donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mahmood Azeez
Title :
   Anokhe Log Chashme Kusha Waqeyat

انوکھے لوگ، چشم کشاواقعات


محمود عزیز


جواہر ریزوں سے سجی ایک انوکھی لائبریری کے خالق کا قصہ جسے لطف اللہ خان نے بنایا اور سجایا، انہی کی کتاب ــ’’تماشا اہل قلم‘‘سے تماشے کی چند باتیں جو اس لائبریری سے جڑی ہیں۔

خفیظ جا لندھر ی نے پیپر ویٹ اُ ٹھا کر سکندر مرزا کو کیوں دے مارا؟ صاحب کوئی مال دار شخص نہ تھے۔روزمرہ کے اخراجات غالباً وہ مشاعروں کی شرکت سے پورے کرتے تھے یا پھر تصانیف کی رائلٹی پر گزربسر ہوتی تھی۔ رائلٹی پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جو حفیظؔصاحب ہی سے متعلق ہے سن لیجیے! جب حفیظؔ صاحب سے میری راہ رسم بڑھی تو خیال آیا ان کی کہی ہوئی نعتوں کا ایک ایل۔ پی ریکارڈ تیار کرنا چاہیے۔ ایل پی ریکارڈ تیار ہوکر مارکیٹ میں آگیا مگر اس کا حشرجنگل میں مورکے ناچنے جیسا ہوا۔

ریکارڈ بنانے والی کمپنی نے اس کی تشہیر ہی نہیں کی تو بِکری کیا خاک ہوتی۔ اس واقعے کے دو ایک سال بعد ایک دن حفیظؔ صاحب چیک لہراتے ہوئے میرے گھر آئے، دور ہی سے بولے ’’خان جی‘‘ آپ کے دوست منصور بخاری (منیجنگ ڈائریکٹر، ای ایم آئی) نے مجھے نہال کردیا‘‘ میں فوراً سمجھ گیا یہ تعریفی جملہ ہو ہی نہیں سکتا۔ دراصل یہ چیک گراموفون کمپنی کی طرف سے بطور رائلٹی موصول ہوا تھا۔ رقم تھی کل ساڑھے چودہ روپے۔

حفیظؔصاحب کی ایک خوبی کا تذکرہ لطف اﷲخاں جس طرح بیان کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حفیظؔ صاحب کی یہ خوبی اُن کو مہنگی پڑی۔ وہ کیسے ان ہی کی زبانی سنیے: حفیظؔ صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ جہاں قدرشناسی کے فن سے وہ بخوبی آگاہ تھے وہاں تجارتی پہلو پیش نظر رکھنا انھیں اچھی طرح آتا تھا۔ بچپن سے لے کر آغازِجوانی تک انھیں دربدر کی خاک چھاننے سے زندگی کو عملی طور پر برتنے کا گُر ہاتھ آگیا تھا۔

جب ریکارڈنگ ختم ہوئی (حفیظؔ صاحب نے لطف اﷲخاں کی آڈیولائبریری کے لیے اپنی نظمیں، غزلیں اور چند گیت اور کچھ آئٹم ریکارڈ کروائے تھے) اور جانے کے لیے تیار ہوئے تو میری بیوی نے حفیظؔصاحب کا اخلاقی شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے پیار بھری نظروں سے زاہدہ کی طرف دیکھا اور مسکرا کے بولے۔ ’’بیٹی‘‘ آج میں نے آپ کے شوہر کی لائبریری کے لیے ڈھائی ہزار روپے کی ریکارڈنگ کروائی ہے۔‘‘

لطف اﷲصاحب نے حفیظ ؔصاحب کی زندگی کے اہم واقعات بھی ریکارڈ کرلیے تھے۔ لطف اﷲصاحب دو تین واقعات کی جزئیات کو محل نظر بھی سمجھتے ہیں۔ قومی ترانہ کے حوالے سے حفیظؔصاحب کا قصّہ لطف اﷲخاں صاحب کی زبانی سنیے۔ وہ کہتے ہیں کہ سردار عبدالرب نشترجو ترانہ کمیٹی کے پہلے صدر تھے جب وہ پنجاب کے گورنر ہوکر لاہور چلے گئے تو وفاقی وزیر پیرزادہ عبدالستار کو ترانہ کمیٹی کا صدر بنادیا گیا۔ پیرزادہ صاحب ہندوستانی علم موسیقی سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ عملی طور پر بھی شغف رکھتے تھے۔ دھن تو منظور ہوہی چکی تھی، اب اس پر الفاظ جڑنے کے کام پر توجہ ہونے لگی، یعنی گاڑی کو گھوڑے کے آگے جوتنے کا اہتمام ہونے لگا۔

