donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mohsina Jeelani
Title :
   Safia Siddiqui : Haqiqat Nigari Ki Numainda Afsana Nigar

 

صفیہ صدیقی۔ حقیقت نگاری کی نمایندہ افسانہ نگار۔
 
محسنہ جیلانی
 
اردو افسانے کے تاریخ پر ایک نظر ڈاأے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ پچھلی نصف صدی میں اردو افسانے کو ؤے ؤے تجربات کے ایک طویل سفر سے گذرنا پڑا ہے۔رومانویت ا ور ترقی پسندی کے دور سے لے کر ادب برأے ادب ’ ادب برأے زندگی اور علامتی افسانے تک کا لمبا سفر ایک خوش گوار دور کہلایا جا سکتا ہے جس میں اردو ادب کے معروف او ر مستند افسانہ نگاروں نے افسانے کے دامن کو رنگا رنگ پھولوں سے بھردیا اور ؤی آواز کی نمایندگی کرنے والے افسانے لکھے أے اور پھر دوبارہ نقل وطن کرنے والے ادیبوں اور لمحہ موجود میں لکھنے والوں نے ان تمام پچھلے تجربات پر تمام کواڑ بھیڑ کر اپنے اطراف کی ساری کھڑکیاں ’ سارے جھروکے کھول ؤے اور نت ؤی تخلیقی کاوشوں کی شمع روشن کردی۔ 
اپنی زمین سے بچھڑ کر ایک اجنبی ماحول میں نقل مکانی کرنے والے اردو کے افسانہ نگاروں میں ایک معتبر نام صفیہ صدیقی کا بھی ہے۔ 
 
معاشرہ میں ہونے والا کؤی حادثہ کؤی ہولناک واقعہ ایک عام انسان کی زندگی کو متاثر تو کرتا ہے لیکن اسے اپنے دل کا درد نہیں بناتا لیکن یہی بات ایک حساس فن کار کے دل میں دکھ کی انی بن کر چبنے لگتی ہے اور وہ اپنے دل کے درد کو جب تک کاغذپر نہ سمیٹ دے اسے سکون نہیں ملتا۔ صفیہ صدیقی کا دل بھی اس درد کے خزانہ سے معمور ہے اور وہ زمانے کی نا انصافیوں ’ دنیا بھر میں ہونے بالے ظلم و ستم کے ساتھ اپنے قلم سے جہاد کر رہی ہیں۔
 
سأینس ’ ٹیکنولوجی ’ ٹیلی وژن اور کمپیوٹر ’ ساری دنیا کے دکھ درد’ بے دری ’ بے گھری اور انسانوں پر ہونے والے ظلم و ستم ہمارے گھرو ں میں لے ئے ہیں۔ ایک حساس فن کار کے أے اس کا قلم اس کی پناہ گاہ ہے اس کا قلم اسے ایک آواز دیتا ہے جو اس ظلم و ستم ’ مصایب اور نا انصافیوں کے خلاف بلند کر سکے۔ صفیہ صدیقی نیان تمام ناانصافیوں اور ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہے اور ان کا قلم اس کے حلاف بے حد روانی سے رواں دواں ہے ۔
 
کہا جاتا ہے کہ حقیقت افسانہ نہیں ہوتی لیکنافسانہ حقیقت ہی کی نمایندگی کرتا ہے بلکہ حقیقت سے آگہی اور حقیقت نگاری ہی فن افساننہ کی اساس ہے۔ زندگی کے تجربات اور مشاہدات افسانہ کو زندگی بخشتے ہیں اور افسانہ کو زندگی دینے کے ئے منظر نگاری ’ مکالمے ’ کہانی کا پلاٹ ’ کرداروں کے ساتھ انصاف اور اسکا ماحول افسانے کو مضبوط اور توانا بناتا ہے اور یہ سب خوبیاں صفیہ صدیقی کے قلم میں موجود ہیں۔
کہانی کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ہمارا ذہن دیر تک اسے سوچتا رہے۔میرے خیال میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کؤی 
کہانی پڑھ کر ہم دم بخود رہ جأیں اور ہمارا دل کاأہ خؤن بن جأے۔ سینہ میں درد کی کسک جاگ اٹھے اور بغیر کسی ارادے کے آنکھیں بھیگنے لگیں۔ یہ حال میرا ہوا جب میں نے صفیہ کا افسانہ ’’ ایک اور موت،، پڑھا۔ سچ ہے کہ کہانی وہی متاثر کن ہوتی ہے جو حقیقت پر مبنی ہو۔ جب سابق یوگو سلاویہ میں بوسنیأی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا تھا ان کا قتل عام ہو رہا تھا اورہزاروں مسلمان خواتین کی ایک گھناونے منصوبہ کے تحت آبرو ریزی کی جا رہی تھی یہ اسی دور میں اس عورت کی کہا نی ہے جو اس اذیت ناک دل دہلا دینے والے حادثہ کا شکار ہؤی اور اس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچہ کی زندگیکا خاتمہ کر دیا۔ یہ کہانی بے حد درد ناک اور خون کے آنسو رلانے والی ہے۔ 
 
