donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : M Sayeed Azmi
Title :
   Faheem Anwar Bahaisiyat Motarjjim


 

  فہیم انور بحیثیت مترجم 

بحوالہ ’’البیر پر بندھو گچھو‘‘


 ایم ۔سعید اعظمی


               درج بالا کتاب الحاج قاسم علوی صاحب کی اردو کتاب ’’مقالاتِ علوی‘‘ کا تر جمہ ہے۔ جناب فہیم انور نے بڑی جاں فشانی سے ان مقالات کو بنگلہ زبان میں منتقل کیا ہے۔گو مضمون کے عنوان کے مطابق یہاں البیرپربندھوگچھو کے حوالے سے بحیثیت مترجم فہیم انور صاحب کی کاوشوں کا تذکرہ مقصود ہے لیکن ’’مقالات علوی‘‘ اور اس کے خالق مولانا علوی صاحب کے تعلق سے چند باتوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔


               ’’مقالات علوی‘‘ مختلف نوع کے متعد مضامین کا مجموعہ ہے۔انتساب کے بعدتمہیدی مضمون ہے۔اس کے بعد مقالات علوی اور اس کے مصنف سے متعلق ڈاکٹر شمیم انور صاحب کی تقریظ شامل کی گئی ہے ایک مضمون میں آقا و مولا حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و سلم کے خلق کے ایک گوشے احسان کو اجاگر کیا گیا ہے۔ایک دوسرے مضمون میں حضرت رضاخان بریلوی رحمۃ اللہ کی ہمہ جہت شخصیت کا ذکر ہے۔ایک اور مضمون میں بابری مسجد کے تعلق سے ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۹؁ء سے لیکر اس کی شہادت بتاریخ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲؁ء تک کے واقعات کا بعنوان ’’ بابری مسجد کی مختصر تاریخ‘‘ تذکرہ کیا گیا ہے۔


               مسلمانوں کی موجودہ بدحالی پر بھی ایک مضمون میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
               ان مضامین کے ذریعہ جہاں مولانا موصوف کے سینے میں عشق رسولﷺ سے لبریز دل کی موجودگی کی عکاسی ہوتی ہے وہیں حضرت رضاخان بریلوی صاحب رحمۃاللہ سے بے انتہا عقیدت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔دیگر مضامین کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی پسماندگی کو دیکھ کر ان کا دل لخت لخت ہے۔وہ اس پستی کی اصل وجہ دینی و عصری تعلیم سے مسلمانوں کی دوری بتاتے ہیں۔مقالات علوی کے آخری صفحے پر انکی نظم ’’علم حاصل کرو خدا کے لئے‘‘ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ ملت کے ہر فرد کو دینی و عصری تعلیم سے بہرہ یاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔اس نظم میں انہوں نے 
نونہالانِ قوم و ملت کو علم کی طرف مائل کرنے کے لئے علم سے حاصل ہونے والی بہت ساری منفعات کا ذکر کیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف زبانی جمع خرچ کے ذریعہ اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں بلکہ عملی طور پر بھی علم کی اشاعت کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔اسی مقصد کے تحت انہوں نے دارالعلوم رضائے مصطفٰے کی بنیاد رکھی اور بحیثیت مہتمم اس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔عصری تعلیم کے سلسلے میں بھی ان کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔مٹیا برج ہائی اسکول ہو یا بنگالی بازار ہائی اسکول، مولانا محمد علی جوہر گرلس اسکول ہو یا مولانا آزاد گرلس ہائی اسکول،اس کے منتظمین کبھی انکے مشوروں کے ذریعہ تو کبھی کسی اعلیٰ عہدے پر انتظامیہ کمیٹی میں انہیں شامل کرکے انکی ہمہ جہت شخصیت سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔

               ایک سماجی خدمت گار کی حیثیت سے بھی وہ ایک فعال شخصیت کے مالک ہیں۔مٹیا برج میں ایسے بہت سارے واقعات پیش آئے ہیں جو فتنہ وفساد کا باعث بن سکتے تھے انہوں نے اپنی مصالحانہ     مدبرانہ کو ششوں سے انکا حل نکالاہے۔ان ہی صفات کی بنیاد پر مٹیا برج کے خاص و عام کے دل میں ان کا ایک منفرد مقام ہے۔

