donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Afzal Khan
Title :
   Qaiser Shamim

بر صغیر کے معروف وبزرگ شاعر ’’قیصرؔ شمیم‘‘
 
محمد افضل خان
 
مغربی بنگال کی تاریخ میں تاجدار اودھ حضرت واجد علی شاہ اخترؔکو فنکار کی حیثیت سے قارئین کوبھلانا مشکل ہوگا کیونکہ وہ اعلیٰ پائے کے نثر نگار اور شاعر تھے،جو حمد،نعت،مرثیہ،سلام،نظمیں اور غزلیں کہنے میں مہارت رکھتے تھے اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ عربی ،فارسی اور اردو زبان  پربھی یکساں قدرت رکھتے تھے۔اسلامی تاریخ کی روشنی میں ایک دلچسپ شعر پیش خدمت ہے:
 
شاعروں سے مری زینت ہے خدا شاہد ہے
میںاُمّی ہوں مگر ہیں وہ سخن داں میرے
 
بادشاہوں اور راجاؤں نے بھی شاعری جیسی صنف کوصرف اپنایا ہی نہیںبلکہ اس فن میں اپنے آپ کو پیرو دیااور اپنے شاہی محلوں میں پابندی کے ساتھ نسشتیں اور مشاعرے کا اہتمام شاندار طریقے سے کیا کرتے تھے جس کا ثبوت یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت کے کئی بادشاہ ، شہزادیاں ،شعراء اور شاعرات تھیں۔جہاں تک اردو زبان وادب کی بات ہے تو اس کے حوالے سے فورٹ ویلیم کالج کا کارنامہ ہند وپاک میں ہی نہیں بلکہ پوری اردو دنیا میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔اس قافلہ کے میرِکارواں جان گلگرسٹ نے جدید اردو نثر نگاری کی داغ بیل ڈالی۔فارسی واردوکے مستند شعراء وادباء کو جمع کرکے ،اردو ادب کو زبردست فروغ دیکر اس کو وقار بخشا ،جو رہتی دنیا تک یاد رکھاجائے گا۔اس سرزمین سے اردو کا پہلا اخبار ’’جام جہاں نما‘‘۱۸۲۲؁ء میں شائع ہوا۔مغربی بنگال کی سرزمین اردو زبان وادب کے لئے زرخیز مانی جاتی ہے صنف لطیف میں شاعری ایک سخت اور مشقت آمیز صنف سخن ہے (یا یوں کہہ لیجئے کہ شاعری کرنا چاند پر جانے کے برابر ہے۔مثال کے طور پر ایک چاند پر جانے والے کے حوالے سے یہ آزمائشی سطریریں  ملاحظہ ہوں:
 
’’خلا میں جانے والے پہلے انسان یوری گیگرین کو اس کام کے لئے منتخب ہونے سے پہلے کڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا تھامثلاً انہیں ایک ایسے کمرے میںبٹھا دیا جاتا جہا ںلاؤڈ اسپیکر سے بہت تیز شور کیا جاتا تھا اور تربیت پانے والے خلا نوردوں کو انتہائی مشکل ریاضی کے سوال دئے جاتے تھے۔اسی طرح ایک ارتعائشی لنگاVibration Stang کے ذریعہ جسم کو ایسے جھنجھوڑا جاتا تھا کہ تربیت پانے والوں کو یوں لگتا تھا جیسے جسم کے اندر کے تمام اعضاء باہر نکل آئیںگے لیکن گیگرین کے پرواز کے بعد اس طریقے پر روک لگا دی گئی۔‘‘
 
خیر!فن شاعری خداداد ہے یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں چاہے دنیا کا بہت بڑا ڈاکٹر یا سائنٹسٹ ہو ،اس فن کو نبھانا ان حضرات کے بس کی بات نہیں ۔ یہ عمل دیوانگی سے کم نہیں ۔اس میں اپنے آپ کو مٹانا پڑتا ہے تب جاکر فن شاعری نصیب ہوتی ہے۔جہاں تک مغربی بنگال کی شاعری سے تعلق کے تذکرے کا معاملہ ہے تو یہاں ہر دور میں ایک نہ ایک آفتاب و مہتاب افق شعر وسخن پر نمودار ہوتے رہے۔بنگال کے ادب و زبان کا ایک ایسا ستارہ جس کا نام ’’قیصر شمیم‘‘ ہے،انکا ایک شعر ملاحظہ کریں:
ہوا  تھی  تیز  تو  فانوس  میرے  ہاتھوں  کا
تمہاری   شمع   کی  لو  کو  سنبھالتا  ہی  رہا
تمہیدی گفتگو عرض کرتا چلوں کہ بنگال کی سرزمین پربڑی بڑی اور عظیم المرتبت ہستیاں پیدا ہوئیں اور یہاں تعلیمی میعار کا بھی فائدہ اٹھایا جو مختلف شعبۂ حیات پر مشتمل ہے۔ان حضرات میں قاضی نذرلاسلامؔ،سروجنی نائڈو،بنکم چندر چٹرجی،سرت چندر چٹرجی،سنیل گنگوپادھیائے اور موجودہ دور میں مہا شویتا دیوی،کبیرسمن،بھارتی مکھرجی وغیرہ ،سائنسی ستاروں میںجگدیش چندر بوس،میگھناتھ ساہا اور نوبل انعام یافتہ گان میں رابندر ناتھ ٹیگور(1913)،سی وی رمن(1970)،امرتیہ سین(1998)وغیرہ نے اعزازات حاصل کرکے بنگال کا نام روشن کیا۔تعلیمی میدان میں کلکتہ یونیور سٹی کے پروفیسر سنتی کمار چٹرجی لسانیات کے ماہر ۳۸۰ کتابوں کے مصنف گزرے ہیں اور انہوں نے اردو زبان کو آریائی زبان قرار دیا۔اس یونیورسیٹی سے ممتاز سائنسداں،مجاہدیں آزادی،ماہریں،دانشوران،شعراء اوبائ،ماہر تعلیم اور فنکار بھی مستفیض ہوئے۔ ڈاکٹر راجندر پرساد،سرو پلی رادھا کرشنن اور حامد انصاری جو موجودہ نائب صدر ہندہیں کلکتہ یونیورسیٹی سے تعلیمی ڈگریاں حاصل کیںاور اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔اسکے علاوہ اس یونیور سیٹی کے پہلے وائس چانسلر ولیم کول ویل جو ۱۸۵۷؁ء سے ۱۸۵۹؁ء تک خدمات انجام دئے اور اس کے کافی عرصہ بعد دو مسلم وائس چانسلر جن میں حسین شہید سہروردی ۱۹۳۰؁ء سے ۱۹۳۴؁ء اور دوسرے محمد عزیزالحق ۱۹۳۸؁ء سے ۱۹۴۲؁ء تک کلکتہ یونیورسیٹی کے وائس چانسلرز کے عہدے پر فائز رہے۔ان کے علاوہ سیاسی میدان میں مجاہدین آزادی سبھاس چندر بوس،محسن قدوائی،سدھارت شنکر رائے،بنگال میں کمیونزم کے بانی مظفر احمد، جیوتی باسو،موجودہ صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی اور وزیر اعلیٰ مغربی بنگال مس ممتا بنرجی کے نام قابل ذکر ہیں۔تعلیمی میدان میں ودیا ساگر،راجہ رام موہن رائے،مدھوسودن دتہ،زینب حمیداللہ،ہمایوں کبیر،دمبنی گانگولی،چندر مکھی باسو،تاریخ کے ماہرغلام مرتضیٰ،جسیم الدین ،ایم جے اکبروغیرہ اہم ہیں۔
 
