donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Wasiullah Husaini
Title :
   Zindagi Aur Insaniyat Ka Razmiya Nigar : Dr Akhtar Bastawi


 

یوم وفات 10جون

 

زندگی اور انسانیت کا رزمیہ نگار :  ڈاکٹر اختر بستوی

 

 محمد وصی اللہ حسینی

 

ڈاکٹر اختر بستوی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اگرچہ وہ ایک شاعر کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں لیکن انھوںنے ادب کے دیگر شعبوں میں بھی اپنی صلاحیت کے جوہر دکھائے ہیں۔ وہ ایک ممتاز شاعر کے علاوہ ایک بلند پایہ ناقد، دیدہ ورمحقق اور پختہ کارطنزومزاح نگار بھی تھے۔شاعری میں نغمۂ شب،بحر بیکراں،پیکر ِ خیال،اپنے سائے کے سوااور نثر میں اردوشاعری کاسیکولرکردار،قاضی محمد عدیل عباسی وٹیڑھے نشانے ایسی کتابیں اس کا بین ثبوت ہیں۔اس کے علاوہ ملک وبیرون ملک کے رسائل وجرائد میں شائع ہونے والی ان کی تخلیقات اورتحقیقی،تنقیدی وطنزیہ تحریروںسے بھی اس کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ نقادانِ ادب اور شناوران ِبحر ِ علم وفن نے کھلے دل سے ان کی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔

اختر بستوی نے1955سے شعر کہنا شروع کیااور یہ سلسلہ تادم ِآخرجاری رہا۔ ان کاکلام اردودنیا کے تمام چھوٹے بڑے رسائل وجرائد میں شائع ہوتارہا۔ وہ ایک قادرالکلام شاعرتھے۔ ان کے کلام میں سنجیدگی ، برجستگی اور عصری حسیت پائی جاتی ہے۔میانہ روی ان کی شاعری کی خصوصیت ہے ۔مجموعی اعتبارسے دیکھاجائے تواختر بستوی کی شاعری زندگی اورانسانیت کارزمیہ ہے۔

اخترصاحب نے متعدد اصناف ِسخن میں طبع آزمائی کی ہے اور خاصی تعداد میں نظمیں، غزلیں، رباعیاں اور قطعات کہے ہیں لیکن ان کے کلام کے جو مجموعے شائع ہوئے ہیںوہ صرف نظموں اور قطعات پر مشتمل ہیں۔غزلوں کا کوئی مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا۔غالباً وہ غزلوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے ۔حالاں کہ وہ بڑی اچھی غزلیں بھی کہتے تھے۔تازہ کاری و پر کاری ،سادگی وکلاسیکی رچاؤ ان کی غزلیہ شاعری کا امتیاز ہے۔زمانے کے کرب ،انسان کے درد اور سماجی انتشار وخاندانی بکھراؤ کو بڑے غم ناک اور حزنیہ اندازمیں بیان کیاہے۔ان کے اشعار میں زندگی کے اسرارورموز بڑی چابک دستی سے پیش کئے گئے ہیں۔ان کی غزلوں میں فکرونظر کی وسعت اور گہرائی وگیرائی پائی جاتی ہے ۔لہجہ نرم لیکن موضوع گرم ہوتاہے ۔ان کا یہ شعر تو ضرب المثل بن گیاہے   

دنیاکو جہانگیر کا دربار نہ سمجھو 
آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا

اس کے علاوہ ان کے یہ اشعار بھی کافی مقبول ہوئے   

اس حویلی کے سارے مکیں رودیئے

اس حویلی کو بازارکرتے ہوئے

٭٭٭

برسوں سے اس میں پھل نہیں آئے تو کیاہوا
سایہ تواب بھی صحن کے کہنہ شجر میں ہے

٭٭٭

جس حسن کو صوفی نے سمجھاکہ نہاں ہے 
کشمیر میں دیکھیں تو ہر سمت عیاں ہے

٭٭٭

ایک غزل کے چند اشعار اور ملاحظہ فرمائیں  
الفت جو اب فرارسے کرنے لگے ہیں لوگ

ہے یوں کہ اپنے آپ سے ڈرنے لگے ہیں لوگ
واقف نہیں زمین کے اسرارسے ،مگر 

افلاک کی حدوں سے گذرنے لگے ہیں لوگ
پائی بلندیوں پہ نہ جب دولت ِ سکوں 

گھبراکے پستیوں میں اترنے لگے ہیں لوگ

اختر بستوی کا پہلا مجموعہ کلام ’نغمہ شب‘ 1969میں منصہ شہود پر آیا۔یہ ایک طویل نظم ہے جو اقبال کی مشہورنظم ’خضر راہ ‘ کی یاد دلاتی ہے۔صرف معنویت کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ لفظیات کے اعتبارسے بھی علامہ اقبال کا اثر صاف نظر آتاہے۔اس میں اختر بستوی نے شب کو ’شخص ‘ بناکر اپنے خیال کا آئینہ دار کیاہے۔انھوں نے اس مجموعے کا انتساب بھی رات سے کیاہے۔انھوں نے لکھاہے ’رات کے نام:جومیری محبوبہ ہے۔‘انھوں نے اس نظم میں زندگی اور موت کے فلسفے اور ان کے مختلف پہلوؤں پر بڑی گہرائی سے نظر ڈالتے ہوئے اپنے احساسات کا اظہارکیاہے۔انھوں نے زندگی کے مسائل ،زمانے کی روش،انسان کی مجبوری،سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ ،ظلم وستم اور استحصال کو بڑی چابک دستی سے پیش کیاہے۔یہ ایک ٹوٹے ہوئے دل کی آواز ہے جو ’آپ بیتی‘ سے ’جگ بیتی ‘ بن گئی ہے۔لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس میں انسان پریشان ضرور نظر آتاہے لیکن مایوس و ناامید نہیں۔انھوں نے تاریکی کو روشنی کی تمہید قراردیاہے۔جس سے جینے کا حوصلہ ملتاہے۔نائیجیریاکے شاعر اور ناول نگار بین اوکری نے کہاتھا:’’کہانیاں خوف کو فتح کرتی ہیں اور حوصلہ بڑھاتی ہیں۔‘‘ اسی طرح اختر بستوی کی نظم لوگوں کے دلوں میں چھپے ہوئے اس خوف پر فتح پالیتی ہے جو صدیوں سے ان کے اندر کسی لاوے کی طرح ابل رہاہوتاہے۔ہمارے یہاں رات کو تاریکی ،مایوسی اور خوف کی علامت سمجھاجاتاہے ۔اختر بستوی نے اسے مثبت معنوں میں استعمال کیاہے ۔یہی ان کے فن کاکمال ہے ۔کیوں کہ ادب کا اہم ترین مقصدمعاشرے کے ان پہلوؤں کو سامنے لاناہوتاہے جو عام آدمی کی آنکھ سے پوشیدہ رہے ہوں۔ان کا انداز بیان بھی بڑادل کش ہے۔پروفیسر اعجازحسین لکھتے ہیں:

’’شاعرانہ لحاظ سے اختر صاحب کی یہ نظم بڑی دلکش ہے۔بحر کی لچک ،اندازگفتارکی نرمی،الفاظ کے دروبست سے ترنم کی ایک ایسی فضاہوگئی ہے جو نظم کو خاصہ کی چیز بنادیتے ہیں۔غیر مرئی عوامل کو متشکل بنانے میں شاعرنے اچھی فن کاری کا ثبوت دیاہے۔اہم خصوصیات کی مناسب الفاظ وانداز سے تصویر کشی کرکے نغمہ ٔشب کو سچ مچ نغمہ بنادیاہے۔اگر انسانی زندگی کی پراگندگی واضمحلال پر نظر کرنااور اس کے کرب کو محسوس کرناشاعر کا فرض اولین ہے توہماراخیال ہے کہ اختر صاحب کی یہ شعری کاوش سعی مشکور کادرجہ رکھتی ہے۔‘‘

(1)

بطورنمونہ  ’نغمہ شب ‘ کاآخری حصہ ملاحظہ فرمائیں 

شاعر کے ہونٹوں پر اک مغموم تبسم پھیل گیا
دبادباساطنز بھی اس کے خندہ ٔ  غم میں تھاشامل

بددل ہوکر،آبادی کی سمت سے پھروہ پھیرکے رخ
چلاڈھونڈنے دھندلی دھندلی راہ پہ خوابوں کی منزل

آہستہ آہستہ اوجھل ہوانظر سے عکس اس کا
ہولے ہولے خلامیں اس کی پرچھائیں تحلیل ہوئی

جس قصے کی داغ بیل ڈالی تھی شب کی ظلمت نے 
صبح درخشاں کی آمد پر یوں اس کی تکمیل ہوئی

اسی طرح ان کا دوسرامجموعہ کلام ’بحر بیکراں ‘ بھی ایک طویل پابندنظم ہے۔یہ مجموعہ دسمبر 1974میں منصہ شہود پر آیا۔اس میں بھی زمانے کی روش،انسانی حالات اور فکرونظر کے اختلاف کی بڑی فن کاری سے عکاسی کی گئی ہے۔یہ دونوں طویل پابندنظمیں ادبی دنیا میں کافی مقبول ہوئیں۔اترپردیش اردواکادمی نے نغمہ شب کو 1971اور بحربیکراں کو 1974میں انعام سے نوازا۔یہ دونوں شعری کتابیں اختر بستوی کی ایسی کاوش ہیں جو ان کو شاعروں کی بھیڑ میں ایک منفرد وممتاز مقام عطاکرتی ہیں۔مواد اور ہیئت دونوں اعتبار سے یہ تخلیقات قابل ِ قدرہیں۔یہ دونوں نظمیں اردوشاعری میں نئے ابعاد وجہات روشن کرتی ہیںاور یہ حقیقت ہے کہ وسعتوں کو الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش اختربستوی کی زندگی کا مقصد تھا۔بقول ڈاکٹر عبدالحق:

