donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Haleem Sabir
Title :
   Ustazul Shoara Shaikh Mohammad Ibrahim Zauq

استاذالشعراء شیخ محمد ابراہیم ذوق
 
حلیم صابرؔ، کلکتہ
(Mob:9163052340)
 
اٹھارہویں صدی کے اواخر 1788 ء میں ایک ایسے سخن سنجِ یگانہ اس دنیائے رنگ و بو میں وارد ہوئے کہ انیسویں صدی کے نصف اول تک پہنچتے پہنچتے ہندستان کے اردو مراکز میں ان کی سخن دانی اور شیوہ بیانی کا ڈنکا بجنے لگا جنہیں تاریخِ ادب محمد ابراہیم ذوق کے نام سے یاد کرتی ہے۔ استاد ذوق کانام اردو شاعری کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آپ غالب کے ہم عصر تھے ۔ اگرچہ ذوق اور غالب کے ہم عصروں میں اور بھی بہت سی قد آور شخصیتیں تھیں جیسے حکیم مومن خان ، شیفتہ اور خود شہنشاہِ وقت بہادر شاہ ظفر جو ذوق سے شرف تلمذ رکھتے تھے گویا اس عہد کے باکمالوں کی ایک ادبی جماعت کاروبارِ سخن سے جڑی ہوئی تھی لیکن جو مقبولیت ذوق اور غالب کے حصے میں آئی وہ یقینا باعثِ افتخار ہے۔ غالب اپنے مسائل تصوف اور فلسفۂ زندگی کو اپنی شاعری کا وسیلۂ اظہار بناکر انیسویں صدی کے عظیم شاعر کہلائے لیکن بحیثیت استاد ابراہیم ذوق ہی جہاں شاعری کے بے تاج بادشاہ قرار دئیے گئے۔
ہر صدی ایک عظیم شاعر پیدا کرتی ہے جیسا کہ اٹھارہویں صدی میں میر تقی میر، انیسویں صدی میں غالب اوربیسویں صدی میں علامہ اقبال کو یہ شرف حاصل ہوا لیکن پاکستان کے دانشوروں کا ایک طبقہ اقبال کو بیسویں صدی کا عظیم شاعر تسلیم نہیں کرتا۔ اس کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی میں کوئی عظیم شاعر پیدا ہی نہیں ہوا، لیکن زمانہ جسے تسلیم کرلے اس کی عظمت کو گھٹایا نہیں جا سکتا ۔
 
ابتدائی تعلیم کے لئے ذوق کو مکتب میں داخل کیاگیا جہاں انہوں نے غلام رسو ل شوق سے تعلیم حاصل کی۔ غلام رسول شوق شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور اپنے عہد کے مشہورِ زمانہ استاد سخن نصیر سے انہیں تلمذ حاصل تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شاہجہاں آباد میں شعرو شاعری کی دھوم چاروں طرف تھی اور شاہ نصیر کے شاگردوں کے علاوہ دوسرے اساتذہ کے تلامذہ بھی کاروانِ سخن میں شامل تھے ۔ ایسے ماحول میں ذوق کو بھی شعر گوئی سے دلچسپی ہوگئی اور انہوں نے اپنا تخلص اپنے مکتبی استاد غلام رسول کے تخلص شوق کی رعایت ذوق رکھ لیا ۔ پھر کیا تھا شیخ ابراہیم ذوق کی شاعری کا سفر ذوق شوق کے ساتھ جاری رہا اور چند دہائیوں میں وہ استادِ سخن کے درجے پر فائز ہوگئے۔
 
