donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Khalid Umri
Title :
   Ashfaqullah Khan

اشفاق اللہ خان


Khalid Umri

تم ہی سے اے مجاہد واجہان کو ثبات ہے

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

اشفاق اللہ خان کی پیدائش 22؍اکتوبر1900ء کو شاہجہاں پور(اترپردیش) کے معزز گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد کانام شفیق اللہ خان اور والدہ کا نام مظہرالنساء بیگم تھا۔ اشفاق اللہ خان کے خاندان کے اکثر لوگ برطانوی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔اشفاق اپنے چاروں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ان کے بڑے بھائی ریاست اللہ خان رام پرساد بسمل کے ہم جماعت تھے۔ وہ اشفاق اللہ خان کو اکثر رام پر ساد بسملؔ کی شاعری اور انقلابی کاروائیوں کے قصے سنایا کرتے تھے۔ جس سے اشفاق اللہ خان کے دل میں بسمل ؔسے ملنے کی خواہش پنپنے لگی۔ اشفاق اللہ خان انقلابی فکر وکردار کے ساتھ ساتھ شاعری کا شغف بھی رکھتے تھے۔اپنے شعر وکلام میں وہ وارثی ؔاورحسرت ؔ کاتخلص کرتے تھے۔

اشفاق اللہ خان بچپن ہی سے مجاہدین آزادی سے کافی متاثر تھے ۔ ان میں عمر کے ساتھ جذبہ الوطی پروان چڑھتا گیا ۔ عمر کے بیسویں سال میں قدم رکھتے رکھتے اشفاقا للہ خان اپنے ملک کوانگریزوں کے پنجۂ استبداد سے آزاد کرانے اور اس کے لئے جان دینے کاتہیہ کرچکے تھے ، جس کے لئے جلدی ہی آپ اپنے شہر اوراس دور کے ایک بڑے انقلابی ’’رام پر ساد بسمل‘‘ سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ بسمل سے رابطہ میں آتے ہی آپ علمی جدو جہد آزادی میں سرگرم ہوگئے ۔ جن دنوں مولانا محمد علی جوہر خلاف تحریک چلارہے تھے ، جس نے آگے چل کر تحریک عدم تعاون کی شکل اختیارکرلی تھی،تب بسمل اور دیگر انقلابیوں کے ساتھ مل کر آپ اس تحریک کے بارے میں عوام کو واقف کرانے اور آزادی کی جدو جہد کیلئے انہیں بیدا کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اس دور میںآزادی کی جدوجہد تو درکنار آزادی کاخواب دیکھنا بھی برطانوی حکومت کے ظلم کو دعوت دیناتھا۔ اشفاق اللہ خان بھی حکومت کو نظروں میںآنے سے نہیں بچ سکے اوریہ مردمجاہد جس کے سینے میں شاہین کاجگر تھا حکومت کے باغیوں میں شامل ہوگیا ۔

1922ء میں تحریک عدم تعاون کے دوران ’’چوری چورا‘‘ کا پرتشدد واقعہ پیش آیا، جس کے بعد گاندھی جی نے خلافت تحریک کے خامتے کااعلان کردیا۔ تحریک عدم تعاون کی منسوخی سے پرجوش انقلابیوں میں ایک بے چینی پیدا ہوگئی اور کئی انقلابیوں نے اعتدال کی راہ چھوڑ کر جدو جہد کواپنالیا۔ اشفاق اللہ خان بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان سے جاملے اور حصول آزادی کے لئے مسلح جدو جہد کو اپنا مقصد بنالیا۔

