donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ibn Azeem Fatmi
Title :
   Prof Ali Haider Malick : Jo Ab Yad Ban Gaye

پروفیسر علی حیدر ملک ۔۔۔ جو اب یاد بن گئے


ایک استاد، ایک افسانہ نگار، ایک ناقد، ایک صحافی، ایک کالم نگار،ایک ناظم اور ہمارے ساتھی ہمارے بزرگ ہمارے دوست ہمارے ہمدردبلکہ ہمارا سب کچھ


گزشتہ کئی دہائیوں سے تواتر سے اور تقریبا ہر اتوار کو خصوصیت کے ساتھ پروفیسر علی حیدر ملک جنہیں ہم حیدر بھائی کہتے ہیں سے ملاقاتیں نجی اور گھریلو حوالے کے علاوہ ادبی حوالے سے ہوتی رہی ہیں جن کا ذکرکروں تو شاید صفحات کم پڑ جائیں مگر انکی باتوں،انکی مہربانیوںکا ذکر نامکمل ہی رہ جائے اس لئے میں جہاں سے جو بات یاد آتی جائے گی لکھتا جاؤں گا۔

فکشن گروپ اور مجلس احباب ملت کی باقاعدہ ادبی نشستوں میں جہاں اے ۔خیام،یاورامان،صبا اکرام،شمیم منظر،ڈاکٹرسید محمد رضاکاظمی،نسیم انجم،ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی ، صدیق فتح پوری،احمد زین الدین،خواجہ منظر حسن منظر،قیصر سلیم ،مشرق صدیقی اور احقر ابن عظیم فاطمی کا نام ہے اس میں اہم اور کلیدی شخصیت حیدر بھائی کی ہے۔ماہانہ نشستیں جو مجلس احباب ملت کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہوتی ہیں اس کے علاوہ تنقید،تبصرے،مضامین، مشاعرے وغیرہ کی ترتیب اور پروگرام انکے مشورے سے طے پاتے۔ہر اس شخص کی بھرپور حمایت اپنا فرض سمجھ کر کرتے جس سے ایک باربھی ملاقات ہوتی ۔انتہائی پر خلوص،ملنسار اور سادہ لباس و طبیعت کے مالک تھے۔ 11 جنوری2015کی نشست پروگرام کے مطابق ان کے گھر پر ہونا تھی جس میں ڈاکٹر شکیل احمد اپنا تازہ افسانہ پیش کرتے۔مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھ لو کچھ اور پروگرام بھی بنالو کیونکہ شکیل صاحب مختصر افسانہ لکھتے ہیں وقت مل جائیگا۔میں نے ان سے کہا کہ دیکھتا ہوں اور خیام بھائی سے بھی مشورہ کرلیتا ہوں۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ جو نشست انکے گھر پر ہونی تھی وہ انکی یاد میں تعزیتی نشست میں بدل جائے گی۔

21دسمبر 2014کی شام میں، حیدر بھائی اور خیام بھائی پاکستان آرٹس کونسل کے انتخاب میں ووٹ ڈال کر واپس ہوئے تو کہنے لگے کہ چلو بہار ویلفیئر ایسوسیئشن کے پروگرام سے ہوتے ہوئے چلتے ہیں سو ایسا ہی ہوا اور رات کوئی 10بجے انہیں گھر چھوڑ کر اپنے گھرلوٹ گیا۔


گزشتہ ہر ملاقات میں ان سے درخواست کرتا رہا کہ وہ اپنے افسانوں کا مجموعہ جلد شائع کروائیں ساتھ ہی ساتھ ایک ناول جو ابھی مکمل نہیں ہوا تھا اس کی جلد تکمیل کا معاملہ بھی موضوع گفتگو رہتا۔وہ کہتے کہ "یار۔۔وقت نکالو تاکہ افسانوں کا انتخاب ہو سکے اور حوالے کے طور پر کہتے کہ جیسے "ان سے بات کریں" کے انتخاب میں مدد کی ہے اسی طرح کرلو یار"۔میں حامی بھرتا تو کہتے ہاں اگلے اتوار کو آجانا اور یہ سلسلہ گزشتہ کوئی تین ماہ سے جاری تھا۔میں انہیں مثال دے کر کہتا کہ دیکھئے بھائی احمد زین الدین نے اپنی تمام تحریریں نہ صرف یہ کہ جمع کرلیں بلکہ شائع کر کے محفوظ کر لی ہیں۔آپ نے تو ادب میں بہت سا کام کیا ہوا ہے ان سب کو جمع کرکے شائع ہونا چاہئے تو کہتے"ہاںیار۔۔۔میں بھی سوچ رہا ہوں کہ جلد اسے مکمل کرلوں مگر کیا کروں کچھ کرنے کو دل نہیں چاہتا طبیعت کچھ گری گری سی رہنے لگی ہے"۔میں اپنی سی کوشش کرتا رہتا یہاں تک کہ خیام بھائی (اے۔خیام )کو بھی کہتا رہا اور وہ بھی اپنے طور پر انہیں کہتے رہے مگر شاید انکی زندگی میں یہ کام نہیں ہونا تھا سو اچانک ہنستا بولتا جیتا جاگتا شخص لمحوں میں  30دسمبر 2014دن 11.0بجے اپنے بیوی،بچوں،پوتے، پوتیوں،نواسے،نواسیوں اور دوستوں کو روتا چھوڑ کر راہیء ملک عدم ہوگیا(اللہ مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے)۔  