               فہیم انور صاحب جنہوں نے ’’مقالات علوی‘‘ کا البیرپربندھوگچھو‘‘ کے عنوان سے بنگلہ ترجمہ کیا ہے اردو کے حلقۂ شعر و ادب میں ایک منفرد مقام پر فائز ہیں۔جہاں ہو بہت اچھی شاعری کرتی ہیں وہیں ان کی نثری تخالیق کی بھی ادبی حلقے میں ستائش ہوتی ہے۔اب تو انہوں نے ایک اچھے تبصرہ نگار کی حیثیت سے بھی اپنا مقام بنا لیا ہے۔

              ایک مترجم کی حیثیت سے فہیم انور کا شمار موجودہ دور کے چند معتبر ترجمہ نگاروں  میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بہت ساری بنگلہ کویتاؤں اور کہانیوں کا اردو ترجمہ کیا ہے۔موصوف نے بنگلہ کے مشہور کہانی نگار بولائی چاند مکھو پادھیائے جن کا قلمی نام ’’بن پھول‘‘ ہے کی کئی کہانیوں کا اردو ترجمہ کیا 

ہے۔کلکتہ کے اردو اخباروں میں ان کی اشاعت بھی ہوتی رہتی ہے۔خاص طور سے انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کی بہت ساری کویتاؤں کامنظوم ترجمہ کیا ہے۔گاہے گاہے ادبی نشتوں میں سناتے بھی ہیں اور اخباروں میں شائع بھی ہوتی رہتی ہیں۔جہاں تک اردو سے بنگلہ زبان میں ترجمے کی بات ہے تو اس میں بھی وہ اب تک بشمول ’’البیرپربندھوگچھو‘‘ پانچ تصانف کو بنگلہ زبان میں منتقل کر چکے ہیں جو شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔فہیم انور نے کرشن چندر کے ریڈیائی ڈراموں کے دو مجموعوں کا یکے بعد دیگرے ’’

 ’’ ہاوار کلہّ‘‘اور ’’سرائی ایر بائیرے‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔تیسری کوشش کے طور پر کرشن چند کی ہی رپورتاز کو ’’چارہ گاچھ‘‘ کے نام سے بنگلہ میں منتقل کیا ہے۔چوتھا ترجمہ منوررانا کی پہلی کتاب ’’بغیر نقشے کا مکان‘‘ بعنوان ’’نقشہ بہین باڑی‘‘ ہے۔زیر تبصرہ ’’البیرپربندھوگچھو‘‘ ان کی پانچویں کوشش ہے۔

                اس سے پہلے کہ البیرپربندھوگچھو کے حوالے سے موصوف کی کاوشوں کا ذکر کروں ضروری سمجھتا ہوں کہ فنِ ترجمہ نگاری کے وصول و ضوابط سے قطع نظر چند مترجم کتابوں کے محدود مطالعہ کے ذریعہ اس فن سے متعلق جو جانکاری حاصل کر سکا ہوں اس کا ذکر کرتا چلوں۔

ایک مترجم کی حیثیت دوزبانوں کے درمیان ایک پل جیسی ہوتی ہے۔ اسے ایک زبان کی تصنیف کو دوسری زبان میں اس طرح منتقل کرنا ہوتا ہے کہ اس کے توسط سے مصنف کے احساسات و جذبات دوسری زبان کے قارئین کے ذہن و دل تک پہنچ جائیں۔اس مقصد کو بخوبی انجام دینے کے لئے جہاں اسے مصنف کی زبان کے صرف و نحو سے واقفیت ضروری ہوتی ہے وہیں اس کے لئے مصنف کے خیالات و تصورات تک رسائی بھی ناگزیر ہوتی ہے۔ساتھ ہی اس کی تہذیب و ثقافت سے بھی واقیفیت ہوتو ترجمہ نگاری کی ذمہ داری کماحقہ نبھائی جا سکتی ہے۔ اچھے مترجمین درج ذیل باتوں کا خاص طور سے خیال رکھتے ہیں۔

