donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Najib Ahmad Najib
Title :
   Shams Waliullah

شمس ولی اللہ
 
 نجیب احمد نجیب
 
یہ نظم اُردو کی نسل کا آدم جب ملکِ عدم سے چلا تو اس کے سر پر اولیت کا تاج رکھا گیا، جس میں وقت کے محاورہ  نے اپنے جواہرات خرچ کئے اور مضامین کی رائج الوقت دستکاری سے مینا کاری کی، جب کشورِ وجود میں پہنچا تو ایوانِ مشاعرہ کے صدر میں اس کا تخت سجایا گیا، شہرتِ عام نے جو اِس کے بقائے نام کا ایوان بنایا ہے اس کی بلندی اور مضبوطی کو ذرا دیکھو، اور جو کتبے لکھے ہیں اُنھیں پڑھو، دنیا تین سو برس دور نکل آئی ہے مگر وہ آج تک سامنے نظر آتے ہیں اور صاف پڑھے جاتے ہیں، اُس زمانہ تک اُردو میں متفرق شعر ہوتے تھے، ولی اللہ کی برکت نے اُسے وہ زور بخشا کہ آج کی شاعری نظمِ فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں، تمام بحریں فارسی کی اُردو میں لائے، شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا۔ ردیف دار دیوان بنایا، ساتھ اس کے رُباعی، قطعہ، مخمس اور مثنوی کا راستہ بھی نکالا۔ انھیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی کی نظم میں چاسر شاعر  (چاسر 1348 ء میں پیدا ہوا اور 1402 ء میں مر گیا۔ اُس وقت یہاں تغلقیہ خاندان کا دَور ہو گا۔) کو اور فارسی میں رودکی (رودکی فارسی  کا پہلا شاعر ہے، تیسرے اور چوتھی صدی ہجری کے درمیان تھا اور سلاطین سامانیہ کے دربار میں قدردانہ کے بے انتہا انعام حاصل کرتا تھا۔) کو اور عربی میں مہلل کو، وہ کسی کے شاگرد نہ تھے، اور یہ ثبوت ہے فصیح عرب کے قول کا کہ الشعرا ء قلاہ سید الرحمٰن اسی کو رانائے فرنگ کہتا ہے کہ شاعر اپنی شاعری ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے، ایسے وقت میں کہ ہماری زبان زور بیان میں ایک طفل نوری کی تھی جو انگلی کے سہارے سے بڑھی۔ اُردو زبان اس وقت سوائے ہندی دہروں اور بھاشا کے مضامین کے اور کسی قابل نہ تھی، انھوں نے اس میں فارسی ترکیبیں اور فارسی مضامین کو بھی داخل کیا۔ (دیکھو تذکرہ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم، مگر تعجب ہے کہ میر تقی نے اپنے تذکرہ میں اورنگ آباد لکھا ہے۔) ولی احمد آباد گجرأت کے رہنے والے تھے اور شاہ وجیہہ الدین کے مشہور خاندان میں سے تھے، ان کی علمی تحصیل کا حال ہماری لاعلمی کے اندھیرے میں ہے، کیونکہ اس عہد کی خاندانی تعلیم اور بزرگوں  کی صحبتوں میں ایک تاثیر تھی کہ تھوڑی نوشت و خواند کی لیاقت بھی استعداد کا پردہ نہ کھُلنے دیتی تھی، چنانچہ اُن کے اشعار سے معلوم ہو گا کہ وہ قواعد عروض کی طرح زبانِ عربی سے ناواقف تھے، پھر بھی کلام کہتا ہے کہ فارسیت کی استعداد درست تھی، ان کی انشا پردازی اور شاعری کی دلیل اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ ایک زبان کا دوسری زبان سے ایسا جوڑ لگایا ہے کہ آج تک زمانے نے کئی پلٹے کھائے ہیں مگر پیوندنین جنبش نہیں آتی۔ علم میں درجہ فضیلت نہ رکھتے تھے مگر کہتے ہیں :
ایک دل نہیں آرزو سے خالی
ہر جا ہے محال اگر سنا رہے
یہ سیر کتاب کا شوق اور علماء کی صحبت کی برکت ہے۔ ولی کی طبیعت میں بعد پردازی بھی معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اگرچہ سودا کی طرح کسی سے دست و گریباں نہیں ہوئے مگر اپنے ہمعصروں پر چوٹیں کی ہیں، چنانچہ ناصر علی سرہندی کے معاملہ سے ظاہر ہے۔
 
