donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Saghar Jaidi : Shakhsiat Aur Fun


ساغرؔ جیدی  :  شخصیت اور فن


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


حالاتِ زندگی:

اردو ادب کی دنیا میں ساغرؔ جیدی کے نام سے پہچانے جانے والی شخصیت کا نام قادر حسین ہے۔ پندرہ اپریل1941؁ء کوشہر کڈپہ میں این۔یس۔عبدالقادر تاجر کے ایک معزز گھرانے میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن کڈپہ میں ہی حاصل کی اور1957؁ء میں SSLC کی سند حاصل کی۔1972؁ء میں آپ نے راشٹریہ بھاشا پروین کی سند حاصل کی، علاوہ ازیں1975؁ء میںLAMS کی سند حاصل کی اور آپ کا پیشہ تجارت، کاشت کاری، ٹرانسپورٹ کا کاروبار، بسکیٹ فیکٹری رہا ہے اور یونانی طب میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اسی نسبت سے آپ کو ڈاکٹر ساغرؔ جیدی کے نام سے دنیا مخاطب کرتی ہے۔ لوگوں کو اکثر یہ غلط گمان غالب رہتا ہے کہ موصوف کو اعلیٰ تعلیم کی وجہ سےPh.Dکی سند ملی ہے یا مختلف تصانیف کی وجہ سے آپ کو کسی یونیورسٹی سے ڈاکٹر کا خطاب ملا ہے۔ ابتداء میں آپ نے ہندی اور تلگو زبان میں نظمیں لکھیں اس میں آپ کو کسی استاد کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی جتنی دلچسپی آپ کو ہندی اور تلگو زبان سے ہے اتنی ہی دلچسپی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس سے بہت زیادہ دلچسپی اردو، فارسی اور عربی زبان سے ہے۔ اس نسبت سے آپ نے عربی و فارسی میں بنیادی معلومات حاصل کرنے کی غرض سے کڈپہ کے جید عالم حضرت سید یعقوب صاحب باقوی قادری مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا، پھر1978؁ء میں ڈپلومہ ان پرشئین Diploma in persian))کی سند حاصل کی۔ بیس سال کی عمر میں موصوف کی شادی غوث النساء سے ہوئی جن کے بطن سے چار لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ موصوف نے کئی سماجی و ادبی خدمات انجام دی ہیں۔ آپ رائلسیما اردو رائٹرس فیڈریشن(1986) اور محمد ن ویلفیر سوسائٹی(1998) کے بانی و صدر رہے۔ علاوہ ازیں ضلعی لائبریری کمیٹی کڈپہ، میلاد النبی ؐ کمیٹی کڈپہ کے ممبر بھی رہے ہیں۔

میانہ قد، ہمہ وقت سوچتی پرنور آنکھیں، حرف لفظ اور سچے شعر کے پارکھ، کاغذ و قلم کے امین ، چھریرہ بدن، اثبات و نفی سے مزین مزاج، ہمہ اصناف قلم کار ساغرؔ جیدی نے اپنا شعری سفر غالباً1968؁ء میں شروع کیا۔ علم عروض، علم  شعر وسخن کی فنی لوازمات حاصل کرنے کی غرض سے مشہور استادِ سخن ابر حسن گنّوری کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا۔ ان سے مراسلت کے ذریعہ بھی اور بالمشافہ ملاقاتوں کے ذریعہ بھی موصوف نے شاعری کی شد و بد حاصل کی۔ ابر حسن گنوری(مرحوم) کی مخصوص دعائیں تھیں کہ موصوف ضلع کڈپہ میں ہی نہیں رائلسیما میں بھی استاد سخن کی حیثیت سے مشہور و معروف رہے ہیں، موصوف نے مختلف اصناف پر سہ زبانوں(اردو، ہندی اور تلگو) میں اپنی تخلیقات شائع کیا ہیجن کی تعداد غالباً چوبیس کے قریب ہیں۔