               کسی بھی دوسری زبان کی تخلیق کا اپنی مادری زبان میں ترجمہ کرنے کو اولیت دیتے ہیں اگر اپنی مادری زبان سے کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرنا مقصود ہوتو پہلے اس زبان کے گرامراور کمپوزیشن کے ساتھ متذکرہ بالا لوازمات کے علاوہ اس کے لغت پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے ترجمے کی زبان بالکل سلیس اور آسان ہوتی ہے۔اصل متن کے الفاظ کا نعم البدل استعمال کرتے وقت اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ مصنف کے استعمال شدہ الفاظ کے مفہوم پر پورا اتریں ساتھ ہی ساتھ مصنف کے جذبے اور خیال کی پوری عکاسی کرتے ہوں۔اصل متن میں موجود کسی لفظ یا جملے کو لایعنی سمجھتے ہوئے نہ تو اسے حذف کرتے ہیں اور نہ ہی قاری کو سمجھانے کی غرض سے اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرتے ہیں۔کہانی کے کردار یا مضمون میں موجود شخصیات کے نام اور ان کے ساتھ لگے القاب اور خطابات کسی تبدیلی کے بغیر ترجمے والی زبان کے رسم الخط میں منتقل کردیتے ہیں۔

اردو سے بنگلہ زبان کی صورت میں اگر اصل متن میں اردو فارسی کے اشعار شامل ہیں تو کچھ مترجمین کاوتیرہ ہوتا ہے کہ وہ سیدھے سیدھے بنگلہ ہی میں انکا ترجمہ کر دیتے ہیں لیکن کچھ مترجمین ایسے ہیں جو ان اشعار کو انکی اصل صورت میں پہلے ترجمے والی زبان کے رسم الفط میں کوٹ کردیتے ہیں پھر نیچے قوسین میں ترجمے کی ضوابط کو  مدنظر رکھتے ہوئے اس کا سلیس ترجمہ کرتے ہیں۔ یہ احسن طریقہ ہے۔

               جہاں تک دینی تصانیف کا جن میں قرآنی آیات،احادیث اور عبادات کا تذکرہ ہوتا ہے ۔اردو سے بنگلہ میں ترجمے کا سوال ہے تو یہ کام زیادہ تر ایسے علماء کرتے ہیں جنکی مادری زبان تو بنگلہ ہوتی ہے لیکن مغربی بنگال سے باہر کے مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اردو زبان پر انہیں عبور حاصل ہو چکا ہوتا ہے۔ان ترجمے میں بہت ساری اصطلاحات جوں کی توں رکھنی ناگزیر ہوتی ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ ان کا نعم البدل بنگلہ زبان میں ملنا مشکل ہے۔ دوسری یہ کہ جس طبقے کے لئے ترجمہ کیا جارہاہے وہ اپنی روز مرہ زبان میں بھی وہی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ۔جیسے اللہ، رسول،صحابہ،حضرت،روزہ، نماز، جنت، جہنم وغیرہ اور ان الفاظ کو جوں کا توں رکھنے کے لئے ،ز،ذ،ظ،ض وغیرہ کے لئے برگج ج (     ) کے بجائے انتست جَ (     ) اور ش کے لئے تالب شَ (     ) استعمال کرتے ہیں۔ خیال رہے بھگوان اوتار اور پوجا ،اللہ، رسول اور عبادت کے نعم البدل نہیں ہو سکتے۔

