donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hasnain Sahir
Title :
   Shaukat Mahmood Shaukat Aik Darwesh Shayar


شوکت محمود شوکت ایک درویش صفت شاعر

 

حسنین ساحر


 
    اردو میں عام طور پر ایک اصطلاحــ تصوّف کی شاعری استعمال ہوتی ہے۔جو قطعی طور پر درست نہیں۔ کیونکہ ادب میں
تصوّف کی شاعری کوئی صنف نہیں جیسے دیگر اصنافِ سخن غزل، مثنوی، رباعی، مسدس، آزاد نظم اور نظمِ معرّا ہیں۔ البتہ ایسی شاعری جس میں صوفیانہ خیالات یا صوفیانہ افکار پائے جائیں، اس کو تصوّف کی شاعری سے موسوم کیا جاتا ہے۔ خواہ اس کی صنف ( غزل، مثنوی، رباعی، مسدس، آزاد نظم اور نظمِ معرّا  وغیرہ) ان میں سے کوئی بھی ہو۔

    صوفیانہ خیالات کی حامل شاعری کا آغاز اردو شاعری کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ قلی قطب شاہ سے لے کر دور حاضر تک کئی شعرا کے کلام میں صوفیانہ خیالات پائے جاتے ہیں۔البتہ ان تمام کا امام خواجہ میر دردؔ کو سمجھا جاتا ہے۔خواجہ میر درد کے تتبع میں صوفیانہ خیالات کی حامل شاعری کرنے والے سیکڑوں شعرا میں ایک نام شوکت محمود شوکتؔ کا بھی ہے۔
 
    شوکت محمودشوکتؔ کی تمام تر شاعری صوفیانہ خیالات کی آئینہ دار ہے۔ بعض اشعار تو اس قدر صوفیانہ رنگ میں رنگے ہوئے ہیںکہ ہمیںشوکت کوئی فقیر یا درویش قسم کے آدمی نظرآتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد:

   ’’اُس (شوکت محمود شوکتؔ) کے مزاج میں سادگی اور مسکینی کے رنگ بھی گھلے ہوئے ہیں جہاں     بٹھائیں بیٹھ جاتا ہے، جو     کھلائیں کھا لیتا ہے، ناز نخرہ نہیں، غرورتکبر نہیں، طبعاً حریص نہیں، سیر چشم ہے‘‘
 
    اسی طرح ان کے ایک دوست جمیل حیات ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’ شوکت صاحب سادہ آدمی ہیں، سادہ زندگی بسر کرتے ہیںاور ان کی خوراک بھی سادہ ہے‘‘
 
    شوکت محمود شوکتؔ کی شخصیت میں مسکینی، عجز اور انکسار، ان کی درویش صفتی پر دال ہیں۔ اور ان کی تمام مذکورہ خصوصیات ان کی شاعری میں شعوری یا لاشعوری طور پرعود کر آئی ہیں۔مثلاً ان کے پہلے شعری مجموعے ’’زخمِ خنداں‘‘ میں شامل کئی ایسے اشعار ہیں جنہیںمثال کے طور پر یہاں پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

کبھی تار تار دامن، کبھی چاک ہے گریباں
ترے قیس کو جو دیکھا، تو رہینِ دار دیکھا
کبھی مفلسی کے قصے، کبھی داستانِ غربت
وہ نظر بچا گئے ہیں جو یہ حالِ زار دیکھا

 دو قدم پر غریب خانہ تھا
ہم فقیروں سے مل لیا ہوتا


۔۔۔۔
راس آیا ہے خرقئہ درویش
خلعتِ شہ اتار دی ہم نے

خوشی غمی نہیںکچھ بھی یہ سب تماشا ہے
ترا جہان بھی مولا عجب تماشا ہے
فسوں ہے کھیل ہے ساقی نظام مے خانہ
وہ جام جم ہے کہ آب ِ عنب تماشا ہے

  اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں
ہم فقیروں سے کام چہ معنی
۔۔۔۔


فقیری میں بھی رکھتا ہوں میں اک
شانِ شہنشاہی
خودی کی رفعتوں کا رازداں ہوں خواہ جیسا ہوں

۔۔۔۔

دو چار مِل ہی جائیں گے ہم سے فقیر لوگ
ہر شخص غرقِ دولتِ دنیا ہوا نہیں


    شوکت ساری کائنات کو ایک تماشا اور بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں۔ اور ان کے کئی اشعار قرآن پاک کی اس آیت کی تفہیم لیے ہوئے ہیں  ’’وماٰ ھٰذہ ٖ حیَاۃُالدُّنیا اِلّالَعوَوَّلَعَب‘‘  یعنی یہ دنیا کھیل اور تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں، شوکت کہتے ہیں:

    شوکت ؔکے اندر درویشانہ صفات یوں لگتا ہے کہ ودیعت کردہ ہیں۔ وہ اپنی ہی دنیا میںایک انجمن ہیں اور اسی مستی میں سرشار رہتے ہیں:

مقصد مرا جہاں میں تمہارا حصول تھا

اس واسطے میں اپنا پتا مانگتا رہا
زمانہ جتنا آگے جا رہا ہے
میں اُتنا اور پیچھے آ رہا ہوں

توڑ ڈالا ہم نے ناتا کس لیے قرآن سے
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن، گر بنگری

 

    چونکہ شوکتؔ دنیا کو عارضی تصور کرتے ہیں۔ لہٰذا  انہیںدنیا کے اندر موجود کسی بھی شے کی پروا نہیں۔ وہ دنیا کی زینت اور زیبائش سے نالاں نظر آتے ہیں اور مال و منال جمع کرنے کی بجائے اس سے یوں صرفِ نظر کرتے ہیں جیسے واقعی کوئی درویش دنیا سے بیزار ہو کر ذکرِ الٰہی میںسکون پاتا ہے:
 
