donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shafiq Murad
Title :
   Dard Aur Ummeed Ki Shayera.......Shaheen Rizvi

 

درد اور امید کی شاعرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہین رضوی
 
تحریر ۔شفیق مراد ۔ جرمنی
 
شاعر تو معاشرے کے دکھ درد کا آئینہ ہوتا ہے ۔ اور اگر شاعر کے اندر ہی درد کا سمندر موجزن ہو تو درد عکس در عکس کے مراحل سے گزرتا ہوا ظلمتوں کے پہاڑ سے تیشہء قلم بن کر ٹکراتا ہے ۔ تو وہ معاشرتی ناہمواریوں اور انفرادی مجبوریوں کو قلم کے تیشہ سے کبھی صفحہء قرطاس پر اور کبھی کینوس پر اتارتا ہے ۔ فن کار لفظوں سے منظر نگاری کرے یا رنگ و روغن سے کینوس پر، دیکھنے والی آنکھ دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔شاہین رضوی جب درد اور سسکیوں سے ڈوبی ہوئی تصویر بناتی ہیں تو اس میں روشنی کی ایک کرن ضرور موجود ہوتی ہے۔ ایک آس ایک امید ، جسے یاسیت میں ڈوبے ہوئے معاشرے کا ایک فرد، اس کی روشنی کو محسوس کر نے سے یا تو گریز کرتا ہے یا محسوس ہی نہیں کرتا ۔ یا پھر اندھیروں کا مسافر روشنی سے ڈرتا ہے ۔شاہین رضوی بہت ہی خوبصورت ، محسوس اور غیر محسوس انداز سے اندھیروں کے اس مسافر کو روشنی کی طرف لے جانے میں اور مسائل سے گھری ہوئی تصویر میں روشنی کی پھوٹتی ہوئی کرن دکھانے میں کامیابی سے ہم کنار ہو جاتی ہیں ۔ اس مقصد کے لیے ان کا رویہ انتہائی نرم و نازک اور حکیمانہ ہے اور پھر کبھی انتہائی محتاط جیسا کہ وہ کہتی ہیں 
 
خزاں کی کوکھ سے پھوٹی مسرتوں کی دکاں 
لگا گیا ہے کیا ری میں پھر گلاب کوئی 
اپنے کھنڈر بھی تو آباد شہر لگتا ہے 
کیسا ویرانہ ہے مجھ کو تو یہ گھر لگتا ہے 
 
کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کے تصورِ شاہیں کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہیں ۔ جو نہ صرف پیغام دیتی ہیں بلکہ عملی طور پر شاہین بننے کا درس دیتی ہیں ۔ حوصلہ کی بلندی اور طاقتِ پرواز پیدا کرنے کے لیے انسان کے اندر چھپے ہوئے طاقت ور انسان کو باہر لانے کے لیے کبھی وہ انسان کو احساسِ ذات اور کبھی ذات کے اندر پوشیدہ بے پناہ طاقت کی اطلاع دینے کے لیے شعور ذات کا درس دیتی ہیں ۔
 
نا امیدی کی فضا میں امید کا دیا جلاتی ہیں 
میں آئینے کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتی 
حصارِ ذات کی دیوار نے ہے سایہ کیا 
 
وہ مسائل کو مسائل کا حل اور راحتوں کے پیش خیمہ کے طور پر پیش کرتی ہیں ۔ غرضیکہ کشتی کو کسی نہ کسی طرح پار لگانے کا طریقہ بتلاتی ہیں ۔ 
 
