donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nusrat Zohra
Title :
   Khushboo Ki Shayera - Parween Shakir

خو شبو کی شا عرہ...... پر وین شا کر

 

تحریر:نصر ت زہر ا 

ایک بے حد سبز در خت وا لا گھر ہے جس کے بر آمدے میں ایک با وقار شخصیت آرام کرسی پربرا جما ن ہے ہاتھ میں کلیا ت اقبال لئے گہرے مطالعے میں مصروف ،دوسری جا نب کھڑکی سے کو ئی نو خیز چہرہ برا بر جھا نک رہا ہے کہ کب اس شخصیت کی نگا ہ اس پر پڑے او روہ اپنی لکھی ہو ئی نظم انہیں سنا پا ئے ، ہوا کی سر سر ا ہٹ سے پردۂ ریشمیں میں جنبش ہو ئی اور سفید با لو ں والی پر وقار شخصیت نے پیچھے مڑ کر دیکھا ، نو خیز و نو بہار کلی اب بھی تو جہ طلب نظروں سے دیکھ رہی ہے ،

دا دا دابا میں نے نظم لکھی ہے سفید بالوں والی شخصیت نے مسکراتی ہو ئی آنکھوں سے دیکھا اوہ تو ہما ری بیٹی شاعرہ ہو گئی ہے اچھا ایسا کرو دا داد ابا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھو اور سا ری نظم سنا دو ۔نظم سننے کے بعد غلا فی آنکھوں والی پرکشش لڑکی کو دا داد ابا نے انعام بھی دیا اور آئندہ بھی مشق سخن جا ری رکھنے کی تلقین کی یہی و ہ لڑکی ہے جو اردو ادب کی سب سے زیا دہ چا ہی جا نے والی آواز ہے جس نے اپنے شعروں سے ہرخاص و عام کو اپنی جا نب متوجہ کرلیا او راب بھی جب کہ اسے اس جہانِ رنگ و بو سے کو چ کئے 11بر س بیت گئے ہیں ۔ اردو ادب اس کی مثال لا نے سے قاصر ہے بچپن میں وہ خاصی شریر تھی مگر جب وہ سو لہ بر س کی عمرکو پہنچی تو کسی رانجھے نے اسے خدا کا در جہ دے دیا ۔اتنا چا ہا کہ وہ سرا پا چا ہت بن گئی اوراب اس کے بعد اس کی آنکھو ں میں ایسی ادا سی بسی جو مر تے دم تک اس کی پہچان بن گئی جب اس نے اس چاہت کا ذکر اپنی استاد عر فا نہ عزیز سے کیا جواسے اپنی (Extention)قرار دیتی ہیں کہا کہ تمہا ری نسبت طے ہے مگر پھر بھی خوشبو وجو د میں آگئی اور پیار کرنے والوں کے لئے خو شبو کا تحفہ دینا ایک رواج کی حیثیت اختیار کر گیا اور احمد ندیم قا سمی سے لیکر قر ۃالعین تک تمام ہی لیجنڈز نے اس کی شاعری کو سر آنکھو ں پر رکھا جب اس کی استاد عر فا نہ عزیز کینیڈا جا بسیں تو اس کے فن کی نگہداری احمد ندیم قاسمی نے کی جنہیں وہ عمو جا ن کہا کر تی تھی اپنی پہلی کتاب کا انتساب بھی اس نے انہی کے نام لکھا او روہ بھی اسے اپنی بیٹیوں کی طرح چاہتے تھے جبکہ پر وین نے ہمیشہ یہی کہا کہ وہ منصورہ اور ناہید کی طرح قا سمی صاحب کی خدمت نہ کر سکیں (نا ہید قا سمی اور منصورہ احمد،احمدندیم قاسمی کی بیٹیا ں ہیں ) احمد ندیم قا سمی ا کے فن کو غالب کے اس شعر کی عملی تفسیر قرار دیتے ہیں ۔پھو نکا ہے کس نے گو ش محبت میں اے خدا ۔افسو نِ انتظا ر تمنا کہیں جسے 

