donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Haleem Sabir
Title :
   Apne Ahad Ka Ba Kamal Ustad Shayar Mushafi

اپنے عہد کا باکمال استاد شاعر مصحفی
 
حلیم صابرؔ، کلکتہ
(Mob:9163052340)
 
آسمان ادب پر کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب ابھرے اور اپنی ضیا باری سے دنیا کو روشن کرکے خاک فنا میں روپوش ہوگئے۔ ان میں جو شہرۂ آفاق بن کر ابھرے اور اپنے فکر و فن کے انمٹ نقوش چھوڑ گئے انہیں ادبی تاریخ کے باب اول میںجگہ دی گئی اور ان کا تذکرہ ادب عالیہ کے حوالے سے ہوتا رہا۔ اگرچہ کچھ ایسے نام بھی تھے جو اپنے وقت میں مشہور زمانہ رہے لیکن عالمی ادبی تاریخ ان کے تذکرے سے خالی ہے۔ اسی کا نام دنیا ہے کسی کیلئے چشم پذیرائی فرش راہ کر دیتی ہے تو کسی کو اس کی تمام خوبیوں کے باوجود فراموشی کے دفتر میں شامل کردیتی ہے۔ ادب عالیہ کے توسط سے جو چند نام زیب تذکرہ ہوا کرتے ہیں ان کی حیثیت بزرگان ادب کی ہے جنہوں نے اپنے خون جگر سے چمنستان ادب کو سنیچا اور ایسے ایسے لالہ و گل کھلائے کہ صدیوں کے گرد و غبار بھی ان کے رنگ اور چمک کو دھندلا نہ کرسکے۔ ان کی تخلیقات آج بھی ادب کے طالب علموں کو دعوت مطالعہ دیتی ہیں۔ انہیں چند ناموں میں ایک نام غلام ہمدانی المتخلص مصحفیؔ کا آتا ہے جن کا شمار کامل فن میں ہواکرتا تھا۔ استاد الشعراء کی صف میں مصحفی کا نام نمایاں ہے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد سو کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اگرچہ ان کے شاگردوں میں سب سے اہم نام خواجہ حیدر علی آتش کا ہے جو استاد کے درجے پر پہنچے اور درجۂ کمال انہیں حاصل ہوا لیکن آتش کے علاوہ بھی مصحفی کے جتنے شاگرد تھے وہ بھی کم تر درجے کے نہ تھے بلندپایہ شخصیت کے حامل تھے۔ شہر کے زعماء میں ان کا شمار ہوا کرتا تھا۔ مثلاً مرزا سلیمان شکوہ جو پہلے سودا کے شاگرد تھے ان کے انتقال کے بعد انہوں نے مصحفی کی شاگردی اختیار کی۔ اسی طرح مرزا محمد تقی خان بہادر ہوس میر حسن کے شاگرد تھے۔ وہ بھی اپنے استاد کی وفات کے بعد مصحفی کے تلامذہ میں شامل ہوگئے۔ ان کے علاوہ میاں شاہ برق، مصحفی نے انہیں یہ تخلص عطا کیا تھا، محمد عیسیٰ تنہا جو مرثیہ خواں تھے اور مرزا حیدر علی کرم جو استاد کی خدمت میں خاص اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ ان سب کا شمار اس عہد کے باکمالوں میں ہوا کرتا تھا۔ 
 
ادبی تذکرے میں مصحفی کا وطن امروہہ درج ہے لیکن ان کے آباء واجداد کا تعلق دہلی کے مضافات میں قصبہ اکبر پور سے تھا، جہاں بارہویں صدی ہجری میں ایک خوشحال گھرانے کی معروف شخصیت ولی محمد بن درویش محمد کے گھر مصحفی نے آنکھیں کھولیں۔ ان کی پیدائش 1156ھ میں ہوئی۔ اگرچہ اس میں بھی اختلاف ہے۔ کسی نے 1164ھ بتائی ہے تو کسی نے سن ولادت 1161ھ لکھا ہے۔مورخین شاید اسی آخر الذکر سال پیدائش پر اتفاق کرتے ہیں۔ مصحفی جب پیدا ہوئے تو سلطنت مغلیہ زوال آمادہ تھی اور اردوئے معلی کا رنگ بھی پھیکا پڑنے لگا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شعروادب کی رونقیں دہلی سے لکھنؤ کی طرف منتقل ہونے لگیں۔جیسا کہ کہا گیا ہے کہ مصحفی کے جد امجد کا تعلق ہندستان ہجرت کرکے آنے والے شیوخ قبلہ سے تھا۔ وہ لوگ خوشحال تھے لیکن انقلاب زمانہ نے سب کچھ اتھل پتھل کرکے رکھ دیا تھا۔ یہی سبب تھا کہ مصحفی کا گزر بسر ان کے شاگرد مرزا سلیمان شکوہ بہادر کی معاونت سے ہوتا رہاجو انہیں 25روپئے ماہانہ ملتا تھا۔ 
 