ہماری آنکھوں میں تحریر ہے لہو سے یہی
الم نصیب رتوں نے مجھے سنوارا کیا 
 
شاہین رضوی یہ بھی بتلاتی ہیں کہ زندگی کی بے پناہ خوبصورتیوں کو حاصل کرنے کیلیے امید کا موہوم سایہ، تپتی دوپہر میں ہوا کا جھونکا اور اندھیری رات میں روشنی کی ایک کرن انسان کو درِ نایاب بنا سکتی ہے 
ہو گیا سایہ فگن دھوپ میں بادل کی طرح 
ایک امید کا سایہ تیری یادوں کا چراغ
شعورِ ذات ، شعورِ آگہی ، عزم صمیم اور بلندیء پرواز کے ساتھ ایک اور اہم چیز ہے جو سبب تخلیق کائنات ہے ۔ اور حاصل زندگی ہے اس کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں ، یعنی عشق جس کے دم سے کائنات معرضِ وجود میں آئی ۔ عشق انسان کو تنہا ئیوں میں علم و آگہی اور معرفت عطا کرتا ہے ۔ تو یہی عشق اسے دنیا کے ہجوم میں درخشندہ ستارہ بنا دیتاہے ۔ عشق ہی انسان کو معراج عطا کرتا ہے تو یہی عشق ایک لمحے میں علم کے کئی باب وا کر دیتا ہے ۔ کبھی آتشِ نمرود میں بے خطر کودتا ہے ، تو کبھی صحراؤں میں پیاس کی شدت کے باوجود باطل قوتوں سے ٹکرا جانے کی طاقت رکھتا ہے جس کی ابتداء تو ہے لیکن انتہا کسی کو معلوم نہیں ۔
 
شاہین رضوی عشق کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہوتے ہوئے جذبہء عشق سے مخمور ہیں تبھی تو عشق کی پہلی اڑان ہی انہیں قطب ستارہ کے ہم پلہ کر دیتی ہے ۔ یہ ان کے شوق کی ابتداء ہے وہ قاری کو ساتھ ساتھ لیکر چلتی ہیں ۔ اور اس پر کئی بابِ علم وا کرنے میں کوشاں ہیں ۔ 
 
اڑان بھرتے ہی شاہین کو ہوا محسوس 
وفور شوق نے اس کو قطب ستارہ کیا 
کہساروں کی ہیبت ہو یا صحراؤں کی وسعت
شاہین پہ ا للہ کی عنایات ہیں لوگو
 
ان کا عشق انہیں فلک چھو لینے ، خزاں رتوں میں گلاب اگانے کا حوصلہ دیتا ہے اور انہیں امر کر دیتا ہے ۔ وہ مصحفِ عشق پر نکھار پیدا کرنے کے لیے یقین محکم اور وفاداری پر یقین رکھتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں 
نکھر نکھر گیا شاہین آج مصحفِ عشق 
لگا یقین کا کاجل وفاؤں کا غازہ 
ان کا یہ شعر ایک طرف تو اقبال کا فلسفہ ء عشق اور حصول عشق کیلیے یقینِ محکم جیسا کہ علامہ اقبا ل نے فرمایا 
یقین محکم عمل پیہم ، محبت فاتحِ عالم 
اپنے اندر رکھتا ہے اور دوسری طرف جو غالب نے جو وفاداری بشرطِ استواری کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے اسے اصل ایماں قرار دیتے ہیں ۔ شاہین رضوی غالب اور اقبال کے اسی فلسفے کو آگے بڑھاتے ہوئے کس خوبصورتی سے مصحفِ عشق پر نکھار پیدا کرنے کیلیے یقین کا کاجل اور وفاؤں کا غازہ کے دل کش الفاظ انتہائی نرم مزاجی سے اپنے شعر میں استعمال کر کے یقین محکم اور وفاداری کا در س دیتی ہیں ۔ 
یہی وجہ ہے کہ ان کا عشق انہیں امر کر دیتا ہے اور وہ اس بات کا ادراک بھی رکھتی ہیں ۔ کہتی ہیں 
 