میر کاظم حسین بیقرار ذوق کے ہم جماعت تھے وہی ان کو اپنے ہمراہ شاہ نصیر کے پاس لے گئے اور ذوق بھی ان کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوگئے اس طرح ذوق کے مشق سخن کا سلسلہ برسوں جاری رہا۔ اسی درمیان میں ان کی باریابی شہزادہ ابو ظفر ولی عہد بہادر کے دربار میں ہوئی جہاں شعرو سخن کی محفلیں آراستہ کی جاتی تھیں ۔ ذوق کے عالم شباب میں ان کی شاعری پر بھی شباب آگیا اور ان کی شعر گوئی سے اہلِ دربار متاثر ہونے لگے۔ ذوق اس بات کو اچھی طرح محسوس کرتے تھے کہ اہل قلعہ کے اس مشاعرے سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور ایسا ہی ہوا ۔ دیکھتے دیکھتے ذوق اہلِ دربار کے محبوب نظر بن گئے ۔ ذوق کو قدرت نے جو شعر گوئی کا ملکہ عطا کیاتھا اس کے وسیلے سے وہ اپنے ہم عصروں میں ممتا تصور کئے جانے لگے ۔ ذوق کی اس کامیابی میں شہزادہ ولی عہد کے دربار سے وابستگی کو بھی بڑا دخل تھا۔
 
ذوق کے استاد شاہ نصیر نے جب دہلی سے دکن کے لئے رختِ سفر باندھا تو اپنی جانشینی ذوق کو سونپی اور ولی عہد بہادر ذوق کی شاگری میں آگئے یہ ان کے لئے ایک بڑا اعزازتھا۔ ولی عہد بہادر کے علاوہ درباریوں میں جتنے شاعر تھے انھوں نے بھی ذوق کو اپنا استاد بنالیا اور اس طرح قلعۂ معلیٰ کے اورشہر کے بہت سارے شعراء استادِ سخن ذوق کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوگئے اور یہ سلسلہ یہیں تک موقوف نہیں رہا بلکہ اس کے بعد بھی نوواردانِ بساطِ سخن نے ذوق سے شرفِ تلمذ حاصل کرلیا جس سے ان کے حلقہ ٔ تلامذہ میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ اس عہد کے ایک اردو اخبار نے ذوق سے متعلق ایک خبر شائع کی تھی جس کا اقتباس ملاحظہ کریں:
 
’’شہر میں اور ارک سلطانی میں اکثر صاحبوں کو ان سے افتخارِ تلمذ تھا بلکہ دیارو امصار سے لوگ آن آن کر شاگرد ہوتے گئے۔ بیسوں غزلیں اصلاح کے واسطے شعرائے لکھنؤ کی آتی تھیں،مشاقی وجودتِ طبعی اور آمد مضامین کا یہ حال تھاکہ علاوہ فرمائشاتِ حضور کے کسی شاگرد کی غزل کو واپس نہ کرتے تھے اور اکثر اسی وقت تہذیب و درستی کردیتے تھے اور باوجود اس کے اپنے لئے بھی ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہتے رہتے تھے۔‘‘
 
اس سے ذوق کی استادانہ صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بقول مولانا محمد حسین آزاد اکبر شاہ ثانی کے دربار سے ایک معرکۃ الآرا قصیدے پر جس کے بس تین ہی شعر اب دستیاب ہیں انہیں ’’خاقانی ہند‘‘ کا خطاب مرحمت ہوا جس کی وجہ سے وہ اردو ادب میں خاقانی ٔ ہند محمد ابراہیم ذوق کے باعزت نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہادر شاہ نے اپنی تخت نشینی (1837ئ) کے موقع پر ان کے قصیدۂ تہنیت۔
 
