donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Razia Kazmi
Title :
   Syed Mahboob Hussain Tahammul

                  بسلسلۂ شعرائےالہ آباد
 
              سیّد محبوب حسین تحمّل
 
رضیہ کاظمی
 
 
تحمّل صاحب میرے والد ماجد سیّدمومن حسین تقوی،شعلہ کراروی کے استاد تھے۔ ان کے پہلےاستاد میر علی عبّاد صاحب نیساں تھے۔ابھی والد صاحب کی عمر صرف سولہ سال کی ہی تھی کہ انکا انتقال ہوگیا۔بعدہْ انھوں نے تحمّل صاحب کو اپنا استاد منتخب کیا۔
 
تحمّل صاحب کا تعلّق الہ آباد کے مشہور مردم خیز قصبہ کراری سے تھا۔آپ یہیں ماہ شعبان ۱۳۰۴ھ میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام سیّد الفت حسین تھا۔ آپ کے ماموں سیّد ابوالحسن صاحب توکّل اپنے قصبے کےایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ انھیں کے تخلّص کی 
رعایت سے آپ نےاپنا تخلّص تحمّل اختیار کیا۔آپ کے بڑے سوتیلے بھائی سیّد زین العابدین بھی صاحب دیوان شاعر تھے۔ان کے دیوان کا نام دفتر انتقام تھا جو ایک طویل نظم پر مشتمل ہے۔ بہرکیف آپ کو شاعری والدین کی جانب سے ورثہ میں ملی تھی۔
 
محبوب صاحب کی ابتدائی تعلیم اپنے قصبے ہی میں ہوئی۔ ابھی صر پانچ چھ سال ہی کے تھے کہ اپنےبڑے بھائی تعشّق حسین کے ساتھ نقل مکانی کرکےاپنے چچا سیّد بشارت حسین کے پاس بغرض تعلیم الہ آباد آنا پڑا۔جمنا مشن اسکول میں داخلہ کرایا گیا۔ گھر پر بھی عربی اور فاسی کی تعلیم کا معقول انتظام کیا گیا۔ ۱۹۱۳ میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد قانونگوئی کی ٹریننگ اور نینی ایگریکلچر انسٹیٹیوٹ جہاں بھی داخلہ کرایا گیا وہاں دل نہ لگا اور چھوڑ کر اپنے شوقیہ مشغلوں میں لگ گئے۔
 
آپ کوکھیل کود کا بے حد شوق تھا۔کریکٹ اور فٹ بال کے خاص شوقین تھے اور دور دور کھیلنے جایا کرتے تھے۔اس کے علاوہ ان کے محبوب مشحلوں میں باغبانی،آتشبازی،کبوتر بازی اور شکار بھی تھے۔ شاعری تو ان کی جان تھی۔ الہ آباد شہر میں اس زمانہ میں ادبی محفلیں عروج پر تھیں۔آپ نے نیساں صاحب کی شاگردی   اختیار کی۔ پھر مشق سخن و اکتساب فن شاعری میں اس قدر کھوئےکہ تعلیم کو ہی خیر باد نہیں کہابلکہ ان کا دل پھر کسی کام میں نہیں لگا حتّیٰ کہ ملازمت میں بھی ۔نتیجہ کے 
 طور پر ہمیشہ تنگ دستی شامل حال رہی۔ ماشا اللہ کثیرالعیال بھی رہے۔
 
تحمّل صاحب غالب ،میراور مصحفی کے رنگ شاعری سے خصوصیت کے ساتھ متاثّر تھے۔مرزا ثاقب بھی چونکہ ان کے ہم خیال تھے لہٰذا ان دونوں کی خوب بنتی تھی۔ان کی شاعرانہ طبیعت نےفن شاعری میں وہ مشق بہم پہنچائی کہ جلد ہی اساتذہ میں شمار کئے جانے لگے۔ ایک بڑی تعداد شاگردوں کی اکٹّھا کرلی۔ جس مشاعرہ میں شریک ہوتے  
 
دھوم مچادیتے۔اچّھےاچّھے مقامی شعرا؍ کا رنگ پھیکا پڑجاتا۔فراق گورکھپوری جو کسی شاعر کو خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے انھیں بھی ان کے بارے میں ایک بار کہنا پڑا:
میر کے انداز میں مصحفی بول رہا ہے
 
تحمّل صاحب والدہ محترمہ کنیز فاطمہ کےرشتہ میں دور کے چچا ہوتے تھے۔ ان کے چچا اور والد صاحب کے استاد کے  رشتہ سے وہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ملگجی سی شیروانی چھڑی ٹیکتے آتے اور پلنگ پر لیٹ جایا کرتے تھے۔یہ میرا طالب عملی کامانہ تھا جب زبان وادب سے زیادہ امتحان میں ملنے والے نمبروں سےلگاؤہوتاہے۔ قل سماعت کے سبب بھی ان سے بات کرنا امر دشوار تھا لہٰذا شاعری کے اس بحر ذخّار کے اتنے قریب ہوتے ہوئے بھی میں اس سے کوئی فیض حاصل کرنے سےمحروم رہی۔ وہ ہمیشہ محویت کے عالم میں ہوتے اکثر ہاتھوں میں کوئی کاغذ کاپرزہ ہوتا ذرا آنکھ بند کرکے گنگناتےاور کوئی شعر دست بستہ ان کے حضور آکھڑا ہوتا۔
 
