donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mehtab Qadar
Title :
   Falki Mera Yar Nahi


فلکی میرا یار نہیں

 

مہتاب قدر۔جدہ
 


ڈاکٹرمحمد علیم اللہ خان فلکی عرف ِ عام میں’’ علیم فلکی ‘‘جس کے ساتھ اب ڈاکٹر کا لاحقہ تکلف والی محفلوں میں کہنا ضروری ہو گیا ہے۔ساحر لدھیانوی، حفیؔظ جالندھری، خمار بارہ بنکوئی وغیرہ وغیرہ اس طرح ناموں کے ساتھ اپنے علاقوں کے نام کا انضمام ایک علمی اورادبی فیشن سا بن گیا تھا، بلکہ بعض اولڈ فیشن لوگ اب بھی اسکو لازمی سمجھتے ہیں۔اگر یہی کرائٹیریا اور معیارہے تو پھر علیم خان کو ’’فلک نمائی ‘‘ہونا چاہیے تھا  ’فلکی ‘ نہیں۔ ہمارے ایک ہندوستانی دوست سے ایک مقامی شخص نے بطور تحقیر دریافت کیا رفیق انت من فین  (تم کہاں سے ہو)انہوں نےبرجستہ جواب دیا انا من جنّہ( یعنی میں جنت سےآیا ہوں)، سوال کرنے والے نے پھر پوچھا کیف ؟(وہ کیسے) جواب ملا انا ابن آدم و آدم من الجنہ   (میں آدم کی اولاد ہوں اور وہ  جنت سے آئے تھے)۔ اسی لئے فلکی صاحب’’  علیم خان جنّتی ‘‘بھی لکھتے تو کوئی مضائقہ نہ تھا ہاں تھوڑا غلو کا پہلو نمودار ہوتا مگر اس میں کوئی نئی بات نہیں آجکل ہمارے معاشرے میں مبالغہ آمیزی اور جھوٹ، فریب  اورسازش ایک رویہ بن گیا ہےمال داروں کو تنظیموں کا آکسیجن گردانا  صرف اسلئے جانے لگا  کہ وہ اپنی دولت سے تنظیموں پراثرانداز ہونے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بہرحال خانصاحب اپنے نام کے لاحقے کی وجہ سے فلکی کہلوانے کے باوجود زمین پر ہی رہتے ہیں اور زمین کے مسائل پرہی اپنا وقت پییہ اور صلاحیتیں لگا لگا کر کڑھتے رہتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہے اونچا اڑنے والے پرندوں کی نگاہیں زمین پر ہی ہوتی ہیں ۔

فلکی صاحب کا یوم پیدائش ۱۵جولائی  قریب ہے اور انکی ساٹھویں سالگرہ منانے کاایک موقع دوستوں کےہاتھ آسکتاہے۔البتہ انکی سالگرہ کو کسی اور کو اسپانسر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ہمارے دوست اللہ کے فضل سے اپنے مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود بڑے حوصلے والے اور غیرت مند آدمی بھی ہیں۔

موصوف اپنے ایک استاد کا تذکرہ بطور سند کرتے ہیں کہ انکا بچپن بہت شریفانہ گزرا ہے یعنی وہ ساتویں جماعت تک حضرت انواراللہ شاہ صاحب کےشاگرد رہے ہیں۔ میں ذاتی طورپر انکے بچپن سے واقف نہیں ہوں اسلئے انکی اس سند کو من وعن قبول کرنا میری مجبوری ہے۔ مسجد سے تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے والا عزم کا پیکر یہ جواں نما (جہاں نما نہیں ) شخص  اب بھی دینی اور علمی مشاغل میں کچھ اس طرح مصروف ہے جیسے پچھلے زمانوں میں سلاطین سلف، میسر رہنے والے سامان تعیش کے باجود اپنے آپ کو قوم و ملت کے فروغ اور سربلندی کیلئے جنگی جھنجھٹوں کی آگ میں جھوکے رہتے تھے۔


