donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maulana Md. Ejaz Urfi Qasmi
Title :
   Professor Mohsin Usmani Nadvi

 


پروفیسر محسن عثمانی ندوی


 مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی

قومی صدر آل انڈیا تنظیم علماء حق دہلی

عصر حاضر کے نام ور اہل قلم پروفیسر محسن عثمانی ندوی کا نام اور کام علمی اور ادبی حلقوں میں چنداں محتاج تعارف نہیں۔ انھوں نے مدارس کی چہار دیواری میں رہ کر قال اللہ اور قال الرسول کے زمزمے بلند کیے اور جب اپنے کشکول کو علم و معرفت کی سوغات سے بھر کر وہاں سے نکلے تو اب عالمی عصری درس گاہوں میں دریائے علم و ہنر سے پوری نسل نو کو سیراب کر رہے ہیں۔ وہ مدرسے سے غم ناک ہوکر نہیں نکلے، بلکہ ان کے اندر محبت کی نرمی بھی تھی، معرفت کی روشنی بھی اور نگاہ کا سرمایہ بھی۔ وہ ہشت پہل شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ عالم بھی ہیں اور دانش ور بھی، کامیاب مدرس بھی ہیں اور باکمال صحافی بھی، خطیب بھی ہیں اور ادیب بھی، ان کے پاس علم و مطالعے کا وفور بھی ہے اور زبان و قلم کی سحر طراز طاقت بھی۔ وہ دینی علوم کے بحر ناپیدا کنار کے شناور بھی ہیں اور عصری علوم سے بھی مسلح ہیں۔ وہ قدیم صالح اور جدید نافع کی پیداوار ہیں۔دلیل کم نظری قصۂ قدیم و جدید،وہ جدید و قدیم علوم کا حسین سنگم ہیں۔انھیں عربی اور اردو ہی نہیں، بلکہ اس وقت کی عالمی رابطے کی زبان انگریزی پر بھی کامل دسترس حاصل ہے، اس لیے وہ مدارس و مکاتب اور عصری جامعات و کالجز،جس محفل اور جس مجلس میں جاتے ہیں، اپنے وسیع علم و مطالعے اور اپنی زبان دانی اور خدادادحاضر جوابی کے سبب بہت جلد محفل کے بام و در پر چھا جاتے ہیں۔ 

موصوف بسیار نویس بھی ہیں اور زود نویس بھی۔ اب تک ان کے قلم سے چالیس سے زائد کتابیں اور کتابچے نکل چکے ہیں۔ موصوف کے جہانِ موضوعات کی بھی کوئی تحدید نہیں۔ وہ قومی اور ملی مسائل کے ساتھ عالمی اور عصری مسائل پر بھی بھرپور انداز میں لکھتے ہیں۔ وہ اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کسی دائیں بائیں کی منطق یا کسی نام نہاد مصلحت کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ خود غرضی اور مطلب پرستی کے قابل نفریںمادے سے کوسوں دور ہیں۔و ہ ہر کسی کو آئینہ دکھانے کی مومنانہ جرأت رکھتے ہیں۔ ان کی یہی مجبوری ہے کہ وہ کبھی زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتے۔وہ مقامی اور قومی مسائل پر تو لکھتے ہی ہیں، تاہم کہنا چاہیے کہ ان کامیدان اختصاص عالمی امور ہیں۔ وہ عالمی معاملات خصوصا عالم عرب و عالم اسلام کے تعلیمی، سیاسی اور معاشرتی اسباب و مسائل اور اس کی تاریخ و تہذیب پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ہر ہفتے کسی نہ کسی روزنامے یا کسی ہفت روزہ یا ماہنامے میں ان کی کوئی دل چسپ اور سبق آموز تحریر پڑھنے کو ضرور ملتی ہے جس کا مرکز و محور عموماعالمی اور عربی حالات و معاملات ہی ہوتا ہے۔ 

