donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Najib Ahmad Najib
Title :
   Meer Abdul Hai Taban

میر عبدالحیی تاباںؔ
 
نجیب احمد نجیب
 
ان کے عہد میں میر عبدالحیی تاباں تخلص ایک شریف زادہ حُسن و کوبی میں اس قدر شہرہ آفاق تھا کہ خاص و عام اس کو یوسف ثانی کہتے تھے، گوری رنگت پر کالے کالے کپڑے بہت زیب دیتے تھے، اس لئے ہمیشہ سیاہ پوش رہتا تھا۔ اس کے حُسن کی یہاں تک شہرت پھیلی کہ بادشاہ کو بھی دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔ معلوم ہوا کہ مکان حبش خاں کے پھاٹک میں ہے اور وہ بڑا دروازہ جو کوچہ مذکور سے بازار لاہوری دروازہ میں نکلتا ہے، اس کے کوٹھے پر نشست ہے۔ زمانہ کی تاثیر اور وقت کے خیالات کو دیکھنا چاہیے کہ بادشاہ  خود سوار ہو کر اس راہ سے نکلے، انھیں بھی خبر ہو گئی تھی، بنے سنورے اور بازار کی طرف موڈھا بچھا کر آ بیٹھے۔ بادشاہ جب اس مقام پر پہنچے تو اس لئے ٹھہرنے کا ایک بہانہ ہو وہاں آب حیات  (شاہانِ دہلی کے کاروبار کے لئے الفاظ خاص مستعمل تھے، مثلاً پانی کو آب حیات، کھانے کو خاصہ، سونے کو سکھ فرمانا، شہزادوں کا پانی آبِ خاصہ اور اسی طرح ہزاروں اصلاحی الفاظ تھے۔) مانگا، اور پانی پی کر دیکھتے ہوئے چلے گئے، الغرض تاباں خود صاحبِ دیوان تھے، شاہ حاتم اور میر محمد علی حشمت کے شاگرد تھے اور مرزا صاحب کے مُرید تھے، مرزا صاحب بھی چشمِ محبت اور نگاہِ شفقت سے دیکھتے تھے چنانچہ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مرزا صاحب بیٹھے ہیں اور اُن کی صحبت میں کہ جہاں کبھی وعظ و ارشاد اور کبھی نظم و اشعار کا جلسہ رہتا تھا :- تاباںؔ بھی حاضر ہیں اور با ادب اپنے مرشد کی خدمت میں بیٹھے ہیں۔ حضرت اگرچہ محفل ارشاد کے آداب سے گرمجوشی ظاہر نہ کرتے تھے، مگر معلوم ہوتا تھا کہ دیکھتے ہیں اور مارے خوشی کے باغ باغ ہوئے جاتے ہیں، تاباںؔ بھی مزاج داں تھے، اشعار اور لطائف نمکین کہتے، حضرت سُن سُن کر خوش ہوتے، کوئی بات سب کے سامنے کہنی خلافِ ادب ہوتی تو جو اہلِ عقیدت میں ادب کا طریقہ ہے اسی طرح دست بستہ عرض کرتے کہ کچھ اور بھی عرض کیا چاہتا ہوں، حضرت مسکرا کر اجازت دیتے، وہ کان کے پاس منھ لے جاتے اور چند کلمے چپکے چپکے ایسے گستاخانہ کہتے کہ سوا اس پیارے عزیز کے کوئی نہیں کہہ سکتا۔ جسے بزرگوں کی محبت نے گستاخ کیا ہو، پس حضرت مسکراتے اور فرماتے کہ درست ہے پھر وہ اسی قسم کی کچھ اور باتیں کہتے، پھر آپ فرماتے کہ یہ بالکل درست ہے۔ جب تاباں اپنی جگہ پر آ بیٹھتے تو حضرت خود کہتے کہ ایک بات کا تمھیں خیال نہیں رہا۔ تاباں پھر کان کے پاس منھ لے جاتے، اُس وقت سے بھی تیز تر کوئی لطیفہ آپ اپنے حق میں کہتے (ان باتوں پر اور خصوصاً اِن کے شعر پر تہذیب آنکھ دکھاتی مگر کیا کیجیے ایشیا کی شاعری کہتی ہے کہ یہ میری صفائی زبان اور طراری کا نمک ہے۔ پس یہ رُخ اگر خصوصیت زبان کو نہ ظاہر کرے تو اپنے فرض میں قاصر ہے یا بے خبر ہے۔) اور اپنے پیارے عزیز کی ہم زبانی کا لُطف حاصل کرتے۔نہایت افسوس ہے کہ وہ پھول اپنی بہار میں لہلہاتا گر پڑا (ہائے میری دلی تیری جو بات ہے جہاں سے نرالی ہے ) جب اس یوسف ثانی نے عین جوانی میں دلوں پر داغ دیا تو تمام شہر نے اس کا سوگ رکھا۔ میر  تقی میر نے بھی اپنی ایک غزل کے مقطع میں کہا ہے :
 