برطانیہ میں بسنے والی پچھلی تیسری نسل کی خواتین نے اجنبی ماحول میں زندگی کے دکھ جھیلے ’ دنیا جہان کی مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ گھر داری کی ’ بچوں کی پرورش کی ’ ملازمت کی ’ بے گھری اور بے دری کے دکھ سہے اور اس معاشرہ کی نسل پرستی کے زخم سب کچھ بھو گے ۔ ان تمام حقیقتوں کے ساتھ ساتھ أی نسل کا دکھ صفیہ صدیقی کو متاثرکرتا ہے اور اس سب مسأیل کو صفیہ نے نہایت خوبصورتی سے اپنے کہانیوں کا موضوع بنایا ہے ۔
 
صفیہ کی ایک اور کہانی ’’چھوٹی سی بات،، ان دکھوں کا اظہار ہے جو ایک ماں اپنے بچوں کے مستقبل کے ؤے اپنی تمام خواہشات کو قربان کر دیتی ہے لیکن ئی نسل ان قربانیوں سے بے پرواہ نظر آتی ہے ۔ چھوٹی سی بات کے آخری جملے دل میں چبھ کر رہ جاتے ہیں۔۔ سمندر ایک خوبصورت استعارہ ہے جسے صفیہ نے بڑی خوبصورتی سے لکھا ہے۔ 
ہے تو چھوٹی سی بات صفیہ کی 
دل کو لگتی ہے بات صفیہ کی
’’ رات پھر سمندر میرے سینے میں بپھر تا رہا۔ مجھے اپنی جوانی کا غم ستاتا رہا۔ جو اس ہجرت نے ختم کر دی تھی۔ صرف بچے ہماری زندگی کا محور تھے ان کی تربیت اور تعلیم پر سارا زور تھا کہ کہیں وہ اپنے مذہب اپنی تہذیب اپنی زبان سے متنفر نہ ہو جأیں۔،،
یہ ایک خوبصورت کہانی ہے جو دل کو چھو جاتی ہے۔ 
 
صفیہ صدیقی کا ادبی سفر ئی دہأیوں پر محیط ہے۔ انہوں نے مغربی معاشرے کو بہت غور سے دیکھا ہے۔ دو تہذیبوں کا تصادم اور نسلوں کے بیچ خلیج ۔دونوں کا موازنہ کیا ہے۔ صفیہ کے کردار جان دار ہیں جو ہمارے جانے پہچانے ہیں ان تمام شناسا کرداروں کے دکھ سکھ ’ ؤے ماحول میں ان کے اندیشے’ ان کی خوشیاں ’ان کے خدشات ’ تاریکیاں اور روشنیاں ’ زندگی کے اجلے خوابوں کی طرح ان کے افسانوں میں پھیلے ہؤے ہیں۔ صفیہ کی زبان شستہ اورسادہ اور لفاظی کی بناوٹی گھن گھرج سے صاف اور صحیح معنوں میں پر تاثر ہے۔ ہر کہانی ایسا محسوس ہوتا ہے ایک ہی نشست میں لکھی ئی ہے جو ایک تسلسل سے معاشرے کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے۔ 
 
