donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Nabbaze Waqt Dr Vidya Sagar Anand


نبّاضِ وقت ڈاکٹر ودیا ساگر آنند


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


ادبی دنیا کاایک شاہکار مجموعہ ’’پانچواں گگن‘‘ مختلف اصناف سخن کا احاطہ کئے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ڈاکٹر ودیا ساگر آنند کے اس سے پہلے چار مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ، دورِ حاضر میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ایک صنف پر مجموعہ کلام شائع ہوتے ہیں ، کبھی کبھی ان مجموعہ کلام میں قاری کا ذائقہ بدلنے کے لیے غزلوں کے مجموعوں میں چند نظمیں یا قطعات یا رباعیات شامل کردیاجاتاہے۔ لیکن ڈاکٹر ودیا ساگر آنند نے موجودہ دور میں ایک انوکھے اور منفرد انداز میں ’’پانچواں گگن‘‘ ادبی دنیا کو پیش کیا ہے جس کی ادبی دنیا میں کافی پذیرائی ہوئی ہے۔ پانچواں گگن کے مطالعہ سے قاری  ہفت  افلاک کا سفر کرسکتا ہے، کیوں کہ یہ مجموعہ مختلف النوع اصناف کا ایک انمول خزینہ ہے۔ اس کے مطالعہ سے ہمیں مختلف اصناف سے محظوظ ہونے کا موقعہ ملتا ہے۔

موصوف نے مجموعہ کلام کے ابتداء میں حمد کو حمدیہ غزل کہہ کر اہلِ سخن کو تھوڑی دیر رکنے اور غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔ حمد اور غزل کے اس حسین امتزاج سے موصوف نے رب کی تعریف کرتے ہوئے، دورِ حاضر کے تقاضوں کو پیش کیا ہے اور مختلف النوع خیالات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ حمدیہ غزل کے ردیف و قافیہ سے ہی موصوف کی آزادیِ اظہار اور جدید طرز کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دو شعر ملاحظہ ہوں   ؎

دے کے سب کو پیام وحدت کا
بنوں انوارِ رام و رحیم
میرے شعروں میں دین و دنیا ہے
میں ہوں فنکارِ رام و رحیم

سرکارؐ کی عقیدت میں موصوف نے نعت کا ایک بہترین نذرانہ پیش کیا ہے۔ جو ان کے لیے توشۂ آخرت کا ساز و سامان ہے۔ حضور ؐ کی شان میں نعت کہنا معمولی بات نہیں ’’باخدا دیوانہ باشد با محمدؐ ہوشیار‘‘ کوذہن میں رکھتے ہوئے موصوف نے بڑی عقیدت مندی سے حضورؐ کے اوصاف کو بڑے ہی جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ دو شعر ملاحظہ ہوں   ؎

آپؐ یٰسین بھی ہیں طٰہٰ بھی ہیں
شان رحمت ہیں مدینہ والے
بخشوائیں گے وہ محشر میں
روحِ امت ہیں مدینے والے

حمد اور نعت کے بعد دوہوں کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ موصوف کے دوہے کلاسیکی رچاو کے ساتھ ساتھ جدید طرز ِ پیکر کی غماز ہیں۔ کہیں وہ عشق و محبت کی جلوہ سامانیوں سے لبریز نظر آتے ہیں تو کہیں اشتراکیت کے پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کہیں جدید طرز پیکر اپناتے ہوئے جذبات و احساسات کو جدت و ندرت کا لبادہ اڑادیتے ہیں۔ ان کی نظر میں دوہے تخلیق کرنا مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں:

دوہوں کی یہ شاعری، رکھتی اپنی شان
یہ مشکل ہے جس قدر، اتنی ہے آسان

صورت تیری سانولی، کالے کالے بال
گوری تیرے روپ پر ، میں تو ہوں بد حال

عیش و عشرت کے لیے،  لڑتے نہیں مزدور
اپنے حق کے واسطے، کرتے ہیں ہڑتال

 دوہوں میں موصوف نے ڈاکٹر فراز حامدی صاحب کی تقلید کرتے ہوئے شخصیاتی دوہے، مردف دوہے، دوہا غزل، دوہا گیت کہا ہے۔ موضوعاتی اعتبار سے موصوف کے دوہوں میں سماجی، اخلاقی، معاشی اور ہندوستانی عناصر کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ موصوف ہندوستان سے کوسوں دور رہنے کے باوجود ہندوستانی رسم و رواج ، یکجہتی، تہذیبی و ثقافتی اور معاشری عنصر کو دوہا گیت کے ذریعہ اظہار خیال کیا ہے اور خود کو ایک اچھے اور سچے ہندوستانی ہونے کی دلیل پیش کی ہے۔ اس نوعیت کا ایک بند ملاحظہ ہو   ؎