کئی دن اسی سوچ میں گزر گئے کہ حیدر بھائی کے لئے کیا لکھوں؟خود کو سمیٹنے کی بہت کوششیں کرتا رہا لیکن ۔۔۔بالآخر آج کچھ لکھنے کی خواہش میں جانے کیا کیا لکھ رہاہوں۔ ان سے وابستہ اتنی یادیں اور باتیں ہیں جو آپس میں گڈمڈ ہو رہی ہیں۔

میں ان کے تعارف،انکے ادبی کام اور مصروفیات کا حوالہ بھی دینا چاہوںگا گوکہ وہ نہ کسی تعارف کے محتاج تھے نہ ہیں اور نہ ہی مجھ جیسے گمنام شخص کی تحریر ان کے مقام و مرتبے کا احاطہ کرسکتی ہے پھر بھی۔۔۔

گزشتہ کئی سالوں سے جس طرح ایک کے بعد دوسرے غم کا ہم شکار ہوئے وہ کچھ اس طرح ہیں:۔

9مئی 2011 ڈاکٹرجمیل عظیم آبادی
7مارچ 2013 قیصر سلیم
17جون2014یاور امان اور
اب 30دسمبر2014کو پروفیسر علی حیدر ملک (حیدر بھائی)
حیدر بھائی کا نام :  علی حیدر ملک والد کا نام مظہر العلیم
آبائی وطن:  موضع ملاٹھی ضلع گیا۔بہار۔بھارت
تعلیم:  بی۔اے۔آنرز اور ایم۔اے
انکی مطبوعہ کتابیں:۔
1۔دبستان مشرق (ترتیب) 1970
2۔بے زمیں بے آسماں(افسانے) 1986
3۔اردو ٹائپ اور ٹائپ کاری(ترتیب)1989
4۔شاہ لطیف بھٹائی نمبر ـ"برگ گل"(ترتیب)1989
5۔افسانہ اور علامتی افسانہ (مضامین)فروری 1993
6۔شہزاد منظر فن اور شخصیت(ترتیب بہ اشتراک صبا اکرام)1996
7۔عمر خیام اور دوسری غیر ملکی کہانیاں (تراجم)نومبر 1999 (انگریزی،گجراتی،بنگالی،ہندی،انڈونیشی،نیپالی،یوگوسلاوی،روسی،امریکی،چیکوسلواکی،تیلگو اور ناورویجن)

8۔ادبی معروضات (مضامین)جنوری2007
9۔ان سے بات کریں (انٹرویوز)2009
وابستگی
1۔نائب مدیر سہ ماہی عزم نو
2۔نائب مدیر  ہفت روزہ قوم
3۔معاون مدیر قومی زبان
4۔کالم نگار انٹرویو نگار اور تبصرہ نگار روزنامہ جسارت
5۔مدیر اعزازی ماہنامہ علامت
6۔ادبی کالم نویس  ہفت روزہ اخبار جہاں
7۔کمپیئر و براڈکاسٹر ریڈیو پاکستان

انکے انتقال پر رضی مجتبیٰ،ظہیر خان اور نسیم انجم نے فوری طور پر ان سے اپنی محبت اور عقیدت کے حوالے سے مضامین اور کالم تحریر کئے جو مقامی اخبار کی زینت بنے جس کے لئے ہم سب ان کے شکر گزار ہیں۔ہم بھائی انور جاوید ہاشمی کے بھی ممنون ہیں کہ انہوں نہ صرف یہ کہ انکے انتقال کی خبر فیس بک پر جاری کی بلکہ انکی کتابوں کے عکس اور جنازے میں شریک احباب کی تصاویر بھی لگائیں۔ بھائی تنویر پھول نے خبر سنتے ہی انکے لئے تاریخی قطعات تحریر کئے اور فیس بک اور ای۔میل کے ذریعے ادب دوستوں تک پہنچائیں جن کے لئے ہم سب تہ دل سے ممنون ہیں۔

