donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayab Hasan
Title :
   Perween Shakir : Aks Khushbu Hon, Bikharne Se Na Roke Koyi

پروین شاکر:عکسِ خوشبوہوں،بکھرنے سے نہ روکے کوئی


      نایاب حسن


       حیران آنکھوں،شبنمی رخساروں،کشادہ پیشانی اوراداس مسکراہٹ والی ایک لڑکی نے محض25؍سال کی عمرمیں اردوشاعری کی دنیامیں اِس شکوہ کے ساتھ قدم رکھاکہ معاصراہلِ ادب و شعرکی نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔اردوادب میں شعراکی فہرست توطویل ترہے،مگرشاعرات اور وہ بھی ایسی شاعرات،جن کے لب و لہجے نے،اندازواسلوب نے،مضامینِ شعرنے،خیالات کی ندرت و جودت و جدت نے اورالبیلے طرزِاظہاروادانے ایک دنیاکومسحورکردیاہو،کم ازکم اردوادب میں نایاب نہیں توکم یاب ضرورہیں۔پروین شاکر(24؍نومبر1952ئ-26؍دسمبر1996ئ)سے پہلے بھی اردومیں خاتون شاعرات تھیں اور خودان کے دورمیں بھی اداجعفری، کشورناہید،فہمیدہ ریاض وغیرہ اعلیٰ پایے کی خاتون شاعرات موجودتھیں،جن کی قدرخودپروین شاکربھی دل سے کرتی تھیں،مگراس کے باوجوداردوشاعری کوجولہجہ پروین نے دیا،وہ سب سے اچھوتا،انوکھااوردل چسپ تھا،انھوںنے صنفِ نازک کے مسائل، مشکلات، خانگی الجھنوں،انفرادی مشکلوں،معاشرتی جکڑبندیوں،حسن و عشق کی خاردارراہوںکی آبلہ پائیوںکاذکراپنی شاعری میں بڑے منفرداندازمیں کیا۔پروین شاکربلاکی ذہین ہونے کے ساتھ اعلیٰ علمی لیاقتوںسے بھی آراستہ تھیں،انگریزی زبان و ادب میں جامعہ کراچی ،ہارورڈیونیورسٹی اورٹرینیٹی کالج (امریکہ) سے انھوںنے اعلیٰ علمی ڈگریاںحاصل کی تھیں،شعوروآگہی ان کا نمایاں ترین وصف تھا،وہ آگہی،جس نے ان پر شہرِذات کے دروازے کھولے اورجس کے بعدان کی خلاقانہ قوت و صلاحیت نے اردوشاعری کومالامال کردیا۔پروین شاکرنے پہلی بارصنفِ نازک کے متذکرہ بالامسائل کوآشکارکرنے کے لیے ’ضمیرِمتکلم‘کااستعمال کیا،جن مسائل کا انھوں نے اپنی شاعری میں ذکرکیاہے،ہوسکتاہے،وہ سارے مسائل خودانھیں درپیش نہ ہوئے ہوں،مگران کی شاعری کوپڑھنے ،مطالعہ کرنے اور سمجھنے سے یہ اندازہ بخوبی طورپرلگایاجاسکتاہے کہ اجتماعی طورپرصنفِ نازک کاہرزمانے میںاُن مسائل سے سامنا رہا ہے، جن کا ذکرمختلف پیرایوںمیں پروین شاکرنے اپنی شاعری میں کیاہے؛شاید یہی وجہ ہے کہ جوںہی اردوشاعری میں اُن کا ظہورہوا،انھیں ہاتھوںہاتھ لیا گیا، ان کے کلام کا پہلامجموعہ’’خوشبو‘‘1976ء میں منظرِعام پرآیااور صرف چھ ماہ کے اندراس کا پہلاایڈیشن ختم ہوگیا۔پھریکے بعد دیگرے ’’صدبرگ‘‘ (1980ئ) ’’خودکلامی‘‘ (1980ئ) ’’انکار‘‘ (1990ئ) ان کی زندگی میں شائع ہوئے اور سب کوبے پناہ مقبولیت،پذیرائی اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا،ان کا پانچواںشعری مجموعہ ان کی جواںمرگی کے سانحے کے دوسرے سال’’کفِ آئینہ ‘‘کے نام سے ان کی بڑی بہن نسرین شاکرکی نگرانی میںزیورِطبع سے آراستہ ہوا،اپنی وفات سے قبل وہ اسے ترتیب دے رہی تھیں اور’’کفِ آئینہ‘‘خودانہی کا تجویزکردہ نام ہے۔پروین شاکرکی شاعرانہ عظمت و بلندقامتی کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ انھیں پہلی ہی کتاب ’’خوشبو‘‘پر’’آدم جی ایوارڈ‘‘سے سرفرازکیاگیا،جبکہ 1990ء میں پاکستان کا اعلیٰ شہری اعزاز’تمغۂ حسنِ کارکردگی ‘بھی انھیں تفویض کیاگیا،1982ء میں جب وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھیں،تواردوکے پرچے میں ایک سوال خودان کی شاعری کے تعلق سے تھا،ان کی زندگی میں ہی ان کی شاعری کے انگلش،جاپانی و سنسکرت زبانوںمیں ترجمے شروع ہوچکے تھے۔ پروین شاکرکومتعددناقدین نے بیسویں صدی کی مشہورایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد(5؍جنوری 1935ئ-13؍فروری 1967ء )سے تشبیہ دی ہے اورواقعتاً دونوںکی خانگی و معاشرتی زندگی سے لے کر،شاعری کی تھیم اور جواںمرگی تک میں عجیب و غریب مماثلت پائی جاتی ہے،پروین شاکرکوفروغ سے ذہنی وابستگی بھی تھی،انھوںنے فروغ کے لیے ایک نظم بھی لکھی تھی،جوان کے شعری مجموعہ ’’خودکلامی‘‘ میں شامل ہے:

