donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Khalid Umri
Title :
   Baate.n Hamari Yad Rahe.n Phir Bate.n Aisi Na Suniyega

 

باتیں ہماری یاد رہیں، پھر باتیں ایسی نہ سنیئے گا

 

Khalid Umri

 

پرانے لکھنئو میں وزیر گنج کی جانب سے سٹی اسٹیشن کی طرف ایک سڑک سلطان المدارس کو جاتی ہے۔ وہیں پر بھیم کا اکھاڑہ کا قبرستان ہوا کرتا تھا جہاں 21ستمبر 1810ء کو خدائے سخن میر تقی میر کی تدفین ہوئی تھی۔ ویسے اب ان کی قبر کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ شاید سیٹی اسٹیشن کی توسیع اس قبرستان کو ہضم کر گئی تھی۔ یا پھرزمین کے حریصوں نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ میر کو پہلے ہی اس کا اندازہ ہو گیا تھا:

مت تربتِ میر کو مٹاؤ

رہنے دو غریب کا نشاں تو

ان کی قبر کے سلسلہ میں معروف محقق مسعود حسین رضوی ادیب کا خیال ہے ”سٹی اسٹیشن سے ڈالی گنج جانے والی چھوٹی لائن کی پٹری کے کنارے ریل کے چھتے کے قریب ذرا بلندی پر کچھ پرانی قبریں تھیں۔ان میں ایک غیر معمولی سائز سے کچھ بڑی اور مستحکم تھی۔میں لڑکپن سے اسے میر کی قبر سنتا آیا ہوں۔ میرے لڑکپن میں بھی اسے بڑے بوڑھے میر کی قبر بتاتے تھے۔

1967ء میں لکھنئو کے ایک اہل ثروت اور ادب پرور مقبول احمد لاری کو میر تقی میر کا خیال آیا اور انہوں نے آل انڈیا میر اکادمی کی تشکیل کر کے قبرستان کے پاس میر کی یاد میں ایک بڑے سے قلم دوات کی شبیہ نصب کروا دی تھی۔ اسی زمانے میں انہوں نے میر کی شاعری پر ایک ضخیم کتاب”حدیث میر “شائع کی تھی۔ مگر چند سال قبل مقبول احمد لاری کا بھی انتقال ہو گیا اور قلم دوات کی شبیہ بھی خاک میں مل گئی۔ اس لئے اب وہاں میر کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ مگر اس سے کیا ہو تا ہے میر کا کلام تو ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے اور پورے عالم اردو میں اس پر بحث ہو رہی ہے۔ اس کا احساس خود میر کو بھی تھا۔ اسی لئے انہوں نے کہا:

جانے کا نہیں شور سخن کا میرے ہر گز

تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا

میر تقی میر 1722ء میں آگرہ کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہو ئے تھے۔ ان کے والد ایک صاحب کمال بزرگ تھے۔ لیکن جب میر تقی میر 4سال کے تھے اس وقت ان کے والد کے انتقال ہو گیا اور انہوں نے ساری زندگی کلفتوں میں گزاری۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کی شاعری میں غم و الام بہت ہیں۔ جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا

یا پھر یوں فرماتے ہیں:

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنئیے گا 
کہتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنئیے گا

میر کے بعد آنے والے تمام شعراء نے ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ غالب جیسا خود پسند شاعر بھی کہتا ہے:

ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آب بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

اور دور جدید میں تو فراق گورکھپور ی میر کی شاعری کے اس قدر معتقد ہیں کہ ان کو دنیا کے بڑے شاعروں میں سے ایک مانتے ہیں۔
میر کا دور در اصل دور ابتلا تھا۔ انہوں نے نادر شاہ کے حملوں کے بعد محمد شاہ رنگیلا کے دور کا دلی کا قتل عام دیکھا تھا۔ اس وقت دلی ویران ہو چکی تھی۔ لیکن جب طبعی دنیا ویران ہوئی تب دل کی دنیا آباد ہوئی اور اسی سے میر تقی میر کی آفاقی اور لافانی شاعری وجود میں آئی اورمیر نے بجا طور پر کہا:

