donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayyer Azam
Title :
   Maulana Md. Ali Jauhar Aik Hamajehat Shakhsiat

 

تحریک خلافت کے روح رواں اور عظیم مجاہد آزادی

مولانا محمدعلی جوہرایک ہمہ جہت شخصیت

 


 نیر اعظم 

 ترجمان 

 آل انڈیا یونائٹیڈ مسلم مورچہ 

 9198109822


10

دسمبر1878کا دن ہر لحاظ سے ہندوستانیوں کے باعث فخر ہے ۔اس لئے کہ اسی دن تحریک خلافت کے روح رواں اور عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر نے ریاست اترپردیش کے ضلع رامپور میں مولانا عبدالعلی کے گھر میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔مولانا محمد علی جوہر کے والد محترم مولانا عبدالعلی بھی ایک عظیم مجاہد آزادی تھے ۔اور انگریزوں کے خلاف ہمیشہ سربکف رہے۔مولانا محمد علی جوہرنے اپنی تحریروں اور تقریروں سے ہندوستانیوں کے رگوں میں حریت کا جذبہ اس قدر سرایت کر دیا تھا کہ ہر کوئی انگریزوں کے خلاف سر بکف نظر آتا تھا۔مولانا نے کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ آزادی ہند کے لئے کوشاں رہے ۔

مولانا محمد علی جوہر کا بچپن نہایت کسمپرسی میں گزرا بچپن میں ہی ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ،۔والدین کا سایہ سر پرنہ ہونے کے باوجودآپ نے دینی ودنیوی تعلیم حاصل کی ۔آپ نے الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا اس کے بعد1898میں آکسفورڈیونیورسٹی کے ایک کالج میں ماڈرن تعلیم کی غرض سے داخلہ لیا ۔اور وہاں پر اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ دنیاوی تعلیم حاصل کرتے رہے۔

مولانا محمد علی جوہربیک وقت صحافی بھی تھے قلمکار بھی تھے ،شاعر بھی تھے،ادیب بھی تھے،اور ایک بہترین مقرر بھی تھے۔آکسفورڈ سے واپسی کے بعدآپ نے رامپور میں ایجوکیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے لگے۔اس کے کچھ دنوں بعدآپ اسٹیٹ ہائی اسکول کے پرنسپل مقرر ہوئے۔آپ کی تحریریں انگریزی اور اردو زبانوں میں ہندوستانی اخبارات کی زینت بنتی رہتی تھیں۔آپ نے صحافت میں ایک اردو ہفت روزہ بنام ’ہمدرد‘اور انگلش ہفت روزہ’کامریڈ‘کا اجراء بھی کیا ۔مولانا ایک عظیم صحافی تھے ،آپ کی تحریریں اتنی شستہ ہوتی تھیں کہ صرف مسلمان ہی یا ہندوستانی ہی نہیں بلکہ انگریز بھی پڑھتے تھے اور ان پڑھنے والوں میں افسر پروفیسر،طلبہ،اسکالر سبھی طرح کے لوگ ہوتے تھے اور سب آپ کی تحریریں دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔آپ ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے اور انگریزوں کے خلاف سربستہ رہے۔آپ نے لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’اگر ہندوستاں کو آزادی نہیں دو گے تو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دے دومیں غلام ہندوستان میں جانے سے بہتر سمجھوں گا کہ یہیں مر جاؤں ارو مجھے دفنا دیا جائے‘‘آخر کار گول میز کانفرنس ناکام ہوئی اور آپ وہیں پر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے آپ کے جسد خاکی کو فلسطین لے جایا گیا اور انبیاء کرام کے پیروں میں آپ کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا۔

لیکن افسو س ہے کہ اس عظیم مجاہد آزادی کے کارناموں کو آج تک کسی نے محسوس نہیں کیا اوران پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔لیکن یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کے نام سے رامپور میں وقار ملت الحاج محمد اعظم خاں کابینی وزیر ریاست اتر پردیش نے ایک پرائیوٹ یونیورسٹی قائم کر دیا ہے۔اس یونیورسٹی کے لئے محمد اعظم خاں نے2006میں کام کرنا شروع کیا اس یونیورسٹی کو نیست ونابود کرنے کے لئے کئی طاقتیں کھڑی ہوئی ہیں لیکن وقار ملت عالی جناب محمد اعظم خاں اپنے عزم وحوصلہ کے ساتھ ڈٹے رہے اور بالآخر 2012میں یو پی حکومت نے اس یونیورسٹی کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔28مئی 2013کو این سی ای ایم آئی نے مائنارٹی اسٹیٹس کا درجہ دیا۔بلا شبہ اس سے بہتر خراج عقیدت مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کو نہیں پیش کی جا سکتی ہے۔

 

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 489