سن ۱۹۵۴ کے وسط میں مرحوم محمد خلیل اللہ خان کے گھر پیدا ہونے والے علیم فلکی بجا طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بنی نوع انسان اور اجنّہ کو اپنی عبادت کےلئے پیدا کیا ہے شاید اسی لئے   تمام  قومی اور ملی معاملات میں انکا رویّہ عبادتوں جیسا ہی رہتا ہے۔فرعون نے حضرت موسی کی پیدائش کو روکنے کیلئے دنیا بھر کے جتن کئے بنی اسرائیل کے تمام مردوں اور عورتوں کولمحۃ خاص میں وصال سے روکا گیا مگر پیدائش طئے تھی سو ہو کر رہی اسی طرح ڈاکٹر خان کی پیدائش بھی طئے تھی ورنہ   آج کی شام یہ فضول گوئی کا موقع ہمیں کون دیتا  کہ کسی بھی بینر تلے کسی فنکار کا علی الاعلان بائکاٹ کرنے والے ذی ہوش لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ میں قلم اور منہ میں زبان رکھنے والے کو اسٹیج سے محروم کرکے وہ اسکی صلاحیتوں پر قدغن لگا لیں گے۔حالانکہ فلکی صاحب ہوں یاکوئی اور قلمکار و فنکار تخلیقی کام کرنےوالوں کونہ بائنیر کی ضرورت ہوتی ہے نہ اسٹیج نہ انجمن کی یہ تو وہ لوازمے ہیں جو خود ہی کھنچ کر اس کی طرف آتے ہیں کیونکہ قلمکار و فنکار اپنی ذات میں خود ایک انجمن ہوتا ہے۔۔۔۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔۔۔۔۔

علیم خان صاحب  کو زندگی کے سفر میں مختلف قافلوں کے ساتھ چلنے کا شرف حاصل رہا موصوف کئی دینی جماعتوں کے شانہ بشانہ چلے اور اپنی صلاحیتوں کو ان پر خرچ کیا مگر اس سیماب صفت شخص کی  جولانی  ِطبیعت کو کہیں قرار نہ آیا سو اس نے معاشرے کی کئی برائیوں کو بدست خود ختم کرنے کاعزم کیا اور اپنی تمام ترصلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ اس کام میں جٹ گیا۔ مختلف سماجی انجمنوں میں انہیں ذمہ داریاں دی گئیں مگر منزل پر نظر رکھنے والے مسافر کسی گھنے پیڑ کی چھاوں میں سستاتے ضرور ہیں رکتے نہیں۔مشاعروں کی کنوینری دی گئ مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ انکا میدان نہ تھا سو وہ اسکے ساتھ انصاف نہ کرسکے۔
مائیں اپنے بچوں کو لاڈ پیارسے اچھے اچھے ناموں سے پکارتی ہیں ،کچھ خواب ہوتے ہیں ماوں کے جو انکی پلکوں پر سجے رہتے ہیں انکی والدہ محترمہ  انہیں ’’چندا ‘‘کہہ کر پکارتی تھیں اس کا ان پر یہ اثر ہوا کہ وہ ہمیشہ چاند کی طرح چمکتے رہے البتہ قومی اور ملی معاملات میں ’’چندوں ‘‘سے انہیں بہت الرجی رہی ہے ان کا خیال یہ ہے کہ جو قوم چندوں پر پلے بڑھے اور اپنے کام کرے اسکا ’مورال ‘کیسے بلند ہو سکتا ہے ، موصوف عمومی چندوں کے بجائے قربانیوں پر یقین رکھتے ہیں ،بشرطیکہ دینے والے شہرت پسند نہ ہوں۔اخباروں میں غلوآمیز خبریں اور تصویریں چھپوانے کا شوق نہ رکھتے ہوں۔