’’آج جو یوں خوشنما نورِ سحر رنگِ شفق‘‘ کے صلہ میں’’ملک الشعرائ‘‘ کے خطاب سے انہیں نوازا اس کی وجہ سے معاصرین کی نگاہ میں ان کی شاعرانہ شخصیت کچھ اور زیادہ واجب الاحترام ہوگئی۔ذوق صوفی منش اور قناعت پسند تھے، اپنی شہرت کا وہ ڈنکا نہیں پیٹتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے کمالِ فن کی شہرت چارسو پھیل گئی۔ یہ استغنا ان کے اندر تھا کہ شہرت اور دولت کے حصول کی خاطر بہادر شاہ ظفر کے علاوہ کسی اور والیٔ ریاست کی طرف نگاہ نہیں ڈالی اورنہ ان کی شان میں قصیدے لکھے۔ ان کا تعلق مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کے دربار ہی تک رہا۔ ذوق نے جو قصیدے شاہانِ مغلیہ کی شان میں لکھے ان میں روایتی انداز میںزبان و بیان کی عمدہ مثالیں پیش کیں اور ان قصیدوں کو درجۂ اعتبار بخشا۔
 
ذوق کی حیثیت ایک ادبی انجمن کی تھی۔ ان کے شاگردوں میں بہادر شاہ ظفر کے علاوہ نابغۂ روزگار ہستیاں بھی تھیں جن میں استاد داغ دہلوی اور محمد حسین آزاد بھی شامل ہیں۔ ذوق کی فکری صلاحیت روایتی اصولوں سے فن کی کسوٹی پر کھری ثابت ہوتی ہے ۔ ان کی زبان دانی اور نغزبیانی پر ان کے ہم عصر شعراء رشک کیا کرتے تھے ۔
 
لیکن یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ ذوق کی زندگی میں ان کا کوئی دیوان شائع نہ ہوسکا، حالانکہ ان کے شاگردوں کا دیوان منظر عام پر اس وقت آچکا تھا۔ ادبی مورخوں کا خیال ہے کہ ذوق اپنے بہت سارے اشعار شاگردوں کو نذر کردیا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بعد میں انہیں یاد نہیں رہا کہ کس کس غزل کسی کو نذر کی ہے اور کون کون سی غزل اپنے لئے رکھی ہے اس کا شمار بھی مشکل تھا۔ ذوق کے انتقال کے بعد ان کے شاگرد رشید محمد حسین آزاد نے ان کی نقل شدہ غزلیں جو مختلف تھیلوں اور مٹکوں وغیرہ میں جمع تھیں ڈھونڈ کرنکالنا شروع کیا۔ بعض تحریریں کٹی پھٹی حالت میں ملیں جن کو آزاد نے اپنے مطابق درست کرکے ترتیب دیا لیکن ذوق جیسے باکمال استاذالشعراء کاکلام جب انہیں قلیل تعداد میں نظر آیا تو اس سے اضافہ کی صورت پیدا کرنے کے لئے ان کے چند شاگردوں سے رجوع کیا اور جس جس کو ان کا کلام زبانی یاد تھا ان سے نقل کروا کر جمع کیا تب کہیں جاکر ان کے دیوان کی اشاعت عمل میں آئی۔
 
ذوق کے دیوان کی اشاعت میں طرح طرح کی دشواریاں حائل رہیں جس کا ذکر ان کے خلف الرشید محمد اسماعیل فوق اور تلمیذِ ذوق مولانا محمد حسین آزاد نے کیا ہے۔ ذوق کے انتقال کے بعد جب یہ دونوں حضرات دیوان کو ترتیب دینے لگے تو بڑی بڑی پوٹلیوں میں ذوق کے کلام کے ساتھ ان کے شاگردوں اور بادشاہ کے کلام بھی ملے۔آزاد لکھتے ہیں:’’بہت سی متفرق غزلیں بادشاہ کی اور بہتیری غزلیں شاگردوں کی بھی ملیں چنانچہ اول اول ان کی اپنی غزلیں اور قصائد انتخاب کرلیے۔ یہ کام کئی مہینے میں ختم ہوا …… اس خطا کا مجھے اقرار ہے کہ کام کومیںنے جاری رکھا اور یہ اطمینان کیا۔مجھے کیامعلوم تھا کہ اس طرح یکایک زمانہ کا ورق الٹ جائے گا… دفعتاً 1857 کا غدر ہوگیا اورکسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔ افسوس ہے کہ خلیفہ اسماعیل ان کے فرزند جسمانی کے ساتھ ان کے فرزندِ روحانی (مسودات کلام) بھی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔  امرائو مرزا انور جو ان کے کلام کے پہلے مجموعہ کے مرتبین میں شامل ہیں اس کے ساتھ کاتب اور دیباچہ نگار بھی ہیں۔ اس حادثہ کو ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں:
 
