donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maqsood Hasni
Title :
   Mufarid Adeeb - Krishan Chander


منفرد ادیب۔۔۔۔۔۔۔ کرشن چندر


مقصود حسنی


نوٹ

یہ مضمون کرشن چندر کی موت پر لکھا گیا تھا اور لاہور کے ہفت روزہ  ممتاز میں شائع ہوا تھا۔ پرانے کاغوں میں سے ملا ہے۔  اس سے جہاں میرا اس عہد کا اسلوب تکلم سامنے آتا ہے وہاں اس سے  قلبی وابستگی بھی واضح ہوتی ہے۔

کرشن چندر مر گیا۔۔۔۔۔۔۔؟

نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں' یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔ وہ زندہ ہے اور تاابد زندہ رہے گا۔  وہ فن کار تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور فن کار کبھی نہیں مر سکتا۔۔۔۔۔۔ اگر فن کار مر جائے تو شبنمی ہوائیں ۔۔۔۔۔۔ آگ برسانے پر تل جآئیں۔ ۔۔۔۔۔ دریاؤں کی سبک خرامی۔۔۔۔۔۔۔۔ طوفان بلا کا روپ دھار لے۔۔۔۔۔۔ فن کے افق کی لازوال سرخیاں۔۔۔۔۔مٹ جائیں۔۔۔۔۔درد کے آنسو۔۔۔۔۔۔۔ فن کی دل فریب وادیاں......بہا لے جائیں۔۔۔۔۔۔ چندا کی اجلی اجلی نکھری نکھری دودھیا کرنیں۔۔۔۔۔۔ لہو آمیز ہو جائیں۔۔۔۔۔۔ درد کے سیاہ بادل ۔۔۔۔۔۔ سوچ کے آکاش پر پھیل جائیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ کچھ ہو۔۔۔۔۔ جس کے تصور سے بھی روح لرزہ بر اندام ہے۔

میں اسی کرشن چندر کی بات کر رہا ہوں جو افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔۔۔۔ ملنسار' ہم درد'  بردبار اور مستقل مزاج انسان بھی تھا۔ اس کی زندگی درد سے چلاتے انسانوں کو بھرپور تسلی وتشفی دیتے گزری۔۔۔۔۔۔ اس نے ادب کے گلشن میں۔۔۔۔۔ سچائی کا وہ بیج بویا ۔۔۔۔۔۔ جو آج تناور درخت کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ وہ حساس تھا۔ احساسیت کا مادہ اس میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اس کے فن میں درد کی آمیزش نمایاں ہے۔ بلا شبہ وہ فن کا دیوتا تھا۔ مجھے تسلیم ہے مرحوم نے ہندو کلچر کو نمایاں رکھا۔۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت کے باوجود وہ معلم تھا اور ہر قوم کے لیے اس کا فن ۔۔۔۔۔۔ خضر راہ سے کم نہیں۔۔۔۔۔ وہ دوستوں کا دوست ۔۔۔۔۔۔ اس کے حلقہء احباب میں کافی مسلمان بھی شامل تھے۔ ہر دوست سے اس کا رویہ مثبت قدروں کا حامل تھا۔

اس کے لکھے ہوئے افسانوں کے خدوخال اتنے قوی اور توانا ہیں کہ اس کے الفاظ  رنگوں کی طرح ابدی اور قوس قزح کی طرح غیرفانی ہو گیے ہیں۔ اس کا قلم گزری ہوئی کل اور گزرتی ہوئی آج کا سنگم ہی نہیں ہوا۔۔۔۔۔ بلکہ آنے والی کل ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا بھی ترجمان ہے۔ اس نے درد بھری اور سسکتی تنہائی کی ترجمانی کی ۔۔۔۔۔۔  ایسی تنہائی ۔۔۔۔۔۔۔ جس کے قدموں کی چاپ برسوں۔۔۔۔۔۔۔ روشن شہر کی پختہ سڑکوں پر راہی کا پیچھا بھی کرتی ہے۔ دیہات کے بچے جھونپڑوں کی گرد آلود تنہائی پر بھی اس کی بھرپور نظر تھی۔ اس تنہائی کا وہی ترجمان ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جس نے خود اس زہر کو چکھ کر دیکھا ہو اور جس کی روح شنکر کے جسم کی طرح نیلی پڑ چکی ہو۔۔۔۔۔۔۔ بہرکیف کرشن چندر کی روح اس سم الفار سے بخوبی واقف تھی۔ اس شناسائی نے ہی اسے جدا طرز فکر بخشا۔