ساغرؔ جیدی کی غزل گوئی:

ساغرؔ جیدی کے کل تین غزلوں کے مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔1974ء میں ایک اشتراکی شعری مجموعہ ’’لہجے‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا تھا۔ یہ کل پانچ شعراء کا اشتراکی مجموعہ ہے جس میں عقیل جامدؔ، اشفاق رہبرؔ، راہیؔ فدائی، ساغرؔ جیدی کی غزلیں اوریوسف صفیؔ کی نظمیں شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ضلع کڈپہ کی ادبی تاریخ میں جدید رجحانات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس مجموعہ کے ذریعہ ساغرؔ جیدی نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ جدیدیت کو اپنا نے میں انہوںنے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور یہ بات بھی وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان شعراء نے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ قدم ملایا ہے اور اپنے اشعار میں جدیدیت کے تمام فنی لوازمات و قواعد کو اپنایا ہے۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’انتسللہ‘‘(اشتراکی مجموعہ)1978؁ء میں شائع ہوکر اہل ذوق سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ ان کا تیسرا مجموعہ غزل ’’اثبات‘‘ ہے جو1991؁ء میں منظرِ عام پر آیا ہے، ان کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے نئے الفاظ کی تراکیب کو اپنایا ہے اور اپنے خیالات و جذبات کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے پیش کیا ہے۔

موصوف کی غزلوں میں نئے الفاظ کی تراکیب، علامت نگاری، اظہار بیان کی آزادی پائی جاتی ہے۔ یوں تو ان کی شاعری موضوع ،اسلوب اور ہئیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ان کی غزل میںعلائم کی فراوانی پائی جاتی ہے ـ۔ندرت خیال پیش کرنے میں موصوف پیش پیش ہیں۔ مثلاً زاغِ ہوس، صدائوں کا ہتھوڑا، راتیں، ضیاء پتھروں کے درخت، قطراتِ شبنم، نبض شرر، پیاسی شعائیں وغیرہ جیسے الفاظ کی چُست بندش سے  موصوف نے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے، چند شعر ملاحظہ ہوں    ؎

بھٹکتا رہے گا وہ تاریک شب میں
جو احساس ساغرؔ سحر سے ہے خائف

ان اجالوں کی زباں میری سمجھ سے دور تھی
یہ اندھیرے بن گئے ہیں ترجماں میرے لیے

ہستی کی بیاضوں پر کیا غور کروں ساغرؔ
اوراق بھی کالے ہیں، الفاظ بھی کالے ہیں

خوابیدہ گائوں سے یہ سرکتی ہوئی سی شب
ناگن کسی کو ڈس کے پلتی دکھائی دے

ہوائوں کی میزان پر تُل گئے ہیں
گراں بار ارمان بادل بنے ہیں

ساغرؔ جیدی کی دوہا گوئی:

ہمہ اصناف کے پروردہ ساغرؔجیدی نے نہ صرف صنف غزل کو اپنا یا بلکہ دوہے جو ہندی صنف سخن سے تعلق رکھتے ہیں اردو میں تخلیق کی ،نہ صرف تخلیق کی بلکہ ان تخلیقات کو کتابی شکل میں پیش کیا۔ ان کے اب تک پانچ دوہوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔1990؁ء میں’’ ثبوت‘‘کے نام سے ایک دوہوں کا مجموعہ جس میں ایک دیوان(بغیر الف) ’’دو نیم‘‘ کے نام سے اور دوسرا مجموعہ ،  ’’تحویل‘‘ جن کی رسم اجراء آندھرا پردیش کے گورنر سر جیت سنگھ برنالہ کے ہاتھوں ادا ہوئی۔ ان تین مجموعوں کے علاوہ2005؁ء میں مرن مئی کے نام سے ہندی میں شائع ہوچکا ہے جس میں دوہوں کے ساتھ ساتھ دوہا گیت بھی موصوف نے تخلیق کی ہے۔2009؁ء میں اردو اکاڈمی آندھرا پردیش کی مالی اعانت سے ’’کیسر کیسر دوہے‘‘ کے نام سے ایک اور دوہوں کا مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے۔ علاوہ ازیں محبی ڈاکٹر وصی اللہ بختیاری ،ڈگری لکچرر، ڈگری کالج پلمنیر نے موصوف کے دوہوں کے مجموعوں پر ایک تحقیقی(ناکہ تنقیدی) جائزہ لیتے ہوئے ایک کتاب ’’ڈاکٹر ساغر جیدی کی دوہا گوئی‘‘ کے نام سے شائع کی۔ جس میں ڈاکٹروصی اللہ نے موصوف کی دوہا گوئی پر عمدہ بحث کی ہے اور تمام فنی لوازمات کو اجاگر کیا ہے۔