اردو شعراء ادباء میںعبد الغفور، وحشتؔ کلکتوی،عباس علی خاں بیخودؔ،پرویزؔشاہدی،آرزوؔ لکھنوی،ناطق ؔلکھنوی،سالکؔ لکھنوی،ظفرؔ اوگانوی،علامہ جمیل ؔمظہری،ابراہیم ہوشؔ،غواص ؔقریشی،اعزازافضلؔ،علقمہ شبلیؔ،ناظمؔ سلطان پوری،رونقؔ نعیم،کیف الاثر،شانتی رنجن بھٹا چاریہ،ڈاکٹر جاوید نہال وغیرہ کے نام قابل ِذکر ہیں۔
 
قیصر شمیم نے کلکتہ یونیورسیٹی سے ایم اے اردو فرسٹ کلاس ۱۹۶۴؁ء میں پاس کیا اور کچھ برسوں بعد کلکتہ یونیور سیٹی میں ہی گیسٹ لیکچرار شعبۂ اردو میں مقرر ہوئے اور اپریل ۱۹۸۹؁ء تا مارچ ۲۰۰۱؁ء تعلیمی خدمات انجام دیتے رہے۔انکی ادبی خدمات کے اعتراف میں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔اسکے علاوہ نائب چیرمین کی حیثیت سے مغربی بنگال اردو اکاڈمی مئی ۲۰۰۲؁ء تا اگست ۲۰۰۵؁ء کے عہدہ پرفائز رہے اور مغربی بنگال کا قدیم ادارہ رائٹرس ایسو سی ایشن ہوڑہ کو ۱۶؍دسمبر ۱۹۶۶؁ء قائم کیا اور ابتک ایک موسس کی حیثیت سے اس کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔بر صغیر کے معروف اور بزرگ شاعروں میں انکا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔غالبؔ پر قیصر شمیم کی ایک رباعی ملاحظہ ہو:
دیوانے رہے دشت و دمن پر غالبؔ
بلبل بھی رہے اپنے چمن پر  غالبؔ
لیکن تھی عجب شان کہ فکر و  فن  میں
غالب ؔ ہی رہاشعر و سخن  پر  غالبؔ
اسعداللہ خاں غالبؔ پر قیصر شمیم کی رباعی کس درجہ زبان وفن کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کا اندازہ اہل فن خوب لگا سکتے ہیں۔غالبؔ جیسے عظیم شاعر کے متعلق انکے یہ تاثرات کسی پختہ صلاحیت اور بالغ نظری کی دلیل ہے جس سے کوئی انکا ر نہیں کر سکتا۔قیصر شمیم اردو کے مایہ ناز ادیب،مصنف، جدید علوم سے آشنا ،محقق،ناقد، مترجم،صحافی،قوم وملت کے لئے مشعل راہ،فن شاعری کے ماہر،انگریزی، بنگلہ،ہندی،فارسی اوراردو زبانوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔فن کے حوالے سے ایک شعر پیش خدمت ہے:
لکھے  تو کون  لکھے  داستان  دریا  کی
کہ اس میں خون کسی دشت کا بھی بہتا ہے
 
قیصر شمیم صاحب جون ولیم کیٹس اور میرتقی میرؔ کی عشقیہ شاعری کے پیروکار ہیں جس کی مثالیں آپ آئندہ سطروں میں پڑھیں گے یعنی رومانی شاعری،طرزاحساس ،حسن وجمال کی تعریف وتوصیف،فطری کیفیات،عاشق ومعشوق کے جذباتی رشتے،حالات حاضرہ پر کڑی نگاہ،اسکے علاوہ انکی علمیت ،فنی گرفت اور فکر ونظر کی بلندی کا احساس ہوتا ہے۔ان کا یہ شعر دیکھیں:
 
عاشقوں کی شناخت ہے کچھ اور
نسل  کی  ہے نہ وہ  نسب کی  ہے
یقیں پہ میرے گماں سایہ ڈالتا ہی رہا
مگر  میں  ایک سمندر کھنگالتا  ہی رہا
 
