donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Wasi Siddiqui
Title :
   Maulana Shibli Aik Nazar Mein

 

 مولانا شبلی ایک نظر میں

(یوِم ولادت کے موقع پر خصوصی پیشکش)

 

مرتب۔ محمد وصی صدیقی

مولانا شبلی قدیم و جدید عہد کے ایسے سنگم تھے جس میں دونوں دریاؤں کے دھارے آ کر مل گئے تھے،۔ وہ ہمارے قدیم مذہبی علوم کے عالم بھی تھے اور جدید علوم کے بہت سے آراء و خیالات سے بخوبی واقف بھی تھے۔ساتھ ہی محقق بھی تھے، مؤرخ بھی تھے، متکلم بھی تھے، مفکر بھی تھے ، مصلح بھی تھے اور شاعر بھی تھے ۔ ماہرِ تعلیم بھی تھے اور نئے زمانے کے تقاضے اور مطالعے کے مقابلے میں بہت سی باتوں میں انقلابی بھی تھے۔

مولانا کی پیدائش یو پی کے مشرقی ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں بندیل میں ۱۸۵۷ء کے ایک ایسے دن ہوئی جبکہ اعظم گڑھ کے لوگ اپنی پہلی جنگ آزادی کے سلسلے میں ضلع کے جیل کے پھاٹک کو توڑ کر بہت سے قیدیوں کو نکال لے گئے ۔ ان کے جد اعلیٰ شیخ کریم الدین گورکھپور کے محکمہ بندوبست میں ملازم تھے جنھوں نے اپنی ذاتی آمدنی بڑھا کر حسام الدین پور نام کا ایک علاقہ خریدا جس میں بارہ گاؤں تھے۔ اس کی وجہ سے خاندان میں خوشحالی رہی۔مولانا کے دادااعظم گڑھ کلکٹر ی میں مختار تھے ۔ان کے والد شیخ حبیب ا للہ اعظم گڑھ کے چوٹی کے وکیل تھے۔ ان کو فارسی پر بڑا عبور تھا ۔ فارسی زبان و ادب کا ذوق مولانا کو اپنے والد سے ہی ملا تھا جو آگے چل کر بہت اعلیٰ ہو گیا تھا۔ مولانا کے خاندان میں خوش حالی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم بھی تھی۔ان کے والد جناب حبیب اللہ کے اپنی پہلی زوجہ سے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔مولانا سب سے بڑے تھے۔ ان سے چھوٹے محمد اسحاق الہٰ باد ہائی کورٹ میں بہت کامیاب وکیل تھے۔ان سے چھوٹے مہدی حسن نے بی ۔اے۔تک انگلستان میں تعلیم پانے کے بعد وہاں سے بیرسٹری کی سند حاصل کی اور سب سے چھوٹے بھائی محمد جنید منصفی کے عہدے پر فائز ہو کر آخر میں سب جج ہو گئے تھے۔

مولانا کا نام شبلی رکھا گیا جس کے معنی شیر کا بچہ ہے ۔ آگے چل کر ان کے نام کے آگے نعمانی ان کے استاد مولانا فاروق چریا کوٹی نے بڑھا دیا تھا۔ یہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کی طرف نسبت تھی۔ مولانا کے والد بزرگوار نے اپنے اور بیٹوں کو تو انگریزی تعلیم دلوائی مگر مولانا کوعربی فارسی تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ پھراعظم گڑھ جا کر ایک عربی مدرسہ میں داخل ہوئے۔ کچھ دنوں جون پور کے مدرسہ حنفیہ جا کر تعلیم حاصل کی مگر ان کے اصلی استادمولانا محمد فاروق چریا کوٹی تھے جو تمام علوم مثلاً ادب، نظم، نثر، منطق اور معقولات کے بہت بڑے عالم تھے۔ ان کی شاگردی اور صحبت میں مولانا شبلی کا جوہر خوب چمکا۔ اس کے بعد مولانا نے رام پور جا کر ارشاد حسین سے فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی پھر دیوبند جا کر علم فرائض سیکھا۔ پھر لاہور جا کر وہاں کے اورینٹل کالج کے پروفیسر مولانا فیض الحسن سے عربی ادب کا درس لیا۔ ان کی صحبت میں عربی میں مولانا کا ذوق حد کمال کو پہونچ گیا۔قرآن پاک کی فصاحت و بلاغت کی نکتہ شناسی ان سے ہی سیکھی۔