موصوف کے دوہوں میں تشبیہات، استعارات، علامت نگاری اور طنز و مزاح جیسی خصوصیات پائی جاتی ہے، انہیں اوصاف کو گنواتے ہوئے ڈاکٹر وصی اللہ بختیار ی لکھتے ہیں۔

    ’’ ڈاکٹر ساغر جیدی کی دوہا گوئی بھی تشبیہات سے مغتنم ہے۔ آپ کے دوہوں میں تشبیہ کارفرما نظر آتی ہے۔ بسا اوقات دوہے کا ایک مصرعہ مشبہ اور دوسرا مصرعہ مشبہ بہ معلوم ہوتا ہے۔ آپ کی تشبیہوں میں طنز کی ایک لطیف تہہ داری پائی جاتی ہے۔ تحیر آفرینی اور بصیرت افروزی کی فضاء اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ رونق افروز ہے‘‘۔

(’’ ڈاکٹر ساغر جیدی کی دوہا گوئی‘‘ از:  ڈاکٹر وصی اللہ  : ــــــصفحہ69ْْْْْْْ)

ساغرؔ! بہتے وقت کا ایسا ہے ٹھرائوـ
دریا میں ہے ناخدا، صحرا میں ہے نائو
زاغ کے دسترخوان پر کتنے تھے شہباز
میرے کان میں پھونک دے کالے پیلے راز

مشکیزے میں کہکشاں، کوزے میں مہتاب
دیکھ رہی ہے زندگی، کیسے کیسے خواب
موٹا چندہ اور میں، سوچئے میرے پیر
اک چڑیا کے پائوں میں، فولادی زنجیر

ان خصوصیات کے علاوہ ان کے دوہوں میں جنسیت بھی پائی جاتی ہے۔ اس نوعیت کے چند دوہے ملاحظہ ہوں   ؎

گھر والی پر رات میں ،کیوں ہوتے ہو لال
موسم سرما ہے میاں، کھینچ لو اپنی شال
ایسے اٹھایا راہ سے، گوری نے رومال
منہ سے سب کے آج بھی ٹپک رہی ہے رال
پیش نہ کرپایا انہیں، اپنا گرم لحاف
بے حد کالی رات تھی، دل بھی نہیں تھا صاف

ساغر ؔ جیدی کی نظم گوئی

ساغرؔ جیدی کے کل تین نظموں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں جس میں دو تلگو زبان میں اور ایک نظموں کا مجموعہ اردو زبان میں شائع ہوچکا ہے۔ پہلا تلگو نظموں کا مجموعہ ’’لتھا پرتھاننی‘‘ کے نام سے1997؁ء میں دوسرا تلگو نظموں کا مجموعہ1998؁ء میں ’’تلاوارالیدو‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ2007؁ء میں ’’عماد‘‘ کے نام سے اردو آزاد نظموں کا مجموعہ شائع ہوکر اہل سخن سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ جس میں کل241طویل اور چھوٹی نظمیں شامل ہیں۔ طویل آزاد نظموں میں ’’بارود کی بدبو،  شاہی کرّوفر اور خشک چشمہ ‘‘ کے عنوان سے شامل ہیں۔ موصوف نے ان نظموں میں خصوصاً موجودہ دور کے نا اہل ناقدین و محققین پر طنز کیا ہے ان کی نظمیں آنے والی نسل کے لئے ایک پیغام ہیں۔ غرور کے تعلق سے موصوف نے یہ نظم تخلیق کی ہے   ؎