اور تمنا کر تے رہنا ہی در اصل کسی فن کے اوج و کمال کی دلیل ہوا کرتی ہے اسی تمنا نے صد بر گ کو جنم دیا ا ور جب ادا سیوں کے موسم طویل تر ہوگئے تو خو دکلامی سا منے آئی ۔ان کا ر پر وین شا کر کا ایک او رشا ہکا ر ہے انکا ر جس نے اسے (Lvining legend)بنا دیا جبکہ کفِ آئینہ اس کے جا نے کے بعد منظرِ عام پر آئی جسے اس کی بہن نسرین شاکر اور امجد اسلام امجد نے شائع کیا پروین نے اپنی زندگی میں ہی اپنا مجموعہ کلام ما ہِ تمام شائع کیا اپنے فن سے ہٹ کر وہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی سچائی کے ساتھ زندہ رہنے والی شخصیت تھی جب کچھ اسلام آبادیوں نے اس کی شہرت کو نقصان پہچا نا چا ہا ، ذرا نہ گھبرائی اور تن تنہا حالات کا مقابلہ کیا بقول مر حو مِ ضمیرجعفری وہ اردو شاعری کی را نی جھا نسی تھی جس نے زندگی کی آنکھو ں میں آنکھے ڈال کر زندگی کی اور شا ید ہی کو ئی سچ ہے جسے اس نے اپنے شعروں میں نہ پرویا ہو اس کے بے شمار اشعار زبان زد عام ہیں اس نے زندگی ہی تنہا نہیں کی بلکہ اپنے بیٹے کو بھی ایک (Single parent )بن کرپا لا اور کئی بار اس دکھر کا اظہار کیا کہ اسے زندگی کی اس نا کامی پرانتہا ئی رنج ہے ، پر وین کی شادی ڈاکٹر نصیر احمد سے ہوئی ،پروین کی مو ت سے کچھ عر صہ قبل ان کے در میان طلا ق ہوئی اس کی زندگی کی واحد خو شی مرا د تھا جس کے مستقبل کی تشویش میں وہ ہر وقت مبتلا رہتی تھی اور خدا سے اس کی ایک ہی دعا تھی کہ وہ اسیاتنی مہلت دے کہ مراد کو اس کے پیروں پر کھڑا دیکھ سکے جب وہ حادثاتی موت کا شکا ر ہو ئی تو مراد محض 15بر س کا تھا او رنیورو سر جن بننا چا ہتا تھا ایک بار اس نے از رہِ مذاق کہا تھا کہمیں مراد سے کہتی ہوں تمہا را ایک مریض تو تمہارے گھر میں مو جو د ہے اور اس کی یہی ظرافت اس کے مضا مین میں دکھا ئی دیتی تھی پا کستان کے ایک مو ء قر رو ز نامے میں اس نے مضامین لکھنے شروع کئے تو سب کو حیران کر دیا ، گو شہ ء چشم کیعنوان سے اسکے کالمز بے حد مقبول ہوئے اور سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی مو ت کے دن جو کالم شائع ہوا اس کی ابتداء ہی ا س جملے سے ہو تی ہے موت بر حق ہے اور موت سے کچھ عر صہ پہلے کے کلام میں بھی اس کا یہی کشف جا بجا دکھا ئی دیتا ہے ۔


کھو ل دیں زنجیرِ در اور حو ض کو خا لی کریں 
مندگی کے باغ میں اب سہ پہر ہونے کو ہے 

اور 

تیرے پیما نیمیں گر دش نہیں با قی سا قی 
اور تیری بزم سے اب کو ئی اٹھا چاہتا ہے

اور

مو ت وہ سا قی کہ جس کے کبھی تھکتے نہیں ہاتھ 
بھرتی جا ئے گی وہ اک جا م صدا جا م کے بعد 

جب کسی نے اس سے در یا فت کیا کہ اگر آپ شا عرہ نہ ہو تیں تو کیا ہو تیں اس کے جو ا ب میں پر وین نے کہا تھا کہ اپنے آپ کو صر ف شا عرہ ہی کہلو ا نا پسند کر تی ہیں او رہر جنم میں شا عرہ ہی ہو تیں اس جنم کی شا عرہ کے با رے میں امجد اسلام امجد کہتے ہیں کہ اس سے قبل بھی اردو شعر کو مہکا نے والی کئی توا نا آوازیں تھیں مگر پٹنہ کی اس دھا ن پا ن سی لڑ کی نیوہ دھو م مچا ئی ہ کہ دنیا ئے ادب میں ابتداء ہی سے وہ ایک الگ شناخت کے ساتھ ابھر کر سا منے آئی اس نے شعر اس وقت لکھنا شروع کئے جب وہ محض سو لہ بر کی تھی سو لہوا ں سال اس کی زندگی میں ایک مو ڑ کی حیثت رکھتا ہے جب وہ محبت کے ذائقوں سے آشنا ہوئی او راس نے لکھا 