تحریر ہے افلاک کی دیوار پہ اب بھی 
ہم شہرِ محبت کے مضافات ہیں لوگو
 
ان کا شوق انہیں فلک چھو لینے ، خزاں رتوں میں گلاب اگانے کا حوصلہ دیتاہے ۔ان کے اندر ان کے نام کی طرح اقبال کا شاہین پر مارتا ہے ۔ جو کبھی چٹانوں پر بسیرا کرنے کا سبق دیتاہے ۔ وہ جھپٹنے پلٹنے کا گر جانتا ہے ۔ یہی عزم یہی پیغام زندگی کی علامت ہے ۔ کہساروں کی ہیبت ، الم نصیب رتوں ، خون سے رنگین درودیوار اور پر خار راہوں کو ہی اپنے عشق کے سفر میں کامیابی کا نہ صرف پیشِ خیمہ تصور کرتی ہیں ۔ بلکہ اپنے درِ نایاب ہونے اور ستاروں کا ہمرکاب ہونے کی دلیل پیش کرتی ہیں ۔ اور سب کو ساتھ لیکر چلتی ہیں 
سب ہیں اب اڑنے پہ مائل 
یہ شاہیں کا اثر لگتا ہے 
انہوں نے زندگی اپنے وطن سے دور گزاری ۔ یادوں کے حصارسے نہیں نکلیں اور نہ ہی وہ بے امید ہوئیں ۔ وہ وقت کے صحرا کی ریت چھاننے کی بجائے صحرا میں پھول اگانے اور پھول چننے کا نہ صرف عزم رکھتی ہیں ۔ بلکہ ان پھولوں سے زندگی کو خوشگوار اور بھر پور بسر کرنے کا درس بھی دیتی ہیں ۔ وہ تھکن میں بھی عزمِ سفر رکھتی ہیں ۔ سفر کی صعوبتوں اور مشکلات کا وہ ذکر تو کرتی ہیں ، لیکن راستے میں آنے والے ہر پتھر کو سنگ میل سمجھ کر فکری ترقی کی منازل تہہ کرتی چلی جاتی ہیں ۔اور پیش آنے والے مسائل کو مشعل راہ بنانے کا فن جانتی ہیں ۔ جنون کی منزلوں کو جنون کے ذریعے پتہ کرتی ہیں ۔ 
منزلوں کی خبر ہے نہ راستوں کی تھکن 
مسافرانِ جنوں کب قیام کرتے ہیں 
یہی نہیں بلکہ وہ ہجرتوں کے عذاب اور جدائی کے کرب بھی آئینہ فام کرنا جانتی ہیں 
تمہارے وصل کا سورج تو بجھ چکا کب کا 
تمہارے ہجر کوآئینہ فام کرتے ہیں 
اے مرے بے خبر ، خیال ترا
دامنِ شب میں ہے سحر کی طرح 
یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ وہ زندگی کی تلخیوں پر یقین رکھتے ہوئے انہی میں خوشی کا پہلو تلاش کرتی ہیں اور ہجر میں رہتے ہوئے وصل کے لمحوں کی خوشبو سے ماحول معطر رکھتی ہیں ۔ اور انتہائی سادگی سے اس امر کی تلقین کرتے ہوئے اسے نیک عمل قرار دیتی ہیں 
جو لوگ پہلوئے غم سے نکالتے ہیں خوشی 
قسم خداکی بہت نیک کام کرتے ہیں 
ان کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا تو محسوس ہوا کہ ان کے اندر کا انسان تنہا ہے اور ان کے رگ و ریشے میں تنہائی کا کرب ہے جو ان کے جسم اور روح کو نڈھا ل کر دیتاہے ۔ وہ تنہائی کے کرب کو محسوس کر تی ہیں اور تنہائی سے سمجھوتہ بھی ۔ یہی تنہائی ان کے فکر کو وسعت، مشاہدہ اور مطالعہ کو احساس کی خوشبو، خیال کی روشنی اور نئے راستوں کی بشارت دیتی ہے ۔ کیونکہ وہ تنہائی کے کرب کو تنہائی کی لذت میں تبدیل کر نا جانتی ہیں اور کہتی ہیں 
ایک تنہا اداس کمرے سے 
انسیت ہو گئی ہے گھر کی طرح 
یہ سمجھوتہ نہیں بلکہ غم کو خوشی اور تکلیف کو راحت میں تبدیل کر نے کا عمل ہے ۔ 
رگوں میں آگ لگانے چلی تھی تنہائی
خدا گواہ ہے اسی غم کو گوشوارہ کہا 
تنہائی سے انسیت انہیں مراقبہ اور وجدان کی کیفیت میں لے جاتی ہے ۔ وہ کسی الہامی اور وجدانی کیفیت سے گزرتی ہیں تو اشکوں کے سمندر میں خود ہی غوطہ زن ہو جاتی ہیں ۔ وہ اس میں ڈوبنے میں بھی لذت محسوس کرتی ہیں اور تیرنے میں بھی ۔ اور پھر اسی سمندر سے گوہر نایاب حاصل کرنے اور انہی گوہر نایاب کو کھونے میں بھی لذت محسوس کرتی ہیں ۔یہ عمل انہیں نکھارتا ہی نہیں بلکہ زندگی اور زندہ رہنے کی کئی راہیں کھول دیتا ہے ۔ وہ اشکوں کے بادلوں کو روکنے کی بجائے انہیں برسنے کو ترجیح دیتی ہیں ۔ کیونکہ جب بادل کھل کر برستا ہے تو ہی رنگ و نور کا منظر لیے قوس قزح نمودار ہوتی ہے ۔ انہی کاوشوں کا شعوری ادراک رکھتے ہوئے کہتی ہیں 
آسمانِ سخن پہ اے شاہیں 
میں ہوں اک حرفِ معتبر کی طرح 
وہ سنگلاخ زمین سے جوئے آب نکالنے کا فن جانتی ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ اس کے ارد گرد شہر تمنا آباد کر کے اس کی تزئین بھی کر تی ہیں ۔ 
 
