اولاد سے محبت کی جو عظمت دیکھی ہے میں اُس عظمت کو سلام پیش کرتاہوں ۔وہ کہتے ہیں علی گھر کا اُجالا ہے میرے خاندان کی شان ہے اُس کے یقین کا اظہار دیکھئے ۔

مجھے تو یہ بھی اسی کا نصیب لگتا ہے
مجھے تو گھر سے مدینہ قریب لگتا ہے

اشرف سہیل کا کہنا ہے کہ ہم رات گئے تک علی بابا کے پاس بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ہیں علی بہت ہی شریف بچہ ہے بعض اوقات جب علی کے سونے سے پہلے طیبہ کی آنکھ لگ جاتی

ہے تو علی اس کے بازو پر سررکھے ماں کے چہرے کوخاموشی سے دیکھتا ہے طیبہ جب سانس لیتی ہےں تو اسے ایسے لگتا ہے جیسے ماں کی لوری سن رہا ہواور وہ بھی یہ لوری سنتے سنتے سوجاتا ہے ۔مشرقی تہذیب وادب کی گود میں پلنے والی یہ عظیم ماں گھر کی    خوشحال زندگی پر صرف یہی کہتی ہیں

یہ سب تمہاراکرم ہے آقا    کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 673