donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Daure Hazir Ka Hassas Shayar Afsar Daccani


دورِ حاضر کا حساس شاعر افسرؔ دکنی


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


 افسرؔ دکنی ، دکن کے ایک نمائندہ شاعر ہیں جن کی پیدائش ۱۳؍ ستمبر۱۹۴۹؁ء کو ضلع کڈپہ، پردٹور میں ہوئی۔ آپ نے ۱۹۶۷؁ء  میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور وقتاً فوقتاً دکن حیدرآباد ی، شفق بھیونڈی اور ظفر گورکھپوری سے شرف تلمذ کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کی شاعری کا جذبہ خواں شکیل بدایونی، خمایر بارہ بنکوی، کیفی اعظمی جیسے مختلف شعراء کے کلام سے ابھرا ہو لیکن وہ شاعری کے  ہے اس کا میں ایک الگ اور منفرد شہوار کی حیثیت سے اپنا مقام بنا چکے ہیں۔افسر دکنی کا قیام کلیان (ممبئی) میں ہونے کے باوجود دکن سے انہیں جو محبت ہے، اپنی مٹی سے انہیں جو اکے الفت اظہار انہوں نے اپنے تخلص کے ذریعے کیا ہے۔ افسر دکنی کا پہلا شعری مجموعہ ’’مٹی کی مہک سہ۲۰۱۰ء کو منصہ شہود پر آچکا ہے جس سے ان کی شاعری کے ذوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے اس مجموعہ کلام کے مطالعہ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ شاعری صرف ذوق تسکین کا سامان نہیں بلکہ عصری حسیت کا تقاضہ بھی ہے۔ شاعری زندگی کی تلخیوں کا اظہار بھی ہے۔ انہوں نے غزل کو اپنے عہد کی ضرورت اور عصری مسائل کے اظہار کا وسیلہ بھی بنایا ہے۔

پھولوں سے بہلنے کی تو عادت ہے پرانی
کانٹوں پہ بھی چلنے کا ہنر سوچ رہا ہوں
اب ذرا سوچ سمجھ کر ہی سہارا ڈھونڈو
خشک پیڑوں کا یہ سایہ بھی ادھورا ہوگا

ان کی شاعری خشک و نم آنکھوں کی عکاسی ہے۔مختلف ذاویہ ہائے نگاہ سے انہوں نے آنکھوں اور آنسوئوں کا مشاہدہ کیا ہے اور لفظوں کے سانچے میں انہیں بٹھایا ہے۔ان نظر میں زندگی خوشی و غم کے باہمی رشتے کا نام ہے۔ آنسو جو خوشی و غم کی حالت میں نکل پڑتے ہیں جنہیں سمجھنے بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں یا غم کے۔اسی نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:


یہ تو موسم کوئی پت جھڑ کا نہیں ہے افسرؔ
پھر مرے دل کی کلی اشک بہاتی کیوں ہے

آنسوؤں کی زباں کو افسرؔ

وہ نہ سمجھا کبھی نہ سمجھے گا
رات بھر اشکوں کو آنکھوں میں سمیٹوں لیکن
دن میں یہ خواب اکثر نہیں دیکھے جاتے
درد بن جائوں تری آنکھوں سے بہہ کر نکلوں
تیری آنکھوں کو بھگوتا رہوں شب بھر نکلوں
اب  رونے کو آنسو بھی نہیں، آنکھ میں کوئی
پھر کیسے ستائے گی ہمیں گردشِ دوراں

افسر کی شاعری کلاسیکیت کی راہوں سے گامزن جدید لفظیات  کے حسین پیکر میں ڈھل جاتی ہے۔ چند لمحوں کے لیے ایسا لگتا ہے کہ یہ حسیں پیکر کا لبادہ کلاسیکیت کا ہے یا جدیدت کے دو راہے پر گامزن ن؍ر آتی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ ان کی شاعری میں کلاسیکیت و جدیدیت کا امتزاج صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔ افسرؔ غزل سرائی کے موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہتے ہیںکہ قدیم الفاظ کو جدید پیرائے میں استعمال کیا جائے یہ وقت کا تقاضہ بھی ہے اور ادب کا حق بھی۔ جس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

