donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iqbal Khursheed
Title :
   Naseem Durrani

 

نسیم درانی


اقبال خورشید


پانچ عشروں قبل روشنیوں کے شہر پر ایک حسین شام اتری۔ بیت چکی شاموں سے یک سر مختلف۔ اُس شام ایک فیصلے کا جنم ہوا۔ ایک معیاری ادبی جریدہ نکالنے کا فیصلہ۔ فیصلے کا انوکھا پن، فیصلہ ساز کی عمر تھی۔ پرچے کا مدیر، فقط چوبیس برس کا تھا!


جواں سال نسیم درانی کی جانب سے پاک و ہند کے ادیبوں، شاعروں کو لکھے ابتدائی خطوط کا جواب آیا، تو اُنھیں محترم و مکرم کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا۔ جب شمارے میں اپنی تصویر شایع کی، تو مراسلوں میں برادرم کہہ کر مخاطب کیا جانے لگا۔


اردو ادبی جراید کی تاریخ پر اَن مٹ نقوش چھوڑنے والے نسیم درانی نے دو نسلوں کے ذوق مطالعہ کی آب یاری کی۔ گذشتہ پچاس برس میں ’’سیپ‘‘ کے 82 شمارے شایع ہوئے۔ تین یادگار ناولٹ نمبر، پانچ منفرد افسانہ نمبر۔ میر انیس پر پہلا خاص نمبر نسیم صاحب ہی نے نکالا۔ ’’سیپ‘‘ کے اثرات کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس پر ایم اے کے دس مقالات لکھے گئے۔ یہ پرچہ پی ایچ ڈی تھیسس کا بھی موضوع بنا۔


دور حاضر کے کئی بڑے قلم کاروں نے اپنا سفر ’’سیپ‘‘ سے شروع کیا۔ اِس ضمن میں نسیم صاحب رشید امجد، سلیم اختر، مظہر الاسلام، افسر آذر اور نجم الحسن رضوی جیسے پختہ افسانہ نگاروں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ پروین شاکر کی ابتدائی شاعری بھی ’’سیپ‘‘ ہی میں شایع ہوئی۔ ایک اور دل چسپ پہلو ہے۔ ایک کو چھوڑ کر باقی 81 شماروں کے ٹائٹل معروف مصور اور نسیم درانی کے قریبی دوست، جمیل نقش نے بنائے۔


نسیم صاحب پاکستان رائٹرز گلڈ سے برسوں وابستہ رہے۔ 95 تا 2008 وہ مرکزی سیکریٹری جنرل تھے۔ یہ تجربہ زیادہ خوش گوار نہیں رہا۔ بتاتے ہیں،’’صوبوں اور مرکز سمیت پانچ سینٹرز تھے۔ گرانٹ برسوں سے بند تھی، وہ میری کوششوں سے جاری تو ہوئی، مگر ہمیں فقط 80 ہزار روپے ملا کرتے، جو ناکافی تھے۔ مایوس ہو کر میں نے استعفیٰ دے دیا۔ ادیبوں کا استحصال روکنے کے لیے قائم ہونے والے اِس ادارے کو قدرت اﷲ شہاب کے زمانے میں تو گرانٹ ملتی رہی، مگر بعد میں رائٹرز گلڈ نے اپنی حیثیت کھو دی۔‘‘


حالات زیست کھنگالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا پورا نام نسیم احمد خان درانی ہے۔ 14 اگست 1938 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شعور کی آنکھ بمبئی (موجودہ ممبئی) میں کھولی۔ والد، نصیر احمد خان درانی جوتا سازی کے کاروبار سے منسلک تھے۔ پکے مسلم لیگی تھے وہ۔ تقسیم سے چند روز قبل کراچی چلے آئے، تاکہ قائد اعظم کے ساتھ عید کی نماز ادا کرسکیں۔ خواہش پوری ہوئی۔ پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ جمے ہوئے کاروبار کی چنداں پروا نہیں کی۔ نصیر احمد مسلم لیگ کونسل کے ممبر بھی رہے۔

