donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Uzair Israeel
Title :
   Khushwant Singh

 

خشونت سنگھ

 

’یوم آزادی ۲۰۱۲ کو میں ۹۸ سال کا ہوگیا۔ مجھے اپنی صحت کا بخوبی علم ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میں اس کے بعد کوئی دوسری کتاب نہیں لکھ سکوں گا۔۔۔۔ سچ یہ ہے کہ اب میں مرنا چاہتا ہوں۔ میں بہت لمبی عمر گزار چکا ہوں ‘ مذکورہ الفاظ مشہور قلم کار خشونت سنگھ کے ہیں جو انہوں  نے اپنی  کتاب ’خشونت نامہ ۔ دی لیسن آف مائی لائف ‘میں لکھا ہے۔ یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جس نے زندگی کو اپنے ڈھنگ سے جیا۔ خود بھی قہقہہ لگایا دوسروں کو بھی قہقہہ لگانے پر مجبور کیا۔ ایک ایسا انسان جو خود پر ہنسنے کا حوصلہ اور ہنر رکھتا تھا۔


۲۰ مارچ کو ایک لمبی عمر پاکر ۹۹ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔  ’اے ٹرین ٹو پاکستان‘ ان  کی سب سے پہلی مشہور کتاب ہے جس نے انہیں شہرت کے بام عروج تک پہنچایا ۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے  مڑکر نہیں دیکھا۔   انہوں نے مختلف اوقات میں  یوجنا، نیشنل ہیرالڈ، ہندوستان ٹائمز،دی الیسٹرڈ ویکلی آف انڈیا کی ادارت کی۔ زندگی کے آخری پڑاؤ تک قلم سے جڑے رہے۔ انہوں نے جو بھی لکھا کھل کرلکھا۔  حالات حاضرہ پر ان کی تحریریں ایک سنجیدہ شعور کا پتہ دیتی تھیں۔ وہ اگرچہ انگلش میں لکھا کرتے تھے  لیکن اردو دنیا ان کی تحریروں سے واقف تھی اردو اخبارات میں بھی ان کے کالم شائع ہوا کرتے تھے۔


خشونت سنگھ ۲ فروری  ۱۹۱۵ میں ہڈالی میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان کے  پنجاب میں آتا ہے۔  انہوں نے گریجویشن گورنمنٹ  کالج لاہور اور قانون کی تعلیم کنگس کالج ، لندن سے حاصل کی۔ خشونت سنگھ اردو شاعری کے بہت بڑے مداح تھے۔  وہ اپنی تحریروں میں اردو شاعری خصوصا غالب اور اقبال کو کوٹ کیا کرتے تھے۔  اقبال کے کلام کا ایک بڑا حصہ انہیں یاد تھا۔  ایک کتاب کے مقدمہ میں انہوں نے اقبال کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال کے سیاسی خیالات کیا تھے وہ پاکستان کے بانی تھے یا نہیں اس سے قطع نظر ہم اقبال کا مطالعہ اس لحاظ سے کرتے ہیں کہ وہ ایک  عظیم شاعر تھے۔


خشونت سنگھ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے۔  وہ ایک پکے سیکولر تھے۔  ’اے ٹرین ٹو پاکستان‘ آزادی کے موقع پر ہندومسلم خون خرابہ پر ایک سچے ہندوستانی کا تجزیہ ہے۔  سکھ  تاریخ کے وہ ماہر تھے ۔ ان کی کتاب ’ہسٹری آف سکھ‘ سکھ تایخ پر مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس موضوع پر انہیں ملک و بیرون ملک کئی یونی ورسٹیوں میں لکچر دینے کے لئے بلایا گیا۔
انہوں نے اپنی حال میں شائع ہونے والی کتاب ’خشونت نامہ‘ میں اپنے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔  بہت ساری ایسی باتیں جو وہ کرنا چاہتے تھے۔   انہوں نے اپنے بارے میں لکھا ہے:


’’میں چاہتا ہوں کہ  میں ایک ایسے آدمی کی حیثیت سے جانا جاؤں جس نے لوگوں کے چہروں پر مسکان بکھیری ہے۔ کچھ سالوں پہلے میں نے خود اپنی قبر کا کتبہ لکھا:اس جگہ ایک ایسا شخص سکونت پذیر ہے جس نے نہ انسان کو بخشا اور نہ  خدا کو بخشا۔ اس پر اپنے قیمتی آنسو بہا کر ضائع نہ کریں۔ ہنسانے کے لئے وہ بے ہودہ چیزیں لکھتا رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ مرگیا۔‘‘


اپنے بارے میں اس طرح کی باتیں لکھنے کے لئے حوصلہ چاہئے جو خشونت سنگھ کے اندر تھا۔
وہ ۱۹۸۰ سے ۱۹۸۶ تک راجیہ سبھا کے ممبر رہے۔ حکومت ہند نے  ۱۹۷۴ میں پدم بھوشن  اور ۲۰۰۷ میں پدم وبھوشن کے اعزاز سے نوازا۔   راجیہ سبھا کی ممبری کے وقت کے واقعات وہ بہت مزے سے بیان کرتے تھے۔ وہ ایک حسن پرست انسان تھے حسن جہاں بھی ہو جس شکل میں وہ اس کے قدرداں تھے۔ انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ انہوں نے عورتوں کو ہمیشہ ہوس کی نظر سے دیکھا ۔ انہیں ماں بہن  کی شکل میں نہیں دیکھا۔ اپنے مضامین میں انہوں نے زندگی کے ابتدائی ایام سے لے کراب تک کے واقعات کو بے جھجھک بیان کردیا ہے۔  خشونت سنگھ ایک فطری قلم کار تھے۔ یہی وجہ سے کہ انہیں سکون قلم کی چھاؤں میں ملتا تھا۔


خشونت سنگھ کی موت سے ہم نے ایک اہم ناول نگار، عظیم صحافی ہی نہیں بلکہ  سیکولر روایات کے ایک علم بردار کو بھی کھودیا ہے۔


 Uzair Israeel
Editor:
 سہ ماہی اردو ریسرچ جرنل
"Urdu Research Journal"
URL: http://www.urdulinks.com/urj


******************

Comments


Login

You are Visitor Number : 566