’’ذوق کا کلام جسے انبار در انبار کہاگیا ہے اس ’’رستخیزے جا ‘‘ میں ضائع ہوگیا اورجوکچھ باقی بچا وہ اس کا بہت تھوڑا سا حصہ تھا جو بعد میں جمع و ترتیب کی منزل سے گزرا۔‘‘
 
مذکورہ بیان میں یہ کہاگیا ہے کہ غدر57ء میں زیادہ کلام ضائع ہوگیاتھا اور تھوڑا سا حصہ  باقی بچا جب کہ ذوق کے دیوان میں سالِ اشاعت 59ء درج ہے ۔ ان کے دیوان میں سالِ شاعت 59درج ہے۔‘‘
ان کے دیوان کے آخری صفحہ پر جو جملہ درج ہے ۔ اسے ملاحظہ فرمائیں۔
 
’’شکر خدا کہ دیوانِ ذوق در طبع محمدی ، محمد مرزا صاحب واقع دہلی کوچہ چیلاں گزر فیض بازار بہ ماہ مارچ 1859ء تمام گردید‘‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذوق کا سارا  ادبی اثاثہ جب1857جے حیدر غدر میں شائع ہوچکا تو1859 میں ان کا دیوان کیونکہ شائع ہوا۔
 
بہرحال اس بات سے علمائے ادب اتفاق کرتے ہیں کہ ذوق اپنا سارا کلام نہیں بلکہ اس کا خاطر خواہ حصہ اپنے شاگردوں کی نذر  کردیتے تھے جس میں بادشاہ سلامت بھی شامل تھے ۔ اس کے ثبوت میں محمد حسین آزاد کے والد کا ایک جملہ کافی ہے کہتے ہیں:
 
’’جب بادشاہ  کا پہلا دیوان چھپ کر آیا تو مجھے یاد ہے والدمرحوم نے غزل قومۃ الذلیل کو دیکھ کر مجھ سے کہاتھا۔ یہ غزل بھی بادشاہ کو دے دی ۔ والد مرحوم کو پہلے سے ساری یاد تھی۔‘‘
یہی سبب تھا کہ ذوق بہت کچھ کہنے کے بعد بھی تھوڑا کچھ اپنے لئے رکھتے تھے اور زیادہ کچھ اپنے متعلقین کی نذر کردیاکرتے تھے ۔ ذوق کا کلام انقلابِ زمانہ کی نذرہونے کے بعد جوکچھ بچا تھا اسے دیکھ کر مولانا محمد حسین آزاد افسوس کا اظہار کرنے لگے۔ وہ میجر سید حسن بلگرامی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
 
’’ میں نے سخن دانِ فارسی کو نظرثانی کرکے رکھ دیا ہے چاہاکہ اب دربار اکبری کو سنبھالوں مگر مروت اور حمیت نے اجازت نہ دی کیونکہ استاد مرحوم شیخ ابراہیم ذوق کی بہت سی غزلیں اور قصیدے بے ترتیب پڑے ہیں اور میں خوب جانتا ہوں کہ ان کا ترتیب دینے والا میرے سوا دنیا میں کوئی نہیں۔ اگر ان کے ساتھ بے وفائی کروں گا تو یہ ان کی محنت کا نتیجہ جو دریا میں سے قطرہ رہ گیا ہے بے موت مرجائے گا اور اس سے زیادہ افسوس کا مقام کیا ہوگا ان کے حال  پر افسوس نہیں یہ میری غیرت اور حمیت پر افسوس ہے۔‘‘
 