ادبی تقریبات میں انکی منفرد طرز نظامت یقینا بھلائی نہیں جاسکتی۔ان کا مطالعہ بے حد وسیع اور حافظہ کمال کا تھا۔چنانچہ نظامت کے دوران مسند نشینوں سے متعلق بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے۔پاکستان آرٹس کونسل کے تحت ہونے والی عالمی اردو کنفرنسز میں انکی نظامت تاریخ کا حصہ ہیں۔افسانے اور ناول کے بہت اچھے نقاد تھے۔ادیب ہونے کے باوجود شعر کا نہ صرف اچھا فہم رکھتے تھے بلکہ ان کے حافظے میں بھی محفوظ رہتے تھے۔ ایک بار خیام بھائی کے حوالے سے گفتگو ہونے لگی تو خیام بھائی کے وہ اشعارانہوںنے سنائے جو پٹنہ میں بازار سے گزرتے ہوئے خیام بھائی نے سنائے تھے۔افسوس کہ میرا حافظہ اس قابل نہیں مگر یہ ضرور یاد ہے کہ انہوں شعر کی بے حد تعریف کی تھی۔

ان کی خواہش ہوتی کہ ان سے وابستہ ہر شخص لکھنے لکھانے کا کام جاری رکھے اورہر ایک کو آگے بڑھانے کی پوری کوشش کرتے۔ مجلس احباب ملت کی نشستوں کی نظامت حیدر بھائی کیا کرتے تھے پھر انہوں نے یاور امان سے نظامت کروانی شروع کردی بعد میں مجھے اس پر مائل کیا اور قیصر سلیم کے قائم کردہ فکشن فورم کے تحت ہونے والی نشستوں کی نظامت بھی مجھ سے کرواتے رہے جبکہ مجلس احباب ملت کی نشستوں کی نظامت آج بھی میرے ہی ذمے ہے۔اکثر ان نشستوں میں افسانے،شاعری اور مضامین کے حوالے سے انکی رائے بہت واضح اور دوٹوک ہوا کرتی تھی۔وہ لگی لپٹی کے قائل نہیں تھے۔


بیرون کراچی یا بیرون ملک سے کوئی بھی ادبی شخصیت کراچی آتی تو ان کی کوشش ہوتی کہ کسی طرح ان سے مل بیٹھنے کی کوئی صورت نکل آئے اور دوستوں کے ساتھ نشست میں انکی ادبی مصروفیات اور وہاں کے ادبی معاملات و حالات پر تفصیل سے گفتگو کرتے ساتھ ہی ساتھ نشست میں موجود احباب کا مکمل تعارف اور کراچی کے ادبی منظر نامے پر بھرپور اظہار خیال کرتے ہوئے اہم لوگوں کا ذکر ضرور کرتے۔

ادب میں انہوں نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو یقینا ادب سے وابستہ افراد بھلا نہیں سکیں گے۔ادب کی ہر صنف پر نہ صرف یہ کہ انکی نظر تھی بلکہ اس سے متعلق پوری تحقیق کے ساتھ مضامین لکھتے اور ذکر کرتے رہے۔گلزار کی صنف تروینی پر نہ صرف یہ کہ یاور امان اور فوقیہ مشتاق کو مائل کیا بلکہ اس پر مضامین بھی لکھے۔ اسی طرح کتابوں پر صنعت توشیح میں منظوم خراج تحسین پر ناچیز کو مائل کیا اور اکثر اصرار کے ساتھ لکھواتے رہے۔میں ایک معمولی شاعر جسے حیدر بھائی کی پرخلوص محبت اور رہنمائی نے مضمون نگار اور افسانہ نگار تک بنادیا۔ گوکہ میں بہت زیادہ افسانے نہیں لکھ سکا مگر انکی خواہش اور کوشش رہتی کہ ضرور لکھو تم میں صلاحیت ہے اور اچھا لکھ سکتے ہو۔

