donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shah Imran Hasan
Title :
   Maulana Syed Nezamuddin - Ikhlase Deeniya Ka Amli Namoona


مولاناسید نظام الدین-----اخلاصِ دینیہ کا عملی نمونہ


شاہ عمران حسن،نئی دہلی


Email:sihasan83@gmail.com,
Mob:09810862382


17اکتوبر2015ء کا دن میرے مصروف ترین دنوں میں سے ایک تھا،حتیٰ کہ مجھے اپنے موبائل کے میسجز(Messages) کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ملی ۔جب میں نے رات کے نوبجے اپنے موبائل کا واٹس اپ(WhatsApp) چیک کیاتو سب سے پہلے اپنے ساتھی برادرم مولانا محمد شارب ضیاء رحمانی کے میسج پر نگاہ پڑی جہاں یہ خبردرج تھی کہ امارت شرعیہ کے امیرشریعت مولاناسید نظام الدین کا انتقال بعد نماز مغرب ہوگیا ۔اناللہ وانا الیہ راجعون

اس خبر سے مجھے اچانک جھٹکالگا اور امیر شریعت مولانا سید نظام الدین کی زندگی کا منظرنامہ میری نظروں میں گھومنے لگاکہ ایک شخص نے کہاں سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور کہاں پہنچ کر وہ ایک عملی مثال دنیا کے سامنے چھوڑ کر رخصت ہوا بقول شاعر    ؎

 کیا لوگ تھے کہ رہ وفاسے گزر گئے         جی چاہتاہے نقشِ قدم چومتے چلیں

وہ دن میری یادوں میں ہمیشہ محفوظ رہے گا کیوں کہ اس دن ملت اسلامیہ ہندیہ نے اخلاصِ دینہ کے ایک عملی نمونہ کوکھویا تھا۔مولاناسید نظام الدین سے اگرچہ میری بہت گہری وابستگی نہ تھی تاہم میرے دل میں ان کے لیے بے پناہ قدر و منزلت ان کی سادگی اور دینی مزاج کی وجہ سے تھی ۔ایک بڑے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے انھوں نے بہت شرافت کے ساتھ سادگی سے بھری ہوئی زندگی گزاری ،ایک ایسی سادگی جو عام طورپر بڑے لوگوں میں دیکھنے کو بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ۔شاید اس سادگی کا ہی ثبوت ہے کہ جب میںنے مولانامنت اللہ رحمانی کی حیات وخدمات پر لکھی جانے والی اپنی کتاب ’’حیاتِ رحمانی‘‘کے اجراکے سلسلے میں 18نومبر2012ء کو انھیں فون کیاتو انھوںنے فوراً میرے فون کو رسیوکیا اور حددرجہ اخلاص و محبت اور اپنائیت کے ساتھ مجھ سے گفتگو کی ۔یہ کتاب خانقاہ رحمانی مونگیر میں فاتحہ خوانی(2012ئ) کے موقع پر مولانامحمدولی رحمانی کی جانب سے مولاناسیدنظام الدین کو ہدیتاً پیش کی گئی تھی۔کتاب دیکھ کر انھوںنے خوشی کااظہار کیا تھا:

کھلیں گے کل کبھی اس خاک پر مانا مگر اب تو    جو اس میں چھپ گیا ہے آنکھ اس گل کو ترستی ہے

مولاناسید نظام الدین ایک قدآور شخصیت تھے ان پر بہت کچھ لکھا اور بولاگیاہے اور جس کاسلسلہ تاہنوزجاری ہے۔ہر انسان اپنی فہم فراست کی روشنی میں کسی شخصیت کا جائزہ لے کر کچھ نئی باتیں قارئین کرام کے روبرو لانے کی سعی کرتاہے ۔اسی امید کے ساتھ میںبھی کچھ باتیں قارئین کرام سامنے  لانے کی کوشش کررہا ہوں ۔اگرمیں قارئین کرام کے سامنے ان کی زندگی کے کسی نئے پہلو کو اجاگر کرسکا تو اتنی سی ہی بات میری اس تحریر کی کامیابی کے لیے کافی ہوگی ۔  