وہ کتنا زیادہ لکھتے ہیں، اس کا اندازہ کرنے کے لیے بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ چند سال قبل مصر و تیونس اور لیبیا و بحرین میں عرب بہاریہ کے عنوان سے شروع ہونے والی ’تبدیلی‘ کے موضوع پر ان کے قلم سے کئی چھوٹے بڑے کتابچے منظر عام پر آچکے ہیں، جن میں انھوں نے حقائق و دلائل اور اعداد و شواہدکی روشنی میں نہ صرف وہاں کے سیاسی منظرنامے پر رونما ہونے والے روز مرہ کے حالات کا خوب صورت تحلیل و تجزیہ کیاہے، بلکہ ان حالات سے امت مسلمہ کو عقل کے ناخن لینے اور اس سے نصیحت انگیز کرنے کی مخلصانہ دعوت بھی دی ہے۔ موصوف آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی کی تصویر ہیں، اس لیے شام اور مصر کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات پر (میرے ناقص علم و مطالعے کے مطابق)پروفیسر موصوف ہندستان کے واحد ایسے مسلم اہل قلم ہیں، جنھوں نے اتنے بے لوث اور بے باک انداز میں وہاں کے حقیقی حالات کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ برادران یوسف کا کردار ادا کرنے والے اور مسلمانوں کی بد حالی پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے افراد تو سیم و زر کے لالچ میں وہاں کے حالات پر بھی ’سب کچھ ٹھیک ہے ‘ کی ملمع سازی اور تزئین کاری کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔ شام میں جس طرح مسلکی بنیاد پر ایک مخصوص فرقے کے افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، ان کی بہو بیٹیوں کی ردائے عزت و عصمت کو تار تار کیا گیا، ان کے مکانات اور دکانوں کو نذر آتش کیا گیا،ان کے بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا، ہندستان جیسے کثیر المذاہب اور کثیر المسالک ملک میں سب سے پہلے اگر کسی اہل قلم کو لکھنے اور بولنے کی توفیق ہوئی تو وہ یہی پروفیسر محسن عثمانی ندوی ہیں، جنھوں نے وہاں کے حقیقی حالات سے یہاں کے علما، سیاسی رہ نما اور با شعور طبقے کو آگاہ کیا اور انھیں یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر وقت رہتے ہوئے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی تو پانی سر سے اونچا ہوجائے گاور وہاں سے ان کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا۔ ہر گلی نکڑ پر واقع بڑے بڑے بینر والی ہماری مسلم تنظیمیں تو صرف ریزولوشن اور قرار دادپاس کرتی ہیں، اخبارات کو پریس ریلیز جاری کرتی ہیں، ان کے ذمے داران ٹی وی چینل پر جاکر اپنی تصویریں کھنچواتے ہیں، مگر وہ اپنی عادت بد کے ہاتھوں مجبور ہیں، ممبر و محراب پر چیخنے اور چلانے کو ہی ہر درد کی دوا تصور کر بیٹھے ہیں،وہ زمینی سطح پر کچھ نہیں کرتے، پروفیسر موصوف کسی صلے اور ستائش کی تمنا کیے بغیر مسلم امہ کے حقیقی مسائل پر بے باک انداز میں لکھتے اور بولتے ہیں۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔

حال ہی میں انھوں نے مصر میں اخوانیوں کے قتل عام اور جمہوری اعتبار سے منتخب مرسی حکومت کوفوج کے ذریعے بر طرف کردینے کے مسئلے پر جو کتابچہ لکھا ہے، وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ کس طرح دستوری حکومت کا تختہ الٹ کر فوج برسر اقتدار آگئی، اخوان کے سرکردہ رہ نماؤوں کو پس دیوار زنداں ڈال دیا گیا اور احتجاج اور مظاہرہ کرنے والے بے گناہ مصری عوام پررمضان کے مقدس مہینے میں اندھادھند گولیاں برسائی گئیں، جس کی مثال عربی اور اسلامی تاریخ میں ڈھنڈنے سے نہیں ملے گی۔عربی میں لکھنے والوں کی کمی نہیں، مگر اس اہم مسئلے پر جتنی تفصیل اور ہم دردی کے ساتھ انھوں نے اردو زبان میں یہ کتابچہ لکھا ہے، اس کی مثال دور حاضر میں عنقا ہے۔ وہ صرف شہرت و ناموری کے جذبے سے نہیں لکھتے، بلکہ قومی اور ملی ذمے داری اور انسانی ہم دردی کے جذبے سے سرشار ہوکر لکھتے ہیں، انھوں نے ’مصر میں اخوان کا قتل عام‘ نام کے کتابچے کے اخیر میں امت مسلمہ کو مستقبل کے بھیانک مسائل سے خبر دار کرتے ہوئے یہ لکھا ہے:

’’اس وقت عالم اسلام و شام و مصر میں جو خون ریزی اور خوں آشامی ہو رہی ہے وہ تاریخ اسلام کے اہم اور غم انگیز حادثات میں شمار کئے جانے کے لائق ہے۔ علماء کو یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اس کے لیے تو بخوشی راضی ہیں کہ مسلمان مسجدوں میں نماز پڑھیں اور خلوت خانوں میں عبادت کریں لیکن اس کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں کہ اسلام ایک سیاسی طاقت کے طور پر منظر عام پر آئے، اگر اس وقت مصر میں اخوان کا خاتمہ کردیا گیا اور سیاسی اسٹیج بے دینوں کے لیے خالی کردیا گیا تو پھر اس کے بعد تیونس اور ترکی کی باری ہے اور اس کا مطلب ہے دنیا سے اسلام کی سیاسی قوت کا مکمل خاتمہ۔‘‘