شاعروں کو ترغیب دلانے کے لیے انعام واکرام مقرر کیے گئے۔ صرف شعرا ہی نہیں بلکہ اہلِ ذوق کو اذِن عام ہوا کہ بنی بنائی دھن میں فٹ ہونے والے الفاظ تجویز کریں۔ بیسیوں تخلیقات زیرغور آئیں۔ چھٹ چھٹا کر بالآخر دوشاعر مدمقابل آگئے۔ ایک تھے سیّدذوالفقار علی بخاری اور دوسرے ابوالاثر حفیظ جالندھری۔

بخاری صاحب نے جو ’’بندشیں‘‘ پیش کی تھیں، بقول حفیظ صاحب اس کے الفاظ کچھ ایسے تھے جو لسانی اعتبار سے دُھن پر پورے نہیں اُتررہے تھے یعنی انھیں توڑ مروڑ کر یاکھینچ تان کر فٹ کرنا پڑتا تھا۔ حفیظؔ صاحب نے ارکان کمیٹی کی توجہ اس سقم کی طرف دلائی۔ پیرزادہ صاحب کا جھکاؤ غالباً بخاری صاحب کے حق میں تھا۔ انھوں نے یہ لسانی سقم درخوراعتنا نہ سمجھا۔

حفیظؔ صاحب کب چپ رہنے والے تھے۔ بطور نمونہ خود پیرزادہ عبدالستار کا نام موڑ توڑ کر دُھن میں موزوں کیا اور ترنم سے سنادیا، جس سے نام کی صوتی شکل بہت مضحکہ خیز بن گئی۔ ظاہر ہے کہ پیرزادہ صاحب کو یہ مظاہرہ برا لگا۔ ایک تو وفاقی وزیر، دوسرے صدر ترانہ کمیٹی، طیش میں آنے والی بات تو تھی ہی، کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور آستینیں چڑھالیں۔ بولے ’’میں تمھارا منہ توڑ دوں گا۔‘‘ حفیظؔصاحب نے بھی تابڑتوڑ جواب دیا۔ ’’میں تمھارا دانت توڑ دوں گا۔‘‘ خیریت ہوئی کہ ممبروں نے بیچ بچاؤ کرایا ورنہ بات ہاتھاپائی تک پہنچ چکی تھی۔

لطف اﷲصاحب اس سلسلے میں مزید لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بخاری، جو قومی ترانے کے مقابلے میں حفیظ صاحب کے حریف تھے، کسی زمانے میں حفیظ صاحب سے اِصلاح لیا کرتے تھے۔ حفیظؔصاحب کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ ترانۂ پاکستان کے قضیے سے پہلے بھی آپس میں چشمک رہی تھی۔ مقابلہ ہوا تو کھل کر دونوں آمنے سامنے آگئے۔ بخاری صاحب کی ریشہ دوانیوں سے زِچ ہوکر حفیظؔ صاحب نے ایک جگہ یہ بیان ریکارڈ کرایا ’’سیّدذوالفقار بخاری میری ذہنی اولاد ہیں۔

یعنی ایک شعر کا مصرع انھوں نے لکھا اور دس شعر میں نے کہہ کر ان کی غزل پوری کردی، یہ زمانہ بھی رہا ہے، وہ انکار نہیں کرسکتے کیوںکہ میرے پاس ایسی چیزوں کا ریکارڈ رہتا ہے۔‘‘ حفیظؔصاحب نے اپنی مشہور غزل انہی حالات سے متاثر ہوکر کہی تھی۔ اس کا مطلع ہے ’’عرض ہنر بھی وجہ شکایات ہوگئی۔‘‘