بچپن کی یادیں کھنگالتے ہوئے نسیم درانی کا سامنا ایک ضدی بچے سے ہوتا ہے جو اسکول جانا پسند نہیں کرتا تھا۔ سلیٹ توڑ ڈالتا۔ ہاں، اُسے میگزین نکالنے کا بہت شوق تھا۔ نارتھ پاڑا میونسپل اردو اسکول کے طالب علم تھے۔ اسکول کے نوٹس بورڈ پر میگزین نکالا کرتے۔ کچھ قصّے، لطیفہ گھڑ لیتے۔ بورڈ کا باقی حصہ کسی رسالے کے تراشوں سے مکمل کرتے۔ شاید اِسی مشق نے بعد میں ’’سیپ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ دس بہن بھائیوں میں وہ تیسرے ہیں۔ بمبئی سے چَھٹی کا مرحلہ طے کیا۔ ستمبر 47ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان چلے آئے۔


رہایش رام باغ (موجودہ آرام باغ) میں تھی۔ والد نے یہاں ہوٹل کر لیا۔ تجربہ ناکام گیا، تو پرانے پیشے کی جانب پلٹ گئے۔ نسیم درانی ماڈل ہائی اسکول کے طالب علم تھے۔ اسکول کی عمارت میں مہاجرین ٹھہرے ہوئے تھے۔ فقط ایک کمرہ خالی تھا۔ صبح سٹی اسکول جا کر اُس کمرے کی چابی لیتے۔ ایک بجے تالا ڈال کر چابی لوٹا دی جاتی۔ دو بار میٹرک کا امتحان دیا۔ دونوں ہی بار فیل ہوگئے۔ بنیادی سبب حلقۂ یاراں تھا۔ کہتے ہیں،’’اگر کسی ایک دوست کا پیپر خراب ہوتا، تو وہ باقیوں کو بھی امتحان دینے نہیں دیتا کہ تم آگے نکل جاؤ گے، میں رہ جاؤں گا۔ جب والد نے یہ معاملہ دیکھا، تو مجھے لاہور بھیج دیا۔ میں نے 55ء میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کیا۔‘‘


اردو کالج میں تین برس کامرس کے مضمون سے الجھتے رہے۔ پھر آرٹس کی سمت آگئے۔ 64ء میں گریجویشن کے بعد شعبۂ اردو، جامعہ کراچی کا حصہ بن گئے۔ 66ء میں فرسٹ کلاس سکینڈ پوزیشن میں ماسٹرز کیا۔ انھیں ’’یادگار جگر گولڈ میڈل‘‘ سے نوازا گیا۔ زمانۂ طالب علمی میں جھکاؤ ترقی پسندوں کی جانب تھا۔البتہ سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ عملی زندگی کا آغاز میٹرک کے بعد ہی ہوگیا تھا۔ پاکستان پوسٹ کے ڈیپارٹمنٹ فارن پوسٹ میں 120 روپے ماہ وار پر کلرک ہوگئے۔ رہے تو وہاں دس برس، مگر بہ قول اُن کے، حاضری کے رجسٹر پر سرخ نشان کے آگے دست خط کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں کیا۔


ترقی پسند ادیب مطالعے کا محور تھا۔ کرشن، عصمت، بیدی اور منٹو کی کتابیں سرہانے رہتیں۔ ان ہی کی تقلید میں لکھنے لگے۔ حلقہ ادیبوں شاعروں پر مشتمل تھا۔ 54-55 میں ’’بزم نو آموز مصنفیں‘‘ قائم کی، جس کے اجلاس انجمن ترقی اردو، سندھ کے دفتر میں ہوا کرتے۔ اُسی زمانے میں ادبی جریدہ نکالنے کی خواہش نے جنم لیا، مگر شفیع عقیل مرحوم کے مشورے پر اُسے کچھ عرصے کے لیے موخر کر دیا۔