جملہ اصناف فن و ادب میں شعری تخلیقات اپنے اندر سب سے زیادہ حساسیت رکھتی ہے ۔ یہی حسیاتی لطافت قاری کے دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہے ۔ شاہین رضوی کی شاعری میں فطرت کا حسن اور حسن کے پیچھے چھپے ہوئے کرب کی اطلاع ملتی ہے ۔ اسی کرب سے حسن اور خوبصورتی کا ملاپ رنگا رنگ پھولوں کو جنم دیتا ہے جن کی خوشبو سے فضا معطر رہتی ہے ۔ حسن کو تکمیل کے مراحل طے کرتے ہوئے کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے ، قطرہٗ آب کو موتی بننے کیلیے کن تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے اور سونے کو کسی مہ جبین کے گلے کی زینت بننے کے لیے اذیت کی کن بھٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے ، شاہیں رضوی ان خوبصورت تصویروں میں چھپے ہوئے کرب سے آگاہ بھی ہیں اور کرب کے نتیجے میں حاصل ہونے والے درِ نایاب سے بھی ۔ اور دونوں چیزوں کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے قاری کو زندگی کی کھلی کتاب دکھلاتی ہیں ۔ دکھ اور تکلیف کے راستوں پہ چلنے والی شاعرہ کسی منفی رویہ سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کرتی بلکہ کہتی ہے 
شاہین سے رکنے پہ تم اصرار نہ کرنا
شاہین رضوی کے کلام میں پختگی ، شستگی ، اور لطافت پائی جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حقیقت اور صداقت پر مبنی ہے ۔ 
لکھنؤ سے آباء و اجداد کا تعلق ہے ۔ ان کی زبان انتہائی صاف ہے ۔ ذخیرہ الفاظ کی فراوانی کے ساتھ خوبصورت لب و لہجہ کی مالک ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کویت کے علمی ادبی ماحول میں متعدد پروگراموں میں نظامت کے فرائض سر انجام دے چکی ہیں انکی اردو زبان سے بے پناہ محبت اور لگاؤ اگر صفحہء قرطاس پر رنگ و نور کی کہکشائیں بناتی ہے تو ادبی محفلوں میں ان کی آواز الفاظ کی صورت میں رنگ برنگے پیرہن میں ملبوس لفظوں کے ، پرندوں کی صورت مائل بہ پرواز نظرآتے ہیں ۔ ان کے اشعار کی طرح ان کی گفتگو میں بھی فکری تزئین و ترتیب پائی جاتی ہے ۔ شاہین رضوی اپنی شاعری میں خوبصورت الفاظ ، خوبصورت استعارات و تشبیہات کا استعمال کرنا خوب جانتی ہیں ۔ روایت سے جڑی ہوئی شاعری جب جدت کی حدوں کو چھوتی ہے تو نئی نئی تشبیہات اور لفظوں کا ملاپ سامنے آتا ہے 
حسنِ فطرت نے دہن چوم لیا تتلی کا وہ اپنی شاعری میں خوبصورت الفاظ مرصع کرتے ہوئے بھی اپنے اس لاشعوری مقصد سے نہیں ہٹتی یعنی بلندی حوصلہ ، امید صبح ، اور بلندی پرواز۔وہ اپنے وسیع تر ذخیرہ الفاظ سے لفظوں کا چناؤ نہیں کرتیں بلکہ لا شعوری طور پر لفظوں کے نگینے تحریر اور شاعری میں جڑتے چلے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ الفاظ انتہائی جاندار اور جاذبِ نظر لگتے ہیں ۔
 