مولانا ۱۹ برس کی عمر میں اپنے استاد مولانااحمد علی محدث سہارن پوری کے ساتھ۱۸۷۶ء میں حج کے لئے روانہ ہوئے۔ حج سے واپسی کے بعد اپنے والد کے اصرار پر وکالت کا بھی امتحان دیا۔ اسی دوران انھوں نے فارسی اور اردو میں غزلیں کہنا شروع کیں۔ اس شعرو شاعری میں ان کو اپنے استاد مولانا محمد فاروق چریا کوٹی سے بہت مدد ملی۔ ترنم سے پڑھنے کا ذوق انھوں نے اپنے استاد محترم سے ہی پایا تھا۔مولانا کے والد بزرگوار ان کو وکیل بنانا چاہتے تھے مگر ان کو یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ اس کے لئے موزوں نہیں ۔ پھر بھی مولانا نے بستی جا کر وکالت بھی کی مگر ان کا وہاں جی نہیں لگا۔۱۸۸۱ء میں وہ اپنے والد کے ساتھ اپنے بھائی مہدی حسن سے ملنے علی گڑھ گئے جو وہاں زیر تعلیم تھے۔ مولانا سر سید کی مدح میں عربی میں ایک قصیدہ لکھ کر ساتھ لے گئے تھے۔ قصیدہ میں سر سید کی مدح ضرور تھی مگر مبالغہ آرائی نہ تھی۔ یہ بات سر سید کو پسند آ گئی۔


اسی کے ڈیڑھ سال بعد ایم او کالج میں مشرقی زبانوں کے ایک معلم کی ضرورت ہوئی تو سرسید کی نظر انتخاب ان پر پڑی جہاں پہونچ کر وہ ترقی کر کے عربی کے پروفیسر ہو گئے اور قرآن پاک اور دینیات کی تعلیم بھی دینے لگے۔ مولانا کا علمی اور تدریسی وزن بڑھتا گیا تو سر سید احمد خان بھی ان سے قریب تر ہوتے گئے۔ پہلے شہر میں رہتے تھے سر سید نے اپنے پاس ایک بنگلہ میں ان کی رہائش کا انتظام کیا تاکہ روزانہ ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اردو کے مشہور ناول نگار مولوی عبد الحلیم شرر اس زمانہ میں علی گڑھ آ تے تو مولانا ہی کے یہاں قیام کرتے۔

مولانا ۱۸۸۳ء میں اپنے وطن اعظم گڑھ گئے تو اسی سال یہاں نیشنل اسکول نام کا انگریزی تعلیم کے لئے ایک اسکول کھولا۔جو بعد مین ترقی کر کے پوسٹ گریجو یٹ کالج بن گیا۔ مولانا نے قدیم تعلیم پائی تھی اس کے با وجود وہ انگریزی تعلیم کو بہت ضروری سمجھتے تھے۔ اور عربی مدارس میں بھی انگریزی پڑھانے کے کوشاں رہتے تھے۔

۱۸۸۹ء میں مولانا کا ایک معرکۃ الآرا مضمون الجزیہ کے عنوان سے شائع ہوا۔ عام طور سے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اسلام اس کا موجد ہے اور یہ ایک جبری ٹیکس تھا جس سے بچنے کے لئے اسلام قبو ل کر لیا جاتا تھا اور یہ جبراً مسلمان کرنے کا ایک قوی ذریعہ تھا۔ مولانا نے ان باتوں کی پر زور تردید کی اور ثابت کیا کہ اس کے معنی خراج کے ہیں اس کا موجد نو شیرواں تھا۔ اس نے یہ ٹیکس اس لئے مقرر کیا تھا کہ اہل فوج اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ملک کے محافظ ہوتے ہیں اس لئے لوگوں کی آمدنی سے ان کے لئے ایک رقم مقررکی گئی کہ ان کی محنتوں کا معاوضہ ہو۔ مسلمانوں نے جب غیر مسلموں کے علاقے فتح کئے تو نو شیرواں کے جزیہ کو اس لئے اپنایا کہ اسلامی حکومت میں ہر مسلمان فوجی خدمت کے لئے مجبور کیا جاتا تھا لیکن غیر مسلموں کو فوجی خدمت کرنے کا اسلام کو کوئی حق نہیں تھا مگر ان کو محفوظ رکھنا اسلامی حکومت کا فرض تھا اس لئے یہ قاعدہ بنایا گیا کہ وہ اپنی محافظت کے لئے کوئی معاوضہ دیں۔اس کا نام اسلام میں جزیہ تھا۔ اگر کسی موقع پر غیر مسلم فوج میں شریک ہونا گورا کر لیتے تو وہ اس جزیہ سے بری کر دئے جاتے تھے۔ اس طرح یہ کوئی جبری ٹیکس نہیں تھا۔ اس کے محققانہ دلائل کا انگریزی میں ترجمہ کر کے زیادہ سے زیادہ حلقوں میں پہونچایا گیا۔ اس سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہندوؤں کو جزیہ سے متعلق جو غلط فہمی تھی وہ بڑی حد تک دور ہو گئی۔

