donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Razia Kazmi
Title :
   Meer Ali Abbad Neesan

 

 میر علی عبّاد نیساں
 
رضیہ کاظمی  نیوجرسی،امریکہ
 
میر علی عبّاد صاحب نیساں والد بزرگوار جناب شعلہ صاحب کےشاعری میں پہلے استاد تھے۔ والد صاحب کی عمر اپنے استاد کے انتقال کے وقت  سولہ سال کی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے استاد کا ذکر بہت عزّت کے ساتھ کرتے تھے۔
 
نیساں صاحب کاتعلّق ضلع الہ آباد کے موضع کہرہ کے ایک معزّز سید خاندان سے تھا۔ان کے والد  جناب سجّاد حسین صاحب نے اپنے گاؤں میں ایک شاندار مسجد اور کوٹھی تعمیر کروائی تھی جو انکے ورثاء کے پاکستان منتقلی کے سبب خستہ حالت میں پڑی ہوئی ہیں ۔ ہوسکتا ہے ابتک کوٹھی پر کسی نہ کسی کا قبضہ بھی ہوچکا ہو۔
 
ان کے پیدائش کی صحیح نہیں معلوم ہوسکی۔ کہتے ہیں ۱۹۱۷ میں اپنے انتقال کے وقت ان کی عمر نوّے سال کی تھی اس سے ان کے سال پیدائش کا تعیّن کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم کہاں اور کتنی حاصل کی اس بارے میں معلومات نہیں حاصل ہوسکیں۔ ویسے پہلے زمانہ میں باقاعدہ اسکولی تعلیم کے بجائے گھر پر ہی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ انکے کلام کے تجزیہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے علاوہ انھیں عربی اور فارسی زبانوں پر اچّھا عبور حاصل تھا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد  پہلے نائب تحصیلدار اور پھر تحصیلدار کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ کارگزاریوں کے سلسلہ میں اوّلاً انھیں خاں صاحب پھر خاں بہادرکا خطاب گورنمنٹ انگلشیہ کی جانب سے عطا ہوا تھا۔
 
نیساں صاحب بہت ہی منکسرمزاج،خوش اخلاق اور متواضع انسان تھے۔ بسلسلۂ ملازمت جہاں رہے پردیس میں بھی اپنے دستر خوان پر بغیرمہمان کھانا نوش نہیں فرماتے تھے۔ نیساں صاحب نے دو شادیاں فرمائی تھیں۔ پہلی بیوی سے صرف ایک بیٹی تھی۔ انکی اولادیں پاکستان منتقل ہوگئیں۔ دوسری شادی سے جو کافی کبر سنی میں  فرمائی تھی دوبیٹے اور ایک بیٹی تولّد ہوئے تھے ۔ان کی اولادوں میں سے بھی اب ہندوستان میں کوئی مقیم نہیں رہا۔
 
عمر کے آخری حصّہ میں جب صحت زیادہ خراب رہنے لگی تو گاؤں چھڑ کر مستقل طور پر الہ آباد آگئے تھے۷اپریل ۱۹۱۷ کو بوقت نماز فجر انتقال فرمایا۔ان کے سوگ میں شہر کے تمام بازار پورے دن بند رہے ۔ چار بجے شان شہر کی کربلا میں تدفین عمل میں آئی۔ والد محترم نےدرج ذیل قطع تاریخ لکھا:
حضرت نیساں علی عبّاد ہائے
سیّد عالی نسب جاتا رہا
تھا رئیس ابن رئیس ابن رئیس
خاں بہادر ذی لقب جاتا رہا
کلک شعلہ قطعۂ تاریخ لکھ
شاعری کا لطف اب جاتا رہا
۱۳۳۵ھ
مطابق ۷اپریل ۱۹۱۷
مہدی حسین ناصری لکھنوی نے بھی ایک طویل قطعہ تاریخ لکھاجسکا آخری بند پیش ہے
بجھ گئی افسوس شمع ناسخ و رشک منیر
مٹ گیا وہ خانداں جسکی نہیں ممکن نظیر
یوں تو روئے گا الہ آباد کا برنا وپیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعر کا ماتم کرینگے ہاں مگر ہم اور شہیر
ناصری دل خونچکاں وسال فوتش بر زباں
آں علی عبّاد نیساں خاں بہا در داد جاں۔۔۔۔۔۔
۱۳۳۵ ھ
 
نیساں صاحب کو شاعری کا شوق اوائل عمر ہی سے تھا۔سن تمیز کو پہنچنے پر منشی منیر کی شاگردی اختیارکی اور رفتہ رفتہ ان کے ارشد تلامذہ میں شمار کئے جانے لگے۔دیوان منیر میں ایسے کافی اشعار ہیں جن میں ان کی تعریف و توصیف بہت محبّت سے کی گئی ہے۔ نہایت پر گو اور صاحب کمال تھے۔  غزل،قصیدہ،مرثیہ،مثنوی اور رباعی سبھی اصناف شاعری میں دستگاہ رکھتے تھے۔ تشبیہ واستعارے کے استعمال پر عبور حاصل تھا۔ خود مشاعروں میں کم شریک ہوتے تھے ۔اگر کسی طرحی مشاعرے  میں اپنا کلام خود نہیں پڑھتے تھے بلکہ اپنے کسی عزیز شاگرد سے پڑھواتے تھے۔ اس قدر زودگو تھے کہ ہر مشاعرہ کے لئے تقریباًپانچ چھ سو غزلیں کہہ لیا کرتے تھےجنھیں اکثر دوسروں بانٹ دیا کرتے تھے۔ایک بہت بڑی تعداد شاگردوں کی رکھتے تھے جن میں واقعی کچھ کا شمار اچّھے شعراء میں تھا۔اگر موقع ملا تو اس سلسلہ میں شاید میں کچھ اور شعراء کے حالات زندگی اور کمالات شاعری پر روشنی ڈال سکوں۔
نیساں صاحب کے کچھ اشعارملاحظہ فرمائیں۔
یہ تو سچ ہے کہ مری آہ میں تاثیر نہیں
دونوں ہاتھوں سےجگرکس نےسنبھالا اپنا
چھپ کے آئینۂ دل توڑ نہ اے پردہ نشیں
ایک تو رہنے دے منھ دیکھنے والا اپنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی خدا کی یاد دم واپسیں تو کیا
آنکھیں کلیں تو وقت نمازسحرنہ تھا
برسوں بتوں کےعشق میں تقدیرسےلڑا
بندہ ادھر رہا کہ خدا بھی جدھر نہ تھا
بھڑکا دیا ہوائے تمنّائے وصل نے
اتنا بلند شعلۂ داغ جگر نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
کعبہ میں شمع،دل میں چمک،دیرمیں چراغ
نور جمال یار کہاں جلوہ گر نہ تھا۔۔
 
[اپنےوالد کےاستاد کی تاریخ وفات پرخراج عقیدت]
 
از 
رضیہ کاظمی
نیوجرسی،امریکہ
++++++++++++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 784