اکبر روڈ پر واقع شمس زبیری کے ادارے ’’کاشانۂ اردو‘‘ سے بچوں کا پرچہ ’’میرا رسالہ‘‘ اور ادبی جراید کے انتخاب پر مبنی ’’نقش‘‘ نکلا کرتا تھا۔ شمس صاحب والد کے دوست تھے۔ اسی نسبت سے ’’کاشانۂ اردو‘‘ کا رخ کیا۔ 58ء میں ’’میرا رسالہ‘‘ کی ادارت اُنھیں سونپ دی گئی۔ عبید اﷲ علیم، نعیم آروی، افسر آذر اور سمیع انور بھی وہاں آنے لگے۔ کام میں بھی دوست ہاتھ بٹاتے۔ کچھ عرصے بعد ’’نقش‘‘ کی تیاری میں شمس زبیری کی معاونت کرنے لگے۔ بعد کے برسوں میں نسیم درانی ہی نے یہ پرچہ سنبھالا۔ شاہد احمد دہلوی کی وفات کے بعد ’’ساقی‘‘ کی بھی دیکھ ریکھ کی، مگر کوشش کے باوجود وہ چل نہیں سکا۔ 74ء تک وہ ’’کاشانۂ اردو‘‘ سے جُڑے رہے۔ اسی عرصے میں جمیل نقش سے دوستی ہوئی۔ پرفارمنگ آرٹس سے متعلق پرچہ نکالنے کا خیال سوجھا۔ ’’آرٹس انٹرنیشنل‘‘ کا اجرا 71ء میں ہوا۔ پرچہ بہت مقبول ہوا۔ سات برس نکلتا رہا۔ پھر ضیا دور میں نافذ ہونے والی سینسر شپ نے اُسے نگل لیا۔


اب ہم اپنی کُلی توجہ ’’سیپ‘‘ پر مرکوز کرتے ہیں:

63ء میں شروع ہونے والے اِس رسالے کا بنیادی محرک ’’بزم نوآموز مصنفیں‘‘ کا اضطراب تھا۔ بہ قول اُن کے،’’اُس وقت تین چار ہی ادبی پرچے تھے۔ فیض، قاسمی صاحب، جوش، فراق سب ہی اُس زمانے میں لکھ رہے تھے۔ ہماری انجمن میں شامل افراد معتبر پرچوں میں تخلیقات بھیجتے، مگر چھپنا تو درکنار، کوئی انھیں پڑھتا بھی نہیں۔ وہ احتجاج کیا کرتے۔ اس پر میں نے کہا، میں ایک رسالہ نکالتا ہوں۔ یوں ’سیپ‘ کا اجرا ہوا۔‘‘ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اپنی جگہ، مگر اندازہ تھا کہ بڑے لکھاریوں کی موجودی کے بغیر بات نہیں بنے گی۔


پاک و ہند کے تمام قدآور تخلیق کاروں سے رابطہ کیا گیا۔ پیش کش میں جدت لائے۔ پہلے پرچے کی ہزار کاپیاں چھپیں۔ قیمت تین روپے تھی۔ شمس زبیری صاحب کے وسیلے سرکولیشن ٹھیک ٹھاک ہوگئی۔ جلد ہی چاروں طرف ’’سیپ‘‘ کی واہ واہ ہونے لگی۔ 66ء میں ناولٹ نمبر نکالا۔ کرشن چندر، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، شوکت صدیقی اور احسن فاروقی جیسے جید لکھاریوں کے ناولٹ اُس میں شامل تھے۔ 68ء میں ’’ایک سے ایک افسانہ‘‘ کے زیر عنوان 101 غیرمطبوعہ افسانوں پر مشتمل نمبر نکال کر خوب داد بٹوری۔ میر انیس کی صد سالہ برسی پر، سقوط ڈھاکا کے زمانے میں انیس نمبر نکال کر سب کو چونکا دیا۔


وقت گزرتارہا۔ ’’سیپ‘‘ پوری آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ جب دھیرے دھیرے حالات بدلنے لگے، تو اس کی رفتار بھی سست ہوگئی۔ آج ’’سیپ‘‘ کی اشاعت وقت کی قیدی نہیں۔ اُن کے بہ قول، اب یہ ’’منشا وار‘‘ ہے، یعنی جب منشا ہوتی ہے، نکال لیتے ہیں۔


بہ طور مدیر گذشتہ پچاس برس میں ہزاروں تخلیقات پڑھی ہوں گی۔ آپ کے نزدیک اردو کی کس صنف نے سب سے زیادہ ترقی کی؟ اِس ضمن میں کہتے ہیں،’’صنف افسانہ نگاری نے بہت ترقی کی۔ میں خود بھی افسانہ نگار ہوں، تو اسے بہتر انداز میں پرکھ سکتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ اس وقت اردو کی مضبوط ترین صنف ہے۔‘‘