حفیظؔصاحب کا ایک اور واقعہ ایفروایشین کانفرنس کے بارے میں ہے جو ۱۹۵۸ء کے دوران تاشقند میں ہوئی۔ اس کانفرنس میں حفیظؔاور فیضؔ صاحبان نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کے دوران چند اہم موضوعات پر گفتگوہوئی۔ جب فیض صاحب نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اپنے ’’مخصوص‘‘ خیالات کا برملا اظہار کیا تو حفیظؔصاحب نے بڑے تلخ لہجے میں کہا ’’مجھے خیال نہیں تھا کہ آپ پاکستان کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘

اس ریکارڈنگ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ روسی نمائندوں نے حفیظؔ صاحب کو اپنا ہم خیال وہم نوا بنانے کے عوض تیس لاکھ روپے کی پیش کش کی تھی (جسے قبول کرلینے کی فیض صاحب نے صلاح د ی تھی) حفیظؔصاحب نے یہ پیش کش ٹھکرا دی۔ یہ رویہ دیکھ کر روسی اہل کار حیران رہ گئے۔ سُنا ہے کہ اس سودے کے نتائج کی تصدیق اس خط سے ہوتی ہے جسے روس میں متعین پاکستانی سفیر نے وزیرخارجہ پاکستان کو بھیجا تھا۔ لکھا تھا ’’حفیظؔ نے وہ کام کیا ہے جو بارہ برس سے ہم نہیں کرسکے۔‘‘

ایک قصّہ اسکندر مرزا سے متعلق ہے جب کہ وہ محکمہ دفاع کے سیکریٹری تھے بقول لطف اﷲصاحب، ہوا یوں کہ حفیظؔ صاحب جو خود بھی محکمہ دفاع سے منسلک تھے، اسکندرمرزا کی پیشگی اجازت حاصل کیے بغیر وزیراعظم لیاقت علی خاں صاحب سے، جو وزیردفاع بھی تھے، مل آئے۔ ظاہر ہے یہ ملاقات ایک قومی شاعر اور وزیراعظم کے درمیان ہوئی تھی جو خالص ذاتی قسم کی تھی۔ اتفاقاً اسکندرمرزا بھی اسی وقت وزیراعظم کے استقبالی کمرے میں موجود، یہ کارروائی دیکھ رہے تھے۔

ایک بیوروکریٹ سے یہ ’’بے قاعدگی‘‘ بھلا کیسے دیکھی جاتی، دوسرے دن بلا بھیجا۔ یہ گئے تو آمد کی اطلاع پاکر اسکندرمرزا نے اپنے کمرے سے کرسیاں اُٹھوا دیں تاکہ حفیظؔ صاحب کو بیٹھنے کا موقع نہ دیا جائے۔ حفیظؔصاحب کی دُوربین نگاہوں نے معاملے کی نزاکت تاڑ لی اور ڈھٹائی سے فائلیں ہٹاکر میز کے ایک سرے پر بیٹھ گئے۔ یہ دیکھ کر اسکندر مرزا بے قابو ہوگئے۔ رُولر لے کر مارنے کے لیے اُٹھے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے غصّے کو عملی جامہ پہناتے حفیظؔصاحب نے میز سے اُتر کر… بہتر ہے بقیہ روداد انہی کی زبانی سنیے ’’اس نے کوئی چیز اُٹھانی چاہی۔

میں نے بڑھ کر پہلے تو پکڑا اس کا رولر اور آگے بڑھ کر میں نے ایک تھپڑاس کے منہ پر دیا۔ میں نے کہا، تم چاہتے تھے کہ میں تمھارے سامنے کھڑا ہوکر اپنی پتلون میں کانپوں‘‘ پھر انگریزی میں گویا ہوئے: ”You have selected a wrong man. I will not let you out from here unless I beat you for insult.”

اس کے بعد ’’میرے پاس پتھر پڑا ہوا تھا۔ پیپرویٹ میں نے اُٹھا کر زور سے مارا جو اس کی چھاتی پر پڑا۔‘‘ لطف اﷲخاں صاحب اپنی آڈیولائبریری کے بارے میں کہتے ہیں: ظاہر ہے کہ اس واحد اور مخصوص ریکارڈنگ سے نہ صرف سامعین کرام محظوظ ہوتے ہیں بلکہ ان جواہر ریزوں سے میری لائبریری کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 720