ماں سے کیا کہیں گی دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی 
اتنی چھو ٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں

اور 

تمہارا کہنا ہے 
تم مجھے بے پناہ شدت سے چا ہتے ہو
تمہا ری چا ہت 
وصال کی آخری حدوں تک 
مرے فقط میرے نام ہو گی 
مجھے یقیں ہے مجھے یقیں ہے
مگر قسم کھا نے والے لڑ کے 
تمہاری آنکھوں میں ایک تل ہے 

جب یہ چاہت چاند کی مدھم روشنی میں مجبوب سے ہم آغوش ہو ئی تو اس کا لہجہ او ر بھی حسین ہو گیا ، ایسا کہ زندگی پر پیار آنے لگا 

ایکسٹیسی 

سبز مدھم رو شنی میں سر خ آنچل کی دھنک 
سرد کمرے میں مچلتی گر م سا نسوں کی مہک 
بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن 
سلو ٹیں ملبو س پر ، آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہو ا 
گر می رخسار سے دہکی ہو ئی ٹھنڈی ہو ا 
نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ 
سر خ ہو نٹوں پرشرارت کے کسی لمحے کا عکس 
ریشمیں بانہوں میں چوڑی کی کبھی مدھم کھنک 
شر مگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات 
دو دلوں کی دھڑ کنوں میں گو نجتی تھی اک صدا 
کا نپتے ہو نٹوں پہ تھی اللہ سے بس اک دعا 
کا ش یہ لمحے ٹھہرجائیں ٹھہر جائیں ذرا 

پر وین کی شاعری کو پڑھتے ہو ئے ایسا لگتا ہے جیسے آپ زینہ زینہ اس کی زندگی میں داخل ہو رہے ہیں بالخصوص خو شبو کی شاعری میں پر وین کا کلا م یوں دکھی ئی دیتا ہے جیسے مو تیوں کی لڑی میں پر وئی ہو ئی کو ئی مالا جس کا حسن دیکھ کر کبھی لکھنے والے کے ہاتھ چومنے کو جی چا ہے کبھی اس کلا م کو سر مہ چشم بنا نے کو جی چا ہے 

دل پہ یکطرفہ قیامت کر نا 
مسکرا تے ہو ئے رخصت کر نا 
اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اس کو 
کچھ تو لاز م ہوا وحشت کر نا 
جرم کس کا تھا سزا کس کو ملی 
ِ کیا گئی بات پہ حجت کر نا 
کو ن چا ہے گا تمہیں میری طرح 
اب کسی سے نہ محبت کر نا 
گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے 
وقت مل جائے تو زحمت کر نا 

اور محبت کے اس سفر میں وہ جہاں محبت سر شار ہے وہیں اسے آنے والی کل کا دکھ بھی ستا تا ہے اور وہ بڑی سچا ئی سے اس کر ب کا اظہار کر نے سے بھی نہیں چو کتی 
آنے والی کل کادکھ 
میری نظر میں ابھر رہا ہے 

وہ ایک لمحہ 

کہ جب کسی کی نرم زلفوس کی نرم چھاؤں میں آنکھ مو ندے 
گئے دنوں کا خیا ل کر کے 
تم ایک لمحے کو کھو سے جاؤ گے 
نہ چاہ کر بھی ادا س ہو گے 
تو کوئی شیریں نوا یہ پوچھے گی 
میری جا ن تم کو کیا ہو ا ہے ؟
یہ کس کے تصور میں کھو گئے ہو؟

تمہا رے ہو نٹوں پہ صبح کی اولیں کر ن کی طرح سے ابھر یگی مسکرا ہٹ تم اس کے رخسار تھپتھپا کے کہو گے اس سے 
میں ایک لڑکی کو سو چتا ہوں 
عجیب لڑکی تھی کتنی پا کل 