کاکوری کا پُرعزم واقعہ1925

مسلح جنگ آزادی کے لئے سب سے اہم مسئلہ اسلحہ جات کی فراہمی اور اس کے لئے کثیر رقم کی حصولیابی کاتھا۔ انقلابیوں نے طے کیا کہ برطانوی حکومت پچھلی تین صدیوں سے ہندوستان کو لوٹ رہی ہے۔ چنانچہ یہ مطلوبہ رقم برطانوی حکومت کو لوٹ کر حاصل کی جائے گی۔ اس مقصد کے تحت انقلابیوں نے 8اگست1925کو ایک خفیہ نشست کی اور 9اگست 1925ءکاگوری کے مقام پر سرکاری خزانہ لے جارہی آٹھ ڈاؤن سہارنپور لکھنؤ پیسنجر ٹرین روک کر خزاہ لوٹ لیا۔ اس ساری کاروائی میں اشفاق اللہ خان نے اکیلے ہی چھینی اور ہتھوڑے کی مدد سے آہنی تجوری کو توڑا ۔ اس مہم کی سربراہی انقلابیوں کے سردار رام پرساد بسمل نے کی۔ اس مہم میں بسمل اور اشفاق اللہ کے علاوہ دیگر آٹھ انقلابی بھی شامل تھے ۔ کاکوری واقعہ تاریخ آزادیٔ ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے درج ہوا ۔ یہ واقعہ انگریزوں کی طاقت ان کے غرور اورگھمنڈ پر ایک کاری ضرب تھا، جس سے برطانوی حکومت بوکھلااٹھی۔ ہندوستان میں موجود برطانوی وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے فوراً اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس محکمے کو تفتیش کے لئے نامزد کیا۔ خفیہ پولیس نے مہینے بھر ہی میںاس واقعہ میں ملوث انقلابیوں کو شاہجہاں پور سے گرفتار کرلیا۔ اشفاق اللہ خان گرفتاری سے بچ کر کسی طرح روپوش ہونے میںکامیاب ہوگئے ۔ بنارس پہنچ کر وہ ایک انجینئرنگ کمیٹی میں ملازمت کرنے لگے۔ وہ رات دن اس فکر میں تھے کہ کسی طرح ملک سے باہر جاکر لالہ ہردیال سے ملیں۔

لالہ ہریادل ان دنوں امریکہ میںمقیم تھے اور اپنے ذاتی افکار کی تحریر وتقاریر کی مدد سے عوام میں تبلیغ کررہے تھے ۔ شروعاتی دور میں لالہ ہردیال کمیونزم سے خاص متاثر رہے ۔ اشفاق اللہ خان لالہ ہر دیال سے مل کر انہیںآزادی وطن کی سرگرمیوں میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہی سے ملنے کی خاطر اشفاق اللہ خان بنارس سے دِلّی آئے تاکہ جلد ملک سے باہر جاسکیں لیکن جن میر جعفروں اور میر صادقوں نے ملک کوانگریزی سامراج کے پنجۂ استبداد کااسیر بنایا تھا وہ یہاں بھی اشفاق اللہ خان کے تعاقب میں تھے۔ ان کے ایک پٹھان دوست نے سیاہ بختی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو گرفتار کروادیا۔ اس طرح تاریخ میں ایک اورمیر جعفر اورمیر صادق کااضافہ ہوا ۔اشفاق اللہ خان فیض آباد جیل روانہ کردئے گئے ، جہاں پر ان کے خلاف قتل ڈکیتی اور حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلا گیا ۔ اشفاق اللہ خان کے بھائی ریاست اللہ خان نے کرپاشنکر بجیلہ کو ان کے مقدمے کی پیروی سونپی۔ کرپا شنکر صاحب نے مقدمے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن برطانوی ظالم حکومت نے عدالتی کاروائی محض خانہ پوری کے لئے کی تھی۔ چنانچہ انہیںسزائے موت سنائی گئی۔

کاکوری سازش کے تحت برطانوی حکومت نے اشفاق اللہ خان ، رام پرساد بسمل ، راجندر لہری اور ٹھاکر درشن سنگھ کو سزائے موت اور دیگر مولہ انقلابیوں میں سے چار کو سزائے عمرقید و باقی کو چار سال کے لئے بامشقت کی سزا تفویض کی۔ مقدمے کے دوران انگریزوں نے اشفا ق اللہ خان کو سرکاری گواہ بنانے اور رام پرساد بسمل کے خلاف گواہی دینے کے لئے رضامند کرنے کی خاطر پولیس انسپکٹر تصدق حسین کو نامزد کیا، جس نے اشفا ق اللہ خان کو مذہب کاواسطہ دے کر کہا کہ تم کیسے مسلمان ہوجو ایک ہندو کا ساتھ دے رہے ہو جو اس ملک کوہندو راشٹر بناناچاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اشفاق اللہ خان نے کہاکہ رام پر ساد بسمل کاہندو راشٹر آپ کے برطانوی حکومت سے بہتر ہوگا ۔

