donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Aik Sanjeeda Shayar Nazish


ایک سنجیدہ شاعر نازش


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


شہر کڈپہ کے معتبر شعراء میں محبوب علی خاں نازشؔ کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ محبوب علی خاں نے اپنے قلمی نام نازشؔ کے نام سے چوبیس سال کی عمر میں شعر و سخن کی دنیاں میں  قدم رکھا۔ آپ کو ڈاکٹر شفا گوالیار اور حضرت طرفہ قریشی جیسے اساتذۂ فن سے شرف تلمذ ہونے کا موقع ملا۔ آپ اپنے دور کے سنجیدہ شاعر تھے، آپ کی فکر کی گیرائی و گہرائی کا یہ عالم تھا کہ سیدھے سادے الفاظ کو تصوفانہ پیکر عطا کردیتے تھے۔

قرآن پاک کے سورۃ’’ق‘‘ آیت نمبر۱۶ کا ترجمہ ’’ اور ہم انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ‘‘۔

نازش اس آیت سے استفادہ کرتے ہوئے شعر کہنے کی کوشش کی ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:

سمجھ میں آئے تو شہ رگ سے بھی قریب ہے تو
نہ جان پائیں تو صدیوں کا فاصلہ ہے تو

چند تصوفانہ رنگ کے اشعار ملاحظ ہوں:

لیا ہے اپنی نظر کا جو امتحاں میں نے
تو پایا ان کو ہر اک سمت ضوفشاں میں نے
زباں خموش نگاہیں اداس تھیں میری
کسی کو یوں بھی سنائی ہے داستاں میں نے

نازش بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ان کے اپنے ہم عصروں کی خواہش اور کدوکاوش کی وجہہ سے ان کا شعری مجموعہ ’’نازش دوراں‘‘ کے نام سے منظرعام پر آچکا ہے۔ عام طور پر ان کے مجموعے میں کل سات نعتیں ایک سو سے زیادہ غزلیں اور 16 قطعات موجود ہیں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید ’’نازشِ دوراں‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ان کی شاعری دل کی کم دماغ کی شاعری زیادہ ہے ۔وہ خود بھی غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور قاری کو بھی دعوت فکر دیتے ہیں‘‘۔

’’نازشِ دوراں‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری میں بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب پائی جاتی ہے ۔ اسی نسبت سے ڈاکٹر ساغر جیدی لکھتے ہیں کہ:

’’شاعر کی لفظ شناسی، معنی شناسی، علامت شناسی استعارہ شناسی تحسین آمیز ہے، الفاظ کے در و بست کے معاملے میں نازش صاحب احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اسے آپ لفظوں کا تقویٰ کہئے یا معنی کا فتویٰ سمجھئے، نازشؔ صاحب نے غزل کو نیم وحشی نہیں سمجھا ان کی غزل ریاضت کیش ہے‘‘۔

اسی نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

چھوکر جمالِ یارِ نظر جب گزر گئی
محسوس یہ ہوا مری تاب نظر گئی

میں لے چلوں جہاں بھی تجھے اے حیات چل
اب تجھ پہ میرا حق ہے مرا اختیار ہے

مسکراتے ہوئے آکر گلے سے لگ جائے گا
کچھ سلیقے سے اگر اس کو پکارا جائے

نازشؔ کبھی دل کا حوصلہ بلند رکھتے ہیں تو کبھی مایوسی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ انہیں بلند حوصلوں اور مایوسی کو اشعارکے پیکر میں ڈھالا ہے۔
چند شعر ملاحظہ ہوں:

تاریکیوں کو شب کی یہ نازشؔ مٹائیں گے
مٹی کے ان چراغوں میں کہتے ہو دم نہیں

اب کہاں جاکر بنائیں آشیانہ اپنا ہم
جس چمن پر ناز تھا نازشؔ وہ ویراں ہوگیا

ضرور کوئی نیا انقلاب آئے گا
یہ آج کے اندھیروں میں روشنی کیا ہے

نازش عاجز و انکساری کے قائل ہیں ۔وہ اپنے آپ کو شبنم کی بوند سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

تو بحر بے کراں ہے میں شبنم کی بوند ہوں
میرا وجود کیسے ترے روبرو رہے

نازش کا اسلوب جداگانہ اور اچھوتا ہے جس کی وجہہ سے نازشؔ شہر کڈپہ میں ایک منفرد مقام حاصل کرچکے ہیں۔

******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 506