donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Haleem Sabir
Title :
   Shayar Be Nazeer Meer Taqi Meer

شاعر بے نظیر میر تقی میر 
 
حلیم صابرؔ، کلکتہ
(Mob:9163052340)
 
اٹھارہویں صدی میں نصف اول کے درمیانی عرصے میں پردۂ خاکی سے عالم وجود میں ایک ایسی ہستی کاظہور ہوا جس کا شمار دنیائے ادب کی عظیم ہستیوں میں کیا گیا اور آگے چل کر اس کو خدائے سخن کے لقب سے نوازا گیا جسے دنیا میرتقی میر کے نام سے یاد کرتی ہے۔ میر کے سن پیدائش میں اختلاف ہے کہیں 1125 اور کہیں 1137 سن ہجری درج ہے۔ میر کی پیدائش اگرچہ اکبر آباد (آگرہ ) میں ہوئی لیکن وہ عہد طفلی ہی میں یتیمی کا کرب اپنے سینے سے لگائے اپنے ماموں سراج الدین خان آرزو کے پاس دہلی چلے آئے۔ لیکن یہاں بھی انہیں راحت افزا لمحے نصیب نہ ہوئے اور تلاش معاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرے۔ میرکی خود داری کا یہ عالم تھا کہ تنگدستی کی حالت میں بھی کسی کے سامنے د ست سوال دراز نہیں کیا۔ اور حالت فقروفاقہ میں بھی استغناسے دست بردار نہیں ہوئے۔ 
 
میر تقی میر کی شاعری کا خاصا ان کا ذاتی کرب ہے جو ان کی زندگی کے سو ز وگداز ، حرماں نصیبی اور یاسیت سے عبارت تھی۔ ان کے اشعار ان کے اندر پلنے والے درد وغم کے ترجمان ہیں۔ کہتے ہیں کہ غم ہائے روزگار نے ان کی زندگی کے رگ وپے میں سلگتے ہوئے احساس کی ایسی چنگاریاں بھر د ی تھیں کہ ان کا اظہار وہ اپنی شعر گوئی کے حوالوں سے کیا کرتے تھے۔ اس طرح ا گر دیکھا جائے تو میرکی سخن پر دازی میں ان کے ذاتی کرب کا بڑا دخل ہے جو ان کی آپ بیتی کہی جاسکتی ہے۔ اگرچہ آپ بیتی ہی  جگ بیتی بن جاتی ہے جیسا کہ میر کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے۔ میر کی زندگی اگر حادثات کی ٹھوکر وں سے آشنا نہ ہوتی تو ان کے کلام کا رنگ بھی مختلف ہوتا ْ اور ان کا مشغلہ ٔ سخن ان کے عہد تک محدود ہوکر رہ جاتا۔ 
 
میر تقی میر اگرچہ مثنوی میں میر حسن کے قد تک نہیں پہنچ پائے یا قصیدہ گوئی میں سودا کی برابری نہیں کرپائے لیکن اپنے منفرد طرز سخن کی بدولت وہ جس مقام پر فائز ہیں ان کے ہم عصروں میں کوئی وہاں تک نہیں پہنچ پایا۔ یہی سبب    ہے کہ ان کے عہد کے باکمال شاعروں جن کی نظر شاعری کے رموز و نکات پر تھی ان کا موازنہ میر کے کلام سے نہیں کیا جاسکتا۔ میرنے اپنے اشعار کو معنویت کی جس بلندی پر پہنچا یا اور ا پنی انفرادی حیثیت کی بناپر اپنی شناخت قائم کی یہ سعادت  ہر شاعر کے حصے میں نہیں آتی۔ بہت سارے ایسے الفاظ جن کا استعمال میر نے اپنے اشعار میں کیا گردش ونہار سے گزرنے کے بعد فی زمانہ ان کا استعمال کم ہوتا ہے یا ان میں سے  کچھ لفظوں کو متروک قرار دیا گیا لیکن میر کے اشعار میں ایسے الفاظ ا ٓج بھی اپنی بھرپور معنویت کے ساتھ قارئین ادب کو متاثر کرتے  ہیں آج بھی ان کی دلکشی میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی مثال کے طورپر یہ شعر حاضر ہے:
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے
دہلی جو شعرائے متقد  مین و متوسطین کا مرکز رہی ہے اتنے انقلابات زمانہ سے گزری ہے کہ عالمی تاریخ اس   کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔ میر تقی میر نے جب دہلی میں سکونت اختیارکی  تو ان کا زمانہ بھی بڑا افراتفری میں گزرا۔ نادر شاہ اور مرہٹوں کے حملوں نے جس طرح دہلی کو تاراج کیا وہ منظر میر نے اپنی آنکھوں سے د یکھا اوردہلی کی بربادی کے ساتھ ان کے امیدوں کا جہاں بھی ا   جڑتا ہوا دکھائی دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میر کے قدم دہلی سے اکھڑ گئے او ر انہوں نے لکھنو کے لئے رخت سفر باندھا۔ ان کے علاوہ میر سوز ، میر حسن اور سودا وغیرہ جیسے یگانۂ روز گار ہستیوں نے بھی دہلی کو خیر باد کہہ کر لکھنو کی طرف کوچ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لکھنؤ کی محفلوں میں تو رونق آگئی لیکن دہلی کی فضا جوادبی     سر گر میوں سے پر بہار تھی وہ افسردہ ہوکر رہ گئی۔ 
 
