donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Seraj Naqvi
Title :
   Meraj Faizabadi

 

 معراج فیض آبادی


سراج قوی


مشاعروںکے معیار اورادبی فضا کو معراج تک پہنچانے والے شاعر معراج فیض آبادی کی شکل میں اردو کا ایک اورچراغ گل ہوگیا۔ ایوان شاعری کی تاریکی میں مزیداضافہ 
ہوگیا۔ ہفتہ کی شام مشہور شاعرہ محترمہ نسیم نکہت نے جب مجھے فون پر معراج فیض آبادی کے انتقال کی خبردی تو یکبارگی میری آنکھوں کے سامنے وہ تمام مناظر آگئے کہ جن میں معراج فیض آبادی کو مشاعروں میں غزل سرادیکھا تھا۔


معراج فیض آبادی سے میری ملاقات نہیں تھی، لیکن انھیں کئی مشاعروں میں سننے کا موقع ملا اور ہر مشاعرے میں انھیں یکساں طورپرکامیاب پایا۔ معراج کو مشاعروں کی فضا پر چھاجانے کا ہنر آتاتھا، وہ اپنے سامعین کی نفسیات کوبخوبی سمجھتے تھے۔ اسی لیے خواص و عوام میں یکساں طور پر مقبول تھے۔ ٹھہرٹھہرکر اور مترنم آواز میں پڑھا گیا ان کا کلام سامعین کے دل میں اتر جاتاتھا اور اس کا خاص سبب یہ تھا کہ ان کی شاعری عوامی مسائل کی ترجمان ہوتی تھی۔ ہرچند کہ اس شاعری میں مسائل کے تعلق سے اشتراکی انتہاپسندی نہ تھی لیکن اپنی بات کوحوصلے اورسلیقے کے ساتھ کہنے میں معراج کو کمال حاصل تھا۔ مشاعروں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے معراج فیض آبادی نے کبھی بھی زبان اور معیار سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اودھ کی تہذیبی قدروں سے مرصع زبان کو مشاعروں میں قبولیت اور مقبولیت دلانا معراج فیض آبادی کا بڑا کارنامہ ہے۔ انفرادی الجھنوں سے اجتماعی مسائل تک کی تصویرکشی کرتی ہوئی ان کی شاعری بوجھل الفاظ سے پاک ہے۔ سادگی اور سلاست کے ساتھ اپنی بات کہنامعراج بخوبی جانتے تھے۔ آج کے عام انسان کو اپنی زندگی میں جن مراحل اور مسائل سے گزرنا پڑتا ہے اس کا تجربہ معراج فیض آبادی نے بھی کیاتھا اور اپنے ان تجربوں کو پوری شاعرانہ صداقت کے ساتھ اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے انھوں نے اپنی غزلوں میں پیش کردیاہے۔ عام فہم علامات، استعاروں اورتشبیہات کے استعمال نے ان کی شاعری میں حقیقت کا جورنگ بھرا ہے اس کی مثال ہم عصر اردوشعرا میں کم ہی نظر آتی ہے۔


معراج فیض آبادی ایک بیدار سماجی شعور کے مالک تھے۔ ملک وملت کا انتشار انھیں دکھ پہنچاتا تھا۔ہماری سیاسی قیادت آج جس طرح آپس میں دست وگریباں ہے اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہاہے۔ ایک جمہوری ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے معراج کو بھی یہ حالات پریشان کرتے تھے۔ لیکن مشاعرہ باز شاعروں کی عام روش سے ہٹ کر انھوں نے پوری شاعرانہ تہذیب کے ساتھ اس مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ:


کس کو یہ فکر ہے کہ قبیلے کا کیا ہوا
سب اس پر لڑ رہے ہیں کہ سردار کون ہے

ہماری قیادت کے رویے نے ملک کو جن سنگین مسائل سے دوچار کیا ہے ان میں فرقہ پرستی بھی ایک بڑامسئلہ ہے۔ ذات، برادری، مذہب و مسلک کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی سازشوں نے ملک کو جن حالات میں پہنچا دیا ہے اس کی عکاسی معراج فیض آبادی ان لفظوں میں کرتے ہیں:

مانگتے ہیں بھیک اب اپنے محلوں میں فقیر
بھوک بھی محتاط ہوجاتی ہے خطرہ دیکھ کر

معراج ملت کی زبوں حالی کے بھی نوحہ گر ہیں۔ایک ایسی ملت کہ جس نے وطن عزیز کی آزادی اور تعمیر و ترقی کے لیے بے شمار قربانیاں پیش کیں۔ آج اپنی سرزمین اوراپنے ہی ملک میں کچھ عاقبت نااندیش سیاست دانوںکی پالیسوں کے نتیجہ میں حاشیہ پرپہنچا دی گئی ہے۔ معراج اس صورت حال سے رنجیدہ بھی ہیں اور یہ حالات پیدا کرنے والوں سے شاکی بھی، لیکن ان کی تہذیب اور اخلاقی قدریں انھیں ان حالات پر جارحانہ وباغیانہ تیور اپنانے سے روکتی ہیں اور وہ غزل لہجہ میں ان حالات پر اس طرح تبصرہ کرتے ہیں:

ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
اوردنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم
کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی
ایک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم
کاہے کا ترک وطن کاہے کی ہجرت بابا
اسی دھرتی کی،اسی دیش کی اولاد ہیں ہم
ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم

معراج فیض آبادی کی شخصیت اودھ تہذیب کا جیتاجاگتا نمونہ تھی اور یہ تہذیب ان کے اشعار میں بھی نظر آتی ہے۔ شائستہ الفاظ میں اپنی بات کہنا اور اشاروں کنایوں میں معاملات دل بیان کردینا اردو غزل کے مزاج کی نمایاں خوبی ہے اور یہ خوبی معراج کے یہاں بھی نظر آتی ہے۔ وہ غزل میں بھی محبوب کا اس طرح چرچا کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ جس سے ان کی محبت یا محبوب کی یادیں رسواہوں،حالانکہ معراج کی غزلوں میں ایسے شعروں کی تعداد بہت کم ہے کہ جن میں غم جاناں کا ذکر ہو۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کی حساس طبیعت نے انھیں غم دوراں سے ہٹ کر کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہیں دی۔ اس غم دوراں میں سماج کی ناہمواریوں کا ذکرہے۔ اپنوں کے بیگانہ پن کے قصے ہیں، غیروں کی سازشوں پر تبصرہ ہے لیکن یہ سب کچھ اس طرح ہے کہ کسی بھی قاری یا سامع کے ذہنی استحصال کا پہلو اس میں نہیں ہے۔ ہمارے مشاعروں میں آج کئی بڑے شاعر سامعین کے اس ذہنی استحصال کے ذریعہ ہی تو اپنی روزی روٹی کمارہے ہیں لیکن معراج فیض آبادی نے یہ سب نہیں کیا۔ ان کی غزلوں میں انسانی دردمندی کا پہلو بہت نمایاں ہے لیکن انھوں نے اپنے درد کو مشاعروں کی دکان پر نہیں سجایا، کبھی غزل کے لہجہ اور وقار کو مجروح نہیں ہونے دیا، لیکن اس کے باوجود اگر ان کی شاعری نے سماج کے عام آدمی کومتاثر کیاتو اس کا بڑاسبب ان کے تجربوں کی صداقت اورجذبوں کی ایمانداری ہے۔ معراج نے اپنی شاعری کوبھلے ہی کسی مقصدیاکسی ازم کاپابندنہ بنایاہو لیکن اپنے اشعار سے انھوں نے عوام کے خوابیدہ ذہنوں کوبیدار کرنے کی مخلصانہ کوشش ضرور کی۔ اشتراکیوں کی طرح عوام کے ذہنوں کو جھنجھوڑنے کے بجائے انھوں نے اپنی شاعری سے تیرنیم کش کا کام لیا۔یہ اشعار دیکھیں:

*******************

Comments


Login

You are Visitor Number : 833