donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Noorul Islam Nadvi
Title :
   Tasweere Sahafat Ka Mujahid Krishan Murari Kishan

 تصویری صحافت کا مجاہد کرشن مراری کشن


 ساغر کومرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

نورالسلام ندوی

E.mail:nsnadvi@gmail.com

    دوسروںکی تصویر کو اپنے کیمرہ میں قید کرنے والے بہار کے سینئر اور مشہور فوٹو جرنلسٹ کرشن مراری کشن خودموت کے کیمرہ میں ایسا قید ہو گئے جہاں سے اب یہ کسی کی تصوریرنہیں اتار سکتے اور نہ کوئی ان کی تصویر لے سکتا ہے۔ 2 فروری کی صبح بہ ظاہر ایک عام سی صبح تھی ، معمول کے مطابق آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ یہ افسوس ناک خبر ملی کہ معروف فوٹو جرنلسٹ کرشن مراری کشن اب اس دنیا میں نہیں رہے۔خبر سنتے ہی سکتہ میں آ گیا ، انکی یادیں،باتیں ، ادائیں سب ایک ایک کرکے نگاہوں کے سامنے دوڑنے لگیں۔دنیا جب سے قائم ہے اور جب تک قائم رہیگی لوگو ں کے آنے جانے کا سلسلہ لگا رہیگا۔اس جہاں میں کوئی ہمیشہ کے لئے نہیں آ تاہے، البتہ جانے والے چلے جاتے ہیں، انکی یادیں اور باتیں یاد رہنے کے لئے رہ جاتی ہیں۔ خدمات اور کارنامے سے انسان ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔کرشن مراری کرشن بھی اس جہانِ فانی سے چلے گئے لیکن ان کی صلاحیت ،کارنامے اور خدمات ان کو زندہ رکھنے کا ذریعہ بنے گی۔

گزر جائیں گے جب دن،گزرے عالم یاد آئیں گے
 ہمیں تم یاد آؤگے، تمہیں ہم یاد آئیں گے

    درمیانہ قد،چوڑی پیشانی، بولتی آنکھیں،بھاری بدن ، سانولا رنگ،بڑی تونداور اس پر ایک بڑے سائز کا لٹکتا ہوا قیمتی کیمرہ،حاضر دماغ ،تیز ذہن، شگفتہ مزاج، مسکراتا چہرہ، کم گوہ مگر بہت دلچسپ اور پر لطف انسان تھے ’’کرشن مراری کشن‘‘۔کرشن مراری ایک معمولی خاندان میں پیدا ہوئے ،عام لوگوں کے درمیان رہے،عام زندگی گزاری۔ اپنی محنت ،لگن،عزم اور حوصلہ سے اونچا مقام حاصل کیا ۔تصویری صحافت میں اپنی ایک خاص پہچان بنائی اور نہ صرف بہار بلکہ پورے ہندوستان میںمشہور ہوئے۔انہوں نے تقریباً چار دہائیوں تک صحافت کی خدمت کی، ایک زمانہ تک مشہور خبر رساں ایجنسی،
یو این آئی سے وابستہ رہے، اسکے علاوہ متعدد قومی ،خبر رساں ایجنسی اور اخبارات و میگزین کے لئے بھی کام کیا۔برطانوی نیو ز ایجنسی ’’رائٹر‘‘ سے بھی وابستگی رہی۔ انہوں نے متعددایسے حادثات ،سانحات اور واقعات کی تصاویر کو اپنے کیمرے میں قید کیا جو کافی موضوع بحث رہیں۔1975 میں سیلاب کی تباہ کاریوںکی تصویر ، 1978 میں جمشید پور فرقہ وارانہ فسادات کی کوریج،1980 میں پولس کے ذریعہ تقریباً 3 درجن ملزموں کو پکڑ کرآنکھوں میں تیزاب ڈالے جانے والے قیدیوںکی تصویر ،1889 میں بھاگل پور فساد کی منہ بولتی تصویر وغیرہ خاصا مشہور ہوئیں۔بعض مواقع پر انہوں نے اپنی جان کو جو کھم میں ڈال کر تصویر کشی کا کا رنامہ انجام دیا ۔ان پر گولیاں بھی چلائی گئیں، ایک مرتبہ ہیلی کاپٹر حادثہ کے شکا ربھی ہوئے لیکن عزم حوصلہ کے پیکر اورفو لادی قو توں کے مالک فوٹو گرافر مراری کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں سے باز نہیں آئے۔

    تصویر ی صحافت کوئی آسان کام نہیں،تصاویر سے زندگی کے حقائق محسوس شکل میں پیش ہوتے ہیں۔تصویری صحافت کا مقصد زندگی کا عکس پیش کرنا ہے، اگر اس میں خبر اور پیغام نہ ہو تو اس تصویر کی کوئی اہمیت نہیں ہے، مراری کو اس فن میں کمال حاصل تھا۔تصویر کب کھینچنی ہے اور کس زاوئے سے لینی ہے جس سے خبر اور پیغام کے حصے نمایاں ہوں، اس کا ہنر خوب تھا۔تصویری کھینچنے میں صحافتی بصیرت اور حکمت عملی سے کام لیتے ۔ یہی وجہ تھی کہ بہار میں رہتے ہوئے بھی انکی کھینچی ہوئی تصاویر غیر ممالک میں بھی چھپتی تھیں۔انہوں نے اپنی کھینچی ہوئی پرانی اور اہم تصویرو ں کا ایک خوبصورت اور نادر البم بھی تیا ر کیا تھا۔