دہلی سے جو ادبی قافلہ لکھنؤ پہنچا ان کے استقبال کے لئے اہل لکھنؤ نے نظروں کو فرش راہ کردیا۔ میر تقی میر کو لکھنؤ پہنچ کر اجنبیت کا احساس بالکل نہیں ہوا کیونکہ اہل لکھنو میر سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان کے مداح بھی تھے۔ لکھنؤ پہنچنے سے پہلے میرکی شہرت کاستارہ وہاں جگمگا رہا تھا۔ اور جتنی مقبولیت میر کے حصے میں آئی وہ کسی اور شاعر کو نصیب نہ ہوسکی۔ لکھنو کے مضافات اور دور دراز علاقوں سے لوگ میر کو سننے کیلئے وہاں کے مشاعروں میں آنے لگے۔ اور لکھنؤ کا ادبی ماحول جو شعراء کیلئے موافق تھا اس میں مزید وسعتیں پیدا ہوگئیں۔ میر کے مداحوں میں امیر وغریب ، بادشاہ و فقیر سبھی شامل تھے جس سے لکھنو ٔوالوں کے ادبی ذوق کاپتہ چلتا ہے۔ 
 
میر تقی میر جس عہد میں سانس لے رہے تھے۔ وہ دور مسلمانوں کیلئے بڑا صبر آزما تھا، مغلیہ سلطنت پر زوال کے اثرات سے رعایا پر مایوسی کے بادل      چھا ئے ہوئے تھے اور میر کی طبیعت بھی یاسیت اور مایوسی سے معمور تھی اس لئے ان کے اشعار پژمردہ دلوں کی آواز بن گئے۔ ان کے اشعار میں ایسی  درد انگیز لہریں پائی جاتی ہیں۔ جو سماعت کے سکوت کو بیدار کردیتی ہیں۔ اور قاری ان سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ خوبی ایسے شاعر کے کلام میں ہوسکتی ہے جس کے اندر قادر الکلامی بدرجۂ اتم موجود ہو۔ میر کی شاعری میں اگرچہ فارسی طرز بیاں کی چھاپ زیادہ ہے لیکن ان کے وہ اشعار جو سہل ممتنع کی مثال ہیں زبان وبیان کے حوالے سے اُن کی قادر الکلامی کے آئینہ دار ہیں۔ میر کی طبیعت میں شگفتگی نہ سہی لیکن ان کی طرز سخن شگفتگی کی عمدہ مثال پیش کرتی ہے۔ زبان وبیان پر میر کو جو قدرت حاصل تھی اسے عطیہ خدا وندی کہا جاسکتا ہے جو سب کے حصے میں نہیں آتا۔ میر تقی میر کی زباں دانی اور استاد ی کے قائل نہ صرف ان کے ہم عصر علمائے ادب تھے بلکہ ان کے بعد بھی اہل زباں نے ان کی نغز بیانی اور سخن پروری کی تعریف میں اشعار کئے ہیں۔ غالب نے میر کی تعریف میں جو شعر کہا ہے وہ یوں ہے:
ریختے کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اور ابراہیم ذوق نے بھی اپنے ایک شعر میں شعراپر یوں طنز کیا ہے:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
میرکی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ پامال مضمون کو بھی شعر کے پیکر میں اس طرح ڈھال دیتے تھے کہ اس مضمون میں نئے پن کی چمک پیدا ہوجاتی تھی۔ ثبوت کے طورپر میر کا یہ شعر پیش کیاجاسکتا ہے:
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
اس شعر کے متعلق مولانا حالی فرماتے ہیں ’’جوش جنوں میں گریباں یاد امن یا دونوں کا چاک کرنا ایک نہایت مبتذل اور پامال مضمون ہے جس کو قدیم زمانے سے لوگ برابر باندھتے چلے آئے ہیں۔ ایسے چتھڑے ہوئے مضمون کو میر نے باوجود غایت درجے کی سادگی کے ایک ایسے اچھوتے نرالے اور دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے۔ اس شعر کی بڑی خوبی یہی ہے کہ سیدھاسادہ نیچرل ہے اور باوجود اس کے بالکل انو کھا ہے‘‘     ــــ میرتقی میر کو گزرے ہوئے تقریباً دو سو سال بیت گئے لیکن وہ اپنے آٹھ دیوان کے حوالے سے ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔ اور اہل نظر میر کے نگارشات کو مستحسن نظروں سے دیکھیں گے۔ اس کا اندازہ میر کو بھی تھا جبھی تو انہوںنے اپنے ایک شعر میں اس طرح کی پیشیں  گوئی کی تھی۔ ؎
جانے کا نہیں شور وسخن کا مرے ہرگز
تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
*********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 991