مصحفی 1185ھ میں جب لکھنؤ تشریف لائے تو وہاں ان کی ملاقات سوداؔ سے ہوئی جو قصیدے کے بے تاج بادشاہ تھے۔ مصحفی سودا سے بڑے متاثر ہوئے اور ان کے فن کے معترف بھی ہوگئے۔ لکھنؤ میں قیام کے دوران مصحفی کے تعلقات میر حسن سے اس طرح قائم ہوئے کہ برسوں دونوں ساتھ رہے اور میر حسن کے صاحبزادے میر مستحسن خلیق کو مصحفی اصلاح بھی دیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد مصحفی لکھنؤ سے دہلی چلے گئے اور دس بارہ سال کے بعد دوبارہ جب لکھنؤ آئے تو سودا کی وفات ہوچکی تھی اور لکھنؤ کا ماحول ان کے حق میں پہلے کی طرح سازگار نہیں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میر تقی میرؔ بھی لکھنؤ آ چکے تھے۔ ان کے علاوہ میر، سوز اور جرأت نے اپنی مقبولیت کا جھنڈا گاڑ رکھا تھا۔ مصحفی کا برتاؤ سبھی کے ساتھ بہتر رہا بلکہ میر تقی میرؔ سے ان کے تعلقات بہت وسیع تھے۔ مصحفی کی صرف انشا سے نہیں بنتی تھی جو ان کے کلام پر ہمیشہ اعتراض کیا کرتے تھے۔ ایک بار انشا نے مصحفی کی غزل میں ’’ماہیٔ سقنقور‘‘ کی ترکیب پائے مسدد پر اعتراض کیا تھا۔ جس کے جواب میں مصحفی سنداً فارسی کا ایک شعر پیش کرکے انہیں خاموش کردیا۔ لکھنؤ میں بھی شعراء کے درمیان ادبی چشمکیں ہوا کرتی تھیں لیکن مصحفی کے ساتھ انشاء کے علاوہ کسی اور کے تعلق سے ایسا کچھ نہیں تھا جسے ادبی معرکہ قرار دیا جائے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ خود ان کے شاگرد آتش جو مصحفی کی زندگی ہی میں درجۂ استاد پر فائز ہوچکے تھے۔ کبھی کبھی اپنے استاد مصحفی سے ایسی طرز گفتگو اختیار کرجاتے کہ جس کا شمار ادبی چشمکوں میں ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ یوں سامنے آتا ہے کہ آتش اپنے استاد مصحفی کو ایک طرحی غزل سناتے ہوئے جب اس شعر پر پہنچے:
 
لگے منھ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
 
تو فخریہ انداز میں کہنے لگے اس ردیف و قافیہ میں ایسا شعر اگر کوئی کہہ دے تو کلیجہ منھ کو آجائے۔ آتش کی بات سن کر مصحفی زیر لب مسکرائے اور اپنے ایک نو مشق شاگرد کو ایک شعر کہہ کر بڑھا دیا جو یوں تھا:
نہ ہو محسوس جو شے کس طرح نقشے میں ٹھیک اترے
شبیہہ پار کھنچوائی کمر بگڑی ، دہن بگڑا
 
اس نو مشق شاعر سے یہ شعر سن کر آتش مصحفی سے کہنے لگے ’’آپ کلیجے پر چھریاں مارتے ہیں۔ اس لڑکے کی یہ حیثیت کہ ایسا شعر کہہ سکے۔‘‘ 
 
مصحفی کا کسی استاد سے باقاعدہ اصلاح لینا ثابت نہیں ہوتا۔ تذکرہ سراپا سخن میں ہے کہ مصحفی میرا مانی کے شاگرد تھے۔ ادبی تذکرہ نگاروں نے مصحفی کے تعلق سے بہت لکھا ہے۔ مصحفی علوم عربیہ سے بھی فارغ تھے لیکن صاحب آب حیات نے ان کی علمیت کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔ مصحفی کا شمار میر تقی میرؔ اور سوداؔ کے ہم عصروں میں ہوتا ہے۔ مصحفی نے بھی میر کی طرح آٹھ دیوان چھوڑے ہیں جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے قصیدے بھی لکھے۔ ان کے 26قصیدوں کا مجموعہ کتب خانہ رام پور میں محفوظ ہے۔ مصحفی کو خدائے کریم نے بڑے فضل و کمال سے نوازا تھا لیکن وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ مصحفی نے 76 سال کی عمر پائی اور ناسخ کے انتقال سے چودہ سال قبل 1240ھ میں لکھنؤ میں ان کی وفات ہوئی اور ان کی تدفین بھی لکھنؤ ہی میں ہوئی لیکن نشان قبر باقی نہیں ہے۔ دنیا کو اتنی فرصت نہ ملی کہ ان کی قبر پر چھوٹی سی لوح تربت نصب کردیتی۔ اسی طرح بہت ساری باکمال ادبی ہستیاں جو ہمارے درمیان سے اٹھ گئیں ان کی قبروں کا بھی کوئی نشان محفوظ نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد کیسی کیسی معروف ہستیوں کو زمانہ نے فراموش کردیا۔ 
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 918