سکھ میں ٹھہرنے کی خواہش، شہر آب کو خوابوں سے سجانا ، شاہین کے تعاقب میں فلک چھونا ، خوشبو سے شہرِ مراد کا مہک جانا، پتھر لہجہ، غلافِ چشم میں رکھا خواب، ہرے بھرے اشجار کا خزاں کا رزق بن جانا ، افسردہ پرندوں کا دل کی دیواروں پر سہمے رہنا، کسی کے پھول جیسے ہاتھوں سے لکھی ہوئی تحریر، خوشبو سے مہکتی ہوئی اجلی تحریر، کسی کی آواز کے ساتھ ہی روح کا رقص کرنا ، ماں کی پاکیزہ خوشبو کا احساس، اور خاک پا سے زخمِ دل کی مسیحائی کرنا جیسے اچھوتے خیالات اور اپنی شاعری میں ان کا استعمال شاہین رضوی کے فن کی ایک خاص علامت ہے ۔ ان کی شاعری حسن تخلیق کا ایسا عمل ہے جو تجربے کے صحرا اور مشاہدہ کے بحرِ بے کنا ر میں شعورِ آگہی کا درس دیتا ہے ۔ جو خوابوں کو حقیقت میں ڈھالتا ہے اور حقیقتوں کو فہم و ادراک عطا کرتاہے ۔ سماجی صداقتوں کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتا اور شاہراہِ زیست پر چلنے والے راہی کے چہرے پر خوشی اور اسے شادمانی کے پھول عطا کرتا ہے ۔ 
 
ان کی شاعری کا بغور مطالعہ کرنے سے ان کی ایک خوبی جس کا اجمالی ذکر میں نے اپنے مضمون میں کیا ہے وہ یہ کہ ان کے کئی اشعار ایسے ہیں جن کے پہلے مصرعے میں زندگی کے تلخ حقائق اور دوسرے مصرعے میں امید صبح ، روشنی کی کرن پائی جاتی ہے 
کیوں نظر آتی ہے چہرے پہ یہ صدیوں کی تھکن
دکھ بھری شام کے انداز میں ڈھلتے کیوں ہو 
اب بھی کھل جاتی ہے ہر شام قفس کی کھڑکی 
ساتھ شاہین کے پرواز سے ڈرتے کیوں ہو 
ہماری آنکھوں میں تحریر ہے لہو سے یہی
الم نصیب رتوں نے ہمیں سنوارا کیا 
درودیوار کو اب خون سے رنگتے کیوں ہو 
صبح امید کو ظلمت میں بدلتے کیوں ہو 
اپنی طویل نظم ’’آنکھیں‘‘ میں ان کی شاعری کے جوہر زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں ۔انہوں نے آنکھوں پر شاعری ہی نہیں کی بلکہ مصوری کی ہے۔اگرچہ آنکھوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے انکی اس کاوش میں انکے اندر کی تلاطم خیزیاں اور گہرائیاں کمالِ فن کے ساتھ نمایاں ہیں۔
 
 
شفیق مراد
Ph.Mobile.0049-177-50 60 855
Ph.Mobile.0049-151-41 41 52 68
Ph.Landline.0049-69-20 79 123 8
Viber.0049-157-391 76 922
Skype:shafiq17002
Postal Address.
Rohmer str.9
App.25
60486-Frankfurt am Main
Germany
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 946