موصوف اپنی شاعری میں اسلاف کی روایت اور کلاسکی شاعری کو آگے بڑھانے کا عمل جاری رکھتے ہوئے حیات وکائنات کا بغور مطالعہ کیا ہے۔مغربی بنگال کی سرسبزوشاداب زمین علامہ رضا علی وحشتؔ،علامہ جمیلؔ مظہری،پروفیسر عباس علی خان بیخودؔ،سالکؔ لکھنوی،پرویزؔ شاہدی،اعزاز افضلؔ،علقمہ شبلیؔ جیسے شاعروں کا مسکن رہا ہے۔قیصر شمیم ایک ذہین اور حساس فنکار کی حیثیت سے موجودہ زمانے کے ماحول اور معاشرے کا احاطہ کرتے ہیں۔انکے لہجے میں فکر کی وابستگی اور جمالیات کاایک حسین و خوشگوار سنگم نظر آتاہے۔اسکے علاوہ عوام کے سلگتے مسائل بھی جگہ جگہ نمایاںنظر آتے ہیں۔مثال کے طور پر ’’زمین چیختی ہے‘‘کا بند ملاحظہ ہو:
 
زمین چیختی ہے
کہ اس کا بدن کیوں
برہنہ کیا جا رہا ہے
ہرے رنگ کا اس کا لہنگا‘
جو لہرا رہا تھا،
کہاں اس کے تانے؟
کہاں اس کے بانے؟
 
کہیں کچھ سلامت نہیں رہ گیا ہے۔ (مطبوعہ ماہنامہ’ ’ایوانِ اردو‘‘ ص۱۴؍)
 
قیصر شمیم کی اس نظم میں افغانستان،عراق، ترکی،فلسطین،شام،دمشق،لبنان،چیچینیاو دیگر مسلم ممالک کی دلدوز داستان کی عکاسی ہے۔اس سلسلے میں امریکہ کے شیطانی منصوبوں کے تناظر میں یہ نظم خون کی ہولی کھیلنے والے کے لئے تلخ وار اور سبق آموز نصیحتیں دیتی ہیں۔مسلم ممالک کو للکارا اور انکے اندر احساس بیداری پیدا کرکے اسکے اندر روح پھونکنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ زمین چیختی ہے اور دنیا میں ہر طرف دہشت گردی کا ماحول بنا ہوا ہے ہر جگہ زمین خون سے لال ہوکر چیختی ہوئی نظر آرہی ہے آخر کب تک یہ معاملہ چلتا رہے گااور خانہ جنگی چلتی رہے گی۔بڑی طاقتوں نے مسلم ممالک کو آپس میں جمہوریت کے نام پر لڑانے کا کام کیا ہے۔دانشوروں کا ماننا ہے کہ پوری دنیا میں دہشت کا ماحول بنانے میں یہودیوں کی ایک بڑی چال ہے جو دنیا میں نسل کشی کا منظر دکھا رہا ہے اس لیے زمین ہر طرف چیختی ہوئی نظر آرہی ہے اور اسکی وجہ سے زمین کا رنگ لہو سے لہولہان ہو چکاہے۔در اصل یہی شاعر بھی کہنا چاہتا ہے اس نظم میں موصوف اپنی تخلیق کے ذریعہ آواز بلند کی ہے۔
 
بات ہورہی تھی رومانی شاعری کے حوالے سے تو موصوف مختلف اصناف سخن کے شاعر ہیں۔جیسے حمد،نعت،منقبت،غزلیں،نظمیں،گیت، رباعیات،دوہے،ماہئے،ہائکواور دیگر اصناف سخن پر مکمل قدرت اور قادرالکلام شاعر ہیں،ان کے فن میں تہذیبی فکر کا روایتی پس منظر اور جدید غزل میںتیکھے لہجے کا استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں،موصوف ترقی پسند تحریک کے پیروکار ہیں،یہ تحریک ہند وپاک کی نئی نسل کے شاعروں اور ادیبوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔قیصر شمیم کے فن میں کیٹس اور میر تقی میرؔ کے نظریے واثرات نظر آتے ہیں۔رومانی شاعری میں کیٹس کا مقام دنیائے ادب میں نمایاں ہے ایکParagraphکیٹس کے حوالے سے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے:
 
’’رومانی شعراء کی دوسری نسل میں کیٹس اپنی جواں مردی  اور ذاتی زندگی کی محرومیوں کے باوجود اپنے ذوقِ جمال اور صلاحیت شعری کے اعتبار سے ایک خاص مقام پر نظر آتا ہے۔باقاعدہ تعلیم سے بہرہ یاب نہ ہونے کے باوجود اس نے اپنی جبلّی قوتوں کے زور سے حسن اور حقیقت دونوں کا عرفان حاصل کر لیااور یونانی اساطیر اور قدیم فنون میں استعداد کے ذریعہ اپنی شاعری میں رنگ بھرتا رہا۔انگریزی شاعروں میں کیٹس نے اسپنسرؔ،چمپیئنؔ اور ملٹن ؔسے خاص طور پر سیکھا مگر معاصرین میں وہ ورڈ سورتھ کا قائل تھا اور ہنٹ کا مقلد۔اس کے نزدیک شاعری کا مواد حیات وکائنات کے مطالعہ میں حسن وخیر کے ساتھ قبح وشر سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں محض ذہنی پرواز نہیں بلکہ بیانیہ اور ڈرامائی شاعری کے عناصر بھی گھلے ملے ہیں۔کیٹس کی شاعری کے متعلق ایک بات اور قابل غور ہے کہ وہ بنیادی طور پر احتساسی(Sensuous) ذہن وشعور کا مالک تھا۔اسکی شاعری مجرد تصوّرات سے بہت بڑی حد تک خالی نظر آتی ہے۔وہ کسی نظریہ کو بغیر اس کی خصوصیات اور پیکر نگاری کے نہیں پیش کرتا۔اس بناء پر اس کے فن میں فکر وتامل کی بجائے مشاہدہ اور مطالعہ کا زیادہ دخل ہے۔
 