اپنے دوستوں کو کسی لمحہ فراموش نہیں کرتے۔"افسانہ اور علامتی افسانہ"کا انتساب" فکشن گروپ اوراسکے چہار درویش شہزاد منظر،اے۔خیام،محمد رضا کاظمی ،صبا اکرام کے نام"ہے۔اسی مجموعے میں "مضامین سے پہلے"کے عنوان سے رقم طراز ہیں:۔میرے نزدیک اصل مسئلہ اظہار کا ہے خواہ وہ فارم کسی اسلوب میں کیا جائے۔۔۔انہیں یکجا کرکے کتابی صورت میں پیش کرنے کی تاب اور استطاعت میں اپنے اندر نہیں پاتا مجھے یہ تاب اور استطاعت وقافی گورنمنٹ اردو کالج کے پرنسپل پروفیسر محمد رفیع عالم،ایڈیشنل پرنسپل پروفیسر مختار احمد خان،پروفیسر فیاض احمد خان اور افسر مالیات جناب قدیر الاسلام فاروقی صاحبان نے مہیا کی۔۔۔۔اس کتاب کی ترتیب و طباعت کے سلسلے میں جن دوستوں نے مجھ سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کیااور قدم قدم پر مجھ سے عملی تعاون کیا ان میں شہزاد منظر،یاور امان،کلیم رحمانی اور رعنا اقبال کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔میں ان کا رسمی شکریہ ادا کرنا نہیں چاہتا کیوں کہ یہ لوگ مجھ


سے اتنی محبت کرتے اور اسی بناء پرہر طرح کے کاموں میں میرا اس قدر ہاتھ بٹاتے ہیں کہ میں ان کے سامنے شرمندہ رہتا ہوں۔آدمی کی قسمت میں بھی کیسی کیسی شرمندگی لکھی ہوتی ہے"۔
"عمر خیام اور دوسری غیر ملکی کہانیاں"میں "یہ ترجمہ کہانیاں"کے عنوان سے لکھتے ہیں۔۔۔۔سیکڑوں سال پہلے مشرق کے ابن رشیق نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ترجمہ نقل کلام ہے۔نقل معانی و مطلب نہیں۔نقل کلام کا تقاضاجس زبان میں نقل ہو ویسا ہی اثر پیدا کرے جیسا کہ اصل زبان میں تھا اور یہ بھی لازم ہے کہ کلام سے مکالمے کی صورت پیدا ہو ورنہ ترجمہ بے معنی شئے ہے۔۔۔۔جاتی صدی میں مغرب کے ایذرا پاؤنڈ نے کہا کہ ادبی تخلیق کا ایک عظیم دور ہمیشہ ترجمہ کا بھی عظیم دور ہوتا ہے یا پھر نتیجہ کے طور پر فورا پیدا ہوتا ہے۔۔۔ایذرا پاؤنڈ نے یہ شکایت بھی کی کہ ہمارے مورخین مترجمین کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔۔۔۔ہمارے عہد کے اردو ادیبوں میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے ترجمے کے سلسلے میں نہایت وقیع کام کیا ہے۔۔۔مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ انہیں کتابی صورت بھی دینی چاہئے لیکن بعض دوستوں اور شاگردوں کے اصرار پر ایسا کرنا پڑا۔برادرم یاور امان،عزیزی فوقیہ مشتاق نے رسالوں سے افسانے جمع کرکے ان کے انتخاب کی ذمہ داری قبول کی۔عزیزم اقبال مجیدی نے فوٹو اسٹیٹ کاپیاں بنوائیں انہیں درست کیا۔بھائی جاوید وارثی نے طباعت کا سارا بوجھ اپنے کاندھوں پر لے لیا۔پروف ریڈنگ اور ترتیب کا فریضہ یار جانی اے۔خیام نے انجام دیا جبکہ پیارے دوست صبا اکرام نے رابطہ کار کا کردار ادا کیا۔۔۔۔برادرم شمیم باذل کی تزئین و حسن کاری کے ساتھ تیار ہوگئی"۔