غرور کیا ہے
شجر پہ لٹکی ہوئی گدل ہے
جو سب کو الٹا ہی دیکھتی ہے

      نا اہل ناقدین و محققین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ


ایک ننگا

دوسرے ننگے سے ہنس کے کہہ رہا ہے
دیکھئے ساغرؔ کا کُرتا
جیب سے محروم ہے

      ان خصوصیات کے علاوہ آپ نے مختلف خیالات و جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔

ساغر ؔ جیدی کی رباعیات:

رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں فلسفیانہ حکیمانہ، صوفیانہ، اخلاقی اور عشقیہ مضامین کے علاوہ مختلف سماجی مسائل اور موضوعات بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ اکثر شعراء اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیںکہ کسی بھی وزن میں چار مصرعے کہہ کر رباعی لکھی جاسکتی ہے۔ جبکہ ماہرین عروض نے رباعی کے لئے مخصوص اوزان کی پابندی کو لازمی قرار دیا ہے۔ رباعی کے ہر مصرعہ میں ’’مخصوص وزن‘‘ کے چار چار کن ہوتے ہیں اور یہ چار اراکین بیس ماترائوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ان اراکین کو عروضِ اصطلاح میں افاعیل بھی کہتے ہیں، عرو ض داں نے رباعی کے چوبیس اوزان کو دو گروہوں میں ’’شجرۂ اخرب‘‘ اور ’’شجرۂ اخرم‘‘ میں برابر بانٹا ہے۔ ان سب فنی لوازمات کو ہنر مندی کے ساتھ برتنے میں ساغرؔ جیدی بے انتہا کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی رباعیات میں انسانی اقدار، اخلاقی معیار، سادگی، سلاست، روانی، سوز و گداز، جدت، ندرت، شگفتگی اور شائستگی جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، اس نوعیت کے چند رباعیات ملا حظہ ہوں   ؎

مٹی کا کٹورہ بھی نہیں ہے گھر میں
اک دوسرا کُرتا بھی نہیں ہے گھر میں
کیا بات ہو تخت و تاج کی ساغرؔ
ٹوٹی ہوئی کٹیا بھی نہیں ہے گھر میں
تہذیب کے اثرات بہت گہرے تھے
ظلمت کے دہانے پہ قدم ٹھرے تھے
آواز ہی آواز تھی چاروں جانب
ہم لوگ فرشتے تھے مگر بہرے تھے
ہر اندھے عقیدے کو ہرا رکھتی ہے
پھر پھر کے الگ آب و ہوا رکھتی ہے
یہ دور ہے بے دین، مگر اس کی جیب میں
دو چار خدائوں کا پتہ رکھتی ہے

نعت گوئی:

ساغرؔ جیدی نے سرکارِ دو عالم کی عقیدت میں ڈوب کر حضورؐ  کی تعریف اور اوصاف بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی نعتوں میں درود و سلام کی خوشبو مہکتی ہے اور اپنی زندگی کو حضور کی سنتوں سے آراستہ کیا ہے اور ’’باخدا دیوانہ باش با محمد ہوشیار‘‘ کے فارسی محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے شعر کہا ہے، حضور کی تعریف میں لفظوں کا انتخاب بڑی ہنر مندی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ صحابہؓ کی نعتوں کا ترجمہ کرتے ہوئے اردو دوہوں میں انہیں منتقل کیا ہے۔ (مثلاً عائشہؓ  اور  ابو بکرصدیق  ؓ کے عربی نعتوں کا ترجمہ دوہا صنف میں اظہار کیا ہے) ۔ موصوف کا ایک نعتیہ مجموعہ ’’صلو علیہ و الہی‘‘ کے نام سے سنہ2000ء میں شائع ہوچکا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے کبھی ہم چاند کا چہرہ
تصور میں ہمارے ہے رخِ روشن محمدﷺ کا
خوشبو کیوں ہے سانس میں کیوں ہے آنکھ میں نور
قلب میں ذکر حضورؐ کا، چلتا ہوگا ضرور

