donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mufti Md. Waqas Rafi
Title :
   Maulana Dr Habibullah Mokhtar Shaheed


 

 مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ


تحریر: مفتی محمد وقاص رفیعؔ


    تقسیم ہند سے پہلے کسی زمانہ میںمتحدہ ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے ٗ صوبہ سرحد (جس کا نیا نام اب صوبہ خیبر پختون خواہ ہے ) چند قبائل پختون قبائلی علاقے سے ہجرت کرکے ہندوستان کے موجودہ دارالخلافہ ’’دہلی‘‘ میں وارد ہوئے تھے ، جن میں سے ایک خاندان حکیم مختار حسن خان حاذقؔ کے آباؤ اجداد کا بھی تھا ۔ حکیم مختار حسن خان حاذقؔ نہایت متواضع ، منکسر المزاج ، دیانت و امانت دار ، مخلوق خدا کے خدمت گار اور علماء وصلحاء کے نہایت ہی قدردان تھے ۔ آپ دہلی کے رہنے والے تھے اس لئے دہلی ہی میں ’’طب‘‘ کی تعلیم بھی حاصل کرنا شروع کردی ، یہاں تک طب و حکمت اور حذاقت و مہارت میں اپنا نام اتنا پیدا کیا کہ لفظ ’’ حاذقــؔ‘‘ آپ کا تخلص بن کر رہ گیا ۔

    ۱۹۴۴ ؁ء میں حکیم مختار حسن خان حاذقؔ دہلوی کے یہاں ایک بچے نے جنم لیا ، جس کا نام انہوں نے ’’حبیب اللہ مختارؔ‘‘ تجویز کیا۔ حبیب اللہ مختار نامی بچے  نے جب اپنی زندگی کی تیسری بہار میں قدم رکھا تو اس وقت ہندوستان کی تقسیم کا وقت آن پہنچا تھا اور مسلمانوں کے لئے الگ سے ایک نئے اور خود مختار ٹھیٹھ اسلامی ملک کے قیام کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا جس کے نتیجہ میں ۱۹۴۷  ؁ء میں ہندوستان کی تقسیم کا مرحلہ آیااور اس کے نتیجہ میں بالآخر بڑی بڑی کوششوں اور انتہائی جدوجہد کے بعد ہمارا یہ وطن عزیز ملک پاکستان خون میں ڈوب کر عدم سے وجود میں آیا ، یوں حکیم مختار حسن خان حاذقؔ دہلوی اپنے اہل و عیال اور اپنے بال بچوں سمیت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کرکے یہاں آکر شہر قائد کراچی میں سکونت پذیر ہوگئے اور اپنے اسی طب و حکمت کے شعبے سے دوبارہ وابستہ ہوگئے۔

     حکیم مختار حسن خان حاذقؔ دہلوی نے خاندانی رسوم و آداب کے تحت سن شعور میں داخل ہوتے ہی اپنے اس ہونہار فرزند کے لئے گھر کے دینی ماحول کے ساتھ ساتھ دینی درس گاہ کے تعلیمی ماحول کا انتظام بھی فرمایا اور اس وقت کراچی کی مشہور و معروف مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ عظیم دینی درس گاہ ’’دار العلوم نانک واڑہ‘‘ ( جو آج کل ’’دار العلوم کراچی‘‘ کے نام سے مشہور ہے ) میں ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرانے کے لئے داخل فرمایا ، لیکن جب محرم ۱۳۷۴ ؁ھ بمطباق ۱۹۵۴ ؁ء میں محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مدرسہ ’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیو ٹاؤن ‘‘ (جوکہ آج کل’’ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن ‘‘کے نام سے مشہور میں ہے ) کی بنیاد رکھی تو حضرت بنوریؒ کی تکوینی و روحانی کشش حکیم مختار حسن خان حاذقؔ دہلوی کے اس ہونہار فرزند حبیب اللہ مختار ؔ کو دار العلوم کراچی سے کھینچ کر بنوری ٹاؤن لے آئی ، چنانچہ یہاں بنوری ٹاؤن آکر آپ نے درس نظامی کی تکمیل کی اور ۱۹۶۳ ؁ء میںیہیں سے سند فراغت حاصل کی ۔

    درس نظامی سے فراغت حاصل کرنے کے بعد حضرت بنوریؒ کے ہی ایماء پرمزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے آپ نے آپ نے فقہ و حدیث میں تخصص کی طرف رجوع کی اور ان دونوں موضوعات میں اپنی خدادا صلاحیتوں کے بھر پور جوہر دکھلائے ، چنانچہ دار الافتاء میں رہ کر حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ کی زیر تربیت علمی و تحقیقی فتاویٰ کی تمرین کی اور حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ رہ کر’’ تخصص فی الحدیث النبویہ‘‘ کیا اور ’’ ألسنۃ النبویۃ والقرآن الکریم ‘‘ کے عنوان سے ’’حجیت حدیث ‘‘ کے نام سے وقیع علمی وتحقیقی مقالہ سپردِ قلم فرمایا ، جس کے امتیازی نمبروں کی بناء پر آپ ’’ تخصص في الحدیث النبویۃ ‘‘ کی سند کے اعزاز کے نوازے گئے۔