کیٹس کی شاعری میں جذبہ و احساس کی شدت بھی ہے اور فراوانی بھی مگر اس کی احتساسیت شیلیؔ کی ماورائیت پر اضافہ ہے۔اس نے زمین اور اسکی مادی حقیقتوں اور جسمانی کیفیتوں سے کبھی تجاہل نہیں برتا اور اس کے یہاں ہر قسم کے احساسات صورت ،رنگ وآہنگ کے روپ میں نمایاں ہیں۔اپنی اسی ’’ارضیت‘‘کی بناء پر کیٹسؔ ذہنی طور پر شیلیؔ اور بائرن ؔکا ہمنوا ہونے کے باوجود ان سے الگ ہے۔بائرنؔ باوجود اپنی تمام بائرنیت کے مسیحیت کے اثر سے بے نیاز نہیں رہ سکا۔شیلیؔ اپنے کفر والحاد کے ساتھ ایک ماورائی قوت پر ایمان رکھتا تھا لیکن کیٹس مذہب حسن تھا۔اس کا خیال ہے کہ عام انسان کی طرح سچّے شاعر کو دھرتی اور اس کی خوبصورتی کا راگ گانا چاہئے۔ ‘‘(حوالہ:انگریزی ادب کی مختصر تاریخ،ص: ۱۷۶)
 
کیٹس کی رومانی شاعری کا تذکرہ قیصر شمیم کے لہجے میں محسوس کریں۔ نظم ’تاج محل‘ کا ایک بند ملاحظہ ہو:
 
پڑا رہتا ہوں تیرے سامنے
پھلے ہوئے سبزے یہ یوں،جیسے
کسی دن شہر سے نکل کر
کیٹس سبزہ زار میں لئے
کھلے آکاش کے نیچے
کتاب عشق پڑھتا،یا کسی بلبل کا نغمہ سنتا رہتا
اور ٹکڑے بادلوں کے آتے جاتے دیکھ کر
مسرور ہوتا ہے (مطبوعہ: ماہنامہ ’بزم سہارا‘ اگست ۲۰۰۷؁ء ص: ۶۵)
 
قیصر شمیم نے یہ لافانی نظم اس وقت لکھی جب پوری دنیا میں سات عجائب کا انتخاب چل رہا تھا۔دنیا کے سات عجوبوں میں جب لیزبن ۷؍جولائی ۲۰۰۷؁ء بوقت رات ۱۲؍ بجے ہندوستانی وقت کے مطابق ایس،ایم،ایس کے ذریعہ ووٹ کیا گیا،دنیا کے مختلف ٹی وی چینلوں کے ذریعہ نشرکیا جا رہا تھا جو دنیا کے سات عجائب میں ایک عجوبہ اول تاج محل کو چنا گیا۔
 
خیر اس نظم میں موصوف نے حسین یادگار ،عشق کی داستان،ساہکار محل،محبت کا پیغام،بلبل کی چہچاہٹ اور عاشق و معشوق کا تذکرہ اس محل پر دستک کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔اس نظم میں شاعر کیٹس کا بھی بڑی خوبصورتی سے ذکر کیا ۔ شہر سے نکل کر محل کی سرزمین پر ہری گھاس لیٹے کھلے آسمان کے نیچے بادلوں کے آنے جانے کی منظر کشی بڑی خوبصورتی سے پیش کرتا ہوا شاعر اس میں ڈوب جاتا ہے۔یہ لافانی شئے،افسانوی انداز بیان،موصوف کے مزاج میں داخل ہوکر صفحۂ قرطاس پر ابھرتا ہے۔
 
موصوف کی شاعری کے حوالے سے کلکتے کے معروف افسانہ نگارشبیر احمد لکھتے ہیں:’’ان کے اشعار میں انگریزی شاعری کی بھی نمایا ںجھلک ملتی ہے۔مثال کے طور پر ان کی نظم ’’یہ گوشۂ تنہائی‘‘ پڑھتے وقت لاشعوری طور پر ہمارا ذہن William Wordsworthکی مشہور نظم The Daffodilsکی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔اسی طرح انکی نظم’’تمہاری یاد آتی ہے‘‘Thomas Hoodکی نظم I Remember I Rememberکی یاد دلا دیتی ہے۔ان کی نظم’’تنہائی‘‘،’’پرازرپائن کی واپسی‘‘وغیرہ انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر کی غمازی کرتی ہے۔انکی نظم ’’مجھے دکھ ہے‘‘ پڑھئے تو فوراً نظروں کے سامنے John Keatsکی مشہور شہرہ آفاق نظم Ode to a Nightingleپھرنے لگتی ہے۔ان کا یہ شعر :
زندگی کا  کوئی  موسم ہو  بدل ہی  جائے گا
میں پنپ سکتا ہوں،مٹی میں دبا تو دے مجھے
اور P.B.Shelleyکی معروف نظمOde the West Windکی یہ سطور ملاحظہ کریں:
hou
Who chariotest to their dark wintry bed
The Winged seeds, where they lie cold and low,
Each like a corpse within its grave, until
Thin azure sister of the Spring shall blow
Her clarion o're the dreaming earth,and fill
(Driving sweet buds like flocks to feed in air)
With living hues and odour plain and hill.
 