کرشن۔۔۔۔۔ فن کے افق پر۔۔۔۔۔۔ ایسا سورج طلوع کر گیا جو تاابد۔۔۔۔۔۔ دکھ کی کرنیں بکھیرتا رہے گا۔۔۔۔۔۔ اور اہل فکر و نظر ۔۔۔۔۔۔ گہری سوچ کے ساحل پر ۔۔۔۔۔۔ کھڑے جائزہ کرتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔وہ اہل قلم کو نئی۔۔۔۔۔۔ نکھری نکھری ۔۔۔۔۔ اجلی اجلی۔۔۔۔۔۔صبح کا پیغام دے گیا۔ اس کے فنی چہرے سے۔۔۔۔۔۔ کئی قندیلیں روشن ہوئیں۔۔۔۔۔ یہ قندیلیں درد آمیز تنہائی کا۔۔۔۔۔۔ایک روز قلع قمع کر دیں گی اور اسے قرطاس فن کی سفید چادر پر نقش دوام کر دیں گی۔ 

یقین نہیں آتا کرشن مر گیا۔۔۔۔۔ 

آہ کیا کریں۔۔۔۔۔۔ حقیقت بہرطور حقیقت ہے' جسے تسلیم کیے بغیر چارہءکار نہیں۔حقائق سے کیوں کر منہ موڑیں۔۔۔۔۔ کاش وہ نہ مرتا۔۔۔۔۔ کچھ دیر تو اور ٹھہر جاتا۔۔۔۔۔ فن کو اس کی ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔ مگر وہ تو سفر کی خوشی میں اپنے احباب اور اہل خانہ کو فراموش کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔ میں ان سطور کے ذریعے ادارہ ممتاز' قارئین و قلم کاران ہفت روزہ ممتاز ۔۔۔۔۔۔ اور اپنی طرف سے پسماندگان سے بھرپور اظہار افسوس کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ خدا ان سب کو صبر جمیل عطا کرے اور مرحوم کی روح کو سکون بخشے۔۔۔۔۔آمین
مضون کا آخری جملہ

بلاشبہ کرشن اردو ادب کا انمول سرمایا تھے۔ فن کے ساتھ فن نواز ان فن کو سلام کہتے ہیں۔


کرشن چندر کے کردار

درشنا
کرشن چندر کی بہن کا کہنا ہے۔۔۔

انہوں نے کبھی کسی پر اپنی رائے تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ اسے روادری کہیے' شرافت کہیے وہ کسی پر اپنی رائے لادنا نہیں چاہتے ۔ وہ کسی کا دل توڑنا نہیں چاہتے نہ اسے نارض کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کرشن جی کے برتاؤ میں ایک گہرا تضاد ہے۔ انہیں گھر میں ایسی باتیں کرتے سنا جا سکتا ہے جن پر انہیں قطعی ایمان نہیں۔ وہ غلط اور صحیح کی شناخت کر لیتے ہیں لیکن اپنا فیصلہ اعلانیہ صادر نہیں کرتے۔ شاید یہ بزدلی یا رواداری یا شرافت انہیں پتاجی سے ملی تھی۔ ہمارے پتاجی بھی ایسے ہی تھے۔

فن کار جہاں معاشرتی ماحول اور حالات کا عکاس ہوتا ہے تو وہاں شخصی نفسیات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح اس کا فن پارہ اس کے ذاتی سوچ اور احساسات کی بھی ترجمانی کرتا ہے تاہم اس کے عملی رویے بھی اس کی تخلیق میں کارفرما رہتے ہیں۔ اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ فن کار اپنی تخلیق میں کہیں ناکہیں ضرور موجود ہوتا ہے۔