’’بیانیہ نظموں کی اس مربوط تکنیک پر ہمیں فخر کرناچاہئے اور یہ توقع بھی کہ شاید اس تجربے اور کوشش سے اردومیں رزمیہ شاعری کے کچھ شاہ کار تخلیق پاسکیں اور کارگہ ِ ہستی کی بے کراں وسعتوں کو حرف وصورت میں قلم بند کیاجاسکے جس سے ادبی ہنر مندی کو وقار ملے۔اس سے کہیں زیادہ انسانی زندگی اور اس کے متعلقات کو درماندگی کے دورمیں عزم وآبرومندی حاصل ہوگی۔۔۔۔فکری توانائی کے ساتھ فنی اعتبار سے بھی یہ نظمیں بڑی دلکشی رکھتی ہیں۔لفظ ومعنی کی کامیاب ہم آہنگی سے خیالات کے ادراک میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔اقبال کی ترکیبوں کی معنویت نے پیکر آرائی میں اضافے کئے ہیں۔پیہم رواں،ناآسودہ،آشفتہ سر،مثل دود،رہ نوردی،قیدمقام،چشم بینا،جوش جنوں کے علاوہ ساحل دریاپر کھڑا،چھپائے اضطرار جیسے پرخروش احساس کی باز گشت بڑی شاعری کی بشارت دیتی ہے۔‘‘

(2)

ایک دورباعی یا قطعات میں کوئی اچھاخیال پیش کردیناآسان ہے مگر ایک خیال کو تسلسل کے ساتھ ایک طویل نظم میں کہنابہت بڑی بات ہے۔اس کے لئے کثرت مطالعہ ،عمیق مشاہدہ اور زبر دست قدرت ِ بیان کی ضرورت ہوتی ہے۔اختر صاحب میں یہ تمام خصوصیات پائی جاتی تھیں۔یہ بات خاص طورسے قابل ِ ذکر ہے کہ ’بحر بیکراں ‘ ’نغمہ شب ‘ کے بعد پانچ سال کے وقفے سے منظر عام پر آئی ۔اس دوران اختر صاحب کی فکرونظر میں مزید وسعت اور پختگی آچکی تھی۔یہی وجہ ہے کہ نغمہ شب سے بحربیکراں تک آتے آتے ان کا فن پہلے سے کہیں زیادہ نکھر گیاہے۔منظر نگاری اورپیکرتراشی میں تواختربستوی کو کمال حاصل تھا۔بحر بیکراں میں انھوں نے بتایاہے کہ سمندراور انسان میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے ۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ اختر بستوی پر اقبال کا جو اثر نظر آتاہے وہ اثر پذیری تک ہی محدود ہے۔انھوں نے اقبال کی اندھی تقلید نہیں کی ہے۔دوسرے شعراء کے یہاں بھی ایساہواہے کہ اگر وہ کسی بڑی شخصیت سے متاثر ہیں تو مخصوص لفظیات برتنے سے اثر نمایاں ہوجاتاہے۔یہی حال اختر صاحب کا بھی ہے۔پروفیسر محمود الٰہی لکھتے ہیں :

’’مجھے ایسامحسوس ہوتاہے کہ اختر بستوی نے اقبال کا عمیق مطالعہ کیاہے اور ان سے نظم نگاری کا سلیقہ سیکھاہے۔حسن ترتیب،حسن تسلسل اقبال کی نظموں کی جان ہیں۔کچھ ایساہی انداز ’بحر بیکراں ‘میں بھی ملتاہے۔لیکن اختربستوی نے اقبال کا اثر قبول کیاہے ،ان کی تقلید نہیں کی ہے۔اور یہ نہ بھولنا چاہئے کہ تقلید اور اثر پذیری میں بڑافرق ہے۔اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اختربستوی اثر پذیری کو انفرادیت میں تحلیل کرلینے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں۔‘‘

(3)

طویل نظم ’بحر بیکراں ‘کے آخری حصے کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں 

سوچتاہوں میں کہ ہوکیسی ہی گہری تیرگی
فتح پانا نورپر تاریکیوں کا،ہے محال

کتنی ہی ویرانیاں چھائیں مگر انجام کار
جلوہ ٔ جہد ِمسلسل کا نکھرتاہے جمال

یوں تو یورش بحر میں ہوتی ہے کالی رات کی
وسعتوں کو اس کی لیکن وہ گھٹاسکتی نہیں

ملتی جلتی مجھ کو لگتی ہے سمندر سے حیات
موت کا منحوس سایہ اس پہ ہے بار ِ گراں

ختم پھر بھی ولولے اس کے نہیں ہوتے کبھی
زندگی پیہم رواں ہے مثل  ِ بحر بیکراں

ادب ایک ایساآلہ کار جس کے ذریعے ادیب تلخ سے تلخ بات شیریں انداز میں کہہ سکتاہے۔اختربستوی نے بھی اس سے بڑاکام لیاہے۔ایک طرف وہ اپنے دل کی بات کہہ جاتے ہیں تو دوسری طرف قاری اس پیغام کو سمجھ جاتاہے جو وہ سمجھانا چاہتے ہیں۔مثبت افکارونظریات کو پیش کرکے انھوں نے سماجی انقلاب کی کوشش کی ہے۔تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مختلف ممالک اور علاقوں میں ادیبوں نے ادب کو محاظ کے طور پر استعمال کیاہے۔اگر روس یا فرانس کی انقلابی تحریکوں کو دیکھاجائے تو یہ بات بالکل نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ اس زمانے کے ادیبوں نے ادب کو محاذ کے طور پر استعمال کیاہے۔فرانس کے وکٹر ہیوگو اور روس کے میکسم گورکی کا اس حوالے سے اہم کرداررہاہے۔اگرچہ اختر بستوی نے کسی انقلابی تحریک میں باقاعدہ شمولیت اختیار نہیں کی لیکن انھوں نے فکری انقلاب کا پرچم ہمیشہ بلند رکھا۔انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ملک اور سماج میں پھیلی بدعنوانیوں،بے راہ روی،اخلاقی گراوٹ اور ظلم واستحصال کو ختم کرکے معاشرتی انقلاب لانے کی بھر پوروکالت کی ہے۔

 ’پیکر ِ خیال‘ ڈاکٹر اختر بستوی کے قطعات کا مجموعہ ہے ۔اردوشاعری میں کثرت سے قطعات کہے جارہے ہیں لیکن ان کے مجموعے بہت کم منظر عام پر آتے ہیں۔اس مجموعے میں 151قطعات ہیںجن میں حسن ودل کشی کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے مسائل بڑی باریک بینی سے پیش کئے گئے ہیں۔ان میں خیال آرائی بھی ہے اور عمل کا پیغام بھی۔خوشی کا اظہاربھی ہے اور غم کا بیان بھی۔غرض کہ حیات ِ انسانی میں رونما ہونے والے متنوع معاملات کی فن کارانہ عکاسی کی گئی ہے۔ان قطعات میں اختر بستوی کی فکری بلندی ،عصری حسیت اور ادبی بصیرت کو بخوبی محسوس کیاجاسکتاہے۔اس پر مستزاد غضب کا اندازبیان۔اختر صاحب کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نامساعد حالات سے دل برداشتہ ضرورہوتے ہیں لیکن مایوس ہرگز نہیں۔ان کے ایک ایک شعر سے عزم وحوصلہ،جوش وولولہ اور تحریک وترغیب کا پیغام ملتاہے۔ان کا یہ یقین کامل ہے کہ روشنی پر تاریکی اور حق پر باطل کو کبھی فتح حاصل نہیں ہوسکتی۔انسان کی زندگی میں مشکل حالات ضرور آتے ہیں لیکن صبر وتحمل اور عزم وہمت سے ان پر قابو پایاجاسکتاہے۔انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ یہی پیغام دیاہے کہ امید ویقین ہی انسانی زندگی کا اصل اثاثہ ہے۔1970میں شائع ہونے والے اس مجموعے میں اختر صاحب کی فکری جولانی کو بخوبی محسوس کیاجاسکتاہے۔لفظیات ومعنویات کی ہم آہنگی سے پیکر تراشی کی بڑی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔اختر بستوی نے فکر کے ساتھ روح اور عقل کے ساتھ دل کی بات بھی سننے کی وکالت کی ہے ۔ان کا خیال ہے ان میں سے کسی ایک کو نظر اندازکیاگیاتومعاملہ بگڑ سکتاہے۔۔ڈاکٹر خورشید الاسلام ’پیکر ِ خیال‘کے سلسلے میں رقم طراز ہیں:

’’اختر بستوی کا مجموعہ کلام معنی وبیان کے اعتبارسے قابل ِ قدرہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مضامین میں بیزاری یاتنہائی یاموت کے اندیشوں کا وہ تماشانظر نہیں آتاجو اب فیشن بن چلاہے۔تلخی ،احساس کی تندی اور برہمی ،ذہنی کرب اور بے اطمینانی کا جابجااظہارہواہے لیکن اس کی تہہ میں انسانی اقدار کا ایک نظام بھی موجود ہے اور محسوسات کے تانے بانے میںانسانی رشتوں اور علاقوں کا احترام ہر کہیں اور نت نئے انداز میں ملتاہے۔عام افلاس ،آدمی کی بے چارگی،خوابوں کی شکست اور روز مرہ زندگی کی ایسی محرومیاں جو ’نوائے راز‘ کا حکم رکھتی ہیں اور سینہ میں خون ہوجاتی ہیں مفہوم کی کیفیت اور ’سادہ‘بیان کے پیچ وخم سے ٹپکتی ہیں۔ ‘‘