"ادبی معروضات"کا انتساب "محافظ ملاٹھی غازی مظہر العلیم صاحب مرحوم(ابا)کے نام ہے۔"کچھ تنقید  اور اس کتاب کے بارے میں"کے عنوان سے لکھتے ہیں۔۔۔تنقید کیا ہے؟ اس کا منصب اور وظیفہ کیا ہے؟ اس کی اہمیت اور افادیت کیا ہے؟ ان سوالوں سے اکثر بحث کی جاتی رہی ہے اور ہر زمانے  اور ہر مکتبہء فکر نے ان کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ان جوابات میں کچھ باتیں مشترک نظر آتی ہیں اور کچھ مختلف بلکہ متضاد۔یہ بات بہر حال مسلمہ ہے کہ تنقید،ادب کی جانچ پرکھ کرتی ہے اور یہ محض رائے زنی پر نہیں بلکہ تحلیل و تجزیے پر مبنی ہوتی ہے۔۔۔۔تنقید کی طرح تنقید کرنے  یا لکھنے والے کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں مثلا یہ کہ اس کا مطالعہ وسیع ہو۔وہ ادب کے علاوہ دیگر علوم و فنون سے بھی واقف ہو۔وہ ادنیٰ اور اعلیٰ میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔اس میں انصاف اور جرائت کا مادہ پایا جاتا ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سر سید کی سماجی تنقید ہی نے مولانا الطاف حسین حالی اور نواب امداد امام اثر کی ادبی تنقید کو جنم دیا۔۔۔۔تنقید میں دیکھنے کی چیز یہ ہوتی ہے کہ نقاد کے پاس کہنے کے لئے کچھ ہے یا نہیں۔تخلیقی  ادب میں طرز ادا اور حسن بیان کے سہارے بھی کام چل جاتا ہے لیکن تنقید میں نکتہ رسی یا کسی نئے خیال اور زاویہء نظر کا ہونا لازمی ہے۔۔۔۔۔اختر انصاری نے ڈائری،مجنوں گورکھپوری نے خطوط اور شمس الرحمٰن فاروقی و ڈاکٹر وزیر آغا نے مکالمے کی صورت میں تنقید لکھی ہے۔۔۔۔کتاب کی طباعت و اشاعت وغیرہ کے سلسلے میں اے۔خیام،صبا اکرام،شمیم منظر اور نسیم انجم نے قدم قدم پر ہر طرح تعاون کیا جس کے لئے میں ان تمام لوگوں کا احسان مند ہوں۔شکریہ اس لئے ادا نہیں کرنا چاہتا کہ یہ ایک رسمی سی بات ہوگی جبکہ ان دوستوںسے میرے تعلقات رسمی نہیں ہیں۔۔۔۔آخر میں اپنی آرٹسٹ"بہو دھی"تحسین شارق یعنی سونیا سلمہا کے لئے بے شمار دعائیں جس نے بڑے چاؤ سے کتاب کا ٹائیٹل بنایا۔خدا اے ہمیشہ آباد رکھے۔۔۔"

"ان سے بات کریں" کا انتساب ہم قلم،ہم جماعت لطف الرحمٰن،ظفر اوگانوی،علیم اللہ حالی،قمر اعظم ہاشمی،عصمت آرا،اعجاز شاہین اور اے۔خیام کے نام ہے اور یہ مصرعہ ۔۔۔کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر

۔۔۔اس کے ساتھ ہی بعض ادبی رسالوں نے انٹرویو نمبر بھی شائع کئے ہیں۔ مثال کے طور پر عزیز جبران انصاری کے زیر ادارت کراچی سے شائع ہونے والے سہ ماہی "بیلاگ" اور قمر صدیقی کے زیر ادارت ممبئی سے شائع ہونے والے سہ ماہی "اردو چینل"نے۔یوسف ناظم کا جو نقاد کی نہیں مزاح نگار کی شہرت


 رکھتے ہیں اس نمبر میں "کچھ انٹرویوز کی بابت" کے زیر عنوان ایک مختصر سا مضمون شامل ہے جس میں انہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وہی ادبی انٹرویو تاریخی اور یادگار انٹرویو ہوتا ہے جس میں انٹرویو دینے والا معزز شخص کھل کر انٹرویو دے اور دوران مخاطبہ لیے دیے رہنے کا عادی نہ ہو۔۔۔۔ادبی انٹرویو جتنا عام فہم ہوگا اتنا ہی مقبول ہوگا۔تجریدی آرٹ فن مصوری میں مقبول ہوچکا ہے لیکن ادب میں تجریدی انٹرویو کی فی الحال کوئی گنجائش نہیں۔۔۔ان انٹرویوز کے انتخاب،ترتیب اور پروف ریڈنگ کی تمام ذمہ داری برادرم ابن عظیم فاطمی پر عائد ہوتی ہے۔۔۔۔انہوں نے زیر نظر کتاب کی طباعت و اشاعت کے سلسلے میں جتنی اور جیسی پر خلوص محنت کی ہے وہ میرے لئے ممکن نہیں تھی۔۔۔

یہ کچھ اقتباسات تھے جو انکی کتابوں سے شامل کئے ہیں جو انکی احباب سے محبت اور برملا اعتراف کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

انکے بارے میں ابھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ اس دعا کے ساتھاجازت کہ اللہ انکی مغفرت فرمائے،ان کے درجات بلند فرمائے اور پس ماندگان کے علاوہ ادب نواز دوستوں کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی قوت عطا فرمائے۔آمین۔


 ابن عظیم فاطمی

 

 D-20  سنی ایونیو FL-13سیکٹر 14Bشادمان ٹاؤن۔کراچیْ75850
 0333-2385477

Comments


Login

You are Visitor Number : 613