داغ ہے تاباں علیہ الرحمہ کا چھاتی پہ میرؔ
ہو نجات اس کو بچارا ہم سے بھی تھا آشنا
 
مرزا صاحب کی تحصیل عالمانہ نہ تھی مگر علمِ حدیث کو باُصول پڑھا تھا۔ حنفی مذہب کے ساتھ نقشبندی طریقہ کے پابند تھے اور احکامِ شریعت کو صدق دل سے ادا کرتے تھے اور صناع و اطوار اور ادب آداب نہایت سنجیدہ اور برجستہ تھے کہ جو شخص ان کی صحبت میں بیٹھتا تھا ہوشیار ہو کر بیٹھتا تھا، لطافت مزاج اور سلامتی طبع کی نقلیں ایسی ہیں کہ آج سُن کر تعجب آتا ہے، خلافِ وضع اور بے اسلوب حالت کو دیکھ نہ سکتے تھے۔
 
نقل : ایک دن درزی ٹوپی سی کر لایا، اس کی تراش ٹیڑھی تھی۔ اس وقت دوسری ٹوپی موجود نہ تھی، اس لئے اسی کو پہنا مگر سر میں درد ہونے لگا۔
 
نقل : جس چارپائی میں کان ہو اس پر بیٹھا نہ جاتا تھا۔ گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوتے تھے، چنانچہ دلی دروازہ کے پاس ایک دن ہوادار میں سوار چلے جاتے تھے۔ راہ میں ایک بنیئے کی چارپائی کے کان پر نظر جا پڑی۔ وہیں ٹھہر گئے اور جب تک اس کا کان نہ نکلوایا آگے نہ بڑھے۔
 
نقل : ایک دن نواب صاحب کہ اِن کے خاندان کے مرید تھے ملاقات کو آئے اور خود صراحی لے کر پانی پیا، اتفاقاً آبخورا جو رکھا تو ٹیڑھا، مرزا کا مزاج اس قدر برہم ہوا کہ ہرگز ضبط نہ ہو سکا اور بگڑ کر کہا، عجب بے وقوف احمق تھا جس نے تمھیں نواب بنا دیا، آبخورا بھی صراحی پر رکھنا نہیں آتا۔
 
مولوی غلام یحییٰ فاضل جلیل، جنھوں نے میر زاہد پر حاشیہ لکھا ہے، کہ بہدایت غیبی مرزا ے مُرید ہونے کو دلی میں آئے، ان کی ڈاڑھی بہت بڑی اور گھن کی تھی، جمعہ کے دن جامع مسجد میں ملے اور ارادہ ظاہر کیا، مرزا نے ان کی صورت کو غور سے دیکھا اور کہا کہ اگر مجھ سے آپ بیعت کیا چاہتے ہیں تو پہلے ڈاڑھی ترشوا کر صورت بھلے آدمیوں کی بنائیے پھر تشریف لائیے۔ اللہُ جَمیلٌ و یُحِبُ الجَلٌ و یُحِبُ الجَمَال۔ بھلا یہ ریچھ کی صورت مجھ کو اچھی نہیں معلوم ہوتی تو خدا کو کب پسند آئے گی۔ ملا متشرع آدمی تھے، گھر میں بیٹھ رہے، تین دن تک برابر خواب میں دیکھا کہ بغیر مرزا کے تمھارا عقدہ دل نہ کھلے گا، آخر بیچارے نے ڈاڑھی حجام کے سپرد کی اور جیسا خشخاشی خط مرزا صاحب کا تھا ویسا ہی رکھ کر مریدوں میں داخل ہوئے۔
 
اسی لطافت مزاج اور نزاکت طبع کا نتیجہ ہے کہ زبان کی طرف توجہ کی اور اسے تراشا کہ جو شعر پہلے گزرے تھے، انھیں پیچھے ہی چھوڑ کر اپنے عہد کا طبقہ الگ کر دیا اور اہل زبان کو نیا نمونہ تراش کر دیا، جس سے پرانا رستہ ایہام گوئی کا زمین شعر سے مٹ گیا۔ ان کے کلام میں مضامین عاشقانہ عجب تڑپ دکھاتے ہیں اور یہ مقامِ تعجب نہیں، کیوں کہ وہ قدرتی عاشق مزاج تھے، اوروں کے کلام میں یہ مضامین خیال ہیں، ان کے اصل حال (افسوس ہے اہل وطن کے خیالات پر جنھوں نے ایسی ایسی لطافت طبع کی باتیں دیکھ کر ازروئے اعتقاد آخر میں ایک طرہ اور بڑھایا یعنی قاتل ہم جوانے صبیح و ملیح بود کہ بدستش جان سپروند یا شاید ایسا ہی، عالم الغیب خدا ہے۔) زبان ان کی نہایت صاف و شستہ و شفاف ہے، اس وقت کے محاورہ کی کیفیت کچھ ان کے اشعار سے اور کچھ اُس گفتگو سے معلوم ہو گی جو ایک دفعہ بر وقتِ ملاقات ان سے اور سید انشاء سے ہوئی، چنانچہ اصل عبارت دریائے لطافت سے نقل کی جاتی ہے۔
Najeeb Ahmed Najeeb
Wellness Consultant
+91 9701218340
Hyderabad.AP
*****************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 846