۱۸۹۱ء میں سر سید احمد خان حیدرآباد علی گڑھ کالج کے لئے مالی امداد حاصل کرنے گئے تو ان کے وفد میں مولانا شبلی بھی شامل رہے۔ اس تقریب میں میر محبوب علی خان نظام حیدرآباد نے کالج کے لئے دو ہزار روپے ماہانہ کی رقم منظور کی۔۱۸۹۳ء میں مولانا کا مضمون کتب 
خانہ اسکندریہ پر شائع ہوا تو ان کی تحقیق و تدقیق میں چار چاند لگ گئے۔ یورپ کے مصنفین نے شہرت دے رکھی تھی کہ جب حضرت عمرؓ فاروق کے زمانے میں مصر اور اسکندریہ فتح ہوئے تو مسلمانوں نے وہاں کے مشہور کتب خانہ کو جلا کر خاک کردیا یہ ان کے وحشی ہونے کی دلیل ہے۔ مولانا نے ثابت کیا کہ اس کو خود عیسائیوں نے برباد کیا اور بڑے بڑے پیشوانِ مذہب اس بربادی میں شریک تھے۔اس کی روشنی میں موجودہ دور کے یوروپین مصنفین بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ الزام مسلمانوں پر سراسر افترا ہے۔ مولانا کی علمی شہرت بڑھی تو۱۸۹۴ء میں حکومت ہند کی طرف سے ان کو شمس العلماء کا خطاب ملا۔اس سے علی گڑھ کالج کی عزت میں بھی اضافہ ہوا۔ ندوۃ العلماء کی تحریک کا پہلا اجلاس ۱۸۹۴ٗ میں مدرسہ فیض عام کانپور میں ہوا تو اس کا دستو رالعمل مولانا نے ہی پیش کیا جو منظور ہو گیا ۔ اس تحریک کی عملی صورت دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ کی شکل میں ظاہر ہوئی جس کی شہرت آج تمام اسلامی ممالک میں ہے۔

مولانا نے سر سید کی وفات کے بعد کالج سے چھہ ماہ کی رخصت لی اور پھر استعفیٰ بھیج دیا۔ سولہ سال کے بعد علی گڑھ کی زندگی کو الوداع کہا۔ اعظم گڑھ آنے کے بعد یہاں اپنے خاندانی باغ میں ایک کچا بنگلہ بنوایا اس کا نام شبلی منزل رکھا۔یہیں اب دارا لمصنفین(شبلی اکادمی) اور ان کا مدفن ہے۔

جنوری ۱۸۹۹ء میں ان کی تصنیف الفاروق شائع ہوئی۔ اس کتاب کے مواد کے لئے وہ بیرونی ممالک کا سفر کر چکے تھے۔اسلامی تاریخ کے مطالعے میں ان میں بڑی گہرائی پیدا ہو چکی تھی جیسا کہ الفاروق کی ابتدائی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے۔ ۱۸۹۹ء میں مولانا زیادہ تر اپنی علالت اور خانگی پریشانیوں میں مبتلا رہے ۔ نومبر ۱۹۰۰ء میں ان کے والد کی وفات ہو گئی۔ انھوں نے تیس ہزار کا قرض چھوڑا۔ اس سے ان کو مزید پریشانی ہوئی اس کو دور کرنے کیلئے جولائی۱۹۰۱ء میں نظام حیدرآباد کی ریاست میں سر رشتہ علوم و فنون میں بحیثیت ناظم چار سو روپیہ ماہوار پر ملازمت قبول کر لی اور اپنی کمائی سے جب اپنے والد مرحوم کا قرض ادا کر دیا تو ۱۹۰۵ء میں اپنی ملازمت سے مستعفی ہو گئے۔ وہ حیدرآباد کے جوڑ تو ڑ سے پریشان بھی تھے۔ وہاں سے علاحدہ ہو کر لکھنؤ چلے آّئے۔ندوۃالعلماء کی تحریک سے پوری دلچسپی تھی۔ اس لئے اس کو فروغ دینے میں لگ گئے ۔ وہ ۱۹۰۵ء میں دارالعلوم ندوۃالعلماء کے معتمد تعلیم بنائے گئے جس کے فرائض ۱۹۱۳ء تک ادا کرتے رہے