فلکی صاحب سے میری ابتدائی ملاقاتیں سن ۱۹۸۱ کے آس پاس شروع ہوئیں، تعلق نہ بن سکا مگر میں متاثر ضرور ہوا۔ پہلی ملاقات تو پڑوسی ہونے کے سبب جامعہ میں ہوئی اور پھر افسر فہیم کے مکان پر تعمیر ملت کا کوئی پروگرام تھا جس میں ضیاالدین نیر صاحب اور علیم خان فلکی کی سوچ اور فکر کو سمجھنے کاموقع ملا مگر تیسری بار میں زیادہ متاثر اُس وقت ہوا جب عزیزیہ کے ایک جلسے میں ہمارے مشہور سیاسی لیڈر مرحوم سلطان صلاح الدین اویسی صاحب پبلک میٹنگ سے مخاطب تھے تقریر شوق و ذوق سے سنی گئی وقفہ ہوا تو علیم خان نے کچھ کہنے کی اجازت چاہی ،اجازت مرحمت کیگئی ،اس وقت موصوف کاجو اسلوب ِ بیاں  تھا مجھے بہت پسند آیا فکر نے بہت متاثر کیا  واقعہ کی تفصیل کا یہ موقع نہیں مگر میں فکری طور پر ان سے اسی وقت جڑگیا۔  میرا معاملہ انکے ساتھ یہ ہے کہ میں کسی کو کچھ کہوں نہ کہوں انہیں کڑوی کسیلی اکثر سناتا رہتا ہوں اور انکا معاملہ یہ کہ خاموشی سے سن لیتے ہیں پتہ نہیں وہ اسے دوانے کی بڑ سمجھتے ہیں یا شاید اسلئے کہ خانصاحب اب جہاں دیدہ ہوگئے ہیں، میں جو بھی ان سےکہتا ہوں اس میں جذبوں کی سچائی انکو نظرآجاتی ہے۔


مختلف ملکوں کے سفرنے انہیں تہذیبوں معاشروں کے مطالعے کا موقع فراہم کیا جس سے انکی شخصیت میں مزید گہرائی اور گیرائی آتی گئ ہے تعلیمی میدان میں اپنی تجارتی مصروفیت کے باوجود وہ آگے بڑھتے رہے گریجویش کرکے سعودی عرب آئے تھے مگر مختلف ملکوں سے ڈپلومے کرنے کے بعد ایم اے ایم فل اور پھر ڈاکٹریٹ کی منزل تک پہنچنے میں ایک عمل کا جنون تھا جو ان پر سوار رہتا تھا اور جہادیدہ لوگ جانتے ہیں کہ دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے اکثر و بیشتردیوانے ہی رہے ہیں ۔علامہ اقبال کو انہی دیوانوں کی تلاش تھی  جن کیلئے انہوں نے کہا کہ

وہ مرد  ِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو    ہو جس کے رگ و پئے میں فقط مستی کردار   

کردار کی یہی مستی اسے   کام کی لگن عطاکرکے اپنے اطراف و اکناف سے بیگانہ کردیتی ہے۔
 ان سے اکثر میری  ملاقات چند لمحوں کی ہوتی ہے فون آتا کہ میں آپ کی طرف آرہا ہوں دس منٹ ہیں میرے پاس ،میں ملنے چلا جاتاہوں تو وہ اپنی کار میں بیٹھے فون پر مصروف نظرآتے ہیں دو چار ادھر ادھر کی باتیں  یاکبھی شعر وادب کا تذکرہ ہوا پھر کوئی جاتا ہوا انہیں دیکھ کر رک جاتا ہے یا پھر کوئی فون آجاتا ہے تو یہ ملاقات دس منٹ سے سکڑ کر دو منٹ کی رہ جاتی ہے۔ مروت اور منکسر مزاجی انکی طبیعت کا خاصہ ہے مگر کبھی کبھی یہ کیفیت انسان کے قدم بہکابھی دیتی ہے سو فلکی صاحب بھی اپنے بعض حوارویں کے نرغے میں پھنس کر انکے غلط فیصلوں پر بھی ساد کر جاتے ہیں جس کر طرف انہیں توجہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔جہیز جوڑے اور شادی کے دن دلہن والوں کی طرف سے کھانے کابوجھ اٹھانا انکے مشن کے اہم محرکات ہیں جس کے لئے وہ تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں اللہ انہیں ہر قدم پر رہنمائی فرمائے ۔ آمین

  قصہ مختصر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر  جستجو ، جدوجہد، کار مسلسل، نرم دم ِ گفتگو، گرم دم جستجو ،سخن کی دلنوازیاں، جاں کی پرسوزیاں نظر کی دوررسیاں فکرکی گہرائیاں اور گیرائیاں کسی پیکر خاکی میں ڈھال دی جائیں تو اس کا نام ڈاکٹرمحمد علیم اللہ خان فلکی ہی ہوگا۔
ایک وضاحت کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ سرخی پہ مت جائیے عنوان بالکل درست ہے فلکی صرف میرا یار نہیں  انکا حلقہ احباب انکے عزائم اورحوصلوں کی طرح ایکعالم میں پھیلا ہوا ہے


مہتاب قدر۔جدہ
 


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 686