تحمّل صاحب بہت ہی قادرالکلام شاعر تھے۔آپ کی غزلوں میں روانی کے ساتھ پختگی پائی جاتی ہے۔قصیدے بہت ہی شاندار اور اعلیٰ پایہ کے کہتے تھے۔شاعری میں انھوں نےخوب کہا اور بہت کہا لیکن ان کا کلام زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوا ۔غیر مطبوعہ کلام کہاں اور کس کے پاس یہ کم از کم مجھے نہیں معلوم ہوسکا۔ کچھ کرم خوردہ اوراق مجھے والد صاحب کی وفات کے بعد انکی ردّی میں ملے تھے وہ میرے پاس محفوظ ہیں۔ ان میں سے کچھ ہدیۂ ناظرین ہیں
:
غزل
گرگیا نظروں سے ایسا انقلاب آنے کے بعد
داغ دامان چمن ہے پھول مرجھانے کے بعد
 
زندگی میں تھا ہزاروں آفتوں کا سامنا
دیکھئے کیا پیش آئےمجھ کو مرجانے کے بعد
 
ایسے دیوانوں کی حالت پر کہاں تک روئیے
راہ پر آتے نہیں جو ٹھوکریں کھانے کے بعد
 
اب مریض شام فرقت کو سہارا کون دے
درد بھی رخصت ہوا کروٹ بدلوانے کے بعد
 
بند ہوجائیں نہ جب تک میری آنکھیں ساقیا
دور میں آتا رہے پیمانہ پیمانے کے بعد
 
جستجوتک حسرت و ارماں کا طول عمل
رہ گئی حاجت نہ دنیا کو تجھے پانے کے بعد
 
غم کا افسانہ تحمّل کیا کہوں میں بار بار
داستاں بے لطف ہوجاتی ہے دہرانے کے بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
               رباعیات
ہو جاہل مطلق کہ پڑھا لکّھا ہو
لازم ہے کہ اخلاق بشر اچّھا ہو
ہنستے ہیں جو اوروں پہ ذرا سوچیں تو
ان پر بھی کوئی یوں ہی ہنسے تو کیا ہو
 
مرغوب تھا طبع کو ترانہ کچھ اور
چھیڑا دل ناداں نے فسانہ کچھ اور
تم آپ کوجو چاہو تحمّل سمجھو
سمجھا ہے مگر تم کو زمانہ کچھ اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                     متفرّق اشعار
خزاں کے دور میں ہے مائل سیر چمن کوئی
اب اس سےبڑھ کےہوسکتا نہیں دیوانہ پن کوئی
 
اٹّھا سحاب رحمت حق جھومتا ہوا
اللہ رے آبرو مژۂ اشک بار کی
 
سن کر مری فغان کوئی بیداد گر ہے خوش
شکر خدا کہ نالۂ دل بے اثر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
قید میں بھی زندگی کے دن گزر ہی جائیں گے
کیوں رہائی کے لئےمنّت کش صیّاد ہوں
 
راہ طلب میں بڑھ گیا یہ اضطراب شوق
گھبراکے پوچھتےہیں انھیں کو انھیں سےہم
 
تحمّل خوش نہ ہو احباب سے داد سخن لے کر
کلام ایسا تو ہو جسکا اثر ہو قلب دشمن پر
 
یہ سنتا ہوں تحمّل دل کو دل سے راہ ہوتی ہے
مجھےبھی انتحاں کرنا ہے اپنے جذبۂ دل کا
 
بڑھے جاتے ہیں آگے قافلے والےتو کیا پروا
ہمارا بھی خدا ہے ہم اگر ہیں دور منزل سے
آخر ایک دن اس پریشاں حال مسا فر کو منزل مل ہی گئی۔ ۱۸ جنوری ۱۹۵۹ع،مطابق۸رجب ۱۳۷۸ کو خدانے اپنے پاس بلالیا۔ الہ آباد   شہر کے محلّہ دریا باد اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے۔ پس ماندگان میں  اہلیہ تین بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑیں۔ والد محترم شعلہ کراروی نے دو قطعات تاریخ نظم کئے ۔بخوف طوالت جن میں سے صرف ایک پیش خدمت ہے۔
بزم ہستی سے تحمّل اٹھ گئے
بجھ گئی شمع شبستان سخن۔
سر کئے تھےجس نےلاکھوں معرکے
  چل بسا وہ مرد میدان سخن
باغ شعر وشاعری مرجھا گیا
اڑ گئی بوئے گلستان سخن
الغرض حضرت تحمّل اپنے ساتھ
لے گئےروح سخن جاں سخن
گل ہوئی شعلہ ہوائے موت سے
ہائے وہ شمع شبستان سخن
۱۹۵۹ ع
رضیہ کاظمی
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 868