               اگر اردو میں قرآنی آیات یا عربی میں اقتباساتِ احادیث موجود ہوں تو یہاں بھی کچھ مترجم بنگلہ رسم الخط میں ’’ترجمہ‘‘ لکھ کراس آیت یا حدیث کا سلیس ترجمہ کر کے نیچے قوسین میں سورۃ کے نام کے ساتھ آیت نمبر لکھ دیتے ہیں۔حدیث کی صورت میں بھی اسی طرح ترجمے کے بعد قوسین میں ترمذی، بخاری، مسلم وغیرہ لکھتے ہیں۔ لیکن کچھ مترجمین پہلے قرآنی آیت یا حدیث کو عربی رسم الخط میں مع زیر، زبر و پیش، کوٹ کرتے ہیں۔ قوسین میں آیت کا نمبر سورۃ کا نام اور حدیث کی صورت میں محدث کا نام درج کرتے ہیں پھر بنگلہ میں اس کا سلیس ترجمہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ویسے مجموعی طور پر اگر مترجم کو لگتا ہے کہ ترجمے میں ضرورتاً یا مصلحتاً کچھ ایسے الفاظ شامل کرنے پڑے ہیں جنھیں سمجھنے میں قاری کو دقت پیش آسکتی ہے تو اس کی وضاحت کے لئے ہر ایسے لفظ کو  ترتیب وار نمبر دیکر صفحے کے نچلے حاشیئے میں یکے بعد دیگرے ان کا مفہوم لکھ دیتے ہیں۔ کچھ مترجم ایسے الفاظ کے لئے کتاب کے آخر میں چند صفحات ملحقہ کے طور پر منسلک کر دیتے ہیں۔

               اردو ادب سے تعلق رکھنے والے دانشوروں میں اب تک چند نے ہی اردو تصانیف کو بنگلہ میں منتقل کرنے کی جرأت کی ہے۔ان میں ڈاکٹر شہناز نبی، کلیم حاذق، افسر احمد اور شبیر احمد وغیرہ شامل ہیں۔جن کے تراجم کی کتابی شکل میں اشاعت بھی ہو چکی ہے۔ان ہی میں ایک نام فہیم انور کا بھی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا اسی سلسلے کی یہ ان کی پانچویں کوشش ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے درج بالا لوازمات کو ’’البیرپربندھو گچھو‘‘ میں کس حد تک برتا ہے۔

               سب سے پہلے ’’ البیرپربندھوگچھو‘‘ میں دیباچے کے طور پر ترجمے سے متعلق ان کا پیش کردہ ’’انوباد پرسنگے‘‘ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ انہوں نے بڑے صاف طور پر اعتراف کیا ہے کہ بنگلہ انولیپی یعنی بنگلہ رسمالخط تحریر کرنے میں انہوں نے ریتوبرنی سادھو خاں جو رابندر بھارتی یونیورسیٹی میں پوسٹ گریجویٹ کی طالبہ ہیں، کی معاونت حاصل کی ہے۔ان کی اس دانشمندی سے ایک بات تو ہوئی کہ بنگلہ کے الفاظ تحریر کرنے میں ہجا کی غلطی کا احتمال نہیں رہ گیا۔لیکن بنگلہ لغت پر فہیم انور صاحب کو کتنا عبور حاصل ہے اس کا اندازہ نظم  ’’علم حاصل کرو خدا کے لئے‘‘ کے ترجمے سے بہت آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔اس نظم میں مولانا قاسم علوی صاحب نے اردو کے ایسے دقیق الفاظ کا استعمال کئے ہیں کہ ان کا نعم البدل مہیا کرنا آسان کام نہیں لیکن فہیم انور صاحب نے بڑی خوبی سے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔انہوں نے بہت حد تک درست اور بر محل بنگلہ الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔ نثری مضامین میں کبھی انہوں نے اپنی بساط بھر کوشش کی ہے کہ نعم البدل کے طور پر ایسا کوئی لفظ درنہ آئے جو بنگلہ زبان کے قاری کی نظر میں کھٹکے اور قابل ستائش ہیں وہ کہ الّا دو ایک لفظ کے وہ اس معاملے میں بھی کامیاب نظر آتے ہیں۔
               جہاں تک بنگالی تہذیب و ثقافت کی بات ہے تو فہیم انورصاحب کا آبائی وطن غازی پور یوپی ہونے 