ان کے گیت ان کی ہندی دانی کی دلیل ہے۔اس کے علاوہ ’’آگھات‘‘،’’کب تک نیر بہائے کوئی‘‘،’’ہائے یہ آگ بجھائے کون؟‘‘وغیرہ ایسی نظمیں ہیںجن کے پڑھنے سے ایک ہندی گوئی کی چھبی ابھرکر ہمارے سامنے آنے لگتی ہے:
مایا کا بندھن ہے پرانا،من من میں ہے لوبھ کا روگ
اس لوبھی سنسار میں رہ کر،تیاگ کا راگ سنائے کون؟ 
                                                                 (ہائے یہ آگ بجھائے کون)
اس طرح اشتراکیت کی بو قلمونی انسانیت کے جذبے سے سرشار؛فارسی،ہندی،بنگلہ اور انگریزی زبان وادب سے سیراب سادہ لوح،بلند فکر،قیصر شمیم اردو زبان و ادب کا ایک سرچشمہ ہیں۔ایسا سرچشمہ جو بنگال کے سیکڑوں شاعروں اور ادیبوں کی آبیاری کرتا رہا ہے،اور جس نے بنگال کے اردو ادب کو ایسی شادابی بخشی ہے کہ مستقبل قریب میں اس سرزمین سے اردو کے نئے نئے پودے اگنے اور ان سے بے شمار کونپلیں پھوٹنے کی امیدیں کی جا سکتی ہیں۔ایسی کثیرالجہات شخصیت اور فقید المثال انسان آج کل نایاب ہے۔ان کا احترام ہم پر لازم ہے:
مری آہ پر نہ دو دھیان تم،نہیں اس کا کوئی گلہ،مگر
مرا درد جس کا ہے مستحق،  وہی احترام تو دو کبھی (حوالہ:دستخط، قیصر شمیم نمبر،اکتوبر ۲۰۰۵؁ء صفحہ نمبر۳۰۴؍۳۰۵)
 
افسانہ نگار شبیر احمد نے قیصر شمیم کی عشقیہ شاعری کو Protectسے تعبیر کیا ہے اور مثال پیش کرکے انکو اور معتبر بنا یا ہے جو قارئین کے لئے آسانی پیدا کر دی کہ موصوف کیٹس ؔکی پیروکاری میں ہیں ،جدیدیت سے دلی لگاؤ ہے۔انکی شاعری کیٹس ؔکی رومانی شاعری رومانی شاعری سے ملتی ہے،جو باعث افتخار ہے۔
 
مغربی بنگال کے بزرگ شاعر جو نہ صرف ایک مشفق،مستند،قادرالکلام استادشاعر ہیںبلکہ ایک نیک طینت،خلیق،بامروت اورمخلص انسان بھی ہیں۔ ان کی شاعرانہ عظمت اورشائستہ مزاجی کا زمانہ معترف ہے۔بر صغیر میں قیصر شمیم کی حیثیت اپنے آپ میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتی ہے۔ان کی سرپرستی میں شاعروں اور ادیبوں کا قافلہ میدان شعر وسخن میں رواں دواں ہے۔وہ آج بھی سیکڑوں شعراء وادباء کی تخلیقات کو اپنے قلم سے ایک نئی زندگی عطا کر رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ مغربی بنگال میں چار عظیم شعراء کے نام کافی اہمیت کے حامل ہیں۔پہلا نام علامہ رضا علی وحشتؔ،دوسرا حضرت شاکرؔ کلکتوی،تیسرا غواص ؔقریشی اور چوتھا قیصرؔ شمیم،جن کے سیکڑوں تلامذہ بنگال اور بیرون بنگال اندازاً سو سے زائد جن میں شعرائ،ادباء اورشاعرات شامل ہیں۔جن کا تعلق شاعری،دراما،افسانہ،ناول،سیروسیاحت،تنقیدوتحقیق،انشائیہ،طنزومزاح یاادب کی کسی اور صنف سے ہے۔یہ تمام حضرات اردو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔قیصر شمیم کی ادبی خدمات کو اہل زمانہ کبھی بھلا نہیں سکتے۔ موصوف کا یہ خوبصورت شعر دیکھیں:
ہمارے جسموں کو موجیں نگل گئیں قیصرؔ
کہ ساعتوں کا سمندر بڑے جلال میں تھا
شاعرایک گہرے سمندر کی مانند ہے جس میں فکر واحساسات کے ساتھ شاعر جتنی بار غوطے لگاتا ہے اتنی ہی بار نادر ونایاب موتی نکال کر لاتا ہے اور پھر اسے زمانے کے سامنے پیش کرتا ہے۔اپنے اردو کے گہرے سمندر میں نہ جانے کتنے ادب نوازوں کو غرق ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ در اصل شاعر جو دیکھتا ہے اسے اپنے اشعار میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسکے لئے وسیع مطالعہ اور بالغ ذہن کی ضرورت پڑتی ہے۔بہت سارے ادباء ناقدین کا خیال ہے کہ قیصر شمیم کی شاعری میں فلسفیانہ لہجہ صاف طور پر نظر آتا ہے جو شعری وصوتی نظام کو قائم دائم رکھتا ہے۔اپنے شعری لہجے کے ذریعہ وہ اپنے ہم عصروں سے آگے نکل جاتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ کریں:
میرا مذہب عشق کا مذہب،جس میں کوئی تفریق نہیں
میرے حلقے میںآتے ہیں، تلسیؔ بھی اورجامیؔ بھی
ہر ساعت  کا  اپنا  چہرہ،  ہر  لمحے  کا  اپنا  رنگ
شام وسحر کے ’’جادو گھر‘‘ میں ڈھونڈرہے ہو کیسا رنگ
میں اپنے  گوشے میں  تنہا تڑپ رہا ہوں مگر
عجب  طرح  کا ہے  جمِّ غفیر میرے ساتھ
سفر کے زخم بدن پر ہیں اور کچھ بھی نہیں
ہوا کی زد میں  یہ برگِ شجر کہاں  کا ہے
دعوت  عیش بہر سمت  زیادہ  ہے  میاں
آج کس خیمے میں جانے کا ارادہ ہے میاں
 