مصاحبِ شاہ سے کہوکہ
فقیہِ اعظم بھی تصدیق کرگئے ہیں
کہ فصل پھرسے گناہ گاروںکی پک گئی ہے
حضورکی جنبشِ نظرکے
تمام جلادمنتظرہیں
کہ کون سی حد جناب جاری کریں۔۔۔۔

     پروین شاکرکی ممتازشاعرانہ خصوصیت جذبے کی صداقت ہے،وہ اپنے خیال و فکرکوپوری وضاحت ،دیانت اور شفافیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں ، چاہے معاملاتِ عشق ہوںیاکاروبارِ معاشرت و سیاست،کسی بھی پہلوپرجب وہ گویاہوتی ہیں،توکسی قسم کا ابہام،اِغلاق اوراُلجھاؤنہیں چھوڑتیں، لطافت، شوخی،خیال کا جمال اوراحساس کی نازُکی بھی نسوانیت کے تمام ترحسن و دل کشی کے ساتھ پروین شاکرکے یہاں جلوہ گرہیں، بارش، شبنم،نور، روشنی، رنگ، دھوپ، جنگل، آندھی، ہوا، گلاب ،تتلی،سانپ وغیرہ مظاہرِ فطرت وہ استعارے ہیں،جوپروین کی شاعری کوکردارفراہم کرتے اورجن میں تفکروتدبرسے ان کی شاعری کا تانا بانا تیار ہوتا ہے،خواب اور نیندبھی پروین کی شاعری میں استعمال ہونے والے اہم استعارے ہیں۔ تشبیہ،استعارہ و کنایہ شاعری اور خاص طورسے غزلیہ شاعری کی جان ہوتی ہے اور یہ وصف پروین شاکرکی شاعری میں کمال کی حد تک پایاجاتاہے،ذیل کے کچھ اشعارسے پروین شاکرکی مذکورہ شعری خصوصیات کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے:

تری ہنسی میں نئے موسموںکی خوشبوتھی
نویدہوکہ بدن سے پرانے خواب اترے
سپردگی کا مجسم سوال بن کے کھلوں
مثالِ قطرۂ شبنم تراجواب اترے

چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہواکے ساتھ سفرکا مقابلہ ٹھہرا

جانے کب تک تری تصویر نگاہوںمیں رہی
ہوگئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
میں نے پھرتیرے تصورکے کسی لمحے میں
تیری تصویرپہ لب رکھ دیے آہستہ سے

چہرہ میراتھا،نگاہیں اس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اس کی
شوخ لمحوںکا پتہ دینے لگیں
تیزہوتی ہوئی سانسیں اس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں،شامیں اس کی
دوررہ کر بھی سدارہتی ہیں
مجھ کوتھامے ہوئے بانہیں اس کی

کھلی آنکھوںمیں سپناجاگتاہے
وہ سویاہے کہ کچھ کچھ جاگتاہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوںمیں
مراتن موربن کر ناچتاہے
میں اس کی دست رس میں ہوںمگروہ
مجھے میری رضاسے مانگتاہے


