donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zaheeruddin Siddiqui
Title :
   Shakhsiat Thi Ke Phool Ki Khushbu

شخصیت تھی کہ پھول کی خوشبو


ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد 

 9890000552

 

    زندگی سے بھر پور، ہنستا، مسکراتا روشن چہرہ، چمکدار آنکھیں، سیاہ بال، وجاہت و بردباری کا نمونہ، عجز و انکساری کا پیکر، مجسم شرافت، یاروں کا یار، ہمدرد و غمگسار، علم دوست، ادب نواز، شعر و شاعری کا شوقین،  وقار مجلس، بیباک مقرر، بے نیاز افسر، غریبوں کا ملجا،نفاست پسند، وضعدار، فطرت کا شیدائی، قدرتی مناظر کا دلدادہ، ایسی بے شمار خوبیوں کے مالک سید ناصر الدین قادری عرف عارف بھائی آج ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی یادوں کو تا حیات فراموش کرنا شائد ممکن نہ ہو، ان کے وجود کو اپنے آس پاس ہمیشہ محسوس کیا جاتا رہے گا۔ راقم الحروف کوزمانہ طالب علمی سے ایک مشفق و مربی کی حیثیت سے عارف بھائی کی رہنمائی حاصل رہی۔ جب بھی ملاقات ہوتی بڑی شفقت سے حال چال دریافت کرتے، مسائل پر گفتگو کرتے اور حسب ضرورت اپنی آرا سے نوازتے رہے۔ والدین اور دیگر رشتہ داروں کی خیریت دریافت کرنا ان کی عادت تھی نام بنام ہر ایک کی کیفیت سے با خبر رہنا ان کی فطرت میں شامل تھا۔ اعلی ظرفی اور حسن اخلاق کا یہ عالم تھا کہ احقر کو بھی ہمیشہ ظہیر بھائی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے حالانکہ عمر میں وہ مجھ سے کافی بڑے تھے۔ ایم پی ایس سی کا مثابقتی امتحان پاس کرنے پر جب میں نے انہیں مبارکبادپیش کی تو کہا تھا کہــ’’ اس شعبہ میں ہماری نمائندگی بہت ضروری ہے‘‘، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملی مسائل کے تئیں ان کی سوچ شروع سے ہی مثبت تھی۔ دوران ملازمت کبھی ان کے کسی مستقر پر حاضر ہونے کا شرف مجھے حاصل نہیں ہوا لیکن جب بھی اورنگ آباد آتے کسی ادبی محفل ، کسی شعری نشست ،یا کسی سماجی مجلس میں ملاقات ضرور ہوتی اوردلچسپ گفتگو کا ایک طویل سلسلہ ہوتاجس میں وقت کے گزرنے کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا۔معیشت، معاشرت، سیاست، شریعت، سماجیات سے لیکرعمرانیات تک ہر موضوع پر بے تکان ، مدلل، اور حوالوں کے ساتھ اُن کی گفتگو سن کر طبیعت سیر ہوجاتی لیکن ان سے جدا ہونے پر یہ احساس باقی رہتا تھا کہ ابھی کچھ دیر اور ان سے گفتگو ہوتی تو شائد علم میں کچھ اور اضافہ ہوجاتا۔ان کے وظیفہ حسن خدمات پر سبکدوش ہونے کے بعد تو یہ معمول بن گیا تھا کہ اکثر راتوں کو ان کے دیوان خانہ میں محفل سجتی، خان شمیم، عمر خان، حنیف بھائی، عبد اللہ مارکونی، سلیم صدیقی ، نواب بھائی، اسلم، بابو، اور کبھی کبھی مجتبیٰ فاروق صاحب بھی اس نشست میں شامل ہو جایا کرتے تھے۔ گلی سے لیکر دلّی تک اور ہندوستان سے لیکر بین الاقوامی موضوعات پر گھنٹوں تبادلہ خیال ہوتا، کوئی ایسا موضوع نہیں تھا جس پر عارف بھائی کے فہم و ادراک سے اصحاب محفل مستفید نہیں ہوتے۔