ملک کے نامور شاعرو ادیب مظہرؔ امام کے مقالے کے چند جملے پیش خدمت ہیں،ملاحظہ ہو:
’’قیصرشمیم کے یہاں خیال کی تازگی بھی ہے،اسلوب کی نادر کاری بھی۔انگریزی ،ہندی اور بنگلہ ادبیات پر انکی گہری نگاہ ہے اور ان زبانوں کی اعلیٰ ادبی اقدار سے انہوں نے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔انہوں نے غزلیں،نظمیں،گیت سب ہی لکھے ہیں۔ گیتوں میں ایک خاص سوچ اور نرمی ہے۔انہیں مغربی بنگال کا واحد گیت کار سمجھنا چاہئے۔زندگی کی ناکامیوں کے باوجود ان کے اشعار میں رجائیت ہے اور حالات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ ہے‘‘
بتا کہ میرے لئے تیرا کیا حکم ہوگا
کوئی سزا بھی اگر میرا سر جھکا نہ سکے
قیصرشمیم کا پہلا مجموعہ کلام’’ساعتوں کا سمندر‘‘۱۹۷۱؁ء میں اردو اور ہندی دونوں رسم الخط میں شائع ہوا تھا۔مجموعہ مختصر تھا لیکن اس نے اہل نظر کو اپنی طرف متوجہ کیا اور مجموعے کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔موقر ادبی جریدوں نے بڑے حوصلہ افزا تبصرے شائع کئے۔
 
قیصر شمیم غزل کے ہی نہیں،نظموں کے بھی بہت اچھے شاعر ہیں۔’’ساعتوں کا سمندر‘‘میں شامل ان کی نظمیں ’’آئینہ آب،تاش کے پتے،اسپ تازی شدہ مجروح،امکانات کا قتل‘‘مجھے ہمیشہ سے پسند ہیں۔اپنی ایک نظم’’بتیسویں پہاڑ کٹنے کے بعد‘‘میں وہ کہتے ہیں:
لیکن وہ آرزو،وہ طرح دار آرزو
بتیسویں پہاڑ کے کٹنے کے بعد ہی
گھبرا کے پوچھتی ہے کہ کیا آگے جاؤگے؟
کیا دوسرے پہاڑ پہ تیشہ چلاؤگے؟
کب تک سیہ پہاڑوں سے پنجہ لڑاؤگے؟
فرہاد کا یہ فرض کہاں تک نبھاؤگے؟
جس نہر کی تلاش ہے،وہ نہر پاؤگے؟
ان ناگہاں سوالوں پہ پل بھر رکا ہوں میں
پھرمسکرا کے تیشہ لیے چل پڑا ہوں میں
قیصرشمیم تیشہ بدست آج بھی فرہاد کا فرض نبھا رہے ہیں،کامیابی یا ناکامی کے انجام سے بے پرواہ۔ قیصرشمیم کی غزلوں کے اشعار کی تازہ کاری ان کے اپنے تجربے،مشاہدے اور احساس کی پروردہ ہے۔وہ انسانی زندگی کے رمز آشنااور انسانی تجربات کے مزاج شناس ہیں۔طرزِاظہار میں وہ زبان وبیان کی لطافت،شستگی اور دل آشنائی کا پورا خیال رکھتے ہیں:
سامنا   سرد   ہوا   کا    ہوگا
دھوپ اوڑھے ہوئے چلنا ہوگا
ناؤ  ٹوٹی ہے  تو  تختہ لے لے
راہ  میں  پھر  کوئی  دریا  ہوگا
زندگی  ا ن  دنو ں  کیا ہے  قیصرؔ
جھیلنے    والا    سمجھتا     ہوگا
اب تقریباً (۲۷) سال کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ ’’سانس کی دھار‘‘ شائع ہوا ہے۔یہ وقفہ بہت طویل ہے،اور شاعر جب تک ادبی منظر نامے پر مستقل اپنے وجود کا ثبوت نہ دیتا رہے ،اس کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے۔یہ مجموعہ ۱۹۵۱ئ؁ سے ۱۹۹۶ئ؁ تک یعنی چھیالیس(۴۶) سال کی سو(۱۰۰) غزلوں پر مشتمل ہے۔گیتوں اور نظموں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔قیصر شمیم سوچ سمجھ کر شعر کہتے ہیں۔کمیت سے زیادہ کیفیت کے قائل ہیں۔اس لیے ان کا شعری سرمایہ جو ہم تک پہونچا ہے،بہت زیادہ مفید نہیں ہے مگر جو ہے وہ منتخب ہے اور ان کی تعیینِ قدر کے لیے کافی ہے۔
 
مغربی بنگال میں جدید رنگ ِسخن اختیار کرنے والوں میں قیصر شمیم کو اولیّت حاصل ہے۔انہوں نے بنگال کی نئی نسل کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ انکی تربیت میں بھی اپنا خون جگر صرف کیا ہے۔‘‘ (دستخط،قیصر شمیم نمبر،اکتوبر ۲۰۰۵؁ء صفحہ ۱۷۰؍۱۷۱)
 
مظہر امام نے اپنی ذاتی رائے پیش کرکے انکی فنی صلاحیت کا بھی اعتراف کیا۔ اس لئے فنکار کسی شعبے کا ہواس کی تخلیق عمل و فن میںظاہر ہوتی ہے تو اسکا اعتراف زمانہ کرتا ہے۔
 
آئیے اب دوسرا حوالہ دیکھیں،اردو کے معروف نقاد ڈاکٹر ارتضیٰ کریم اپنے مضمون میں غزلوں کا مجموعہ’’سانس کی دھار‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
 