(4)

’پیکر خیال‘ دوقسم کے قطعات پر مشتمل ہے۔ایک فکری ،دوسرے رومانی۔فکری حصے کو انھوں نے ’دامن ِ عقل وہوش‘کانام دیاہے جب کہ رومانی حصے کو ’کف ِ گل فروش ‘کے نام سے موسوم کیاہے۔فکری حصے سے دوقطعات ملاحظہ فرمائیں 

فکرکی قوت ِ پروازکو سب کچھ سمجھا
معجزے روح کی عظمت کے نہ دیکھے ہم نے 

حل کئے ذہن سے ہستی کے ہزاروں عقدے
کرلئے بند مگر دل کے دریچے ہم نے

٭٭٭

رات کے بعد چراغوں کی کوئی قدرنہیں
زندگی شمع کی ہوتی ہے اندھیرے میں بسر

کون سمجھائے اجالے کے پرستاروں کو
روشنی رہتی ہے ظلمت کی سدادست نگر

رومانی حصے سے دوقطعات ملاحظہ فرمائیں 

تلخی زیست کا احساس مجھے بھی ہے مگر
گاہے گاہے میں کہاکرتاہوں رنگیں اشعار

خودفریبی اسے کہہ لیجئے لیکن اکثر 
کرلیاکرتی ہیں بیوائیں بھی چپکے سے سنگار

٭٭٭

تیرے مخموربدن کے یہ انوکھے انداز
جیسے کچھ خواب کسی رندکے برہم ہوجائیں 

جیسے حافظؔ کے خیالات کو مل جائے شبیہ
جیسے خیام ؔ کے اشعارمجسم ہوجائیں

قطعات کہنے میں واقعی اختربستوی کو مہارت حاصل تھی اورانھیں اپنی قطعہ گوئی پربڑا نازتھا ۔اسی وجہ سے بطورتعلی انھوں نے درج ذیل قطعہ کہاہے  

’ریزہ کاری‘ اسے کہہ لیجئے لیکن اک روز
میرایہ فن بھی بڑی قدرکا حامل ہوگا

مرتبہ صنف ِرباعی میں جو رکھتے ہیں فراقؔ
مجھ کو رتبہ وہی قطعات میں حاصل ہوگا

ان کی بات درست ثابت ہوئی اور زمانے نے ان کے قطعات کو قدرکی نگاہ سے دیکھا۔ کیفی اعظمی نے ان کی قطعات گوئی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھاہے:

 ’’اختر انصاری اور نریش کمارشاد کے بعد سب سے اچھے قطعات ڈاکٹر اختر بستوی نے لکھے ہیں۔‘‘ (5


اگرچہ اختر بستوی کے مجموعہ ہائے کلام نغمہ  ٔ شب، بحر بیکراں اور پیکر خیال بھی شعری دنیامیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھے گئے لیکن سب سے زیادہ شہرت ان کے مجموعہ کلام ’اپنے سائے کے سوا‘کو ملی۔یہ ایک سوایک پابند مختصر نظموں کا مجموعہ ہے جس میں اچھی شاعری کی تمام خصوصیات موجود ہیںیہ مجموعہ 1989میں شائع ہوا۔

عمومی طور پر شعراء کو تین طبقات میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔پہلاطبقہ وہ ہے جو روایت پرست ہے اور کسی بھی نئی چیز کو قبول نہیں کرتا۔وہ ہر جدید شے کو گمراہی تصورکرتاہے۔دوسراطبقہ وہ ہے جو جدت پرست ہے۔یہ طبقہ ہرنئی چیز کو پسند کرتاہے اورقدیم وروایتی شے کو قابل ِ نفرت سمجھتاہے۔تیسراطبقہ وہ ہے جو ان دونوں انتہاؤں کے درمیان بین بین راستہ اختیارکرتاہے۔اعتدال وتوازن اس کا طرہ ٔ امتیاز ہوتاہے۔اختربستوی کا تعلق اسی تیسرے طبقے سے تھا۔انھوں نے ہمیشہ درمیانی طرز ِ عمل اپنایا۔ان کے کسی بھی مجموعہ کلام کو اٹھالیجئے یہ روش آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی۔’اپنے سائے کے سوا‘بھی اسی طرز فکر کی نمائندگی کرتی ہے۔اس کی نظمیں ہیئت اور موضوع دونوں اعتبار سے توانااور قابل قدرہیں۔سنجیدہ اور پابند نظمیں کہنے والوں میں اخترصاحب کا ایک ممتاز مقام ہے۔

’اپنے سائے کے سوا‘کی نظموں پر سرسری نظر ڈالیں تو ایسالگتاہے کہ ہیئت کے اعتبار سے ان میں کوئی نیاپن نہیں ہے۔لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔تھوڑاٹھہر کر غور کریں تو اندازہ ہوتاہے کہ اختر صاحب نے روایتی طرز میں بھی جدت پیداکردی ہے۔اس مجموعے میں شامل کچھ نظمیں قطعہ ،کچھ رباعی ،کچھ مثنوی،کچھ غزل اور کچھ دیگر اصناف کی ہیئت میں ہیں۔اختر بستوی نے جدت یہ پیداکی ہے کہ دوقطعات یا دورباعی کو جوڑکر ایک مختصر پابند نظم تشکیل کی ہے۔ان دونوں قطعات یا رباعیوں کو الگ الگ کردیں تو اپنی مروجہ ہیئت میں قطعے اور رباعیاں بن جاتی ہیں اور جوڑ دیں تو نئے طرز کی خوبصور مختصر نظم۔مزیدبراں وحدت تاثیر بھی برقراررہتی ہے۔دوقطعات پر مشتمل نظم کی مثال ملاحظہ فرمائیں  

رقص ہر جانب مشینی بھوت کا
حکمرانی ہر طرف فولاد کی 

اجتماعی زندگی کا شور وشر
روح ہر سومضطرب افرادکی

آرزوئیں زیر ِ دام ِ روزگار
خواہشوں پر غلبہ ٔ  فکر معاش

دورآہن میں سکوں کی جستجو
دوپہر میں اپنے سائے کی تلاش

مذکورہ نظم کو دوحصوں میں منقسم کردیں تو الگ الگ دوقطعات ہوجائیں گے۔یہاں بھی وحدت ِ تاثیر مجروح نہیں ہوئی ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے ایسی بحریں منتخب کی ہیں جن سے غنائیت وموسیقیت پیداہوتی ہے۔اسی طرح دورباعیوں پر مشتمل نظم کی مثال ملاحظہ فرمائیں   

ہرسمت ہے وحشت کا سکوں سوز سماں 
اٹھتی ہے ہر اک گوشے سے فریادوفغاں 

حلقوم پہ شمشیر ہے سینے پہ سناں 
انساں کو نہیں ملتی ہے انساں سے اماں 

کیاہوتاہے کیوں ہوتاہے سب کچھ ہے عیاں
ہربات سمجھتاہوں مگر چپ ہے زباں 

تفہیم پہ تقصیر کاہوتاہے گماں 
اب فہم وفراست کو میں لے جاؤں کہاں

اس نظم کو بھی دوحصوں میں بانٹ دیں تو روایتی انداز کی دومنفرد رباعیاں بن جائیں گی۔اختر بستوی کی اس جدت پسندی کو کسی نے پسند کیاہے توکسی نے تعجب کا اظہارکیاہے۔ناوک حمزہ پوری کہتے ہیں:
’’رباعی کی ہیئت میں کسی اور شاعرکی کوئی نظم کم از کم میری نظر سے نہیں گذری۔اوریوں میں اختر صاحب کو ان کی فن کارانہ صلاحیت پر مبارک باد دیتاہوں۔‘‘

(6) 

جب کہ کیفی اعظمی تعجب کا اظہارکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میں نے کئی بار سوچاکہ ہمارے یہاں جب رباعی کی صنف موجود ہے جس میں ہمارے اساتذہ ٔ فارسی واردونے بڑی حکیمانہ باتیں کہی ہیں تو اختر صاحب نے بھی اپنے خیالات اسی صنف میں کیوں نہیں اداکئے‘‘۔

(7)

بہر حال مجموعی اعتبار سے دیکھیں تو اختر صاحب کی یہ اجتہادی روش اگر بہت مستحسن نہیں تو قابل ِ گرفت بھی نہیں ہے۔کیوں کہ انھوں نے اردوشاعری میں ایک طرح سے ایک نئی راہ نکالی ہے ،لیکن اس جدت طرازی میں ایساکچھ نہیں کیاجس سے فن ِ شاعری پر ضرب آتی ہو۔

موضوع ومواد کے اعتبار سے بھی اختر بستوی کی نظمیں قابل ِ قدرہیں۔انھوں نے اپنی نظموں میں جہاں روایتی خیالات اور قدیم نظریات کو پیش کیاہے وہاں جدید موضوعات اورعصری حالات کو بھی خوبصورتی اور فن کاری سے برتاہے۔اس لحاظ سے ان کی نظم ’ظلمت انا‘ بطورنمونہ ملاحظہ فرمائیں 