کے باوجود ان کی پیدائش شیب پور ہوڑہ،مغربی بنگال میں ہوئی جہاں بنگالی، بہاریاور اترپردیش کے لوگوں کی ملی جلی آبادی ہے اور چونکہ ان کا پرائمری سے لیکر یونیورسیٹی تک کا تعلیمی سلسلہ مغربی بنگال میں ہی مکمل ہوا ہے۔ساتھ ہی وہ پیشہ وارانہ طور پر ٹیلی ویژن کے جنرلسٹ ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کے بہت سارے دوست بنگالی بھی ہونگے اور ان کے یہاں خوشی اور غم کے موقعوں پر منعقد ہونے والی تقاریب میں ان کی شرکت بھی ہوتی ہوگی۔اس کے علاوہ اسی ’’انوباد پرسنگے‘‘ میں انہوں نے خود اپنے ایک بنگالی دوست امیتابھ مکھوپادھیا کا ذکر کیا ہے جن کے ذریعہ انہیں بنگالی تہذیب کے بارے میں بہت ساری باتیں معلوم ہوئیں۔

               درج بالا باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اچھے مترجم کے اندر جن صفات کا موجود ہونا ضروری ہے وہ ساری صفات فہیم انور میں ہیں اور جب وہ بنگلہ تصانیف کا اردو ترجمہ کرتے ہیں اس وقت اس کی پوری عکاسی بھی ہوتی ہے۔لیکن اردو تخالیق کا بنگلہ زبان میں منتقل کرنا ایک اردو طالب علم کے لئے تھوڑی دقت کا باعث تو ہوتا ہی ہے اورچند چھوٹی موٹی غلطیاں در آتی ہیں۔فہیم انور صاحب بھی خود کو اس سے مبّرا نہیں رکھ پائے ہیں کئی جگہوں پر ان سے بھی چوک ہوگئی ہے۔میں وسمجھتا ہوں ایک مبصر کی حیثیت سے ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی نشاندہی نہ کی جایء تو 
تبصرے کا حق ادا نہیں ہوگا۔

                ان میں کئی غلطیاں تو ایسی ہیں جو پروف ریڈنگ میں تساہلی کی وجہ سے در آئی ہیں۔ اگر فہیم انور صاحب ذرا صبر اور گہری نظر سے پروفریڈنگ کرتے تو ان غلطیوں کو درست کر سکتے تھے مثال کے طور پر اردو اشعار کے چند الفاظ جیسے طلوع، گذرے(صفحہ ۱۱) نثری مضامین میں ثقفی(صفحہ ۳۹) دیو بندی (صفحہ ۴۰) وغیرہ۔لیکن ایک بہت بڑی غلطی جو بار بار دہرائی گئی ہے اور ایک مسلمان قاری کے دل پر ہربار کچوکے لگاتی ہے وہ یہ کہ جہاں کہیں بھی صلّی اللہ علیہ وسلّم لکھا گیا ہے ۔پروف ریڈنگ کے وقت اس کا ہجا درست کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور شاید پروف ریڈنگ کی تساہلی کی وجہ سے ہی یا پھر کسی اور مصلحت کی بنا پرمقالہ’’ رہبر انسانیت صلّی اللہ علیہ وسلّم ‘‘کے چھ،ساڑھے چھ صفحات بنگلہ ترجمے میں حذف ہوگئے ہیں۔

               مترجم موصوف نے کئی الفاظ کی جنہیں انہوں نے مشکل سمجھا ہے، جملے کے درمیان ہی قوسین میں 
  وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔کہیں کہیں تو ایک لفظ کے لئے پورے ایک سطر کا جملہ درج کردیا ہے جس کی وجہ سے اصل جملے کا تسلسل ٹوٹتا نظر آتا ہے۔اگر وہ ان الفاظ کے مفاہیم نمبروار ذیل کے حاشیئے میں بتائے تو اصل جملے کا تسلسل قائم رہتا۔ساتھ ہی انہوں نے ناموں کے ساتھ لگے القاب اور خطابات کا مفہوم بتانے کی بھی کوشش کی ہے جس سے ایک اچھا مترجم خود کو بچائے رکھنا بہتر سمجھتا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ کہیں کہیں اس سے بچ کر نکل جانا بھی چاہا ہے۔ جیسے انتساب والے صفحے میں’’نقیب الاولیا‘‘ کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ گئے لیکن علامہ اور بدرالعلماء کا مفہوم بتانے کی کوشش کی۔اگر وہ ان سے بھی درگزر کرکے آگے بڑھ جاتے توبہتر ہوتا۔چند عربی تراکیب جیسے طلع البدر علینا (صفحہ ۷۷) اور نعوذ باللہ (صفحہ ۳۷) وغیرہ کا مفہوم سمجھانا کچھ حد تک ضروری ہو سکتا تھا لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان کا درست نعم البدل پیش کرنے میں ان سے چوک ہوگئی ہے کیونکہ انہوں نے ’’نعوذ باللہ‘‘ کا مفہوم ’’اللہ کھما کرون‘‘ (اللہ معاف کرے) لکھا ہے جبکہ اس کا مفہوم کسی شر سے اللہ کی پناہ چاہنا ہوتا ہے۔