درود کے اعداد کی اتنی ہے روداد
ساغرؔ! بس ہم ہوگئے، دوزخ سے آزاد

نثر نگاری:

ساغرؔ جیدی ایک اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھے نثر نگاربھی ہیں۔ ان کے کل تین نثری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ دو نثری تصانیف تلگو زبان میں اور ایک اردوتصنیف شائع ہوچکی ہے۔ موصوف نے اردو اور ہندی ہی میں نہیں بلکہ تلگو زبان میں بھی کما حقہٗ عبور  رکھتے ہیں، پہلی نثری تصنیف ’’صوفی دھاگے‘‘ کے نام سے سنہ2004ء میں شائع ہوچکی ہے جس میں حکمت ، پند و نصیحت کی باتیں شامل ہیں۔ یہ ایک طرح تلگو ہی میں شائع کی گئی نصیحت آموز متصوفانہ نثری کتاب ہے۔ دوسری نثری تصنیف تلگو زبان میں ’’ہیروں کا تاج‘‘ سنہ2006ء میں شائع ہوچکی ہے۔ ساغرؔ جیدی کا کمال یہ ہے کہ ان تلگو نثری تصانیف کے نام بھی اردو سے تعلق رکھتے ہیں۔

موصوف کا اردو نثری مجموعہ ’’باریکہ‘‘سنہ2007ء میں شائع ہوچکا ہے۔ اشاروں اور کنایوں سے ملمز یہ نثرپارے بہت ہی دقیق نامانوس عربی و فارسی الفاظ کے غماز ہیں۔ نثر میں بھی شاعرانہ مزاج  چھلکتاہے۔ اس لئے مشہور و معروف نقاد پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے اس نثر پارے کو نثری نظم سے تعبیر کیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی موصوف کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے خط میں اس طرح گویا ہوئے ہیں:

’’آپ نے اس کتاب میں شامل تحریروں کو ’’ نثر پارے‘‘ کا نام دیا ہے اور درحقیقت یہ نثر نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی نثری نظم ہے۔ زبان میں استعارہ اور تلمیح کی کثرت مضامین میں معاصر زندگی پر جگہ جگہ تنقید ی رائے زنی، طنزاور اس پر سے زبان میں فارسی اور عربی کا گہرا وفور آج شاید ہی کسی اور شاعر کے پاس اتنا سامان یکجا مل سکے۔ افسوس ہے کہ آپ نے اس زمانے میں یہ نظمیں مجھے نہیں بھیجیں جب ’’شب خون‘‘ زندہ تھا۔ میں بے انتہا خوشی سے انہیں شائع کرتا‘‘۔

( شمس الرحمن فاروقی، مورخہ 23؍ جولائی2008ئ)

ان تصانیف کے علاوہ موصوف کی تلگو میں نظمیں اور غزلوں کے مجموعے ’’پرملا ویچکلو‘‘(1994ئ) ، ’’انتاراگنی‘‘(1994) اور ’’ویلوگو واسنا‘‘(2008ئ) شائع ہوچکے ہیں۔

:۰:۰:

(مطبوعہ  :  ماہنامہ آندھراپردیش حیدرآباد،  نومبر۲۰۰۹؁ئ، صفحہ نمبر:19  تا  25)


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 804