10سال قبل جب میں اپنی کتاب حیاتِ رحمانی تحریر کررہا تھا ،اس وقت میں نے کئی ان شخصیات کی زندگی کا مطالعہ کیا تھا جو مولانامنت اللہ رحمانی کی زیرتربیت بن سنور کر اُبھرے تھے ۔ان شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت مولاناسید نظام الدین بھی ایک تھے ،جن پر تلاش وتحقیق کے بعد میں نے ایک مختصر سامضمون اپنی کتاب میں لکھا تھااس کا ایک حصہ یہاں نقل کیاجاتا ہے :’’مولانا سید نظام الدین (پیدائش:31مارچ1927ئ) ہزاری باغ (جھارکھنڈ)کے ایک دور افتادہ گاؤں’’گھوڑی گھاٹ‘‘ کے رہنے والے ہیں۔ان کے گاؤں کا کچھ حصہ صوبہ بہار میں ہے اور بڑا حصہ جھارکھنڈ میں۔ مولانااپنی تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ ’’ریاض العلوم‘‘،ساٹھی (مغربی چمپارن،بہار)‘ میں درس وتدریس کا کام کررہے تھے۔ 1958ء میں تربیت قضا کا اجلاس ’’خانقاہ رحمانی ،مونگیر‘‘ میں منعقد ہوا جس میں مولانا سید نظام الدین نے بھی شرکت کی اور قضاء کی تربیت حاصل کی۔ اسی موقع پر وہ مولانا منت اللہ رحمانی کی نظر میں آگئے، اور مولانامنت اللہ رحمانی نے محسوس کیا کہ مولانا سید نظام الدین میں انتظامی صلاحیت اچھی ہے، اس لیے اُنھیں امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر میں لے آئے، اورانھیںامارت شریعہ کا ناظم بنالیا۔

 امارت شرعیہ میں قدم رکھنے کی وجہ سے اچانک ایسا ہوا کہ مولاناسید نظام الدین کا رابطہ براہِ راست عوام سے ہوگیا۔ اور اُنھیں کا م کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ عوام کے اندر ان کی مقبولیت بھی بڑھنے لگی۔ اور وہ مولانا منت اللہ رحمانیؒ کی تربیت میں رہ کر اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے لگے۔ مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے انتقال کے بعد انھیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا جنرل سکریٹری بنایا گیا، اور یکم نومبر 1998ء سے آپ امارت شرعیہ کے سب سے بڑے عہدے ’’امیر شریعت‘‘ کے عہدے پر فائز ہیں۔ اور آپ عالمی سطح پر شہرت حاصل کرچکے ہیں، اور عوام ان سے مستفید ہورہی ہے۔ ایک دور افتادہ گاؤں کا انسان آج ایک عظیم منصب پر فائز ہوکر ملّت اسلامیہ کی خدمات انجام دے رہا ہے، یہ نتیجہ ہے مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے حسن انتخاب اور حسن تربیت کا ۔

(حیاتِ رحمانی ،صفحہ:165-164)

  مجھے مولاناسید نظام الدین کی زندگی اور ذات میں سب سے متاثر کن چیز جو لگی وہ ان کی سادگی ہے ۔انانیت اور اجنبیت کے اس دور میں ایسی سادگی کے ساتھ دنیا میں رہ کر کام کرنا ان کے اعلیٰ اخلاص اور پختہ ایمان کا بیّن ثبوت ہے ۔مولاناموصوف کی زندگی سے کسی بھی اعتبارسے تعلق رکھنے والا ہرشخص اس بات کا گواہی دے گاکہ جو میں لکھ رہا ہوں ،اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے ۔

امیر شریعت مولاناسید نظام الدین نے ہندوستانی مسلمانوں کے دو بڑے ہی مضبوط ملی اور دینی ادارے کی بہت کامیاب قیادت کی ۔ جہاں انھوںنے مسلسل 25سال آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے بینر تلے ملک کے ہر مکتبہ فکر کے مسلمانوں کو آپس میں جوڑکر متحدہ کام کیا،حتیٰ کہ ان کی دورِقیادت میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کبھی بھی داخلی انتشارکاشکار نہیں ہواتو وہیں انھوں نے مسلسل 50سالوں تک امارت شرعیہ کی قیادت اس انداز میں کی کہ اس کی گواہی امارت شرعیہ کی ایک ایک اینٹ دے رہی ہے ۔امارت شرعیہ کو منظم ،مستحکم اور قابلِ اعتماد ادارہ بنائے رکھنے کے لیے وہ تازندگی متحرک رہے۔جس کے نتائج کے طورپر ہم امارت شرعیہ کے مختلف شعبہ جات کی کامیاب کارکردگی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں ۔

