donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Ghulam Sarwar Ki Sahafat Maujuda Sahafti Tanazur Me


غلام سرور کی صحافت،موجودہ صحافتی تناظر میں

 

 ٭ریاض عظیم آبادی

    غلام سرور…اردو کے مایہ ناز صحافی،خطیب،دانشور،ادیب اورمسلمانوں کی آواز تھے۔ لیکن میری نظر وہ ایک بلند پایا صحافی اور بہار میں اردو صحافت کے بانیوں  میں نمایاں تھے۔ میں نے ہمیشہ  صحافت کے طلبا کو بتایا ہے  کہ اگر صحافت کو زبان دینے والے انڈین اکسپریس کے بانی رام ناتھ گوئنکا تھے تو اردو صحافت کو زبان غلام سرور نے ہی دی تھی۔غلام سرورادیب اور سیاسی رہنما  تو تھے ہی،وہ بنیادی طور ایک صحافی تھے۔آزادی سے قبل سلطان صاحب نے ہفتہ وار اتحاد شائع کیا تھا،اسکے بعد سید نظیر حیدر نے روزنامہ’ صدائے عام‘ اور اسکے چند سال بعد ہی سہیل عظیم آبادی کی ادارت میں روزنامہ’ ساتھی‘ کی اشاعت شروع ہوئی۔غلام سرور نے آزادی کے۶۔۷ بعد ہفتہ وار’ سنگم‘ کی اشاعت شروع کی جو نہ صرف مقبول ہوا بلکہ بعد میں اسے روزنامہ کر دینا پڑا۔غلام سرور کی صحافتی خدمات کا جائزہ موجودہ صحافتی تناظر میں لیا جانا ممکن تو ہے مگر حقائق کی روشنی میں ہی ممکن ہے۔غلام سرور جب ڈاکٹر اختر ارینوی کی شاگردی میں سیاسی  طور پر باشعور ہوئے تو انہیں ایک گھٹن بھرا ماحول ملا،مسلمان گھر سے باہر نکلتے تو سوال ہوتا’تمہارا ملک تو بن گیا پھر یہاں کیا کر رہے ہو؟‘…مسلمان جواب دینے سے قاصر تھے۔1951کی مردم شماری ہونے والی تھی۔اختر ارینوی صاحب غلام سرور کی قیادت میں ایک گروپ تیار کیا اور  اس گروپ نے  شہروں اور گاؤں کا دورہ کر مسلمانوں کو گھروں سے نکالا،مردم شماری میں اپنی ’زبان‘ اردو لکھنے کی ترغیب دی۔آزادی کے بعد یہ پہلی اردو کی  عوامی تحریک تھی۔اسی تحریک کی کامیابی  نے غلام سرور کو صحافی بنا دی جو ہفتہ وار کی اشاعت کا محرک بھی بنا۔اسس کے بعد اردو کو اسکا حق دلانے کے لیے  ۱۰ لاکھ   دستخط کراکر میمورنڈم کی شکل میں صدر جمہوریہ کو  پیش کیا گیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب  اردو کی چھپائی لیتھو پر ہوا کرتی تھی۔آفسٹ کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔نیوز ایجنسیوں کا فقدان،رپوٹروں کی کمی،سب سے بڑھکرمالی وسائل کا بحران اردو صحافت کے فروغ  میں رکاوٹبنا ہوا تھا۔مسلمان قوالی یا تفریحی پروگرام کے لیے دل کھول کر چندہ دیتے تھے اور دیتے ہیں لیکن قومی و ملی معاملے میں پھسڈی رہتے ہیں۔سنگم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔بڑی کمپنیاں اودو اخبارات کو اشتہارات نہیں دیتی تھیں۔روزنامہ صدائے عام  نے اعتدال پسندی کی روش  اختیار کر رکھی تھی  غلام سرور نے مسلمانوں  کے حالات کی سنگینی کا مشاہدہ کیا اور اپنے قلم کی نوک تیز اور بے باک کیا۔اور پھر سنگم مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے لگا ۔سنگم خرید کر پڑھا جانے لگا۔آنکھیں جو دیکھتی ہیں … جیسا کالم مقبول ہوا۔ صحافی غلام کے اندر سیایک مسلم رہنماں نمودار ہوا۔ کانگریس کی سیاست کرنے کی بجائے انہوں مسلمانون کی حالت پر آواز اٹھانی شروع کی۔اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے بی سہائے ڈی آئی آر کے تحت گرفتار کر لیا۔یہیں سے مسلمانوں میں کانگریس مخاف ماحول بننے لگا۔غلام سرور جب  جیل میں تھے تبھی انہیں انکے دوست اور اردو تحریک میں معاو ن عبدلمغنی  اور بیتاب صدیقی نے’شیر بہار‘ بنا دیا جسے بہار کے مسلمانوں نے تسلیم  بھی کرلیا۔1965کے بعد سے غلام سرور شیر بہار ہو گئے اور حزب مخالف کے سب سے بڑے مسلم رہنماں بن گئے۔ لیکن سنگم کو انہوں نے  چھوڑا نہیں۔مظاہر الدین،معید،امتیاز کریم جیسے کارکن اور بیتا ب صدیقی،شمیم احمدصدیقی،عبد المغنی جیسے دوستوں کی تحریر سنگم کی ذینت بنتی رہی۔ہندی انگریزی اخبارو کا ترجمہ اردو کے قاری کا مقدر تھا۔یو این آئی اور پی ٹی آئی کی سروس لینا سنگم کے لیے ممکن نہیں تھاجسکی وجہہ سیاردو کے قاری کو باسی خبروں کو ہضم کرنا پڑتا تھا۔