پروفیسر محسن عثمانی کا مابہ الامتیاز وصف ان کا درد مندانہ اسلوب اور ادبیت سے مملوطرز تحریر ہے۔ وہ سیاسی، تعلیمی، معاشی، اسلامی کسی بھی موضوع پر قلم اٹھائیں، شان دار ادبی تعبیرات، روز مرہ اور استعارات و محاورے ان کے ذہن کے ٹکسال سے ڈھل کر نوک قلم پر آتے رہتے ہیں۔اپنی زبان دانی کا رعب جمانے کے لیے یہ تعبیرات نادر اور قلیل الاستعمال نہیں ہوتی ہیں، بلکہ ایسی سہل اور عام کہ از دل خیزد اور بر دل ریزد کا کردارادا کرتی ہیں۔ خشک سے خشک موضوع میں بھی وہ اپنی ادبی صلاحیتوں سے کام لے کر اتنی ادبی چاشنی بھر دیتے ہیں کہ قاری ایک مرتبہ پڑھنا شروع کردے تو پھر ختم کیے بغیر اسے کسی کروٹ چین نہیں آتا۔ یہی کسی بھی اہل قلم کا جادو ہوتا ہے اور اس قسم کا جادو جگانے کے لیے زبان و ادب کے سرمایے سے ادبی تعبیرات اور شعرو شاعری کے اسلحہ سے کام لینا پڑتا ہے۔ان کی ہر تحریر اپنی گیرائی اور گہرائی کے اعتبار سے لائق اعتبار و استناد ہے۔ وہ غیر ضروری لفاظی اور خلل انگیز طوالت سے بھی کام نہیں لیتے، وہ گل دستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے اور اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کے چکر میں نہیں پڑتے،بلکہ مرتکز اور معنویت و مقصدیت سے معمور مضامین لکھتے ہیں۔ شاید اکبر الہ آ بادی کا یہ شعر ان کے سامنے رہتا ہوگا کہ

بحثیں فضول تھیں یہ کھلا دیر میں
افسوس عمر کٹ گئی لفظوں کے پھیر میں

 اقبال، عالب، فیض اور دوسرے مشہورکلاسیکی اور جدید شعرا کے سینکڑوں اشعار ان کی نوک زبان پر رہتے ہیں۔ جہاں مناسب موقع اور محل آیا، وہ شعر ان کے ذہن کے نہاں خانے سے نکل کر قرطاس پر ثبت ہوجاتا ہے۔ 

پروفیسر موصوف صرف تحریر و کتاب کی لائن سے ہی نہیں، بلکہ دوسرے سیاسی، سماجی اور تعلیمی پلیٹ فارم سے بھی امت مسلمہ کی خدمت کا منصبی ادا کر رہے ہیں، وہ کئی عصری اور اسلامی تنظیموں اور اداروں کے ممبر و رکن ہیں۔ ان کے پاس اعزازات اور مناصب کی بھی کمی نہیں۔ عربی زبان و ادب کی خدمت کے لیے انھیں باوقار صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ لیکن وہ صرف اس کو اپنی منزل مقصود نہیں سمجھتے کہ یہ راہ ہے منزل نہیں ہے۔ اصل مناصب کا حصول نہیں، بلکہ وہ کام ہے جو اس کے پلیٹ فارم سے انجام دیا جاتا ہے۔ وہ اسی فلسفے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسی لیے اللہ نے انھیں عند الناس بے پناہ محبوبیت و مقبولیت سے بھی نوازا ہے ۔ ان کی مقبولیت کا دائرہ بھی ان کے کارہائے علم و ادب کی طرح وسیع ہے۔ وہ سارے طبقوں میں عزت اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔بلکہ وہ مختلف الفکر طبقات کے نزدیک متفق علیہ شخصیت  کہے جاسکتے ہیں۔اور شہرت و ناموری کے ہفت اقلیم وہ طے کر چکے ہیں۔

ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

راقم الحروف نے یہ بے ساختہ جملے تعریف و توصیف کے لیے نہیں، بلکہ اس احساس کے ساتھ لکھے ہیں کہ ہم لوگ بھی ان کے کام سے سبق لیں، امت مسلمہ کے مسائل کے تدارک کے لیے بقدر استطاعت کوشش کریں، ورنہ اگر اس امت کا شیرازہ بکھر گیا، تو پھر روز قیامت خدا ہم سے بھی باز پرس کرے گا۔ میں دعاء گو ہوں کہ پروفیسر موصوف کا قلم یوں ہی رواں رہے، تاکہ ہمیں عبرت و موعظت کا سامان میسر آتا رہے۔ اللہ ان کے قلم میں روانی اور طاقت بھر دے۔

ایں دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین آباد

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 680