تجھ کو کھوکربھی رہوںخلوتِ جاں میںتیری
جیت پائی ہے محبت نے عجب مات کے ساتھ

    پروین شاکرنے محبوب کی بے رخی،بے توجہی، عدمِ التفات یا بے وفائی کوبھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ بیان کیاہے،مگر یہاں بھی وہ طرزِادامیں دیگرشعراسے ممتازہیں،اس کیفیت کوبیان کرتے ہوئے ان کا لہجہ شاکیانہ توہے ہی،مگرملتجیانہ اورپرامید بھی ہے،وہ محبوب کی بے رخی سے دل گیر ہوتی ہیں، مگردرپردہ اس کا اظہار بھی کرتی ہیںکہ وہ کسی نہ کسی صورت ان کی طرف متوجہ ہو:

اب تواس راہ سے وہ شخص گزرتابھی نہیں
اب کس امیدپہ دروازے سے جھانکے کوئی

اسی کوچے میں کئی اس کے شناسابھی توہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پوچھوںگی میں کھوئے ہوئے خوابوںکا پتہ
وہ اگر آئے،توکچھ بھی نہ بتانے آئے

کوئی توہو،جومرے تن کوروشنی بھیجے
کسی کا پیارہوامیرے نام لائی ہو

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہوگاجومجھے اس کی طرح یاد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوںمیں
روزاِک موت نئے طرز کی ایجادکرے

ممکنہ فیصلوںمیں ایک ہجرکافیصلہ بھی تھا
ہم نے توایک بات کی،اس نے کمال کردیا!

ہمیں خبرہے ہواکامزاج رکھتے ہو
مگریہ کیاکہ ذرادیرکورکے بھی نہیں!

توبدلتاہے توبے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوںکی لکیروںمیں اُلجھ جاتی ہیں

     پروین شاکرکی شاعری میں رومانوی خیالات کی بھی فراوانی ہے،جوخاص طورسے نوجوان نسل کے لیے باعثِ کشش ہے۔حسن و عشق کے لمحۂ وصال کی تعبیروترجمانی میں انھوںنے کمالِ ہنرمندی کا مظاہرہ کیاہے اورسرشاری،وابستگی و سپردگی کی کیفیات کوبڑے لطیف و حسین پیرایے میں بیان کیاہے،خاص طورسے’’خوشبو‘‘کی غزلوںکا زیادہ تر حصہ اسی قسم کے خیالات کا اظہارہے،ایک غزل:

سبزمدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک
سردکمرے میںمچلتی گرم سانسوںکی مہک
بازووںکے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر،آنچل بھی کچھ ڈھلکاہوا
گرمیِ رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زلفوںسے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سرخ ہونٹوںپرشرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں بانہوںمیں چوڑی کی کبھی مدھم دھنک
شرمگیں لہجوںمیں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دودلوںکی دھڑکنوںمیں گونجتی تھی اِک صدا
کانپتے ہونٹوںپہ تھی اللہ سے صرف اِک دعا
کاش یہ لمحے ٹھہرجائیں،ٹھہرجائیں ذرا!

     معاملاتِ حسن وعشق کے علاوہ معاشرت و سیاست میں پائی جانے والی ناانصافی و نابرابری،استحصالی سسٹم،چہارسمت بکھرے ہوئے خوف، زیردستوںکے تئیں زبردستوںکے آمرانہ و ظالمانہ رویے کے خلاف کھلااحتجاج بھی پروین شاکرکی شاعری میں متعددمقامات پردیکھنے کوملتاہے:

میراسرحاضرہے،لیکن میرامنصف دیکھ لے
کررہاہے میری فردِ جرم کو تحریرکون
میری چادرتوچھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کومری پھر دے گیاتشہیر کون

وہ خوف ہے کہ سرِ شام گھرسے چلتے وقت
گلی کا دورتلک جائزہ ضروری ہے

لہوجمنے سے پہلے خوںبہادے
یہاں انصاف سے قاتل بڑاہے
کسی بستی میں ہوگی سچ کی حرمت
ہمارے شہرمیں باطل بڑاہے