               نظم ’’ علم حاصل کرو خدا کیلئے‘‘کا ترجمہ انہوں نے ’’اللہ کے جانار جنوسکھا گرہن کرو‘‘ کیا ہے، جس سے مفہوم کا دائرہ کچھ محدود ہو جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں نظم کے خالق کا ’’خدا کے لئے‘‘استعمال کر نے کا مطلب ملت کے نونہالوں میں جذبۂ اخلاص پیدا کرنا ہے۔ ایک ایمان والا ہر کام اللہ کے لئے کرتا ہے چاہے وہ عبادات ہوں یا معاملات،معاشرت ہو یامعاشیات ہر معاملے میں اس کا مقصد بس اللہ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔اللہ کے حکم کو کسی دنیاوی سودوزیاں کی پرواہ کئے بغیر اس کے حبیب صلّی اللہ علیہ وسلّم کے سنت طریقے پر بجانے لانے میں ہی وہ اپنی کامیابی سمجھتا ہے اور چونکہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور بقول شاعر ’’علم اللہ کی امانت ہے‘‘ شاعر موصوف نے دنیاوی و اخروی منفعات بیان کرنے کے باوجود نظم کے آخری شعر میں ملت کے بچوں کو صرف اللہ کے لئے علم حاصل کرنے کی تاکیدکی ہے۔اگر اللہ راضی ہو گیا تو بعید نہیں کہ دنیا و آخرت دونوں کی بھلائیاں ہماری جھولی میں ڈال دے۔

               اب ایک آخری بات کتاب کے عنوان میں لفظ ’علوی‘ کے لئے ’’البیر‘‘ کے استعمال کے تعلق سے کہنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ بنگلہ زبان میں اردو کر حروف ’واؤ‘ کا کوئی نعم البدل موجود نہیں ہے اس لئے بنگلہ والے او(     ) 
کو انتست یا (     ) کے ساتھ ملاکر واأوے اور رش او(     ) میں رش ای (     ) ملاکر ’وی‘ بناتے ہیں۔ کہیں کہیں اس کے لئے حرف بھ (     ) کا استعمال بھی ان کے یہاں رائج ہے۔جیسا کہ خود فہیم انور صاحب نے نظم کے خالق کا نام بنگلہ میں حضرت علامہ الحاج محمد قاسم البھی لکھا ہے۔اسی نسبت سے البھی میں چھوٹا سا ڈیس لگاکر رَ (     ) لکھ کر البھیر بناتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ کیونکہ’ البیر‘ سے کچھ اور معنی کا گمان ہوتا ہے۔

               مجموعی طور پر فہیم انور صاحب نے اس کتاب کے ترجمے میں جو جاںفشانی کی ہے وہ قابل ستائش ہے ۔اللہ انہیں مزید توفیق عطا فرمائے کہ وہ ادبی تخلیقات کے ساتھ اردو کی دینی کتابوں کو بنگلہ زبان میں منتقل کریں اور ثواب دارین حاصل کریں۔ آمین۔

M.SAYEED   AZMI
Z3/65/A, Contd P-2
Nadial Road, Kolkata-700044

Faheem Anwar
11, Seal Bustee 2nd Bye Lane, SHibpur, Howrah-711 102
Mobile : 9339258895
E-mail : fanwar.tvjournalist@gmail.com

*********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 832