    عارف بھائی بذات خودشاعر نہیں تھے لیکن شعر و شاعری کی محفل میں ان کی موجودگی کسی بھی نامور شاعر سے کم اہمیت کی حامل نہیں ہوا کرتی تھی۔ شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے سینکڑوں مشاعروں کی صدارت کا فریضہ بحسن خوبی انجام دیا۔ انہیں ہزاروں شعر ازبر تھے، موقع محل کی نزاکت سے ان کے برجستہ استعمال کے فن سے وہ بخوبی واقف تھے۔ ان کے نزدیک شعر یاد رکھنے کا معیار شاعر کی عظمت اور ناموری نہیں بلکہ شعر کی معنویت اور گہرائی ہوتا تھا۔وہ اگر علم و ادب کو اپنا میدان کار بناتے تو آزاد ہندوستان کے عظیم شاعر و ادیب کہلاتے شائد یہی وجہہ ہے کہ ان کے حلقہ احباب میں کئی معروف و مشہور شعراء و ادیب شامل ہیں۔ ناسک میں مجروح سلطان پوری اکثر ان کے مہمان رہے، منور رانا کو ان سے کافی لگائو تھا۔ ندا فاضلی، بشیر بدر، جوہر کانپوری، راحت اندوری، مہتاب عالم جیسے چوٹی کے شعراء عارف بھائی کی ادب نوازی کے قائل تھے۔

    عارف بھائی کوئی سیاسی رہنما نہیں تھے، لیکن سیاست پر ان کی گہری نظر تھی۔ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے ۶۵ سالہ سیاسی استحصال پر وہ اپنی ناراضگی کا اظہار اکثر کیا کرتے تھے، کانگریس اور اس کے حاشیہ بردار مسلمانوں کو ملّت کی زبوں حالی کا ذمہ دار مانتے تھے۔ انہوں نے اپنی کئی تقریروں میں اس کا کھُل کر اظہارکیا۔سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے کانگریسی پالیسیوں پر تنقید کرنے میں کبھی کوئی مصلحت ان کی زبان کو روک نہیں سکی۔ایک سچے ہمدرد قوم کے ناطے حق گوئی اور بیباکی ان کا خاصہ تھا۔

     وہ کوئی مستند عالم دین نہیں تھے اور نہ کٹّر مولویوں کی طرح شعائر اسلام کا دکھاوا کرتے  تھے لیکن اپنی گفتگو کے دوران اوراپنی تقاریر میں قرآ ن اور صحیح احادیث کے حوالوں کا اس قدر اہتمام کرتے کہ تعجب ہوتا تھا کہ بظاہر ایک دنیا دار شخص دین سے اس قدر شغف رکھتا ہے ، قرآن پر اتنا عبور حاصل ہے کہ ہر مسئلہ پر قرآنی آیات کے حوالے سے بات کرتا ہے اور اس پر حتی المقدور عمل پیرا بھی ہے۔گویا وہ ایک با عمل مسلمان تھے جو دین کے محدود تصور کی نفی کرکے اس کی وسعتوں پر یقین رکھتے تھے۔

    عارف بھائی نہ صرف یہ کہ خوش خوراک اور خوش ذائقہ کھانوں کے شوقین تھے بلکہ کھانا کھلانے کے بارے میں بھی کافی فیاض تھے۔ دوست احباب کی دعوتیں کرکے انہیں بڑی خوشی ملتی تھی، کبھی کسی ہوٹل میں تو کبھی کسی دھابے پر تو کبھی اپنے فارم ہائوس پر احباب کو اصرار کے ساتھ شکم سیر کرنے میں انہیں بڑا لطف آتا ۔غرض یہ کہ ملّت ایک ایسے شخص سے محروم ہو گئی جن کی جتنی خوبیاں بیان کی جائے کم ہیں۔

    احقر کا کوئی مضمون ایسا نہیں ہے جو کسی اخبار میں شائع ہوا ہو اور عارف بھائی نے فون کر کے ہمت افزائی نہ کی ہو۔ لیکن آج کے اس زیر نظر مضمون پر عارف بھائی کے تبصرہ کی اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔

    اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملے     
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملے


**********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 525