      انھوںنے معاشرے کے دبے کچلے،مزدوروکامگارطبقے کے مختلف کرداروںپربھی شاعری کی ہے اوران لوگوں کی طرف حمایت کا ہاتھ بڑھایاہے،جن کی شب و روزکی جفاکشی سے دوسرے لوگ توخوب فیضیاب ہوتے ہیں،مگروہ بے چارے ساری زندگی تہی مایہ و بے سروساماں ہی رہتے ہیں۔’’انکار‘‘کی  نثری نظموںکابیشترحصہ ایسے ہی کرداروںکومنسوب ہے۔

      پروین شاکرکاایک اوراہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک مخصوص شعری صنف’’نثری نظم‘‘کونئی بلندیوںاور مقبولیت کی نئی منزلوںتک پہنچایا،ان کے دورمیں اور ان سے پہلے بھی کئی بڑے شاعروںنے اس صنف کواختیار کیاتھا،مگرپروین شاکرکی بدولت اس صنفِ شاعری کا جغرافیہ مزیدوسیع و عریض ہوگیا۔

     پروین شاکرکی دلکش و سحرطراز شاعری نے اردوکے لفظیاتی ذخیرے اورتعبیراتی و اسلوبی نظام کوبھی نئی اورخوش رنگ شکلوںسے آشناکیا،انھوں نے اپنے خیال کوالفاظ و اظہار کا جامہ پہنانے کے لیے لفظوںکی ایسی تراکیبِ نوترتیب دیں،جس سے اردوادب کوایک سے بڑھ ایک خوب صورت پیرایہ ہاے اظہارملے،انھوں نے اپنی پوری شاعری میںجونئی اورانوکھی تعبیریں استعمال کیں،ان کی صحیح تعدادسیکڑوںمیں ہوسکتی ہے۔

     پروین شاکرکاآبائی وطن ہندوستان کے شہردربھنگہ سے متصل ایک بستی ’’چندن پٹی‘‘تھا،1947ء میںان کے والد کراچی ہجرت کرگئے تھے اورپروین شاکرکی پیدایش ونشوونماوہیں ہوئی،مگراس کے باوجودانھیںہندوستانیت سے گہری وابستگی تھی اوراسی نسبت سے یہاں کی ہندی زبان اور ہندوتہذیب سے بھی وہ آگاہ تھیں، انھوں نے اپنی شاعری میں بعض خالص ہندی الفاظ کوجس چابک دستی و ہنرمندی سے برتااور استعمال کیاہے،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ ہندی زبان و ادب پر بھی دستگاہ رکھتی تھیں،ان کے یہاں دیوتا،مدُھر،سنگیت،سمے،سنسار،پریم،روپ،من موہن، سَکھی، سُر، اَنگ، رُت، سنگم، دیس، بَن، جنم، سندیس، ساگر، آدرش،گمبھیر،راج کماری، بھور، سنگ،ساجن،گوری،مُکھ،نین،مُسکانا،سہاگن،سندرتا، جَگ، پرویَّا، پجاری، سادھو، منتر،بن باس لینا، ریکھا،وِیر،مہکار،سیندور،کجرا،ہِردے،چتا،داسی،درشن،امرِت،شریر،کومل سر،پوتر،چر ن ، بھوَن، بھیتر ، سنجوگ، پتی، آکاش، چندرما، آتما، چھایا، راجا،بدھائی،جل،بِنتی،سینتنا،سانجھ سویرے،سمبندھ،سمان،راج رتھ،آرتی اتارنا، آڑھت، آشا، پُرش، بھاگ، اپمان، بلیدان، سمپورن، شبد، ادھیکار، دان کرناجیسے الفاظ جگہ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔اسی طرح انھوں نے کئی غزلوںمیں ہندووںکی مذہبی علامتوںمثلاً دیوالی،مندر،گنگا،کرشن،گھنشیام جیسے کرداروںکوبھی مضامینِ غزل کے طورپراستعمال کیاہے۔

    الغرض پروین شاکراردوکی ایک مکمل،ہمہ جہت اورکامیاب ترین شاعرہ ہیں،جن کی شاعری دلوںکے تارچھیڑتی اوراحساساتِ دروںکی سچی ترجمانی کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کوایک عرصہ گزرگیا،مگرہنوزان کانام دنیاے ادب و شعرمیں روشن و تاب ناک ہے اور آیندہ بھی رہے گا(ان شاء اللہ)، خودپروین کوبھی اس کا ادراک ہوگا،سوانھوںنے پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ:

مربھی جاؤںتوکہاںلوگ بھلاہی دیں گے
لفظ میرے،مرے ہونے کی گواہی دیں گے

 


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 569