    ۱۹۶۶ ؁ء میں حضرت بنوری ؒ کے حکم سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور چار (۴) سال تک وہاں زیر تعلیم رہے ، وہاں سے چار (۴) سالہ نصاب مکمل کرکے  ۱۹۷۰ ؁ء میں واپس بنوری ٹاؤن تشریف لائے ، اس کے بعد ۱۹۷۳ ؁ء میں جامعہ کراچی سے آپ نے ایم ، اے اسلامیات کیا ، جس میں آپ نے فرسٹ پوزیشن لے کر گولڈ میڈ لسٹ حاصل کیا اور  ۱۹۸۱  ؁ء میں جامعہ کراچی سے ہی (P.H.D) پی ، ایچ ، ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ تمرین اور تدریس کا سلسلہ بھی برابر جاری رہا ۔

    مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار ؔشہید رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ نے علمی استعداد ، ذہانت و فطانت ، اعلیٰ اوصاف اور بلند اخلاق اور انتظامی صلاحیتوں کا وافر حصہ عطاء فرما رکھا تھا ، آپ نے اپنی زندگی کا کوئی ایک لمحہ بھی ضائع نہیں فرمایا ، بلکہ وقت کی قدر و قیمت کا احساس کرتے ہوئے اور عمر عزیز کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک امانت سمجھتے ہوئے ہمہ وقت آپ تعلیمی ، تدریسی ، تصنیفی اور انتظامی معاملات میں ہمیشہ مگن رہے ۔ تاریخ نے ہمیشہ وقت کے قدر دان لوگوں کی قدر کی ، اسی بناء پر آپ کے تاریخی اور علمی کارہائے نمایا ں بعد میں آنے والے لوگوں کے مشعل راہ اور ایک روشن قندیل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آپ خالص علمی اور تحقیقی کاموں سے تعلق رکھتے تھے ، عربی ادب سے خصوصی لگاؤ تھا ۔ آپ نے اپنے پیچھے بے شمار تصانیف و تالیفات اور تراجم کے علاوہ تلامذہ کی صورت میں ذی استعداد علمائے کرام کی ایک پوری جماعت یاد گار چھوڑی ہے ۔

    جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن سے آپ کا آغاز ایک مدرس اور رفیق دار التصنیف کی حیثیت سے ہوا ۔ تدریس کے میدان میں ابتدائی کتب سے لے کر درس نظامی کی آخری حدیث کی سب سے بڑی کتاب صحیح بخاری تک ہر اہم کتاب آپ کے زیر درس رہی ۔۱۴۱۶  ؁ھ بمطابق ۱۹۹۵ ؁ء میں جامعہ بنوری ٹاؤن کے ناظم تعلیمات اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ کے وصال پر ملال کے بعد صحیح بخاری کے دونوں حصے آپ ہی کے زیر درس رہے ۔ رفیق دار التصنیف کی حیثیت سے آپ نے اپنے استاذ اور شیخ حضرت بنوری ؒ کے کئی علمی و تحقیقی خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کا اعزاز بھی حاصل کیا ، جن میں ’’ کشف النقاب عما یقولہ الترمذي وفي الباب ‘‘ سر فہرست ہے جس کی پانچ (۵) ضخیم جلدیں منصہ شہود پر آچکی ہیں ، اس کے علاوہ (۵۰) سے زائد چھوٹی اور بڑی کتابیں اور تراجم اپنے علمی ورثہ میں یادگار چھوڑیں اور یوں حضرت بنوریؒ کے دار التصنیف کی رفاقت کے لئے اپنے انتخاب کو درست ثابت کردکھایا ۔

    بالآخرمؤرخہ ۲/ رجب المرجب ۱۴۱۸  ؁ھ بمطابق ۲/ نومبر ۱۹۹۷؁ء کو آپ کی مظلومانہ شہادت کا سانحۂ فاجعہ اس وقت پیش آیا جب آپ اپنے چند رفقاء کے ہمراہ اپنے اپنے ادارے کی ایک برانچ میں ایک تصفیہ طلب مسئلے کے حل کے لئے تشریف لے گئے اور واپسی پر آپ کی گاڑی ’’گرومندر‘‘ کے قریب جامعہ بنوری ٹاؤن سے چند قدم کے فاصلے پر پہنچی تھی کہ دن دہاڑے لوگوں کے ایک جم غفیرکے سامنے آپ کو اپنے رفیق مولانا مفتی عبد السمیع اور ڈرائیور محمد طاہر کے ہمراہ شہید کردیا گیا اور یوں جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کا یہ نامور علمی سپوت اور علم و فضل کایہ آفتاب جہاں تاب ا ور ماہتاب عالم تاب اپنی عمر عزیز کی ۵۴ بہاریں دیکھ کر شہر قائد کراچی کے افق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیااور جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے احاطے میں مسجد کی دائیں اپنے شیخ و مربی اور محبوب و مشفق استاذ محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں محو استراحت کردیا گیا   ؎

اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے 
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ ’’صاحب اسرار‘‘

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 820