کاشی متھرا ہیں یہاں، پُشکر اور اجمیر
مندر مسجد خوب ہیں، یہ ہے دارالخیر
پورب، پچھم گھوم لو، کرلو اس کے سیر

تاج، اجنتا، ایلورا، بیشک اس کی شان
کتنا سندر دیش ہے، میرا ہندوستان

منظومات ہی میں موصوف نے ماہئے اور ہائیکوز بھی شامل کیا ہے، سہ مصرعی کے تعلق   سے علیم صبا نویدی نے لکھا ہے:

’’ماہئے کی صنف میں اتنی جازبیت ہے کہ وہ گائی بھی جاسکتی ہے اور تحریری شکل میں پڑھ کر بھی اس سے حِظ اٹھایا جاسکتا ہے۔ شاید غزل کے بعد ماہیا ہی ایسی صنف ہے جسے فلموں میں لاکر عام فلم بینو پر بھی خوشگوار اثر ڈالا گیا۔ اگر ماہیا جیسی صنف اردو اور ہندی فلموں میں نہ کھپائی جاتی تو موسیقی اور گیتوں کی دنیا میں ایک بہت بڑا خلا بنا رہتا‘‘۔

(اردو شاعری میں نئے تجربات،  از : علیم صبا نویدی،  ص:156)

اس نوعیت کی جو موسیقی اور غنائی کیفیت رکھنے والا ایک ماہیا او رایک ہائیکو ملا حظہ ہو:

ماہیا:    آلام کی بارش ہے
        مجھ کو نپٹنا ہے
        ایام کی گردش ہے

ہائیکو:    روزی کھائے حرام
        ایسے لوگ ہیں دنیا میں
        ہرسو ہیں بد نام

ودیاساگرایک حقیقت پسند شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں خصوصاً غزلوں میں انسان کی معصومیت، سادہ دلی، آزادیِ فکر، سچائی اور انسانیت جیسے قلبی واردات و ذہنی رجحانات پائے جاتے ہیں۔ موصوف نے شاعری کے ذریعہ جدلیاتی کشمکش اور زندگی میں پائے جانے والے تضادات کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں   ؎

زندگی کو سمجھ سکا نہ کوئی
یہ حقیقت ہے یا فسانہ ہے

یہ گھروں کو جلاتی ہے پل بھر میں
تنگ آئے ہیں روشنی سے ہم

آتی ہے روشنی بھی ظلمت سے
خوف کھائے نہ بے بسی سے ہم

موصوف نے اپنے مجموعہ کلام ’’پانچواں گگن‘‘ میں رباعیات کو بھی شامل کیا ہے۔ تمام اصناف میں اس صنف کو کافی مقبولیت حاصل ہے۔ رباعی لکھنے کے لیے طویل مشق و ممارست کی ضرورت ہے۔ موصوف کی رباعیوں میں الفاظ کا ایک وسیع کینواس ہمیںنظر آتا ہے۔ موصوف نے وزن کے ساتھ ساتھ، وحدت فکر، تسلسل اوربرجستگی کا خیال رکھا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی کے رنگا رنگی، جذبات کی عکاسی جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ دو رباعیات ملا حظہ ہو ں   ؎

بس سوچ میں رہتا ہے نہ کچھ کرتا ہے
انسان اب جینے کے لئے ڈرتا ہے
کیا نام دیں ہم مردہ دلی کو آخر
آتی نہیں ہے موت مگر مرتا ہے

دانا بھی نہیں ہوں میں ناداں بھی نہیں
دل پاس ہے دل میں مگر ایماں بھی نہیں
پہچان مری مشکل کی ہوگی کیسے
لگتا ہوں میں انسان مگر انساں بھی نہیں

ان کی رباعیوں میں لطیف طنز کے نشتر دکھائی دیتے ہیں الغرض موصوف کے مجموعہ کلام میں تمام تر اصناف اپنی فنی خوبیوں کی وجہہ سے قابل رشک مانی جاتی ہیں۔

:۰:۰:

مطبوعہ  :  ودیا ساگر آنند کا پانچواں گگن،  ص:163  

(از:ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی)

ISBN 978-81-8042-190-7


***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 552