’’مجھ جیسے بے بضاعت شخص کے لئے’’سانس کی دھار‘‘کا مطالعہ اپنے ہم عصر سے بے تکلف شناسائی اور ’’فردیت‘‘ کو ’’اجتماعیت‘‘ سے روشناسی مزید قرب بخشتا ہے۔قیصر شمیم ایک کہنہ مشق اور سلجھے ہوئے شاعر ہیں،مزاجاً میرؔ سے نسبت ہے مگر فکری اعتبار سے جدید تر ہیں۔چنانچہ میں ان کے اس شعر کے پہلے مصرعے سے خود کوبہت زیادہ متفق نہیں پاتا۔
بدلا  ہوا لہجہ  ہے، نہ تقریر نئی  ہے
پھر بھی تری ہر بات میں تاثیر نئی ہے
حقیقت یہ ہے کہ’’سانس کی دھار‘‘کے شاعر کا شعری لہجہ بھی بدلا ہوا ہے اور تقریر کی لذت اتنی نئی ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ جو اس نے کہا،میں نے سمجھا یہ ہمارے دل میں ہے۔نت نئی ترقیات اور انسانی دماغ کے نام پر ہم کیاکچھ کر رہے ہیں،لیکن سچائی یہ ہے کہ ہم سب قیصرشمیم کے ہم زباںیوں ہیں کہ:
 
لہلہانا  چاہتی ہیں  زندگی کی کھیتیاں
آسماں کو چوم،لیکن آگ کا بادل نہ بن
لیکن ساتھ ہی وہ یہ تاکید بھی کرتے ہیں کہ :
دوب ہو جیسی بھی،پامال ہوا کرتی ہے
نرم  رکھوگے  طبیعت  تو  سزا پاؤگے
قیصر شمیم کے اشعار کو پڑھتے ہوئے مجھے انکے یہاں تین اہم نکتے نظر آئے،انہیں ہم تثلیث کا نام بھی دے سکتے ہیں اور یہ تثلیث تشکیل پاتی ہے استفسار،استعجاب اوراستقلال سے۔۔۔۔۔۔اورجب کہیں کہیں اس میں اضطراب کی کیفیت شامل ہوتی ہے تو وہ دور ِجدید کے میر تقی میرؔنظر آنے لگتے ہیں۔کہتے ہیں:
رات  دن  کلیات  میرؔنہ دیکھ
وقت کو دیکھ،دل کے تیر نہ  دیکھ
یا یہ شعر دیکھیے:
میں جانتا ہوں کہ ان کا مزاج کیا ہے،مگر
کبھی کبھی نظر آتے میر ؔ، میر ے سا تھ
در اصل قیصر شمیم نے جس قلندرانہ شان کے ساتھ اور خوددار انسان کے طور پر اپنی زندگی کے شب وروز گزارے ہیں ۔۔۔۔۔انسان اور سماج کے جسم پر  ٹوٹتے ہوئے مظالم اور متواتر مظالم کو دیکھااور حساس شاعر کی حیثیت سے محسوس بھی کیاہے۔۔۔۔۔۔اس پر وہ کبھی اپنے آپ سے استفسار کرتے ہیں،کبھی سماجی نظام کے نام نہاد ٹھیکے داروں سے۔۔۔۔۔۔اور پھر انہیں اس دنیا اور کائنات کے رواں دواں ہونے پر حیرت بھی ہوتی ہے کہ آخر اتنی گھٹن،اتنی اُمس،اتنی ناانصافی کے باوجود ،ہم اسے بدلنے کی کوشش میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے،گویا زندگی انکے نزدیک:
ایک مجبور کی پیشانی  ہے
اور خاکِ کف پا ہے اس کی
لیکن ان صعوبتوں کو بڑے استقلال سے جھیلنے پر آمادہ ہیںاس لیے کہ نظام ِحیات اور طرزِ حیات کچھ اس نوعیت کی ہے کہ ایک حساس انسان کے لیے محسوسات کے کچوکے کھانا ہی اسکا مقدر بن چکا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ :
ابھی توکاٹ رہی ہے ہر ایک سانس کی دھار
اجل جب آئے تو  دیکھوں کہ انتہا کیا ہے
یہاں میرؔ کا یہ شعر جانے کیوں یاد آتا ہے:
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں  ناکامیوں  سے کام لیا
در اصل قیصر شمیم کے تیر کے سے لہجے یا شعری مزاج کی تربیت یا انتخاب ان کے ارادے سے زیادہ ان کی طبیعت اور افتاد کو دخل ہے۔‘‘ (دستخط،قیصر شمیم نمبر اکتوبر ۲۰۰۵ئ؁)
موصوف کو ارتضیٰ کریم صاحب نے میرؔ کا پیروکار بتایا ہے۔عشقیہ غزل میں انکا کلام کہیں کہیں میر تقی میرؔ نظر آئے اور اپنی فنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مختلف قلم کاروں کی آراء میں صاحب فن وفکر قیصرشمیم ایک کامیاب ادیب شاعر کی حیثیت سے دنیائے ادب میں ایک نمایاںمقام حاصل کر چکے ہیں اور بر صغیر میں ان کی فنکارانہ صلاحیت کا جادو چل پڑا ہے۔
تاعمر ترے چاہنے والوں میں رہوں گا
مجنوں کی طرح میں بھی مثالوں میں رہوں گا
قیصر شمیم اپنی شاعری میں نئے انداز سے عاشق ومعشوق کے اسرار پر مکالمے بڑے خوبصورت انداز میں نظم کرتے ہیں جس سے قاری اور سامع اس سے لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔ انکا یہ لطف انداز بیان نوح کا اپنا خاص رنگ طریقہ اظہار خیالات،منتخب الفاظ،لمبے چوڑے مضامین کو نہایت ہی سہل ،مختصر اور روز مرّہ کی بول چال کی زبان میںبہ حسن وخوبی پیش کرنے کا فن خوب آتا ہے جو کلام میں مہاوروں کی بندش،زبان کی فصاحت،بیان کی سلاست،شگفتگی،اعلیٰ سے اعلیٰ جذبات اور پیچیدہ سے پیچیدہ خیالات کا اظہارصداقت اور جسارت کے ساتھ تمام مرحلے اور کیفیات کے ساتھ ذکر کرنا انکے لہجے کی خصوصیت ہے اور یہ انکا اپنا انداز بیان بھی۔
 