ذہن پر چھائی ہے بے سود خیالوں کی گھٹا
فکرواحساس کا ہر گوشہ ہے محروم  ِ ضیا

چشم ِ ادراک سے پوشیدہ ہے راز ِفطرت
قلب ویراں پہ مسلط ہے انا کی ظلمت 

نور ِ عرفاں جو کبھی دل میں نظر آتاہے
خود پرستی کے اندھیرے میں سماجاتاہے 

’اپنے سائے کے سوا‘ میں ہمارے معاشرے کی عکاسی بڑی چابک دستی اور خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ماضی کی تابناک روایت،عصری حسیت اورمستقبل کی آگہی کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے۔شعری بے راہ روی اور فکری پراگندگی کے دورمیں یہ مجموعہ ایک خوشگوارجھونکے کی حیثیت رکھتاہے۔ناوک حمزہ پوری بجاطور پر لکھتے ہیں:

’’جدت وجدیدیت کے نام پر کورانہ تقلیدونقالی کے صحرائے بے اماں میں ذہنی انتشار، نظریاتی گمراہی اور ابہام کی شب ِسیاہ میں جب نشان ِراہ مفقود ہیں اور سمت کاتعین دشوار ہوگیا ہے اختر بستوی کی پابند مختصرنظموں کے مجموعے ’اپنے سائے کے سوا‘ کی حیثیت قطب تارے کی سی ہے۔ جو نہ صرف یہ کہ سمت سفر کے تعین میں اہل ِقافلہ کا معاون ہوگا بلکہ منزل کی طرف پیش قدمی کیلئے نیا عزم وحوصلہ اورجوش وولولہ عطاکرے گا۔‘‘(8)
عتیق اثر ندوی لکھتے ہیں:
’’بدلتی قدروں کے دوش بدوش عصری حسیت اور جدید تجربے کو کام میں لایاگیاہے۔کلاسیکل سرمائے سے کسب فیض بھی کیاگیاہے۔اسی لئے زبان وبیان اور تجربوں کے اظہار پر پوری قدرت کا اندازہ ہوتاہے۔تخئیل میں پروازکے ساتھ فنی گرفت بھی پائی جاتی ہے۔شعروادب کا بنیادی مسئلہ ہیئت اور مواد ہے۔لفظوں کے استعمال کی غیر معمولی تخلیقی حس جس اسلوبی ہیئت کی تعمیر کرتی ہے شاعر اس سے بہرہ ورہے اور فن کی ترکیبی ہیئت میں رموز وعلائم اور استعارہ وتشبیہات کو خوبصورتی سے استعمال کیاگیاہے۔‘‘

(9)

’اپنے سائے کے سوا‘ کی ایک نظم ’مشاہدہ‘ میں شامل یہ اشعارملاحظہ فرمائیں 

دیوارمیں روزن تو ہواکرتے ہیں لیکن
دل میں نہیں ہوتاکائی اس دورمیں روزن 

پڑتی ہے نظر سب کی تماشوں پہ جہاں کے
رہتاہے نگاہوں سے چھپاسینے کا درپن

دوسری نظموں کے چند دیگر اشعاربھی دیکھئے  

تیز قدموں سے میں چل سکتانہیں 
میرے سرپر آگہی کا بارہے

٭٭٭

خامشی ایسے بھی لمحوں کی کہانی کہہ گئی 
جن میں گویائی پشیمانی اٹھاکر رہ گئی

٭٭٭

کچھ ایسی شکل اس میں بن رہی ہے
کہ جیسے اڑرہی ہو اک پری سی 

نظم  ’افعال کا حاصل ‘ دیکھئے کہ کس طرح ایک فلسفے کو شعری پیکر عطاہے 

کچھ کرکے جو امید ہمیں ہوگی صلے کی 
ممکن ہے کہ ہاتھ آئے کوئی شے نہ بجز یاس

پھر کیوں نہ ہر اک کا م کو اس طرح کریں ہم 
بدلے میں کسی چیز کی رکھیں نہ کبھی آس

سمجھیں ، تو یہی فلسفہ ٔ  سعی وعمل ہے
انسان کے افعال کا کچھ بھی نہیں حاصل 

ان کی ایک بڑی اچھی نظم ہے ’سنگم‘۔شعریت سے بھر پوراس نظم میں ایک اچھوتے خیال کو بڑی فن کاری اور خوب صورتی سے شعری پیکر عطاکیاگیاہے۔

کل سڑک پر سامنے سے میرے، گزری اک برات
دیکھ کر اس کو یکایک ذہن میں ابھری یہ بات 

آج اِ س دولھاکے دل کی آرزوبرآئے گی
اک حسینہ بھی تمناؤں کی منزل پائے گی

دودلوں کی خواہشوں کا میل ہوگااس طرح
ملتی ہیں سنگم پہ گنگااور جمنا جس طرح

ڈرہے لیکن سرسوتی کی طرح اس سنگم پہ بھی 
گم نہ ہوجائے کسی بے بس کے خوابوں کی ندی

یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ الہ آباد میں گنگا،جمنااور سرسوتی تین دریاؤں کا سنگم ہے لیکن سرسوتی کا دھارانظروں سے اوجھل رہتاہے۔

عصری حسیت کے چند اشعاربطورنمونہ دیکھیں 

دراڑیں پڑرہی ہیں دل کے اندر
مگر چہرے کو ہم چمکارہے ہیں 

ہماری کوششوں کا ہے یہ مقصد 
بھرم قائم رہے اوروں کے آگے

٭٭٭

صنعتی شہروں میں تھی پہلے ہی مژمردہ حیات
آگئیں قصبوں میں بھی اب زیست کی ویرانیاں 

اب یہاں بھی زندگی عاری ہوئی جذبات سے
کھوکھلے چہروں کی ہیں بے جان سی پرچھائیاں

رفتہ رفتہ ہوگادیہاتوں کا بھی عالم یہی 
ان میں بھی گونجے گی بس بے کیف سانسوں کی صدا

میرے جیسے لوگ پائیں اب کہاں ایسامقام
چھوڑدے پیچھاجہاں یہ عہد حاضر کی ادا

شاعری کے علاوہ نثر کے میدان میں بھی اختر صاحب نے بڑا کام کیا ہے۔ ان کے تحقیقی وتنقیدی مقالات اور طنزیہ ومزاحہ مضامین موقررسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ ان کی کتاب ’اردو شاعری کا سیکولرکردار‘ علمی وادبی حلقوں میں کافی پسندکی گئی۔ اس کے علاوہ اترپردیش اردو اکادمی کے زیر اہتمام شائع ہونے والی دوکتابوں’انتخاب فانی‘(فانی بدایونی کے کلام کا انتخاب اور مفصل مقدمہ) اور’سخن جوہر‘ (مولانا محمد علی جوہر کے کلام کی تاریخی ترتیب مع حواشی ومقدمہ)نیز ’کردارکے غازی قاضی محمد عدیل عباسی (جامع توقیت مع مقدمہ)‘ پر جو مبسوط مقدمے آپ نے لکھے ہیں وہ بڑے وقیع اور آپ کی تنقیدی بصیرت کے غماز ہیں۔ بعد میں ساہتیہ اکادمی ، نئی دہلی کی فرمائش پر قاضی عدیل عباسی پر مونوگراف بھی تحریرکیا۔ انگریزی کے ادبی شاہ کاروں کے اردو ترجمے سے بھی آپ کو بڑی دلچسپی تھی۔شکپیئر کے شہرۂ آفاق ڈرامے As You like itکا اردو ترجمہ نہایت خوبصورتی اور چابک دستی سے کیا ہے۔ یہ اردو ترجمہ ’شہر سے دور‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ انھوںنے انگریزی میں بھی ایک کتابImmortal Iiterary worksکے نام سے لکھی ہے جو 1968میں زیورطبع سے آراستہ ہوئی۔اختر بستوی نے علیم صبا نویدی کی ہائیکو نظموں پر مضامین کا مجموعہ مرتب کرکے اس پر بھر پورمقدمہ تحریرکیا۔یہ مجموعہ ’روشن لکیر ‘کے نام سے 1990میں زیور ِ طبع سے آراستہ ہوا۔اس کے علاوہ سید محمداشرف کے مشہورعلامتی افسانے ’لکڑبگھارویا‘ کا اختر صاحب کے قلم سے تنقیدی جائزہ بھی خاصے کی چیز ہے۔یہ مقالہ گورکھپور سے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالے ’اصناف‘ میں شائع ہواتھا۔ اس کے علاہ ملک وبیرون ِ ملک کے موقر رسائل وجرائد میں سینکڑوں مضامین ومقالات شائع ہوئے۔اگر ان سب مقالات کو جمع کرکے شائع کردیاجائے تو خاصے کی چیز ہوجائے گی۔

ڈاکٹر اختر بستوی ایک اچھے طنز ومزاح نگار بھی تھے۔ ملک کے مختلف رسائل وجرائد میں اکثر وبیشتر آپ کی طنز یہ ومزاحیہ تحریر یں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ آپ کے طنز یہ ومزاحیہ مضامین کا مجموعہ’ ٹیڑھے نشانے‘ مکتبہ جامعہ، نئی دہلی سے ستمبر2002میںشائع ہوکر خراج تحسین حاصل کرچکا ہے۔ اس مجموعے میں شامل مضامین کوپڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے اور پختہ کارطنز ومزاح نگار تھے۔ وہ زندگی کی ناہمواریوں اور مضحک پہلوؤں کو اپنے مضامین کاموضوع بناتے تھے۔چوں کہ ان کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ عمیق تھا اس وجہ سے ان کی مزاحیہ تحریروں میں ندرت، تنوع اور تازگی پائی جاتی ہے ۔ ان کے مزاح کی برجستگی اور طنز کی کاٹ سے قاری نہ صرف لطف اندوز ہوتااور تلملاتا ہے بلکہ غور وفکر پر بھی مجبور ہوتاہے۔ ڈاکٹر وجاہت علی سندیلوی ایک جگہ رقم طراز ہیں:

’’میں نے اختر بستوی صاحب کے اکثر مزاحیہ مضامین ، انشایئے اور خاکے پڑھے ہیں اور ان سے لطف اٹھایا ہے۔ ان کی عبارت ان کی پختہ انشاپردازی کا خوبصورت نمونہ ہوتی ہے۔ رواں دواں انداز بیان قدم قدم پر گل بوٹے کھلاتے چلتاہے اور قاری کی پوری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتاہے۔ کسی ادبی فن پارے کے لئے اس کی اولین خصوصیت اس کی مطالعہ انگیزی (Readability) ہوتی ہے۔ اختر بستوی صاحب کی تخلیقات میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ ان کے مزاح میں آمدہی آمد ہوتی ہے اور آوردکا شائبہ تک نہیں ملتا۔ ان کے مذاق میں فکر انگیزی کا عنصر بھی شامل رہتاہے اور دل ودماغ دونوں کو محظوظ کرتاہے۔ معاشرے کی دکھتی رگ سے وہ بخوبی واقف ہیں اور وہی ان کی نشترزنی کا ہدف بنتی ہیں۔ اختر بستوی کی تخلیقات ہمیشہ زندگی سے بہت قریب رہتی ہیں گردوپیش کی بڑی چابکدستی سے عکاسی کرتی ہیں۔ معاشرے کی ناہمواریوں کے ساتھ وہ بعض افراد کی بوالعجبیوں کو بھی اپنا موضوع بناتے ہیں اور اس کاپوراحق اداکرتے ہیں۔ان کے مزاح کی آنچ دھیمی ہوتی ہے اور ہرسنجیدہ مزاح کی طرح وہ صرف تبسم زیر لب کی دعوت دیتا ہے، لیکن ان کے طنز کے وار بڑے تیکھے اور بھرپور ہوتے ہیں اور ان میں غضب کی زہرنا کی چھپی ہوتی ہے۔ اور دراصل طنز کاخاصہ بھی یہی ہے‘‘۔

(10)

ان کے طنزیہ ومزاحیہ مضامین کے مجموعے ’ٹیڑھے نشانے‘ میں شامل مضامین مکان کیلئے نام چاہئے ،مونچھ بنانا،کچہریوں کی تجارت،مرزاغالب ایک فلمی انٹرویو میں ،گدھے کی ملاقات کرشن چندرسے ،لیلیٰ کی ماں کاخط اکبر الہ آبادی کے نام،سودیشی ریل اردونگر اسٹیشن پر،دلیپ کمارسبزی منڈی میں، اہل فن خواتین کی نظر میں،چاول کا مسئلہ بیگمات کی پارلیمنٹ میں،سائنس کے کارنامے اور نانی اماں،جلیبی اور شادی،حسن اورترکاری،تکلف برطرف،اس الیکشن میں قلم کار کی عزت بھی گئی،نومن تیل اور رادھا،جگرکے ٹکڑے اور آگرہ کے تاج محل سے بمبئی کے تاج محل تک طنز ومزاح نگاری پر ان کی قدرت کے شاہد ہیں۔مضمون ’مرزاغالب ایک فلمی انٹرویو میں ‘ کاایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’مرزاغالب جب کمرے میں داخل ہوئے تو سیٹھ کریم بھائی نے گردن ذراآگے بڑھاکرحیرت زدہ آنکھوں سے انھیں اس طرح دیکھاجیسے کوئی دیہاتی طالب علم شہرکے ٹیڈی لڑکوں کو دیکھتاہے۔اورجب وہ میز کے قریب پہنچے توگھبراکرپوچھا: ’’تم کون ہوجی ؟‘‘

ڈائرکٹر نرنجن شرمانے سامنے رکھے ہوئے کاغذ پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا:’’یہ گیت کارچناؤ کے لئے ایک کینڈیڈیٹ ہیں۔‘‘

سیٹھ کریم بھائی نے پھر سوال کیا:’’تمھارانام کیاہے جی؟‘‘

مرزاکو یہ سوال سن کر ایک بار پھر غصہ آگیااور وہ تیوریوں پر بل ڈال کر بولے:’’جناب آپ کا بھی وہی انداز گفتارہے،جو آپ کے ملازم کا شعارہے۔وہ تو خیر شاگرد پیشہ ہونے کے سبب قابل معافی ہے،مگر آپ کا طرز ِ تخاطب تہذیب وہ شائستگی کے یکسر منافی ہے۔‘‘

سیٹھ نے منشی لیاقت علی کی طرف نظریں گھماکر دریافت کیا:’’منشی جی !یہ گیت بنانے والا بھلا کیابولا؟اپن توکچھ نہیں سمجھا۔‘‘

منشی جی نے اپنی عینک کے نیچے سے غالب کو سرسے پاؤں تک بغوردیکھتے ہوئے جواب دیا:’’حضوریہ خالص قسم کی اردوبول رہے ہیں۔‘‘

سیٹھ کریم بھائی نے اپنی اٹھی ہوئی گردن کو دوبارہ صوفے کی پشت پر رکھتے ہوئے پرسکون لہجے میںکہا،’’اچھاایسامافک بات ہے!تب تو باباتم ہی اس کا انٹر ویو لو۔اپن کے دماگ میں تو اس کا کوئی بات نہیں گھسیں گا۔‘‘

منشی جی نے عینک سیدھی کی اور میز پر پڑے ہوئے کاغذ کو پڑھ کر پوچھا:’’آپ کا نام مرزااسد اللہ خاں غالب ہے ؟یہ ہوبہو وہی نام ہے جو بہادرشاہ ظفر  ؔ کے استاد کانام تھا۔‘‘

غالب نے جواب دیا:’’جی ہاں میں وہی شاعر ِ دل گرفتہ ہوں ،یعنی وہی غالب خستہ ہوں ،جوکبھی دربار ِ ظفر میں داد سخنوری دیاکرتاتھااور جھولیاں بھر بھر کر انعام لیاکرتاتھا۔خداسے دوسراجنم مانگ کر دوبارہ دنیامیں آیاہوں اور اس جنم میں گزشتہ جنم سے بھی زیادہ بدبختی ساتھ لایاہوں۔دلی میں ہر درسے ٹھکرایاگیااور ہرگھر سے بھگایاگیا۔اب بمبئی میں ٹھوکریں کھارہاہوں اور جی ہی جی میں اپنے کئے پر پچھتارہاہوں ۔دووقت کی روٹی کے لالے پڑگئے ہیں۔دوڑتے دوڑتے پاؤں میںچھالے پڑگئے ہیں۔آج آپ کا اشتہاردیکھ کر یہاں آیاہوں اور یہ التجالایاہوں کہ جناب مجھے اپنی فلم کے گانے لکھنے کا موقع عطاکریں اورمیرے کرم فرمابنیں۔‘‘

(11)

اختر بستوی نے اگرچہ نثر ونظم دونوں میں اپنی صلاحیت کے جوہر دکھائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ شاعری کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔رسائل وجرائد میں شائع ہونے والی ان کی تخلیقات اور مضامین کا جائزہ لیاجائے تو شاعری کا پلڑابھاری نظر آتاہے۔شاعری میں بھی انھوں نے اس بات کی خاص طورسے کوشش کی ہے کہ جن اصناف کو زیادہ درخور ِ اعتنانہیں سمجھاجاتاہے ان پر خصوصی توجہ مبذول کی جائے۔وہ خود لکھتے ہیں:

’’نثر نگاری اور شعر گوئی دونوں میں دماغ کھپاتارہاہوں، مگر اپنا اصل میدان شاعری کو سمجھتاہوں اور اس میں میرا نقطۂ نظر شروع ہی سے یہ رہاہے کہ اردو شاعری کے ایسے گوشوں کی طرف رخ کروں جو بے توجہی کا شکار رہے ہیں۔ چوں کہ ہمارے شعراء نے طویل نظموں کی طرف بہت کم توجہ کی ہے اور اردو میں اس صنف کے نمونوں کی افسوس ناک حد تک کمی ہے اس لئے میں نے طویل نظمیں کہنے کا بیڑا اٹھایا اور دوپابند طویل نظمیں کہیں جو’ نغمۂ شب‘ اور ’بحر بیکراں‘ کے عنوان سے علاحدہ علاحدہ کتابی صورت میں شائع ہوچکی ہیں۔ قطعہ گوئی کا رواج یوں تو اردو میں عام رہا ہے لیکن اس صنف کوبھی بہت کم شعراء نے سنجیدگی کے ساتھ اپنے افکار وتصورات کو منظم ومرطوط پر ظاہر کرنے کا وسیلہ بنایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قطعات کے مجموعے اردو میں بہت کم ہیں۔ اس خیال کے تحت میں نے قطعات بھی کافی تعداد میں کہے ہیں اور ان کا ایک مکمل مجموعہ ’پیکرخیال‘ شائع کرواچکا ہوں۔ پچھلے سات آٹھ برسوں سے پابند مختصر نظمیں کہہ رہا ہوں جواردو کے تمام رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں اپنی مختصر نظموں کا مجموعہ ’اپنے سائے کے سوا‘ مرتب کیا ہے۔ کبھی کبھی غرلیں بھی کہتا ہوں اور وہ بھی رسالوں میں چھپتی رہتی ہیں۔‘‘