جن لوگوں نے اشفاق اللہ خان کو اسیری کے زمانے میں دیکھا ان کا بیان ہے کہ جیل میں بھی انگریزوں کی چالوں میں نہیں آئے اور انہوںنے سرکاری گواہ بننے کی انگریزوں کی درخواست کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا ۔ بھلا ایک شاہین صفت آہنی عزائم والا انسان کرگس کے پھندوں میں کب آنے والا تھا؟

ایک دفعہ جب اشفاق اللہ خان عبادت میں مصروف تھے تب کچھ انگریز افسروہاں آئے۔ ان میں سے ایک اشفاق اللہ خان پر فقرہ کسا کہ دیکھتے ہیں جب ہم اس چوہے کو پھانسی پر لٹکائیںگے، اس کی یہ عبادت اس کو کیسے بچائے گی۔ اس پر اشفاق اللہ خان نے بالکل دھیان نہ دیااورعبادت میں مشغول رہے۔ گویا انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں ۔ اس پر وہ انگریز افسر بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلاگیا ۔

19دسمبر 1927 کو اشفاق اللہ خان تختۂ دار کی طرف سے اس شان سے کوچ کرنے لگے کہ ان کا ہر قدم دوگنا فاصلہ طے کرتا ۔ پھانسی کی جگہ پرپہنچتے ہی پھندے کو بے ساختہ چوم لیا ۔ کچھ دیر تک دعائیں کرتے رہے ، یہاں تک کہ پھنداکسا گیااور آپ حیات جاوداں پا گئے ۔

اشفاق اللہ خان کے اقوال:

اشفاق اللہ خان مجاہدی آزادی کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ اپنا کلام وارثیؔ اورحسرتؔ کے تخلص سے لکھتے تھے۔ زمانے اسیری میںانہوںنے فیض آباد جیل میں ایک ڈائری بھی قلم بند کی اور کچھ نصیحتیں اپنے دوست واحباب اور رشتہ داروں کے نام لکھے خطوط میں کیں۔ ذیل میں اشفاق اللہ خان کے انہی قول کو قارئین کے لئے مختصر اً پیش ہے ۔

حب الوطنی اپنے ساتھ بے شمار تکالیف ومصیبتیں لے کر آتی ہے۔ جس شخص نے اسے اپنے لئے چن لیا اس کے لئے یہ ساری مصیبتیں وتکالیف راحت وسکون بن جاتی ہیں۔

میں نے سب کچھ وطن ِعزیز کی محبت میں برداشت کرلیا ۔ میری کوئی خواہش نہیں میرا کوئی خواب نہیں۔ اگر وہ ہے تو صرف اتنا کہ اپنی اولاد کو بھی اسی جذبے کے تحت لڑتے دیکھوں جس کے لئے میں قربان ہورہاہوں ۔

میرے احباب واقربا میرے لئے رورہے ہیں اور میں وطن عزیز کے لئے رو رہاہوں۔

اے میرے بچو! مت رونا ۔ اے میرے بزرگان مت رونا ۔ میں زندہ ہوں ۔ میں زندہ ہوں۔

 

زندگی بعد فنا تجھ کو ملے گی حسرت

تیرا جینا تیرے مرنے کی بدولت ہوگا

کچھ آرزو نہیں ہے آرزو تویہ ہے

رکھ دے کوئی ذراسی خاک وطن کفن میں

درج ذیل تحریر اشفاق خان مرحوم نے اپنے رشتہ داروں کو لکھے اپنے آخری خط میں لکھی؎

کئے تھے کام ہم نے بھی جو کچھ بھی ہم سے بن پائے

یہ باتیں تب کی ہیں آزاد تھے اور تھا شباب اپنا

مگر اب جو کچھ بھی امیدیں ہیں وہ تم سے ہیں

جواں تم ہو لب بام اچکاہے آفتاب اپنا

غالباً ایسے مرد مجاہد کیلئے کسی شاعر نے یہ خراج عقیدت پیش کیا ہے کہ؎

یہ قدم قدم بلائیں یہ سوادکوئے جاناں

جسے زندگی ہو پیاری وہ یہیں سے لوٹ جائے

 


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 709