کرشن چندر اپنے کرداروں سے دور یا الگ تھلگ نہیں رہتے۔ جگہ جگہ انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تاہم کرنے کے حوالہ سے کردار آزاد ہوتے ہیں۔ ڈیپٹی نذیر احمد کی طرح وہ اپنے کرداروں کے کندھوں پر سوار نہیں ہوتے۔ ناہی ان کے قول و فعل پر کسی امر کی گرفت کرتے ہیں۔ جو قؤل یا فعل انہیں خوش نہیں آتا اگر ان کے افسانے کا کردار کرتا ہے تو وہ اس کی راہ میں دیوار کھڑی نہیں کرتے۔ ہاں کہیں ناکہیں کوئی اشارہ دے جاتے ہیں۔ تضاد فکروعمل کے باوجود اپنے کردار سے جدائی اختیار نہیں کرتے۔ یہ اپنی اصل میں انسان دوستی ہے۔ ان کی مسکراہٹ تعصب اور کسی ہٹ  سے بالاتر ہوتی ہے۔

وہ انسانوں سے پیار کرتے ہیں اور انسانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ گناہ کرتے ہیں اور گناہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔ کرشن چندر کے نزدیک انسان'  انسان ہے جو غلط بھی کرتا ہے اور صحیح بھی کرتا ہے۔ اس لیے اس کی غفلت اور کوتاہی پر نارضگی کیوں۔ یہ اصول اور طور روز اؤل سے چلا آتا ہے۔ گویا انسان' انسانوں کے درمیان ہی اچھا لگتا ہے۔  جوں ہی ان سے جدا ہوتا ہے یا کر دیا جاتا ہے اس کی انسانوں میں موت واقع ہو جاتی ہے۔

درشنا میں ان  کے یہ الفاظ ان کے نظریات کی کھلی عکاسی کرتے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا لوگ زندہ ہو کر زندگی کو بہتر بنانے کی بجائے زندگی سے مکتی پانے کی کیوں سوچتے ہیں۔ مکتی پا کر انہیں کیا مل جائے گا۔ نیکی و بدی' عذاب و ثواب' جزا و سزا کی دل کشی شخصیت سے اٹھ کر مکتی کے خلائی ماحول میں کیا مل جائے گا۔ جہاں کسی لذت کا وجود نہیں کسی گناہ کا ثبوت نہیں' کسی نیکی کی لطافت نہیں' کسی سزا کی ہلاکت نہیں' جہاں کسی تخلیق کا دور نہیں' کسی چاہت کی مسرت نہیں' کسی کاوش کا مجال نہیں' کسی ناکامی کا ملال نہیں۔ نہ جانے آدمی' آدمی ہو کر پتھر بن جانے کی خواہش کیوں کرتا ہے۔

اس پیرے کو ایک مرتبہ پھر پڑھیے' آپ پر کرشن جی کا باطن کھل کر سامنے آ جائے گا۔ وہ کوئی فوق الفطرت مخلوق بننے کی بجائے شخص رہنا پسند کرتے ہیں۔ کتنا حقیقی اور کھراپن پایا جاتا ہے' غور فرمائیں۔ وہ خوش دلی سے ہلاکت تک کو گلے لگاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ زندگی کا لازمہ و لوازمہ ہے۔ دھوپ کے چھاؤں اور چھاؤں کو دھوپ کے ساتھ ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ دھوپ سے گھبرا کر تیسرا رستہ آخر کیوں اختیار کیا جائے۔ تو کھلا فرار اور بز دلی ہے۔ یہ امر فطرت کے خلاف چلنے کے مترادف بھی ہے۔ زندگی کا کھراپن یہ ہی ہے کہ دونوں کے ساتھ قدم ملایا جائے۔

دھوپ میں رہ کر چھاؤں کا بندوبست ہونا چاہیے ورنہ ارتقائی سلسلے منجمد ہو کر رہ جائیں گے۔ جیسا کہ درشنا میں ہی ایک جگہ رقم طراز ہیں۔
آدمی' آدمی ہو کر پتھر بن جانے کی کوشش کیوں کرتا ہے۔
گویا منفی سلسلوں سے دوری'  ان سے انحراف یا کوئی تیسرا رستہ اختیار کرنا آدمیت سے کی سطح سے گرنا ہے۔ یہ عمل' آدمی سے پتھر بن جانے کے مترادف ہے۔

کرشن جی اپنے افسانوی کرداروں کے قریب رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ ان کے قول و فعل میں مداخلت کے سزاوار نہیں ہوتے۔ انہیں' ان کی ڈگر پر رواں دواں رہنے دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں گرفت کردار کی نشونما  میں بھاری پتھر ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح کردر کی مجوزہ فیلڈ میں صلاحتیں مسخ ہوتی ہیں۔ ہاں البتہ ان کے کہے اور کیے پر ان کی نظر رہتی ہے۔ اس حوالہ سے انہیں بالغ آبزرور  کہا جا سکتا ہے۔ 