(12)

اختر بستوی چوں کہ ایک اچھے ادیب وشاعر ہونے کے ساتھ ایک ناقد بھی تھے۔ اسی وجہ سے وہ تنقید کی اہمیت کو سمجھتے اور دوسروں کی آراء وخیا لات کا احترام کرتے تھے۔ اگرچہ کثرت اشاعت اور گورکھپور یونیورسٹی کے صدرشعبۂ اردو ہونے کے زعم میں کبھی کبھی تعلی کے شکار ہوجاتے تھے لیکن اگرکوئی سنجیدگی سے ان کے کلام پر گرفت کرتاتھا توچیں بہ جبیں ہونے کی بجائے اس کا صدق دل سے اعتراف بھی کرتے تھے۔ ’اپنے سائے کے سوا‘پر عتیق اثرندوی نے ماہنامہ ’نقوش حیات‘ بستی کے مارچ1992کے شمارے میں تبصرہ کیا۔ مبصرنے مجموعے کی خوبیوں کو اجاگرکرنے کے ساتھ ساتھ خامیوں کی بھی نشاندہی کی۔ اس تبصرے پر اختر بستوی نے ایک مراسلہ لکھا جس سے ان کی کشادہ دلی اور وسیع النظری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’محترم عتیق اثر صاحب سے میں واقف نہیں ہوں لیکن مضمون پڑھ کر اندازہ ہواکہ وہ لائق وفائق آدمی ہیں۔ موصوف نے مذکورہ مجموعے کی نظموں میں تحسینی پہلو بھی ڈھونڈے ہیں اور نقائص واغلاط کی بھی جستجو کی ہے۔صفحہ 15پر تیسرے کالم میں انھوںنے سنجیدگی اور شعریت کی بحث کرکے میری نظموں میں شعریت کے فقدان کا جو حکم لگایا ہے اسے متنازعہ معاملہ کہاجاسکتاہے۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی کہ موصوف کو نظم ’قرب اور دوری‘کے دوالگ الگ مصرعوں ’آدمی سے ہوں سدانزدیک تر‘ اور ’سب کو قرب انسان کامنظور ہے‘ میں ’صرف‘ تکرار بیان نظرآئی۔ اس سے زیادہ حیرت زدہ میں یہ پڑھ کر ہواکہ ’پانی‘ اور ’منزل ارتقائ‘ایسی نظمیں ہیں جن میں تقطیع کی مقراض سے کہیں کہیں حروف وحرکات کٹنے لگتے ہیں۔ یہ چند باتیں عرض کرکے میں ہرگزیہ نہیں کہنا چاہتا کہ ’اپنے سائے کے سوا‘ کی نظمیں خامیوں اور خرابیوں سے پاک ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کلام ِ اختر ہے، نعوذ باللہ کلام ِالہٰی نہیں ہے۔ عتیق اثر صاحب کے مضمون سے ایک بات عیاں ہے کہ انھوںنے میر ے مجموعے کوبڑی گہری نظر سے پڑھاہے اور اس کے متعلق بھر پور اظہار خیال کیا ہے،جس کے لئے میں ان کا شکر گذار ہوں۔‘‘(13)
شعر وشاعری اور نثر نگاری کے علاوہ تدریس کے ذریعے اختر بستوی نے اردو زبان وادب کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ تخلیقی کام تووہ خارجی اوقات میں کرتے تھے لیکن ان کااصل پیشہ تدریس تھا۔ سینکڑوں طلباء کو اردو کی تعلیم دے کر اس مقبول ہندوستانی زبان کے فروغ میں اہم رول اداکیا۔ ان طلباء میں کتنے مہ وانجم بن کر دنیا کو روشن کررہے ہیں۔ گورکھپوریونیورسٹی کے شعبۂ اردو میںاختر صاحب کی زیر نگرانی گیا رہ طلباء وطالبات نے تحقیقی مقالے لکھے جن میں سے متعدد کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ جن مقالہ نگاروں نے آپ کی نگرانی میں مقالے لکھے ان کی تفصیل حسب ذیل:

سب سے پہلا مقالہ ڈاکٹر شفیق اعظمی نے لکھا۔ انھوںنے 1986میں’ کرشن چندرکی افسانہ نگاری‘کے موضوع  مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد بالترتیب ڈاکٹر درخشاں تاجورنے1988میں’ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں اردو شاعری کا حصہ ‘ڈاکٹر بشریٰ بانو نے اسی سال’اردو میں تنقیدنگاری کا ارتقائ‘ ڈاکٹر خورشید عالم خاں نے1990میں’اردوافسانوں میں گاؤں کی عکاسی‘اور ڈاکٹر محمداشرف نے اسی سال ’عصمت چغتائی: حیات اور ادبی خدمات‘ کے موضوع پر مقالہ قلم بندکیا۔ اس کے علاوہ شاہجہاں خاتون نے1991میں ’اردو افسانوں میں خواتین کے مسائل ‘ ڈاکٹر فوزیہ بانو نے1992میں ’اردو تحقیق کا ارتقاء :1947سے1975تک‘ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اسی سال’ بیسویں صدی کے اردو ناولوںمیں کسانوں اور مزدوروں کے مسائل‘ کے موضوع پر مقالہ سپردقلم کیا۔ ڈاکٹر سیمافاروقی نے1994میں’پریم چندکے ناولوں میں خواتین کے مسائل  ‘اور ڈاکٹر زیبا محمود نے1996میں ’کلیم الدین احمد: حیات اورکارنامے ‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا۔ گیارہواں اور آخری مقالہ غزالہ پروین نے1997میں ’نذیر احمد اور ان کے معاصرین کے ناولوں میں خواتین کے مسائل ‘ کے موضوع پر اپناپی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر سندحاصل کی۔ 

ڈاکٹر اختر بستوی طلباء کے ساتھ نہایت شفقت کا برتاؤ کرتے ۔ تعلیمی امور میں نہایت انہماک سے ان کی رہنمائی کرتے ۔ محنت سے پڑھانے کے ساتھ تحقیقی مقالہ تحریر کرنے میں ہر طرح کی مدد کرتے اورحوالہ جاتی کتابوں کی فراہمی ورہنمائی اور دیگر دشواریوں کے حل میں قدم قدم پر ساتھ دیتے تھے۔  ڈاکٹر شکیل احمدبیان کرتے ہیں:

’’میں نے ان کے شاگردوں کے ساتھ اختر صاحب کی محنت اور ان کی شفقت کا مشاہدہ کیا ہے اس لئے مجھے یہ کہنے میں بالکل تکلف نہیں کہ وہ شاگردوں کی سچی رہنمائی کرتے تھے۔ وہ بجا طورپر مقالہ نگار کے نگراں ہوتے تھے۔ املا اور جملے کی درستگی سے لے کر حوالہ جات اور دیگر متعلقات پر گھنٹوں اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ کر محنت کراتے تھے۔انھیں بالکل پسند نہیں تھا کہ مقالہ صرف ڈگری کے حصول کے لئے لکھاجائے۔ اس زاویئے سے دیکھاجائے تو انھوںنے پروفیسر محمود الہٰی صاحب کے قائم کردہ معیار کو باقی رکھا اور اسے فروغ دیا۔‘‘

(14)

اختر صاحب اپنے ریسرچ اسکالروں اور جونیئروں سے بہت محبت کرتے اور ان کا بڑاخیال رکھتے ۔آج کے دورمیں جہاں نگراں اور اساتذہ اپنے طلباء کے ساتھ نوکروں جیسابرتاؤ کرتے ہوں اختر صاحب ان کے ساتھ تقریباً برادرانہ سلوک کرتے ۔ان سے کوئی ذاتی کام لینا ہرگز گوارانہیں کرتے تھے۔گورکھپوریونیورسٹی کے شعبہ اردو میں تعلیم حاصل کرچکے ڈاکٹر شکیل احمد لکھتے ہیں:
’’میں نے ایک آدھ بار کوشش بھی کی کہ اسٹو جلاکر چائے بنادوں مگر آپ نے بالکل اجازت نہیں دی۔کہتے تھے کہ شکیل صاحب یہ کیسے ہوسکتاہے۔میں اپنے شاگردوں سے بھی چائے نہیں بنواتاتو آپ تو میرے شاگرد بھی نہیںہیں ،استاد بھائی ہیں۔مہمان ہیں۔ ‘‘

(15)

اختر صاحب طلباء کو بڑی محنت سے پڑھاتے۔ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ طلباء پڑھ لکھ کر ایک اچھے شہری بنیں اور ملک کی تعمیرو تشکیل میں اہم کرداراداکریں۔وہ کیریئر کے ساتھ  اخلاقیات پر بھی زور دیتے تھے۔یہی لگاؤ تھاکہ وہ طلباء کی شرارتوں کو نظر اندازکرکے پوری توجہ ان کی تعلیم پر دیتے ۔بڑی دل سوزی کامظاہرہ کرتے ۔غصے کا اظہار بہت کم کرتے تھے۔بقول غلام رضوی گردش:
’’اختر صاحب طلبائے کرام کی نازیباحرکتوں کو دیکھ کر انھیں ڈانٹتے پھٹکارتے نہیں۔غیظ وغضب کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔چیں پر جبیں نہیں ہوتے بلکہ ان کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کے لئے قوت ِ متخیلہ کاسہارالیتے ہیں جو انھیں محیر العقول واقعات سنانے پر مجبور کرتی ہے۔مثلاً اقبال کو پڑھارہے ہیں۔کلاس میں گڑ بڑ ہوگئی۔بس گل افشانی گفتار شروع کردی...بچپن میں صاحب ،میں ایک دن کرکٹ کھیل رہاتھا۔(ان دنوں ٹیسٹ میچ ہورہے تھے۔)تماشائیوں میں ایک نستعلیق قسم کے بزرگ بھی تھے۔میچ ختم ہواتو انگلی کے اشارے سے مجھے اپنی طرف بلاکر اقبال پر ایک پتلی سی کتاب دی اور فرمایا:تمہیں میدان  ِ ادب میں ابھی بہت کچھ کرناہے۔اسے پڑھوتمہارے کام آئے گی۔ارے صاحب ،بعد میں معلوم ہواکہ جناب مجنوں گورکھپوری ہیں۔بس کچھ مت پوچھئے۔‘‘