سہل ہے میر کا سمجھنا کیا 
ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے

میر تقی میر در بدری کی زندگی گزارنے کے بعد لکھنئو پہنچے تھے اور لکھنئو میں ان کا والہانہ استقبال ہوا تھا، کیوں کہ ان کی آمد سے قبل وہاں ان کی شہرت پہنچ چکی تھی۔ دوسری بات یہ تھی کہ وہ نواب آصف الدولہ کی دعوت پر وہاں تشریف لائے تھے۔ ان کی آمد کے بارے میں محمد حسین آزاد اپنی شہرہ آفاق کتاب ” آب حیات“ میں لکھتے ہیں:

”لکھنئو پہنچ کر جیسا کے مسافروں کا دستو رہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے،رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جا کر شامل ہو گئے۔ ان کی وضع قدیمانہ۔۔۔ کھڑکی دار پگڑی،پچاس گز کے گھیر کا پائجامہ،ایک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا ایک رومال،پٹری دار تہہ کیا ہوااس میں آویزاں مشروع کا پائجامہ جس کے عرض کے پائنچہ، ناک ہنی کی انی دار جوتی،جس کی ڈیڑھ بالش اونچی نوک،کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخلہ محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنئو کے نئے انداز، نئی تراشیں،بانکے ٹیڑھے جمع انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے اور میر صاحب مخاطب ہوئے:

کیا بود وباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
مجھ کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب 
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا 
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

میر تقی میر29برس تک لکھنئو میں رہے۔ لیکن لکھنئو کی زبان اور شاعری کے شاکی رہے۔ وہاں کی شاعری کو ”چوما چاٹی“ ہی کہتے رہے۔

گذشتہ دو سو برسوں میں میر تقی میر کی شاعری پر ہر دو رمیں کچھ نہ کچھ لکھا گیا ہے۔ تمام ناقدین نے اس پر توجہ کی ہے۔ مگر سب سے قابل ذکر کام شمس الرحمن فاروقی کا ”شعر شور انگیز ہے “۔ جسے انہوں نے چار جلدوں میں مکمل کیا اور تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل اس تفہیم میں میر کے اشعار کے نئے زاوے پیش کئے گئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

”میر کے آہنگ میں نرمی،ٹھہراؤ، دھیمے پن وغیرہ کے بارے میں نقادوں کی آرا ہم دیکھ چکے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ آہنگ کو معنی سے الگ نہیں کر سکتے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ میر کے معنی محض محزونی، بے چارگی اور حرماں نصیبی جیسے الفاظ کے ذریعہ ظاہر نہیں کیے جا سکتے۔۔۔ “

فاروقی مزید لکھتے ہیں:

’کہتے ہیں کہ میر 19ویں صدی کے شروع میں مرے تھے۔ ایسا نہ ہو کہ 21ویں صدی کے شروع ہو تے وقت بھی ان کا شعر ہمیں ملامت کرتا رہے۔ دیوان اول جس کا یہ شعر ہے 18 ویں صدی کے وسط ہی میں مکمل ہو گیا تھا:

گفتگو ناقصوں سے ہے ورنہ
میر جی بھی کمال رکھتے ہیں

اتنا تو ہم بھی مانیں گے کہ ڈھائی سو برس کا انتظار بہت ہو تا ہے۔اگر میر کے دیوان میں ہر جگہ شعر شو ر انگیز کے باعث قیامت کا سا ہنگامہ ہے تو اس شور قیامت کی ایک ٹھوکر ہم کو بھی لگ جائے تو اچھا ہو:

ہر ورق ہر صفحہ میں ایک شعر شو رانگیز ہے 
عر صہٴ محشر ہے عرصہ میرے بھی دیوان کا

یوں تو قدما نے میر کے دیوان میں بہتر نشتر بتائے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا ہر شعر نشتر ہے۔ جو دل سے جاں تک اترتا چلا جاتا ہے:

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسا ن نکلتے ہیں

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے 
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

وجہ بے گانگی نہیں معلوم 
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

جی میں آتا ہے کچھ اور بھی موزوں کیجئے
درد دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہمار یاں

جہاں سے دیکھیئے ایک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں

سر سری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہرجاں جہان دیگر تھا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

بشکریہ: VOA نیوز

********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 783