شخصیت پر ۔۔۔۔۔ کلی یا جزوی۔۔۔۔۔۔ کنڑول کردار کے کیے یا کہے کوآلودہ کر دیتا ہے۔ جس سے بےترتیبی' بھونڈا پن اور اصیلت باقی نہیں رہتی۔ وہ کسی دوسرے دائرے کا مہرہ بن کر رہ جاتا ہے۔  دوسرے دائرے کا مہرہ بننے سے کسی مخصوص سمت کی طرف چلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس طرح اس کردار کی اپنی ذاتی حیثیت کا تجزیہ ناممکنات کی راہوں کا راہی ہو جاتا ہے۔ نتیجہءکار وہ مصنف کی ذاتی فکر کی آگ میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ کرداوں میں ذاتی صلاحیتیں ہوتی ہیں لیکن رجعت پسند مصنف انہیں پنپنے نہیں دیتا۔ کرداوں میں آفاقی بننے کی صلاحتیں ہوتی ہیں مگر مصنف کی دخل اندازی انہیں ہلاک کرکے دم لیتی ہے۔

بےشک  کرشن چندر اپنے کرداروں کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن کردار ان کے ہونے کے خوف سے بالاتر رہتے ہیں۔ انہیں جو کرنا یا کہنا ہوتا ہے کر یا کہہ جاتے ہیں۔ اس ذیل میں کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں کرتے۔  کردار جانتے ہیں کہ کرشن جی روٹھ نہیں جائیں گے اور ان پر کسی قسم کی گرفت نہیں کریں گے۔ ان کی طرف سے کوئی منفی فتوی بھی صادر نہیں ہو گا۔

 کرشن چندر کے فن کا یہ ہی کمال' انہیں اوروں پر انفرادیت بخشتا ہے۔ یہ لاتعلقی جس میں تعلق کی آمیزش ہوتی ہے کرداروں کو دوائمیت عطا کرتی ہے۔ درشنا اس کا زندہ ثبوت ہے۔ قاری اس کے کیے اور کہے میں دل چسپی محسوس کرتا ہے۔ اس کے دل میں درشنا کے لیے رحم اور محبت کے' ملے جلے جذبے جنم لیتے ہیں۔

 اگر کرشن چندر کرداروں کے کیے اور کہے میں ٹانگ زنی کرتے تو ان کے کردار مولوی' پنڈت' فرشتہ' شیطان یا پتھر ہوتے۔ قاری کو انہیں ملتے گھٹن محسوس ہوتی۔ اس طرح وہ ناکام افسانہ نگار ٹھہرتے۔ ڈیپٹی نذیر احمد کے میاں نصوح  یا شیخ الااسلام سے ملتے قاری اچھا محسوس نہیں کرتا۔ یہاں ان کا فلسفہءحیات ٹھہراؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان کے برعکس مرزاظاہردار بیگ' اکبری' کلیم' ہریالی وغیرہ میں زندگی کی توانائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ 
یہ کیا
ہر وقت ایک فلسفہ اور ایک رام کہانی۔ زندگی کوئی لگی بندھی چیز نہیں۔ یہ دریا کی طرح رواں دواں ہے۔ اس کے اندر ڈلفن کے ساتھ مگرمچھ بھی اقامت پذیر ہیں۔ 

کرشن چندر کے کردار ہر آن نئی کروٹ کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ ان سے اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی۔ ان کی شخصیت حالات کے تناظر میں بنتی اور بگڑتی ہے۔ خیالات تبدیل ہوتے ہیں۔ وسائل کا اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ یوں کہنا زیادہ بہتر لگتا ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ساتھ ہو کر بھی ان کے ساتھ نہیں ہوتے۔  کردار تعاون کا طلب گار ہوتا ہے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ٹال دیتے ہیں۔ نتیجہءکار کردار اپنی مرضی استعمال میں لاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ فعل ہی ان کے کرداروں کو جان دار اور قابل توجہ بناتا ہے۔ اس کا کیا اور کہا وقت کی شہادت ٹھہرتا ہے۔