تمہاری ساتھی کی خو بصورت جبیں پہ کو ئی شکن بنے گی 
تو تم بڑے پیار سے ہنسو گے 
کہو گے اس سے 
ارے وہ لڑکی 
وہ میرے جذبات کی حما قت 
وہ اس قدر بے وقوف لڑکی میرے لئے کب کی مر چکی ہے 
پھر اپنی سا تھی کی نر م زلفوں میں انگلیاں پھیرتے ہو ئے تم 
کہو گے اس سے 
چلو نئی آنے والی کل میں 
ہم اپنے ماضی کو دفن کر دیں 

پر وین کی محبت کو بہت جلد کسی کی نظر لگ گئی اسی لئے تو وہ ریزہ ریزہ ہو کر کہتی ہے 

میرے چھو ٹے سے گھر کو کس کی نظر اے خدا لگ گئی 
کیسی کیسی دعاؤں کے ہو تے ہو ئے بد دعا لگ گئی 

موہنی صورت وا لے مر د کو ہی اس نے یہ بتا یا کہ اسیدنیا کو دیکھنے کے لئے اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنا ہے

میرے بچے نے اٹھا یا ہے پہلی بار قلم 
مجھ سے پو چھتا ہے 
کیا لکھو ں مما 
میں تجھ سے کیا کہوں بیٹے 
کہاب سے بر سو ں پہلے 
یہ لمحہ جب میری ہستی میں 
آیا تھا 
تو میرے باپ نے مجھ کو سکھا ئے تھے 
محبت ،نیکی اور سچا ئی کے کلمے 
میرے تو شے میں 
ان لفظوں کی رو لی رکھ کے 
وہ سمجھتا تھا 
سفر آسا ن ہو جائے گا 
را ستہ کٹ جا ئے گا شا ید 
مگر 
محبت مجھ سے دنیا نے و صو لی 
قرض کی ما نند 
نیکی سو د کی صور ت میں حا صل کی 
میری سچائی کے سکے 
ہو ئے رو اس طرح سے 
کہ میں فوراً سنبھلنے کی نہ تد بیر کر تی 
تو سر پہ چھت نہ رہتی 
تن پہ پیرا ہن نہیں بچتا 
میں اپنے گھر میں رہ کر 
عمر بھر جز یہ ادا کرتی رہی ہوں 
زمانہ میرے خدشوں سے سوا عیار تھا 
اور زندگی میری توقع سے زیادہ بے مر وت تھی 
تعلق کے گھنے جنگل میں بچھو سرسرا تے تھے 
مگر ہم اس کو سرشاری میں 
فصلِ کل کی سر گو شی سمجھتے تھے 
پتا ہی کچھ نہ چلتا تھا 
کہ خوابوں کی چھپر کھٹ پر 
لباسِ ریشمیں کس وقت بن کر کینچلی اتر ا 
مخاطب کے رو پہلے دانت 
کب پیچھے مڑے 
اور کان کب غائب ہو ئے ہو ئے یکدم 
میں اس کذب دریا اس بے لحا ظی سے 
بھری دنیا میں رہ کر 
محبت او رنیکی اور سچا ئی کا ورثہ تجط کو کسے منتقل کر دوں 
مجھے کیا دے دیا اس نے 
مگر میں ماں ہو ں 
اور اک ماں اگر ما یوں ہو جائے 
تو دنیا ختم ہوجائے 
سو میرے خو ش گماں بچے 
تو اپنی لو حِ آئندہ پہ سارے
سدا سچ بو لنا 
احسا ن کر نا ، پیا ربھی کر نا 
مگر آنکھیں کھلی رکھنا 
پروین کے کلا م کی بے شمار خو بیوں کے ساتھ ایک خو بی یہ بھی ہے کہ وہ ریزہ ریزہ ہو نے کے با وصف بھی زندگی کشید کر لیتی ہے او ر زندگی سے اس کے پیا ر او رجینے کی امنگ نے ہی ا سکے کلا م کو سطیحت سے پا ک رکھا ہے 
عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا 
میں مطمئین ہو ں میرا دل تیری پنا ہ میں ہے 
تیر ے بدلنے کے با وصف بھی چا ہا ہے 
یہ اعتراف بھی شامل میرے گنا ہ میں ہے 