انھوںنے ہر مسئلے کو بہت سادگی سے حل کیا ۔ جب تک امارت شرعیہ ان کی نگرانی میںرہا ،ا س کے ہر معاملات بڑی شائستگی سے حل ہوتے رہے ۔ مولاناسید محمدرابع حسنی ندوی ان کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ مولاناسید نظام الدین نے مولانامنت اللہ رحمانی کی نمائندگی بڑی حسن وخوبی کے ساتھ انجام دی اورامارت شرعیہ سارے شعبوں کے ساتھ بڑے سلیقے سے کام کرتا رہا ،اور ان کی سرپرستی سے کام میں بڑی خوبی پیداہوئی ۔‘‘

وہیں خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین اور موجودہ نائب امیرشریعت مولانامحمدولی رحمانی نے ان کے تعلق سے کہاکہ’’ مولاناسید نظام الدین کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا مزاج اور ان کا مزاجی استقلا ل ہے ۔یہ ان کی غیر معمولی چیز تھی ۔وہ امارت شرعیہ آئے اور امارت شرعیہ کے ہو رہے ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکا کام آپ نے سنبھالاتو پوری ذمہ داری کے ساتھ اس کام کو انجام دیا اور دیتے رہے ۔یقینا اس طرح یکسوئی کے ساتھ کام کرنا اور کام کرنے والوں کے لیے ایک بڑا سبق ہے ۔ جو لوگ ان کی یاد کو ایک رہنما کی حیثیت سے اپنے دل میں بسانا چاہتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مزاجی استقلال اور ایک کام کا ہوکرزندہ رہنا کی خصوصیت کو اپنائیں تو بہت بڑا کام ہوسکتا ہے ۔مولاناسید نظام الدین نہیں ہیں ،امارت شرعیہ آپ سب کی امانت ہے ،امارت شرعیہ پوری ملت کی امانت ہے ،وہ گزرگئے ،انھوںنے بہت بڑاورثہ ہم سبھوں کے لیے چھوڑا ہے ،خدمت کا ورثہ ،امانت کا ورثہ ،امت کے اتحاد کا ورثہ ۔’’امارت‘‘کی شکل میں ’’امارت‘‘نہیں چھوڑی ،امارت کی تاریخ چھوڑی ہے۔امارت کی روایتیں چھوڑی ہیں ۔امارت کا اندازِ عمل چھوڑا ہے ۔اس لیے ہم سبھوں کی ذمہ داری ہے کہ اس ورثے کو آگے بڑھائیںاور جس سے جو ،جہاں تک ہوسکتا ہے امارت شرعیہ کی ،ملت کی ،قوم کی خدمت انجام دیں۔‘‘

جہاں تک میں نے مولاناسید نظام الدین کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے ،میں یہی کہوں گاانھوں نے تعمیری کام کرنے کی وجہ سے خودکو ہمیشہ اختلافی معاملات اور لایعنی باتوں سے محفوظ رکھا ،کبھی ان مسئلوں اور ان معاملات میں وہ نہیں اُلجھے ،جس میں عموماًبڑی بڑی قیادتیں اُلجھ جایا کرتی ہیں۔ایسا نہیں تھا کہ وہ اپنی ذات کو بچاکر رکھنا چاہتے تھے بلکہ اصل بات یہ تھی تعمیری کام کرنے کی عادت ِ ثانیہ نے انھیں تخریبی کاموںسے دوررکھا۔انھوںنے اپنی ذات کونام نہاد علماء ہندکی روش اختیار کرکے ملت کی مزید انتشار کا باعث بننے نہ دیا:

جو بادہ خوار پرانے تھے اٹھتے جاتے ہیں     کہیں سے اب بقائے دوام لاساقی

انھوںنے ہمیشہ خود کو سطحی اور سستی شہرت سے دور رکھا ۔نام نمود کے پیچھے وہ کبھی نہیں پڑے ۔جہاں وہ شرافت کے پیکر تھے ،وہیں وہ وضع قطع میں بھی سادگی پسند تھے ،حتیٰ کہ وہ تصویروغیرہ بھی نہیں کچھواتے تھے ،میں نے ان کو دیکھا کہ جب کسی کانفرس میں ان کے سامنے کیمرے کا  فلش چمکتا تو وہ اپنے چہرے کے سامنے کوئی کاغذیا رومال وغیرہ لے آتے تھے کہ تاکہ ان کے چہرے کا عکس کوئی نہ لے سکے ۔

ان کی کام کرنے کی خصلت کو بیان کرتے ہوئے 20اکتوبر2015ء کوامارت شرعیہ کے ناظم مولاناانیس الرحمٰن قاسمی نے مولاناسید نظام الدین پر ہونے والے تعزیتی اجلاس کے دوران کہا کہ امیرشریعت مولاناسید نظام الدین کے اندر بہت اعتدال تھا،وہ بہت بڑے مدبر تھے ،تدبر و اعتدال میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ملی اور ملکی معاملات میں جب کوئی رائے قائم کرتے تو ان کی رائے ہمیشہ صحیح ہوتی تھی۔ وہ کوئی کام جلدی شروع نہیں کرتے تھے ،اور جب کام شروع کرتے تو اسے پورا کرکے ہی دم لیتے تھے ۔وہ اکثر کہا کرتے کہ ایسا کام شروع ہی کرو جو دیر پا نہ ہو اور جلد شروع ہو کر جلد ختم ہوجائے ۔

مولاناسیدنظام الدین اپنی سادگی پسند طبیعت کے باعث ملک کے مختلف طبقات میں ادب واحترام کی نظر سے دیکھے گئے ۔ہندوستان کے تقریباً تمام مکتب فکر نے ان کی وفات پر گہرے رنج و غم کااظہار کیا ۔یہی وجہ ہے کہ ممتاز سیاست داں سونیا گاندھی اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولاناسید نظام الدین کے انتقال سے بہارہی نہیں پورے ملک نے ایک عظیم شخصیت کو دیا ہے ۔انھوںنے نہ صرف بہارکے لوگوں کی خدمت کی بلکہ ان خدمت کا دائرہ ملک میں پھیلا ہوا ہے ۔وہ ملک کے مختلف طبقات کے درمیان اتحاد ویکجہتی اور امن و امان کے زبردست حامی تھے۔


انتقال کے دوسرے دن 18اکتوبر2015ء کو ظہر کی نماز کے بعد ہندوستان کے ممتاز عالم دین مولانامحمدولی رحمانی نے امارت شرعیہ کے وسیع احاطے میں ان کی نمازجنازہ پڑھائی ۔جنازہ کی نماز میں تقریباً25ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی ۔کسی شخصیت کے انتقال پر اتنا جم غفیر بہت کم دیکھا جاتا ہے ،مگر مولاناسید نظام الدین عوام وخواص کے درمیان یکساں شہرت وعزت رکھتے تھے ،جس کا نتیجہ تھا کہ ان کے انتقال پرانسانوں کا وسیع مجمع اکھٹا ہوگیا تھا۔انھیں پھلواری شریف(پٹنہ)کے قبرستان حاجی حرمین شریف میں سپرد خاک کیاگیا ۔90 سال کی ایک محترک زندگی دینی وملی ورفاہی و سماجی  خدمت کرنے کے بعد خاموش توضرورہوگئی ، مگراس عملی پیغام کے ساتھ کہ اپنی زندگی کو بے مقصدضائع نہ کرو:

آدمی نہیں سنتا آدمی کی باتوں کو        پیکر عمل بن کر غیب کی صدابن جا  

    ٭٭٭

نوٹ:مضمون نگار مولانامنت اللہ رحمانی کی سوانح حیات ’’حیاتِ رحمانی‘‘ اور مولانامحمدولی رحمانی کی سوانح حیات ’’حیاتِ ولی ‘‘ کے مصنف ہیں۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 556