    کرشن مراری ایک بڑے فوٹو جرنلسٹ تھے، لیکن انہیںکبھی بڑے ہونے کا احساس نہ ہوا ،میںنے اکثر دیکھا کہ جب وہ کسی سے ملتے تو ضرور مسکراتے،

    مسکراتے رہنا شاید ان کی عادت بھی تھی اور فطرت بھی۔ انکے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا، ان میں بڑے بڑے سیاست داں، افسران،ذمہ داران ، ملی و سماجی رہنمااورمذہبی قائدسے لیکر ایک معمولی انسان اور چائے بیچنے والے تک سبھی تھے۔سب سے انکے اچھے مراسم تھے اور ہر ایک سے حسب مراتب خندہ  پیشانی سے ملتے۔

    گذشتہ 5-7 سالوں سے میرے ان سے مراسم تھے ، اکثر جب کسی پروگرام یا سیمنار میں ملاقات ہوتی تو مسکراتے اور خیریت دریافت کرتے، کبھی کبھی مسکراتے ہوئے کہتے ،کیا آج آپ کا بھاشن ہے؟اچھا بولتے ہیں آپ ،محنت کریں،بڑے اسپیکر بن سکتے ہیں۔10  جنوری 2015 کو مرحوم غلام سرور کی یاد میں بہار اردو اکادمی کے سیمنار ہال میں ایک جلسہ چل رہا تھا ، جسکا اہتمام بہار اردو اکادمی نے کیا تھا ، پروگرام شروع ہونے کے تقریباً آدھ ایک گھنٹہ بعد یہ آئے ،مختلف زاویوں سے دو تین تصویریں لیں ، پھر کسی سے کچھ پوچھ رہے تھے اسی درمیان ادھر سے میرا گزر ہوا ،انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا!ہاں یہ بتا سکتے ہیں؟ پھر پوچھا ،غلام سرور کی کون سی برسی منائی جا رہی ہے؟میں نے تاریخ پیدائش بتائی،تو کہا کہ بس ہو گیا،آگے کا کام میں خود کر لونگا۔ دو برس قبل کی بات ہے، انجمن اسلامیہ ہال میںرحمانی 30 کے کامیاب طلبہ اور اساتذہ کے اعزاز میں ایک جلسہ منعقد ہوا۔ اسٹیج پر ابھیانند ( D.G.P. )۔ پروفیسر لطف الرحمان مرحوم اور دوسرے معزز حضرات تشریف فرما تھے۔ رحمانی 30 کے بانی اور پروگرام کے روحِ رواں مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب سامعین کی صف میں تھے ۔ جتنے فوٹو گرافر آئے سبھوں نے اسٹیج کی تصویر لی اور چلتے بنے ۔ کرشن مراری تھو ڑی تاخیر سے آئے اور جلسہ کے اختتام تک رہے، اخیر میں جب سب اسٹیج سے اتر کر جا رہے تھے ، انہوں نے حضرت مولانا سے ایک منٹ کے لئے سبھو ں کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھنے کی درخواست کی ، اور فوراً تصویر کھینچ لی ، اسٹیج کی یہ تصویر جس میں حضرت مولانا تشریف فرما تھے، کسی فوٹو گرافر کے پاس نہیں تھی ، پھر ہر جگہ اس تصویر کی مانگ بڑھ گئی۔

    مراری انسانیت نواز آدمی تھے،راستہ میں کبھی نظر پڑتی تو گاڑی روک کر ملتے، اگر وقت نہ ہوتا تو ہاتھ سے اشارہ ضرور کرتے ۔میں نے محسوس کیا کہ کبھی کبھی ایسے پروگرام جس کو عام فوٹو گرافر معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے یا اہمیت نہ دیتے ،مراری اسکی اچھی کوریج کرتے۔وہ جدید فوٹو تکنیک کے ماہر تھے۔ سب سے اہم او ر خاص بات یہ تھی کہ وہ ایک اچھے فوٹو جرنلسٹ اور ایک اچھے انسان بھی تھے۔انکے انتقال سے تصویری صحافت کے میدان میں ایک خلا پیدا ہو گیاہے۔

    کرشن مراری چند دنوں قبل تک بہت اچھے اور صحت مند تھے۔27 جنوری کو دل کا دورہ پڑا، پٹنہ نے جیوک ہاسپیٹل میں ایڈمڈ کرا یا گیا ، پھر حکومت بہار کی پہل پرخصوصی ایئر ایمبولنس سے گڑ گاؤں کے مدانتا ہاسپیٹل میں داخل کرایا گیا، جہاں سرکاری خرچ پر ان کاعلاج چل رہا تھا، چند دنوں تک موت وحیات سے لڑنے کے بعد با لآخرموت سے شکست کھا گئے۔2 فروری کی دیر رات انہوں نے آخری سانس لی۔3 فروری کو جب سورج نصف النہار کو آچکا تھا تو لوگ اپنے چہیتے فوٹو جرنلسٹ کو آخری دعاؤں آنسؤوں کا نظرانہ پیش کر کے واپس آ رہے تھے۔اور کہہ رہے تھے ۔

 جانے والے چلے جاتے ہیں
جانے والوں کی یاد آتی ہے


(یو این این)

******************************

   

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 647