(16)

اختر بستوی ایک اچھے اور سنجیدہ مقرر بھی تھے۔اگرچہ انھوں نے اس فن کو پیشہ ورانہ طور پر اختیارنہیں کیاتھالیکن اگر کوئی درخواست کرتاتویہ پیشکش بخوشی قبول کرلیتے اور بڑی جامع تقریر کرتے۔ان کی خطابت میں سنجیدگی،علمیت اور تاثیر پائی جاتی تھی۔خاص بات یہ تھی کہ تقریر علمی ہونے کے باوجود اتنی خشک نہیں ہوتی کہ لوگ اکتاہٹ محسوس کریں ۔ان کی تقریروں میں بہت ہلکاہلکا ظرافت کا عنصر بھی پایاجاتاتھاجس سے تقریر دلچسپ ہوجاتی تھی اور کانوں پر گراں نہیں گذرتی تھی۔

اختر صاحب آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں بھی برابر شرکت کرتے تھے۔ان کی بہت سی تقاریر اور مباحثے ریڈیو سے نشر ہوئے۔ریڈیو پر نظامت کے فرائض بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے۔اپنے طلباء یا جونیئروں کے ساتھ ریڈیو پر آتے تو نہایت سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوستانہ انداز میں گفتگو کرتے ۔ان پر اپنا علمی رعب نہیں جھاڑتے تھے۔

اخترصاحب علمی وادبی کمالات کے حامل ہونے کے ساتھ ایک اچھے انسان بھی تھے۔مجلس پسند تھے اور اہل علم سے تعلق استوارکرنے میں ماہر تھے۔یہی وجہ ہے ان کا حلقہ احباب بڑاوسیع تھا۔ہندوستان کے تقریباً ہر شہر میں ان کے جاننے والے تھے۔دوستوں اور مہمانوں کی بڑی عزت کرتے اور ان پر دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔کسی بھی وقت کوئی وارد ہوجائے بڑے والہانہ اندازمیں خندہ پیشانی سے اس کا خیر مقدم کرتے اور خوب خاطر مدارات کرتے ۔ان کی مہمان نوازی کی مثال دی جاتی ہے۔بستی او رگورکھپور کے قیام کے دوران مختلف علمی وادبی مقامات پر جاکر بیٹھتے تھے اور دونوں شہروں کی ادبی سرگرمیوں میں شریک ہوتے تھے۔

اختر صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔آپ کے یہاں کتابوں اور رسائل وجرائد کی بڑی تعداد تھی۔آپ اپنا زیادہ تر وقت مطالعے میں صرف کرتے تھے۔کتابوں کو بہت سلیقے سے رکھتے تھے۔

اختر بستوی کا پورانام محمد اختر علی صدیقی اور تخلص اختر ہے۔ وہ اترپردیش کے مشہور ضلع ’بستی‘ میں پیدا ہوئے۔ انھوںنے خود اپنی تاریخ پیدائش تین مختلف مقامات پر الگ الگ لکھی ہے۔ مصطفیٰ فطرت کی مرتبہ کتاب’تخلیقی نقوش‘ مطبوعہ 1982میں تاریخ ولادت8؍اگست1938اوراپنے دوسرے مجمویہ کلام بحربیکراں مطبوعہ 1974میں بھی مذکورہ تاریخ پیدائش ہی لکھی ہے۔جب کہ اترپردیش اردو اکادمی ،لکھنؤکے زیر اہتمام 1983میں شائع ہونے والی کتاب ’دستاویز‘(مصنفین کے اپنے قلم سے) میں9؍اگست 1940لکھی ہے۔ ان دونوں میں صحیح تاریخ پیدائش کون سی ہے یہ فیصلہ کرنامشکل ہے ۔لیکن قرین قیاس ہے کہ8؍اگست1938ان کی اصل تاریخ پیدائش ہے جب کہ 9؍اگست 1940کاغذی۔ اختر صاحب کے اجداد کا وطنی تعلق الہ آباد سے تھا۔ چوں کہ اختر صاحب بستی میں پیدا ہوئے اسی لئے اپنے نام کے ساتھ بستوی لکھنے لگے۔ وہ خودلکھتے ہیں:

’’اجدادکا وطن نارہ، ضلع الہ آباد تھا۔ والد بسلسلۂ ملازمت بستی تشریف لائے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ میری والدہ بستی کی ہیں۔ میں چوں کہ بستی میں پیدا ہوا اور وہیں کی فضاؤں میں بڑا ہوا اس لئے اپنا وطن بستی ہی کو سمجھتا ہوں اور اپنے تخلص کے ساتھ ’بستوی‘لکھتا ہوں۔‘‘

(17)

ڈاکٹر اختر بستوی نے پہلے انگریزی اور پھر اردو میں ایم اے کیا۔ بعد میں گورکھپور یونیورسٹی سے اردو میں ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی۔ انھوںنے اپنا تحقیقی مقالہ’ اردو ادب میں سیکولرازم‘ کے عنوان سے پروفیسر محمود الہٰی کی نگرانی میں1979میں تحریر کیا۔ انھوںنے بستی کے خیرانٹر کالج میں انگریزی کے استاد کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیں اور پھر بعد میں گورکھپوریونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لکچررکی حیثیت سے تقررہوا۔ بعد میں ترقی کرتے ہوئے صدر شعبہ کے منصب تک پہنچے۔

اختر بستوی کے کلام میں جو توازن ، سلامت روی ٹھہراؤاور اعتدال پایاجاتاہے وہ ان کی اصل زندگی میں نہیں ملتا۔ ان کی افتادطبع ذرا مختلف تھی۔ انھوںنے ہمیشہ تجردکی زندگی گذاری اور کبھی شادی کا’ حادثہ ‘پیش نہ آیا۔ اختر صاحب صابن نہیں استعمال کرتے تھے۔ کہتے تھے الرجی ہے۔ اس کی جگہ چکنابیسن استعمال کرتے تھے جو خاص طور سے بستی سے چھن کرآتاتھا۔ اسی طرح ٹیری کاٹ پہننے سے گریز کرتے تھے اور خالص سوتی کپڑے پہنتے تھے۔ چائے ہمیشہ بغیر دودھ کی پیتے اور خودہی بڑے اہتمام سے تیار کرتے تھے۔ بستی والا اسٹوجومٹی کے تیل سے چلتا تھا چائے اسی پر پکاتے تھے۔ چائے کی پتی آسام سے ان کاکوئی شاگرد بھیجتا تھا۔ ان کی شخصیت اور مزاج کا خاکہ کھینچتے ہوئے غلام رضوی گردش ایک جگہ لکھتے ہیں:۔

’’ہمارے اختر صاحب کوہمیشہ جلدی رہتی ہے۔ باہر سے آئے ہوئے مقالوں پر رپورٹ لکھنے کی جلدی، کسی طالب علم یا طالبہ کے مقالے کی تصحیح کی جلدی، امتحانات کی کاپیاں رجسٹرار آفس میں جمع کرنے کی جلدی، کسی زیر کتابت مسودہ کے سلسلے میں کاتب کوگھر پرہی دبوچے لینے کی جلدی، بروقت یونیورسٹی پہنچنے کی جلدی،(اس جلدبازی میں اپنے کمرے کی چابی اکثر گھر پر ہی بھول آتے ہیں) پھر گھر سے چابی منگوانے کی جلدی، الماری بندنہ ہو توبوٹ سے ٹھوکرمار کراسے بند کرنے کی جلدی، لکھنؤ میں وارد ہونے کے لئے ریزروشن کروانے کی جلدی، اکادمی کی میٹنگ میں وقت مقررہ پر حاضر ہونے کی جلدی، اردو کے ہر روزنامہ اور ماہ نامہ کے مدیر سے ملنے کی جلدی، احباب کے خطوط کے جواب لکھنے کی جلدی، گورکھپور سے بستی پہنچنے کی جلدی، پھر بستی سے گورکھپوری واپس آنے کی جلدی ، چائے بنانے یا بنوانے کی جلدی، پاجامہ میں ازاربندڈالنے کی جلدی،(گھر میں ہمیشہ قمیص پاجامہ پہنتے ہیں، تہبند کبھی نہیں) پھر جوںتوں شیوبنانے کی جلدی ، پانی چلاجائے گا اس لئے غسل کرنے کی جلدی، مسلسل ایک سانس میں معذرت کرنے کی جلدی، قمیص کے بٹن ٹکوانے کی جلدی کیوں کہ کالر کابٹن توقطعی ٹوٹا نہیں رہنا چاہئے۔ ( موصوف ٹائی لگائیں نہ لگائیں کالر ہمیشہ بند رہتاہے، گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں بھی!) نہ جانے کیوں اختر صاحب سے مل کر بے رحم وقت کی تیز گامی کا احساس شدید سے شدید ترہوجاتاہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے جیسے وہ وقت سے بہت آگے نکل جانا چاہتے ہوں۔‘‘