نسیم صاحب کے اپنے حلقے میں کئی نام وَر شاعر اور ادیب شامل تھے، مگر اُنھوں نے کبھی سفارش قبول نہیں کی، معیار پر سمجھوتا نہیں کیا۔ حتمی انتخاب اُن ہی کا ہوتا۔ پھر دوست اپنی کم زور تخلیقات دینے سے خود بھی اجتناب برتتے۔ ’’ہاں، نئے لکھنے والوں کی تحریر میں اگر مجھے امکانات نظر آتے، تو میں اُن کی کم زوریاں نظرانداز کرکے اُسے ضرور چھاپتا۔‘‘


اِس بات سے متفق ہیں کہ ادبی جریدہ نکالنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ ’’یہ گھر پھونک تماشا دیکھ والا معاملہ ہے۔ جیب سے خرچ ہوتا ہے۔ اس وقت تو اشتہار بھی نہیں ملتے تھے۔ پچاس برس بعد اب اشتہارات مل جاتے ہیں۔‘‘ رسالے کا مستقبل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،’’ادبی جریدے کی روایت ہے کہ وہ مدیر کی زندگی کے ساتھ چلتا ہے۔ ’ساقی‘، ’فنون‘ اور ’افکار‘ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ’سیپ‘ کا بھی یہ ہی معاملہ ہوگا۔‘‘

نسیم صاحب کے نزدیک رسائل ادب کی ترقی کا موثر ترین ذریعہ ہیں۔ اسی کے طفیل ادب قارئین تک پہنچتا ہے۔ دُکھ ہے کہ اردو ادب کی ترویج میں حکومت اپنا کردار ادا نہیں کرسکی۔ مطالعے کے گھٹتے رجحان پر گفت گو کرتے ہوئے اِس خدشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ اردو رسم الخط چار پانچ سال بعد بالکل ختم ہوجائے گا کہ اردو اب رومن اسکرپٹ میں لکھی جارہی ہے۔ ’’یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔ رسم الخط کی حفاظت کے لیے ہمیں اِسے ٹیکنالوجی سے جوڑنا ہوگا، مگر یہ ذرا مشکل ہے۔ دراصل وہ زبان، جس سے روزگار نہیں ملتا، قابل قبول نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اردو پڑھ کر روزگار نہیں ملتا۔ یہ صورت حال پریشان کن ہے۔‘‘


ڈیکلریشن کے بغیر شایع ہونے والے پرچوں کو وہ ادبی جریدوں کے بجائے کتابی سلسلے کہتے ہیں۔ بہ قول اُن کے، کراچی میں قومی زبان، تہذیب، سیپ اور الفاظ کے علاوہ کسی کے پاس ڈیکلریشن نہیں۔ ادبی سرگرمیوں سے محظوظ ہونے والے نسیم درانی نئے لکھاروں کو زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مغرب کے برعکس ادب ہمارے ہاں پیشہ نہیں بن سکا، اور آنے والے برسوں میں اِس کا امکان بھی نظر نہیں آتا۔


ملازمت نہیں کی۔ زندگی ’’سیپ‘‘ سے وابستہ رہی۔ ایسے میں گزر بسر کیسے ہوئی؟ اِس بابت کہتے ہیں،’’میرے والد، صاحبِ حیثیت آدمی تھے۔ کچھ پراپرٹی تھی، اُس کا کرایہ آجاتا۔ یوں گزارہ ہوجاتا۔‘‘ پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ پانے والے نسیم صاحب موسم سرما سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ منٹو، عصمت اور قرۃ العین کے مداح ہیں۔ ناولوں میں ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ کو سراہتے ہیں۔ رفیع، مکیش اور شمشاد کی گائیکی کے معترف ہیں۔ ’’پکار‘‘ من پسند فلم ہے۔ 65ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، چار بیٹوں سے نوازا۔ مستقبل کے حوالے سے کوئی خاص منصوبہ نہیں۔

کہتے ہیں،’’اب مستقبل رہا ہی کہاں!‘‘


********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 1162