ان کے کلام میں کہیں میر تقی میرؔکارنگ تو کہیں علامہ اقبال کا رنگ وآہنگ تو کہیں علامہ رضا علی وحشتؔکے ملے جلے اثرات نظر آتے ہیں کیونکہ وہ پروفیسر عباس علی خاںبیخودؔکے تلامذہ میں شامل ہیں اور پروفیسر صاحب علامہ رضا علی وحشتؔ کے شاگرد تھے۔
 
قیصر شمیم بر صغیر اور بیسویں صدی کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیںجنکا شعری لہجہ جدت پسند فطرت کے مطابق ہر رنگ میں شعر کہنے پر قدرت حاصل ہے۔شاعرانہ انداز بیان کے ساتھ ساتھ میرؔ کے رنگ کا بانکپن بھی ملاحظہ کریں:
نام سے اپنے شہنشاہ تھا قیصر لیکن
ہم نے جب دیکھا تو وہ شخص قلندر ہی لگا
اب نہیں جاتی کسی کے حسن باطن پر نظر
آنکھ والوں میںبھی وہ پہلی سی بینائی نہیں
یاد سے تیری پوچھ رہا ہے شیدائی تنہائی میں
دور نہیں جب کوئی کھلونادل کیوں اس سے بہلتا ہے
وہ پھول نہیں ہوں تو جسے پھینک دے لیکر
خوشبو کی طرح میں تیرے بالوں میں رہوں گا
آؤ یارو پل بھر بیٹھو کس کو خبر ہے کل کیا ہو
کچھ تودل کی باتیں کر لوکس کو خبر ہے کل کیا ہو
آنکھیں تھیں بندہونٹ کھلے بال منتشر
غفلت کی تیری نیند سزا دے گئی مجھے
ملک کے نامور محقق نقاد شاعر علی احمد فاطمی اردو غزل کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ غزل ہر دور میں انسانی ذہن کی رنگا رنگی بوالعجبی اور اخلاقیت کے طرح طرح کے نمونے اور جلوے پیش کرتی رہی ہے اور ان سب کے ذریعہ کبھی اپنی سابقہ تعریف کو تقویت پہونچاتی رہی ہے اور اکثر ان کو رد بھی کرتی رہی۔بہر حال وقت کے حساب سے ان کی تعریف وتنقید ہوتی رہی ہے۔عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ شاعری خودرو پودے کی طرح پھوٹتی ہے۔کیٹس نے کہا تھا کہ شاعری پتوں اور پھولوں کی طرح نہیںاُگتی تو وہ بیکار ہوتی ہے۔بائرن اسے لاوے کی تشبیہہ دی ہے کہ وہ خود بخود اندر سے پھوٹتا ہے۔غالب نے اس بات کو شاعرانہ انداز میں یوں کہا:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
اردو کی نئی غزل کا کوئی بھی جائزہ غزل کی صنفی نزاکتوں اور زندگی کی سفاک حقیقتوں کے درمیان ہی لیا جا سکتا ہے اور غزل جہاں اپنی لطافتوں و نزاکتوں کی وجہ سے مقبول خاص وعام ہوتی ہے وہیں اس کی محدودیت اور مشروطیت سے متعلق اس پر تنگ دامانی اور گردن زدنی کے الزامات بھی لگاتے گئے حالانکہ اردو غزل نے اپنی پہلی ہی منزل پر اپنے وآپ کو حسن وعشق کے دائرے سے نکال کر صوفیانہ وحکیمانہ خیال سے مالامال کیا۔میرؔ،سوداؔ،دردؔوغیرہ کی شاعری اس طرح کے خیالات سے بھری پڑی ہے۔غالب نے آگے بڑھ کر فلسفۂ حیات اورس اس کے مختلف افکار سے دامن مالا مال کیا۔ (جدید غزل نمبر۔جمنائٹ،صفحہ،۲۲؍)
 
ان نقادوں کے حوالہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ غزل گوشعراء نے زندگی وسماجی واقعات،سانحات،عشق ومحبت اور دنیا میں ہونے والی داخلی وخارجی پالیسیوں کی خبر لیتا ہے اور اپنے فن سے سارے مراحل طے کر لیتا ہے۔غزل کے شاعر اپنے الفاظ میں مختلف موضوعات پر بیان کرنے کی طاقت اور ہمت رکھتا ہے ۔آیئے اسی بات کو موصوف کے اشعار میں دیکھیں:
 
نادانوں پہ کھلتے ہیں اسرارِزندگی
تیری نظر تو گم تیری دانائیوں میں ہے
بے غسل نہیں اٹھتی کوئی میّتِ حسرت
قسمت سے مجھے چشم ہی غسّالہ ملی ہے
کوئی ہم خیال قیصرؔہومری طرح تو سیکھے 
رہِ خاص بھول جانا،رہِ عام یاد رکھنا
جنگ آزادی کے بعد غزل گو شعراء کی غزل میں رجحان وجدیدیت نمایاں طور پر دیکھنے کو ملی اور اردو شعراء میں ہندی،فارسی اورانگریزی کے الفاظ اس طرح صنفِ غزل میں پیوست ہوئے کہ لگتا ہے کہ فکری عمل دخل ہے۔قیصر شمیم کی شاعری میں بھی اس طرح کے ملے جلے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔موصوف کی شاعری میں قومی یکجہتی کا استعارہ،جدیدیت کا احساس،غزل میں نئے زاوئیے کی تلاش،کلاسکی رکھ رکھاؤاور اشعار میں نئی منزلوں کی تلاش جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسکے علاوہ انکی غزلوں اور نظموں میں نئے طریقے اور اثرات نئی نسل کے لیے ایک مثال ِراہ ہے۔
 
MD.AFZAL KHAN
76/4 SRI NATH POREL LANE
HOWRAH-711101 (W.B.)
MOB: 9231615201
E-mail: mdafzalkhan7@gmail.com
*********************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1249