اس طرح اگر دیکھا جائے تو یہ بات آزاد کے حق میں حوصلہ افزا کہی جائے گی کہ انھوں نے بڑی عرق ریزی اور حوصلہ مندی سے اپنے استاد اور باکمال شاعر محمد ابراہیم ذوق کے کلام کو نقل و جمع کرکے اور دیوان کی صورت میں شائع کرکے اردو ادب کے خزانے میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے اور ذوق کے کلام کو دریا برد ہونے سے بچا لیا لیکن محمد حسین آزاد کی ترتیب و تدوین پر شکوک و شبہات کا اظہار کیاگیا۔ اگرچہ مولانا محمد حسین آزاد نے اس سے قطعی طورپر انکار کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا بیان پیش ہے:
’’ میں نے اس دیوان کو ترتیب دینے میں بڑی محنت کی ہے۔ دس ماہ تک دن رات آنکھوں کا تیل ٹپکایا ہے۔ الزام یہ ہے کہ میں خود غزلیں کہہ کر استاد کے نام سے شائع کرتا ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو خود اپنے نام سے شائع کرتا۔‘‘
 
محمد حسین آزاد نے اگرچہ اپنے اوپر عائد اس الزام کی تردید کی ہے لیکن محققین ان کی بات ماننے کو تیار نہیں ۔کچھ محققین نے جن میں محمود شیروانی کانام نمایاں ہے ایسے ایسے ثبوت اس سلسلے میں پیش کئے ہیں جن کی تردید نہیں کی جا سکتی۔ کلام ذوق کے مسودوں میں سے بعض کے چربے کرتے ہوئے محمود شیرانی مرحوم رقم طراز ہیں’’ یہ کاغذات یقینا نقلیں نہیں ہیں بلکہ مسودے ہیں جن میں جگہ جگہ مصرعوں کو کاٹنا چھاٹنا گیا ہے۔ اندرونی شہادت سے پایا جاتا ہے کہ1887-1890ء کے مابین کسی وقت تیار ہوتے ہیں ۔ ان مسودوں کا وہی انداز ہے جو ایک شاعر غزل تیار کرتے وقت اختیار کرتا ہے ۔
 
اہل نظر کا خیال ہے کہ اس شہادت کے سامنے تردید کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ استاد ذوق کا یہ مبینہ کلام ذوق سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا۔ اس تصنیف کی ذمہ داری محمد حسین آزاد پر عاید ہوتی ہے۔ مؤلفین نے ایک سوال یہ بھی اٹھایا ہے کہ محمد حسین آزاد کو کیا پڑی تھی کہ وہ خود غزل کہہ کر اپنے استاد ذوق کے دیوان میں اضافہ کریں۔ اس کا جواب بعض مورخوں نے یوں دیا ہے کہ آزاد نے جب دیکھا ہوگا کہ ذوق کا کلام اس قدر قلیل تعداد میں بچتا ہے جو ایک استاد سخن کے شایانِ شان نہیں کہ اتنے مختصر کلام کو جمع کرکے شائع کیاجائے ۔ اس سے استاد کی سخن گوئی پر حرف آسکتا ہے۔
 
الغرض استاد سخن ذوق کے تعلق سے جو کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا اس سے جو بھی نتیجہ اخذ کیاجائے اس بات سے انکار کی قطعی گنجائش نہیں کہ شیخ محمد ذوق استادِ سخن تھے اور انھوں نے زبان و ادب کی جو خدمات انجام دی ہیں نیز نئے کہنے والوں کی اصلاح فرمائی تاریخ ادب اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ جب تک روئے زمین پر اردو شاعری اپنی سحر بیانی کے پھول کھلاتی رہے گی ذوق کا نام زندہ و پائندہ رہے گا۔
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 975