مولانا نے ندوہ کی مالی حالت درست کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے کتب خانے کو بہتر بنانے کی کوشش کی ۔ اپنا ذاتی کتب خانہ اس کے نذر کر دیا جس میں تین ہزار کتابیں تھیں اور پھر اپنے دوستوں اور امراء کے ذاتی کتب خانے بھی اس کے لئے حاصل کئے جس سے یہاں اچھا ذخیرہ جمع ہو گیا۔ پھر اس کے نصاب میں تبدیلی لا کر علوم جدیدہ کی کتابیں درس میں داخل کرایءں، انگریزی زبان پڑھنا ضروری قرار دیا، جس میں عربی بھی سکھانے کا انتظام کیا اور چند طالب علموں کو ہندی سنسکرت کی بھی تعلیم دلائی، ان کی صحبت کیمیا اثر سے اچھے اچھے طلبہ تیار ہوئے ان ہی میں مولانا سیدسلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی اور مولانا مسعود علی ندوی بھی تھے جو آگے چل کر ان کے علمی خواب کی تعبیر دارالمصنفین (شبلی اکادمی) کے روح رواں ہوئے، ان تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ان کا قلم بھی رواں دواں رہا۔سر سید کی یہ رائے بڑی اہم ہے کہ اگر ایک مضمون کو دس افراد بھی لکھیں تو مولوی شبلی کی تحریر نرالی ہو گی۔

مولانا ۱۹۰۷ء میں اعظم گڑھ آئے اور اس بنگلہ میں مقیم ہوئے جو انھوں نے بنوایا تھا جس میں دارالمصنفین کا کتب خانہ ہے۔ اس کے ایک ہال میں ان کے فرزند جناب حامد صاحب چھروں کے کارتوس سے بھری ہوئی ایک بندوق چھوڑ گئے تھے اسے مولانا اٹھا کر دوسری جگہ رکھنا چاھتے تھے کہ بندوق چل گئی۔ ان کا ایک پیر اس بری طرح زخمی ہوا کہ اسے کاٹ دینا پڑااور آخر عمر تک مولانا لکڑی کے ایک مصنوعی پاؤں کے سہارے چلتے رہے۔ مگر اس سے ان کے پائے ہمت میں کوئی لرزش نہ آئی۔ان کا قلم برابر چلتا رہا بلکہ اور تیزرو ہو گیا۔


سرائے میر اعظم گڑھ میں ایک قصبہ ہے ۔ اسی قصبہ میں ایک نہایت نیک اور مقدس بزرگ مولوی محمد شفیع صاحب نے اپنے دیندار دوستوں اور علم نواز زمینداروں کی مدد سے ایک عربی مدرسہ۱۹۰۶ء میں کھولا ۔مولانا اس کے بانیو ں میں سے تو نہ تھے مگر اس سے دلچسپی لیتے رہے۔ جب ۱۹۱۲ء میں دارالعلوم کی معتمدی سے سبکدوش ہوئے تو دارالمصنفین اور مدرسہ الا صلاح سرائے میر کو ملا کر ایک اچھے خاصے جامعہ اسلامیہ کا تصور ان کے ذہن میں آیا اس زمانے میں مولانا حمید الدین فراہی حیدرآباد میں بڑی تنخواہ پا رہے تھے اور انھوں نے مولانا کو لکھا تھا کہ وہ مدرسہ کی نظامت قبول فرما کر اس کو اپنی کوششوں کا محور قرار دیں۔ لیکن مولانا نے اپنی ضعیفی کی وجہ سے اس عہدہ کو قبول نہیں کیا البتہ اس سے دلچسپی لیتے رہے۔ مگر اس سے متعلق جو ان کا تصور تھا وہ ان کی وفات سے عمل میں نہ آ سکا۔ لیکن مولانا حمیدالدین فراہی نے بعد میں اس کی نظامت قبول کر کے اس کو کل ہند معیا ر کا مدرسہ بنا دیا۔


مولانا کی وفات کے بعد ان کے شاگرد رشید مولانا سید سلیمان ندوی نے ان کے مقالات کو آٹھ جلدوں میں، خطبات کو ایک جلدمیں، مکاتیب کو دو جلدوں میں، فارسی کے کلام کو کلیات شبلی فارسی ا ور اردو کلام کو کلیات شبلی ان کے نام سے ایک ایک جلد میں شائع کیا۔ پھر ساڑھے آٹھ سو صفحے کی حیات شبلی لکھ کر اپنا حق شاگردی ادا کیا۔ 


محمد وصی صدیقی
بانی جنرل سکریٹری،
مولانا محمد علی جوہر فاؤنڈیشن

********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 704