    جیسے کہ ایک حدیث قدسی ہیـ’’فقد عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘  یعنی جس کو اپنی معرفت حاصل ہو گئی گویا اس کو اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت حاصل ہوگئی۔ شوکت اس حوالے سے یوں گویا ہوتے ہیں:

    شوکت مادیت پرستی کے اس عہد نا معتبر میں اطمینانِ قلب کے لیے ذکرِ الٰہی ہی کو اصل اثاثہ سمجھتے ہیں۔ آج کا انسان جتنا جدید سے جدید تر ہوتا جا رہا ہے، درحقیقت وہ اپنی تباہی کے راستے مزید کھول رہا ہے۔ اور ایک ایسا وقت آنے کو ہے کہ جب اس کی یہ دنیا اُسی کے ہاتھوں تباہ ہو جائے گی اور پھروہ  قدیم زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائے گا:
 
    ِِِِ  ’’ذکر‘‘ اپنے نصب العین سے ایسی شدید محبت کو کہتے ہیںکہ وہ ہر وقت سوچوں کا محور رہے۔ آدمی اسی کو یاد کرتا ہے جس سے اسے محبت ہو اور صوفی کا نصب العین یا اس کا مرکزِ عشق تواللہ کی ذات ہوتی ہے۔ سکونِ قلب کے لیے ذکر الٰہی وہ واحد تیر ِ بہ ہدف نسخہ ہے جو آج کے انسان کو تمام تر بے کلی سے نجات دلاتا ہے۔شوکت بھی اسی حوالے سے کہتے ہیں:
    جہاں تک شوکت کی فارسی شاعری کا تعلق ہے، اس میں بھی صوفیانہ خیالات بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں:

کو بکو پھرتا رہا آشفتہ حال اُس کے لیے
ڈالتا تھا ہر جگہ پر میں دھمال اُس کے لیے

پکارتا ہوں اسے میں کیونکر
جو شاہ رگ سے سوا قریں ہے

 

منصورؒ نے سولی پہ اناالحق جو کہا تھا
اللہ کی توحید کا اقرار تھا مقصد

 

ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدئہ عالم دوام ِ ما

    
    الغرض شوکت کی شاعری میں درویشانہ عناصر اور صوفیانہ خیالات کا عود کر آنا فطری امر ہے۔ کیونکہ بچپن ہی سے ان کے اندر عجزو انکسارپایا جاتا ہے۔ شوکت ایک بڑا سرکاری عہدہ رکھتے ہوئے بھی انتہائی ملنساراور منکسرالمزاج ہیں۔ غرور اور تکبر کا دور دور تک کہیں شائبہ نہیںاور آج کل ان پر ’’شاہ حسینی‘‘ رنگ طاری ہے:

    در حقیقت شوکت کے اندر سیماب صفتی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے۔وہ اپنے حقیقی محبوب کو دیکھنے اور پانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کا ہر جگہ پر دھمال ڈالنا ایک لازمی بات ہے۔ مگر ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس عظیم اور محبوب ترین ہستی کو ہم ادھر اُدھر پانے کی سعی ناکام کرتے ہیںوہ تو اپنے من کے اندر ہی ہے:

    تصوّف اور عشق دو الگ چیزوں کا نام نہیںبلکہ تصوّف اگر کُل ہے تو عشق اس کی فرع ہے اور اگر تصوّف گُل ہے تو عشق اس کی
مہک ہے۔  شوکت عشق حقیقی اور محبوب حقیقی سے واصل ہونے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک فلسفہ عشق یہ ہے کہ جہاں محب اور محبوب میں کوئی امتیاز باقی نہ رہے۔ من و تو کے سارے جھگڑے اس مقام پر ختم ہو جاتے ہیں  فارسی کے اس شعر  میں اس کی بہت خوبصورت عکاسی کی گئی ہے:

           عشق اور اذیت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اس بارے میں ایک نہایت ہی رقت آمیز حکایت ’’تذکرۃالاولیائ‘‘ میںمذکور ہے  ’’لوگوں نے حلاج  (منصور حلاج)  ؒ سے پوچھا: عشق کیا ہے؟۔ اس نے جواب دیا :  تم اسے آج، کل اور پرسوں دیکھ لوگے۔ ایک دن اس کے ہاتھ پائوں کاٹ دیے جائیں گے، دوسرے دن اسے مار دیا جائے گا، اور تیسرے دن ہوا اس کی خاک اڑاتی پھرے گی‘‘۔  شوکت بھی دبستان منصورؒ سے عقیدت رکھتے ہیں۔اور منصور حلاجؒ کا تذکرہ بھی اپنے اشعار میں بڑی عقیدت کے ساتھ کرتے ہیں۔ان کے مطابق منصور حلاجؒ ایک ایسے درجے پر فائز تھے جس کا ادراک عام انسانی نظر سے ناممکن تھا۔ان (منصورحلاجؒ) کا ’’اناالحق‘‘ کا نعرہ بھی درحقیقت توحید کا پرچار ہی تھا۔ شوکت کا اس حوالے سے شعر دیکھیے:
 
    القصہ، شوکت کی شاعری سے مجموعی تاثر یہی ابھرتا ہے کہ مستقبل قریب میں وہ صوفی شعراء کی صف میں کھڑے نظر آئیں گے اور ’’دبستانِ منصور‘‘ میں بھی ان کا نام نمایاں ہوگا۔

 
 

٭٭٭
 
حسنین ساحر  Hassnain Sahir 
0333-5443633

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 669