اگرچہ ایشیا کے شاعروں کا پہلا عنصر مضمون عاشقانہ ہے مگر جس شوخی سے اخلاق کی شوخی ظاہر ہو اس کا ثبوت ان کے کلام سے نہیں ہوتا، بلکہ برخلاف اس کے صلاحیت اور متانت اُن کا جوہر طبعی تھا۔ اُن کے پاس سیاحی اور تجربہ کو توشہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس عہد میں تھوڑا سفر بھی بڑی سیاحی کی قیمت رکھتا تھا، اس میں یہ اپنے  وطن سے ابو المعالی کے ساتھ دلی میں آئے۔ یہاں شاہ سعد اللہ گلشن (شیخ سعد اللہ گلشن اچھے شاعروں میں تھے اور مرزا بیدل کے معاصر تھے۔ دو شعر فارسی کے ان سے بھی :
گشتم شہید تیغ تغافل کشید نت
جانم زدست بُرد غزالانہ دیدنت
بدقت می تواں فہمید معنی ہائے نازِ اُو
کو شرحِ حکمت العین است مژگانِ درازِ او)
کے مرید ہوئے۔ شاید اُن سے شعر میں اصلاح لی ہو مگر دیوان  (دیکھو تذکرۂ فائق۔ کہ خاص شعرائے دکن کے حال میں ہے اور وہیں تصنیف ہوا ہے۔) کی ترتیب فارسی کے طور پر یقیناً ان کے اشارہ سے کی۔ ان کا دیوان اس عہد کے مشاعروں کی بولتی تصویر ہے کیوں کہ اگر آج دریافت کرنا چاہیں کہ اس وقت کے امراء و شرفاء کی کیا زبان تھی؟ تو اس کیفیت کو وہ دیوان ولی کے اور کوئی نہیں بتا سکتا۔ انھی کے دیوان سے ہم اس وقت اور آج کی زبان کے فرق کو بخوبی نکال سکتے ہیں۔
سوں اور سین بجائے سے
کوں بہ داد معُرف بجائے کو
ہمن کوں بجائے ہم کو
جگ منے بجائے دنیا میں
برمنے بجائے بر میں فارسی کا ترجمہ ہے۔
پیراہنے در بر تجھ لب کی صفتہ بجائے تیرے لب کی صفتہ
تمن یعنی طرح یا مثل
جگ یعنی جہاں، دُنیا
بچن یعنی کلام
نِت یعنی ہمیشہ
مُکھ یعنی منھ
تسبی یعنی تسبیح
سہی یعنی صحیح
بگانہ یعنی بیگانہ
مَرض یعنی مَروض
بھیتر بجائے اندر
مجھ کو بجائے میرا
موہن، ترنجن، پی، پیتم بجائے معشوق
ہنجھواں بجائے آنسو کی جمع
بھواں پلکاں بجائے بھویں، پلکیں
نین بجائے آنکھ
دہن بجائے دَہن
مِرا بجائے میرا
ہوہ بجائے یہ
بعض قافیے مثلاً :
گھوڑا، موڑا، گورا
دھڑ، سر
گھوڑی، گوری
اکثر غزلیں بے ردیف ہیں۔
چونکہ نظم فارسی کی روح اسی وقت اُردو کے قالب میں آئی تھی، اسی واسطے ہندی لفظوں کے ساتھ فارسی کی ترکیبیں اور دَر اور بَر بلکہ بعض جگہ افعالِ فارسی بھی دیکھنے میں کھٹکتے ہیں، وہ خود دکنی تھے، اس لئے اُن کے کلام میں بعض بعض الفاظ دکنی بھی ہوتے ہیں۔
 
آج اس وقت کی زبان کو سُن کر ہمارے اکثر ہمعصر ہنستے ہیں، لیکن یہ ہنسی کا موقع نہیں، حوادث گاہ عالم میں ایسا ہی ہوا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا، آج تم اُن کی زبان پر ہنستے ہو، کل ایسے لوگ آئیں گے کہ وہ تمہاری زبان پر ہنسیں گے۔ اس انجمن غفلت کے ممبر اگر تھوڑی دیر کے لئے عقل دُوربین کو صدرِ انجمن کر لیں تو یہ اس تدبیر کے سوچنے کا موقع ہے کہ آج ہم کیونکر اپنے کلام کو ایسا کریں جس سے ہماری زبان کچھ مدت تک زیادہ مطبوع خلائق رہے۔ اگرچہ سامنے ہمارے اندھیرا ہے لیکن پیچھے پھر کر دیکھنا چاہیے اور خیال کرنا چاہیے کہ زبان نے جو ترقی کی ہے تو کن اصول پر اور کس جانب میں قدم رکھتی گئی ہے۔ آؤ ہم بھی آج کے کاروبار اور اُس کے آیندہ حالات کو خیال کریں اور اسی انداز پر قدم ڈالیں، شاید ہمارے کلام کی عمر میں کچھ برس زیادہ ہو جائیں۔
 
شاعرِ قدرت کے دیوان میں ایک سے ایک مضمون نیا ہے، مگر لطیفہ یہ بھی کچھ کم نہیں کہ شاعری کا چراغ تو دکن میں روشن ہو اور ستارے اُس ک دلی کے اُفق سے طلوع ہوا کریں، اس عہد کی حالت اور بھاشا زبان کو خیال کرتا ہوں تو سوچتا رہ جاتا ہوں کہ یہ صاحبِ کمال زبانِ اُردو اور انشائے ہندی میں کیوں کر ایک نئی صنعت کا نمونہ دے گیا اور اپنے پیچھے آنے والوں کے واسطے ایک نئی سڑک کی داغ بیل ڈالتا گیا۔ کیا اُس معلوم تھا کہ اس طرح یہ سڑک ہموار ہو گی، اس پر دکانیں تعمیر ہوں گی، لالٹینوں کی روشنی ہو گی، اہلِ سلیقہ دوکاندار جواہر فروشی کریں گے۔
 
اُردوئے معلیٰ اس کا خطاب ہو گا، افسوس یہ ہے کہ ہماری زبان کے مؤرخ اور ہمارے شعراء کے تذکرہ نویسوں نے اس کے دلی اور خدا رسیدہ ثابت کرنے میں تو بڑی عرق ریزی، لیکن ایسے حال نہ لکھے جس سے اُس کے ذاتی خصائل و حالات مثلاً دنیا داری یا گوشہ گیری، اقامت یا سیاحی، راہِ علم و عمل کی نشیب و فراز منزلیں یا اُس کی صحبتوں کی مزہ مزہ کی کیفیتیں معلوم ہوں بلکہ برخلاف اس کے سنہ ولادت اور سالِ فوت تک بھی نہ بتایا۔ اتنا ثابت ہے کہ اِن کی ابتدائے عہد شاید عالمگیر کا آخر زمانہ ہو گا اور وہ مع اپنے دیوان کے زمانہ محمد شاہی میں دلی پہنچے۔
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 848