(18) 

اسی طرح وہ ان کا حلیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میانہ بلکہ قدرے پستہ قد، گندمی رنگ، گٹھیلابدن، بیضوی چہرہ، چپٹی ناک، موٹے ہوٹے ہونٹ، بظاہر بے حس آنکھوںپر سفید چشمہ ، کلاجبڑاایسا جسے دیکھ کر احساس  ہوتاہے جیسے پہلوان سخن استاد امام بخش ناسخ کے اکھاڑے سے تعلق ہو، اوپر اٹھتی ہوئی کشادہ پیشانی جسے دیکھ کر سربلند ی کا احساس ہوتاہے، سرپر کبھی سیاہ اور گھیزے بال ہوتے تھے لیکن خداکے فضل سے اب معاملہ تقریباً صفاچٹ ہے، ہاں کنپٹیوں اور گدی پر بچے ہوئے کچھ بال زبان حال سے فلسفہ جبر کی فریاد کرتے رہتے ہیں۔

(19)

اختر بستوی کی زندگی میں رات کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ انھوں نے اپنی بعض کتابوںکاانتساب رات سے کیاہے۔پتہ نہیں ان کی زندگی میں کوئی حقیقی محبوبہ تھی یانہیں ،لیکن اگر کوئی شے ان کی محبوبہ قرار دی جاسکتی ہے تو وہ رات ہے۔جس طرح ایک عام انسان اپنی محبوبہ کی خوبیاں کرتارہتاہے اسی طرح اختر صاحب رات کی خوبیاں بیان کرتے رہتے تھے۔اپنے دوستوں سے رات کے ’فضائل مناقب ‘ پر گھنٹوں گفتگو کیاکرتے تھے۔ان کی کتابیں نغمہ شب،بحر بیکراں اور پیکر ِ خیال اٹھاکر دیکھ لیجئے آپ کو ہر جگہ رات کی ’تابانی ‘ نظر آئے گی۔وہ رات میں باہرنکل کر نہ صرف قریب سے اپنی اس ’لیلیٰ‘ کا دیدارکیاکرتے تھے بلکہ اس کے اسرارورموز سے آگاہی بھی حاصل کرتے تھے ۔ان کی زیادہ تر تخلیقات کا سرچشمہ یہی رات ہے۔

 ڈاکٹر شکیل احمداس کی گواہی دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

’’آپ کے معمولات قدرے مختلف تھے، خود بیان کرتے تھے کہ رات گئے تک لکھنے پڑھنے کا معاملہ رکھتاہوں۔12؍یا ایک بجے رات گھر سے نکلتا ہوں، رکشے پر بیٹھ جاتاہوں جو شہر کی مختلف سڑکوں پر دھیمی رفتار سے چلتا رہتاہے، سنسان سڑک پر اکادکاکوئی سواری یاآدمی یا پھر دور دورتک سناٹا۔ اس دوران کوئی چائے خانہ کھلامل گیا تو رکشہ ڈرائیور کے ساتھ چائے پیتاہوں اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد واپس گھر آجاتاہوں دوتین بجے رات سے نودس بجے صبح تک سوتاہوں۔ خود کو شاعر شب کہتے تھے اور اپنی بہت سی نظموں اور تحریروں کا فکری اور مشاہداتی سرچشمہ اسی شب گذاری کو بتاتے تھے۔ رات گئے کی اس سیر وتفریح کے کچھ واقعات کو حیرت افزاانداز میں بیان بھی کرتے تھے۔

(20)

اختر بستوی رسائل وجرائدمیں شائع ہونے کے ساتھ ملک وبیرون ملک کے مشاعروں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ تحت میں پڑھتے تھے اس کے باوجود آپ کا کلام سنجیدگی سے سنااور پسندکیا جاتاتھا۔ مشاعروں کی نظامت کے فرائض بھی بڑی سادگی لیکن خوبصورتی سے انجام دیتے تھے۔

 راقم کاخیال ہے کہ مشرقی اترپردیش میں کثرت اشاعت اور قومی وبین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کے لحاظ سے فضاابن فیضی کو چھوڑ کر اختر صاحب کا کوئی ثانی نہیں تھا۔جوعالمگیرشہرت ان کوملی ان کے کسی مقامی ہم عصرکو حاصل نہیں ہوئی۔ اختر بستوی کی یہ انفرادیت بھی تھی کہ وہ عوام وخواص دونوں حلقوںمیں یکساں طور سے مقبول تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ موقررسائل وجرائد کے علاوہ مقبول عام پرچوں میں بھی ان کی تخلیقات کثرت سے شائع ہوتی تھیں۔اس کے علاوہ موصوف مشاعروں اور سمیناروں میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ لیکن یہ انھیں کاکمال تھاکہ خود کو سنبھالے رکھا اور مشاعروں میں شرکت نیز عام رسالوں میں اشاعت کے باوجود اپنی ادبی حیثیت مجروح نہیں ہونے دی۔ وہ ہمیشہ خواص میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور ان کی تحریروں کی قدر کی جاتی تھی۔ شہرت ومقبولیت کا یہ عالم تھاکہ ادباء وشعراء سے لے کر رکشے والے تک جانتے اور پہچانتے تھے، غلام رضوی گردش کے الفاظ میں یہ واقعہ سنئے:

’’بہ سلامت روی وبازآئی کے مصداق مشاعروں کے سلسلے میں بیرونی ممالک سے سفر کے بعد بستی پہنچے۔ اسٹیشن سے باہر تشریف لائے تو ایک رکشے والا ان کی طرف لپکا۔ دریافت کیا:
روشن محل، گاندھی نگر چلوگے؟

وہ بخوش رضا مند ہوگیا تو پوچھا:

پیسے! کہنے لگا: ’’میاں، آپ نے تو ساری دنیامیں بستی کا جھنڈاگاڑدیا۔ بھلاآپ سے پیسے کیا لوں؟بس بیٹھ جائیے۔‘‘

(21)

اختر بستوی کے مذکورہ کاموںسے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوںنے ادب کے کئی مید انوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور اپنی ایک امتیازی شان قائم کی ۔لیکن یہ تلخ سچائی ہے کہ انھوںنے جس بستی کا جھنڈا پوری دنیا میں گاڑا اس کے باشندوںنے ان کی اتنی قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق تھے۔ ورنہ کیاوجہ ہے کہ ان کی اتنی بڑی ادبی خدمات کے باوجود ابھی تک ان پر کوئی قابل قدر کام نہیں ہوا۔ مشرقی یوپی کی دیگر اہم شخصیات کی طرح اختر بستوی کوبھی نظر انداز کیا گیا۔

اختربستوی انتقال سے قبل عارضہ قلب کے شکارہوگئے تھے۔ذیابیطس کے بھی مریض تھے۔مدراس کے اپولو اسپتال میں دل کا کامیاب آپریشن ہوا۔اس کے بعد پھر پہلے کی طرح فعال ہوگئے اور تدریسی وادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔مئی 1998میں ایک معمولی پھوڑے کا آپریشن جان لیواثابت ہوا۔شوگر کا خیال کئے بغیر کئے گئے اس آپریشن نے انھیں توڑ کر رکھ دیا۔تقریباً ایک مہینہ اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد بالآخر 10جون 1998کو قلندرصفت شاعروادیب اورزندگی وانسانیت کے رزمیہ نگارڈاکٹر اختر بستوی نے ملازمت سے سبکدوشی سے کئی سال قبل داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔

٭٭٭

حواشی:

-1      نغمہ شب ،(پیش لفظ)صفحہ 5-6
-2      تبریک وتبصرے،صفحہ 137-38
-3      بحر بیکراں (پیش لفظ) صفحہ 7
-4      پیکر خیال(پیش لفظ) صفحہ ۔5-6
-5       اپنے سائے کے سوا(پیش لفظ) صفحہ 5
-6      ماہ نامہ نقوش ِ حیات ،لہرولی بازار،بستی ،نومبر،دسمبر1991،صفحہ 28
-7      اپنے سائے کے سوا،(پیش لفظ ) صفحہ 9
-8      ماہ نامہنقوش حیات ،لہرولی بازار، بستی، نومبر، دسمبر 1991،صفحہ 29
-9      ماہ نامہنقوش حیات ،لہرولی بازار،بستی،مارچ 1992،صفحہ ۔9
-10      ٹیڑھے نشانے(پیش لفظ) صفحہ ۔7
-11      ٹیڑھے نشانے،صفحہ 44-45
-12      تخلیقی نقوش، صفحہ 32-33
-13      ماہ نامہ نقوش حیات، لہرولی بازار،بستی، اپریل 1992، صفحہ 30
-14      سمٹتاسائبان، صفحہ72
-15      سمٹتاسائبان ،صفحہ،94
-16      ماہ نامہ ’نیادور‘لکھنؤ ،ستمبر 1998،صفحہ 18-19
-17       دستاویز، اترپردیش ، اردو اکادمی، لکھنؤ ،صفحہ16
-18       ماہ نامہ ’نیادور‘لکھنؤ ستمبر 1998صفحہ17
-19       ماہ نامہ’ نیادور‘ لکھنؤ ، ستمبر 1998،صفحہ17
-20       سمٹتاسائبان، صفحہ93
-21      ماہ نامہ ’ نیادور‘ لکھنؤ، ستمبر 1998، صفحہ 21

*******************************

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1185