اس حقیقت سے بہرطور انکار ممکن نہیں کہ کرشن چندر جہاں انسان دوست ہیں وہاں حقائق پسند بھی ہیں۔ وہ مروت اور انسان دوستی کے زیر اثر حقائق کو مجروع نہیں کرتے اور ناہی کسی کثافت سے آلودہ کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ کہ ان کے کردار کھراپن نہیں کھوتے۔ درشنا میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔

لندن کی پولیس کسی طرح ہمارے یا کسی دوسرے ملک کی پولیس سے مختلف نہیں ہے۔ اس دنیا میں کون سا قبہ خانہ ہے جو پولیس کی نگاہوں سے بچا ہوا ہے۔  پولیس کی مصلحت آمیز پالیسی کے بغیر اس طرح کا کاروبارکہیں بھی نہیں چل سکتا۔ 

ان چند جملوں میں کرشن چندر نے ایک طبقے کے کردار کو کھول دیا ہے۔ گویا

1- پولیس کا کردار ہر جگہ ایک ہے۔
2- برائی کے اڈوں سے پولیس آگاہ ہوتی ہے۔
3- برائی کا سبب ان کی مصلحت کیشی ہے۔ 
4- اگر پولیس چاہے تو برائی رک سکتی ہے۔

عملی طور پر دیکھیں کرشن چندر کے کہے میں کیا غلط ہے۔ اس پیرہ گراف سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ کرشن چندر سماج کے ہی نہیں سماج کے اداروں کے بھی بےلاگ نقاد بھی ہیں۔ کجی پر ان کی نظر جاتی ہے اور وہ اس کا بڑے ملیح انداز میں تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ یہ درست سہی کہ وہ بےضرر انسان ہیں لیکن ان کا سینہ احساسات اور جذبات سے تہی نہیں۔

وہ حسن سے متاثر ہوتا ہے اور اس امر کا اظہار مناسبتوں کے زیر اثر کرتا ہے۔ 

وہ ایسا زمانہ تھا جب مجھے لمبے قد کی چوڑی چکلی ہنس مکھ لڑکیاں پسند آتی تھیں۔ ایسی لڑکیاں جو مجھ سے تن و نوش میں کم سے کم دوگنی ہوں گی۔

یہ ہی نہیں اس کے سینے میں ارمان بھی پلتے ہیں۔ وہ ارمانوں کی تکمیل بھی چاہتا ہے تاہم حسب عادت کسی پر اپنی مرضی نہیں تھونپتا۔ 
ایک جگہ لکھتا ہے

کبھی اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھوں میں نہ رکھا تھا۔ کبھی اپنے سر کو میرے کندھے پر نہیں رکھا۔ وہ میرے  ساتھ کبھی سنیما نہیں گئی۔ کبھی اس نے مجھے اپنا ہاتھ تک چومنے نہیں دیا۔ کبھی اپنی کمر میں باہیں ڈالنے کی اجازت نہیں دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب درشنا نے ٹھکرایا تو چیخنا چلانا سامنے نہیں آیا۔ 

وہ اس کی زندگی سے ہی نکل جاتا ہے۔ جب وہ اس کی زندگی سے لاتعلق ہو جاتا ہے اور اسے کسی معاملے میں مجبور نہیں کرتا تو ہی درشنا کا کردار آگے بڑھتا ہے۔ درشنا اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لاتی ہے۔ اگر احتجاج ہوتا تو درشنا کے کردار کا ارتقائی عمل ٹھہراؤ کا شکار ہو جاتا۔ خواہش کا دائرہ وسیع تھا۔ درشنا جانتی تھی۔ لندن تو بڑی دور کی بات' اس کا باپ اسے لنڈی کوتل تک نہیں لے جا سکتا تھا۔  درشنا خواہش کی قیدی ہو کر رہ گئی اور محبت کے میدان میں ناکام رہی۔ اس کے برعکس افسانے کا ہیرو تجاوز نہیں کرتا نتیجتا بےراہ روی سے بچ جاتا ہے۔  

کرشن چندر کے کردار زندگی کے توازن اور عدم توازن کو واضح کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس حوالہ سے اسے کرداروں کے پینٹ کرنے میں ایکسپرٹ مانا جا سکتا ہے۔

1973

****************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 683