    بہار کی اردو صحافت کا المیہ تھا کی صدائے عام اور ساتھی مالکوں کی تنگ دستی کا شکار ہوکر بند ہو گیا۔قومی آواز کی آمد  سے اردو کی طباعت میں سدھار ہوا اور ونڈائک سسٹم کی شروعات ہوئی۔ موجودہ صحافت میں روزنامہ سہا را کے سا بق اڈیٹر عزیز برنی نے غلام سرور بننے کی کوشش ضرور کی لیکن انہیں سہارا گروپ نے باہر کا راستہ دکھا دیا۔غلام سرور نے مسلمانوں کے جذبات کی بھر پور ترجمانی،انکی تحریر میں اخلاص تھا جسے مسلمان پسند کرتے تھے اور ویسی صحافت وقت کا تقاضہ بھی تھا۔غلام سرور نے صحافت کا سیاسی استعمال ضرور کیا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ غلام سرور نے اردو اخبار کی اہمیت کو تسلیم کروایا اور انہوں نے ہندستان کی اردو صحافت کو زبان دی۔ چاپلوسی،خوشامداور مدح سرائی کے دور سے نکلکر،انگریزی اور ہندی  اخباروں کی برابری کرنے لگی۔غلام سرور کی صحافت نجبوریوں،تنگ دستیوں اور محرومیوں کے دور کی صحافت تھی۔سنگم آج بھی شائع ہو رہا ہے مگر بجھا بجھا سا ہے۔غلام سرور جیسے مزاج والے صحافی کا صحافت میں بنے رہنا اب ممکن نہیں ہے۔پھر بھی تمام دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے غلام سرور نے صحافت کی آبرو پر آنچ نہیں آنے دی۔

    1967میں  میںنے ہائر سکنڈری کااکزام  دے دیا تھا۔مولانا شاہد رام نگری  ’ساتھی‘ کے ایڈیٹر تھے اور اخبار کے مالک اور ایڈیٹر خالد رشید صبا نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ میئں ساتھی کے دفتر میں شام کا وقت دینے لگا اور پٹنہ سائنس کالج کے طالب علم کو  اردو صحافت کا چسکا لگ گیا۔میں  نے یونس مشہدی کے ساتھ ملکرہفتہ وار مسائل نکالنے کا ارادہ کیا۔غلام سرور کے پاس مشورہ کے لیے گیا انہوں نے  تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہویے ارادہ ترک کر دینے کا مشورہ دیا۔8نومبر 1068ہفتہ وار مسائل کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا جو  1974تک پابندی سے شایع ہوتا رہا۔میں نے اردو اخبار میں نوکری نہیں کی،مگر آخر کار ہندی انگریزی صحافت کو روزی کا وسیلہ بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔سیکولر ڈیمو کریسی(۴سال)،بلٹز(۴سال)،انڈین ایکسپریس(۴سال) کے بعد دینک جاگرن (۱۲سال) نوکری کرنے کے بعد 2007 میں سیکولر محاذ کی اشاعت شروع کی جویبینائی کی  کمزروری کی وجہہ سے8سال تک نکالنے کے بعد؛نفی لحال بند ہے۔

    غلام سرور کی صحافت اردو کی بے باک صحافت تھی،انہوں اردو صحافیوں سر اٹھاکر جینا سکھایا،اردو صحافت کو عزت کا مقام دلایا۔ اردو زبان کو اسکا حق دلانے کے لیے جس تحریک  کا آغاز غلام سرور نے کیا اسکی دھمک کے احساس نے ہی ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کو اردو کو بہار کی دوسری سرکاری زبان بنانے کے لیے مجبور کر دیا۔

    موجودہ اردو صحا فت کارپوریٹ دنیا کی وجہہ ہندی انگریزی کے متوازی بن چکی ہے۔قومی تنظیم،پندار،فاروقی تنظیم،تاثیر، امین کے علاوہ اردو صحافت کے معیار کوسہارا اور انقلاب نے چار چاند لگا دیا ہے۔ اد انقالب یا سہارا پڑھنے کے بعد انگریزی یا ہندی اخبار پڑھنے کی مجبوری نہیں رہی۔

    ۱۰ جنوری کو شیر بہار غلام سرور کی یوم پیدائش ہے۔ہم بنگلہ زبان کے شیدایؤں کی تقلید کرتے ہوئے اردو کا ایک روزنامی خرید کر پڑھنے کی عادت بنا لیں اردو کے روزنوں کی تعداد اشاعت لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔غلام سرور کو خراج عقیدت یہی ہے کہ ہم اردو کا ایک روزنامہ خرید کر پڑھنے کی عادت بنا لیں۔

(رابطہ9431421821)
    

**************************

 

 

 

 

 

 

 

 

 

     

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 865