صفیہ کا کؤی بھی افسانہ پڑۂے ایک کھڑکی آپ کی نظروں کے سامنے کھل جاتی ہے۔ آپ ان کے کرداروں کو چلتے پھرتے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مکالمے سن رہے ہیں ۔ ان کے مسأیل سے آگہی ہو رہی ہے۔ ماحول کے سارے منظر آپ کی نظروں کے سامنے ہیں۔ آپ کی ہمدردیاں اور آپ کا دکھ کرداروں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ پھر آگے کیا ہوگا؟ تجسس ہاتھ پکڑ تا ہے اور پھر ایک جھٹکے کے ساتھ کھڑکی کا 
دروازہ بند ہوجاتا ہے اور قاری کا ذہن کچھ سوچتا ہے ۔ کسی مسۂ اور دکھ کی نشان دہی کی طرف نظر اٹھاتا ہے۔ منظر نگاری کہانی کی بنت اور اس کے مکالمے کہانی میں خوبصورتی پیدا کرتے ہیں۔
 
عورت ہونے کے ناطے صفیہ صدیقی عورتوں کے مسأیل ان کے جذبات و احساسات ان کے دکھ درد سے اور اس کی بے بسی اور مرد کی بالادستی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ بات بھی قابل ستأیش ہے کہ ان کی مشرقی عورت ان حالات سے بغاوت کرتی نظر آتی ہے لیکن یہ صرف اس مغربی معاشرے ہی میں ہو سکتا ہے جہاں لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ اور ترقی پسند ہیں۔ ماحول کے اثر نے نہیں عزت نفس اور خودداری کا سبق پڑھایا ہے۔ 
 
بد قسمتی سے ترقی پذیر ممالک میں عورت اب بھی مر د کی بالادستی اور ظلم کی چکی میں پس رہی ہے ۔ بقو ل کسی کے ہرشہر میں دو شہر ہوتے ہیں۔ایک بے حد امیر اور دوسرا بے حد غریب اور عورت کا استحصال غریب اور نادار طبقہ میں زیادہ ہے۔ عورت مرد کی دست نگر ہے جو جب چاہے ’ عزت نفس کے نام پر اسے زندہ دفن کر دے۔ طلاق دے دے یا پھر اس کی عصمت لوٹنے کے بعد اس پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دے۔ یہ سب ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے اور نجانے کب تک ہوتا رہے گا۔ کاش صفیہ کی باغی عورت کی طرح ہمارے معاشرے کی عورت بھی ظلم کے آگے کہسار بن کر کھڑی ہو جأے۔
 
صفیہ صدیقی کو اس بات کا ادراک ہے کہ نقل وطن کرنے والی پہلی دوسری اور تیسری نسل کن کن دشوار گذار راہوں سے گذری ہے۔ چند دنیاوی آسأیشوں کے ؤے ہم نے اپنی تہذیب اپنی قدریں اور اپنا سب کچھ کھو دیا اور کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ بعض حالات میں اپنے بچوں کو بھی کھو دیا ۔برطانیہ میں پیدا پہونے والی نسل کا طرز زندگی ان کے خیالات ان کی سوچ سب مغربی ہے صرف ان کا کھانامشرقی ہے۔ 
صفیہ صدیقی نے مغربی معاشرے کی کہانیاں لکھی ہیں لیکن یہ کہانیاں ایک ایسا أینہ ہیں جس میں مشرق میں بھی بہت سے لوگوں کو اپنے چہرے نظر ۂیں گے ۔ حقیقت نگاری سفاکی صحیح لیکن بہادی بھی ہے اور یہی بہادری صفیہ کے افسانوں میں نمایاں ہے۔ 
 
ان کی تخلیقات میں پہلی نسل کا گناہ ۔ چاند کی تلاش اور چھوٹی سی بات کے علاوہ ایک ناول ۔ دشت غربت میں اور گولڈن کیج برطانیہ میں اردوافسانہ نگار کی نگارشات کا انگریزی میں ترجمہ ہے۔ 
یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ صفیہ کی بیشتر کہانیاں حقیقت پر مبنی ہیں اس أے اگر میں انہیں حقیقت نگاری نمایندہ افسانہ نگار کہوں تو غلط نہ ہوگا۔
شکریہ
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 642