جدید رنگ میں کچھ فکر نو کرو افسرؔ
ملا ہے موقعہ جو تم کو غزل سرائی کا
میں ہوں آندھی کا پرندہ میرے پر دیکھے گا کون
جز ترے صیاد مجھ کو اک نظر دیکھے گا کون
چلو کوئی بہروپ ہی دھار لیں گے
کہ لوگ اب تو چہرہ نیا مانگتے ہیں
اپنی صورت آئینے میں دیکھ رہے ہیں اندھے لوگ
جو یہ بات سنے گا افسرؔ وہ تم پر برہم ہوگا

صنعت ، علامت نگاری کنایہ کے ذریعے شاعری کا نگار خانہ سجایا جاسکتا ہے۔ الفاظ و معنی کی گہرائی سے مختلف النوع خیالات کا جز بنایا جاسکتا ہے۔ مغربی مفکر کے تحت الفاظ کی ترتیب اگر نثر ہے تو بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب شاعری ہے جو ہمہ جہت خیالات کا مظہرہے۔ لفظ و معنی کی اہمیت پر کئی نقادوں کی بحث آج بھی جاری ہے۔ کسی نے لفظ کو اہمیت دی تو کسی نے معنی کو۔ ایک فطری شاعر میں لفظ و معنی کا خزینہ سمایا ہوا ہوتا ہے۔ جوموقعہ ومحل کے ساتھ اپنے جذبات و احساسات کو ظاہرکرکے آپ بیتی کوجگ بیتی بنا دیتا ہے۔ افسرؔ دکنی کی شاعری میں ایسے کئی اشعار پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔

سر پہ سورج جوان جب ہوگا
چہرہ چہرے پہ آب ٹہرے گا
چاندنی کی تمہیں ضرورت ہے
کالی راتوں سے تم گزرتے ہو
جسم کا میرے بدلتا ہوا موسم افسرؔ
جیسے میں شاخ کا ٹوٹا ہوا پتہ ٹہرا
آئینے میں ہزار چہرے ہیں
ہم نے بھی غم سے دل لگایا ہے

’’گفتگو‘‘ شاعری کا جز ہے قدیم شعراء سے لے کر آج تک شاعری میں گفتگو سا انداز پایا جاتا ہے۔ کبھی خود سے کبھی حالات سے گفتگو کرتے ہوئے شاعر اپنے دلی جذبات و کیفیات کو اظہار کرتا ہے۔ شاعری تنہائی اور یکسوئی میں صفِ قرطاس پر ڈھلتی ہے۔ جہاں شاعر ہم کلام ہوتا ہے اور احساسات و جذبات کو الفاظ کا پیکر عطا کرتا ہے۔ افسرؔ دکنی کی شاعری میں بھی یہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

غم کی گہرائیوں میں تم افسرؔ
ڈوبتے ہو کبھی ابھرتے ہو
میری افسردگئی دل پہ نظر کی تونے
شکریہ حوصلہ افسرؔ کا بڑھانے والے
کہاں ڈھونڈوگے افسرؔ کو وہ آوارہ مسافر ہے
اِدھر ہوگا، اُدھر ہوگا، یہاں ہوگا، وہاں ہوگا
وہ سرِ راہ ملا تھا مرے احوال مگر
اس نے پوچھا بھی نہیں، میں نے بتایا بھی نہیں
افسرؔ کو جہاں چاہے بلا لیجئے  صاحب
منت کی، سماجت کی ضرورت بھی نہیں ہے

افسرؔ دکنی کا یہ مجموعہ کلام نظر ثانی کا متقاضی ہے۔ شاعر اپنے خیالات و جذبات ظاہر کرتے ہوئے خارج ازبحر، شتر گربہ عیبی، ایطا کے چند راہِ اغلاط سے غیر شعوری طور پر گزرتا ہے۔ ایسے ہی چند راہوں سے افسر ؔ دکنی کا بھی گزر ہوا ہے۔

الغرض کہیں کہیں یہ غلطی کے علاوہ ان کی شاعری ہمہ جہت پہلوئوں کو اجاگر کرتی ہے۔

:۰:۰:

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 504