پر وین نے تمام ہی اصناف سخن میں طبع آممائی کی مگر غزل اس کے کلام کا اصل حسن ہے جس کے بارے میں فیض نے کہا تھا کہ ہم نے سا ری زندگی میں اتنی غزلیں نہیں لکھیں جتنی پر وین کے ایک دیوان میں شامل ہیں ، فیض کی باتکے جواب میں صادقین نے کہا تھا کہ پروین زیادہ لکھتی ہیں اور اچھا لگھتی ہیں ، صا دقین نے ہی پروین کے پہلے مجموعہ کلام کا سر ورق بنا یا تھا ۔ اگر ہم بات کریں پروین کی غزلوں کے ارتقاء پر تو خو شبو سے لے کر کف آئنہ تک پر وین نے جس طرح جذبوں کی تہذیب کی وہیں اس کے کلام میں بھی یہی رنگ جھلکتا ہے مگر ایک بات قابل تو جہ ہے کہ اس نے نو عمری میں بھی پختہ غزل لکھی ا س کی معروف غزلوں کیبابت تو سب ہی جا نتے ہیں مگر کچھ غزلیں اب بھی ایسی ہیں جو اتنی پذیرائی نہیں حاصل کرسکیں جتنا ان کا حق تھا خوشبو کی ایک غزل ہے 
دھنک دھنک میری پوروں کو خواب کر دے 
وہ لمس میر ے بدن کو گلاب کر دے گا 
قبائے جسم کے ہر تار سے گذ ر تا ہو ا 
کر ن کا پیا ر مجھے آفتاب کر دے گا 
اسی طرح سے اگر چاہتارہا پیہم 
سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا 
جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں 
بدن کو ناؤ لہو کو چناب کردے گا 
میری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی 
تمہا ری یا د کے نام انتساب کر دے گا
صدبرگ میں پروین کا لہجہ کچھ اور بھی سوا ہو جا تا ہے جب کہ اس کی زندگی کا منظر بھی تبدیل ہو چکا تھا اور اس زمین کا بھی جسے وہاپنی ماں کہا کر تی تھی نئے زخموں نے اس کے فن کو کچھ اور بھی نکھا ر دیا تھا ۔ 
مو جیں بہم ہو ئیں تو کنا رہ نہیں رہا 
آنکھوں میں کوئی خواب دو بارہ نہیں رہا 
گھر بچ گیا کہ دور تھے کچھ صا عقہ مزاج 
کچھ آسمان کا بھی اشا رہ نہیں رہا 
بھو لا ہے کو ن ایڑ لگا کر حیا ت کو 
رکنا ہی رخشِ جاں کو گوارہ نہیں رہا 
جب تک وہ بے نشا ں رہا دسترس تھا 
خوش نا م ہو گیا تو ہمارا نہیں رہا 
کیسی گھڑی میں تر کِ سفر کا خیا ل ہے 
جب ہم میں لو ٹ آنے کا یا را نہیں رہا 
پر وین پر ایک حلقے نے انگریزی ادب کی ممتاز شاعرہ ایملی ڈکسن کے کلا م کی نقا لی الزام تو لگا یا مگر کو ئی بھی مثال پیش کر نے سے ناکام رہا با وجو د اس کے کہ وہ انگریزی ادب کی طالبہ رہ چکی تھی اس نے ہمیشہ ہر شعر کو اپنے دل کی گہرا ئی سے تخلیق کیا بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہ وگا کہ پر وین نے جدیدیت اور کلا سیکیت کا حسین امتزاج اپنی شا عری میں پیش کیا ۔اردو ادب میں ادا جعفری ، زہرا نگاہ،فہمیدہ ریاض اور کشور نا ہید کا چر چا تھا کہ پر وین نمو دار ہو ئی اور سا را منظر ہی بدل گیا اگر چہ بہت سے کا نٹے اول الذکر شاعرات نے اپنی پلکوں چن لئے تھے پر وین کے پیار کے اس والہا نہ اظہار کو بھی بہت مزاحمت کا سا منا رہا مگر اس نے بھی ٹھا ن لی تھی کیو نکہ 
چھو کر ہی آئیں منزلِ امید ہاتھ سے 
کیا گھر کو لو ٹنا ہو کہ جب پاؤں چھل چکا

 

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 602