donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Alimullah Hali
Title :
   Aslam Badar Ki Masnawi Kun Fayakoon

اسلم بدر کی مثنوی ’کن فیکون‘
 
 علیم اللہ حالی
 
(تبصرہ ’انتخاب۔۵، ۲۰۰۴ئ)
 
ممکن ہے تا حال اسلم بدر اردو کے بسیط و عریض منظر نامے پر بہت نمایاں اوراثر انگیز نقوش قائم نہ کر سکے ہوں، اس لئے کہ ۱۹۸۸ء میں جب ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’سفر اور سائے‘‘ شائع ہوا تو اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کے با وجود یہ مجموعہ ارباب نقد و بصر کو اپنی گرفت میں نہیں لے پایا۔حالانکہ اسلم بدر کا یہ مجموعہ نہ صرف یہ کہ اس وقت بھی چونکا دینے والا تخلیقی کارنامہ تھا  بلکہ آج بھی کم و بیش پندرہ برسوں کے بعد اس کی جدت اور توانائی اظہار اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ اسلم بدر کو Retrospective effectسے اردو کے تخلیقی منظر نامے میں محترم مقام عطا کیا جائے۔ میرے پاس فی الفور یہ مجموعہ ٔکلام تو موجود نہین ہے ورنہ میں ان کے بہترین اشعار کے حوالے دے کر اپنی بات کی توثیق کرتا۔تاہم یہ چند اشعار جو میرے نوٹ بک میں درج ہیں ، اسلم بدر کی اس تخلیقیت کی گواہی دیتے ہیں جن کی بنیاد پر جن کی بنیاد پر اس فنکار کی شناخت قائم ہو سکتی تھی۔ میرے ذہن و دل پر اسلم بدر کی شاعری کے وہ تاثرات ہنوز موجود ہیں جو بہت پہلے قائم ہوئے تھے :
کوئی، پتھر ہی سہی، پھینکنے والا بھی تو ہو
ہم کسی شاخ تمنا پہ پھلیں کس کے لئے
دلوں سے پیار کے رشتے ہوا ہوئے کب کے
وہ سادہ لوگ ستم آشنا ہوئے کب کے
ابھی نہ مال غنیمت سمیٹئے کہ سوار
ہماری پُشت کی ٹیلوں میں چھپ کے بیٹھے ہیں
ہم کوہکن ہی رہ گئے شیریں اسے ملی
تدبیر ہم نے کی تھی، مقدر اسی کا تھا
ندی سے پیاس ملی ہے اسی گھرانے کو
کہ جس کے واسطے پانی چٹان سے نکلا
یہ عجیب بات ہے کہ غیر معمولی تخلیقی صلاحیت اور بے پناہ حسین جدید اشعار کے ساتھ ساتھ مشاعرے میں نہایت کامیاب انداز پیش کش کے با وجود اسلم بدر کو وہ مقام آج تک نہیں ملا جس کے وہ مستحق ہیں۔ عام طور پر ہمارے یہاں دو طرح کے شعراء ہیں، ایک تو وہ جو اپنی تخلیقی کم مائیگی کے با وجود ، مشاعروں میں کامیاب انداز پیش کش کی بنیاد پر شہرتو مقبولیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ شعراء جو عام مشاعروں میں تو کامیاب نہین ہو پاتے لیکن ان کی منفرد تخلیقی شناخت ادب میں ان کا مقام متعین کر دیتی ہے۔اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پائیدار اور تا دیر اثر ڈالنے والی شاعری، خوش گلوئی یا مشاعروں میں کامیابی کی محتاج نہیں ہوتی۔ اسلم بدر کے ساتھ تو معاملہ ہی دوسرا ہے، وہ ترنم کے بغیر بھی مشاعروں میں اپنے خاص لب و لہجے سے داد و تحسین بھی حاصل کر لیتے ہیں اور اپنے کلام کی انفرادیت سے عوام و خواص دونوں سے اپنا لوہا بھی منوا لیتے ہیں۔مگر اس کے با وجود بھی وسیع تر حلقے میں بہت زیادہ آشنا نہیں ہیں۔  میں جب اس وقوعے پر غور کرتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ اسلم بدر نے اپنے پورے تخلیقی کیر ئر میں اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی ایک ایسی روش اپنائی ہے جہاں فنکار اپنے ارتکاز و انہماک میں الجھا رہتا ہے ، اتنا الجھا رہتا ہے کہ وہ قاری و سامع سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے۔وہ اوسط درجے کے فنکاروں کی طرح اپنے ارد گرد  داد گروں اور مداحوں کو تلاش بھی نہیں کرتا، وہ عوام و خواص کی تحسین کا بھی انتظار نہیں کرتا ، وہ ایک ایسے تخلیقی سفر میں منہمک رہتا ہے جہاں ہم عصر میلان و میعار کی بھی اسے فکر نہیں ہوتی۔ ظاہر اس صورت میں فنکار کو بہت کچھ تیاگ دینا پڑتا ہے۔اسلم بدر نے بھی اپنے طویل تخلیقی مرحلے میں اس مسرت اور خوشی کو تیاگ دیا جو فنکار کو تعریف و توصیف سے حاصل ہو تی ہے۔
 
۱۹۸۸ء کے بعد اب ۲۰۰۴ء میں اسلم بدر کا ایسا شعری کارنامہ سامنے آیا ہے جس کے ذریعہ ان کی تخلیقی شخصیت ایک بار پھر طاقت و توانائی کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ یہ بات با لکل ظاہر ہے کہ عہد حاضر کے تخلیق کاروں نے بالعموم ان شعری اصناف سے اجتناب کی روش اپنائی ہے جن سے ہماری مضبوط شعری روایات قائم ہوئی ہے۔ مثنوی، مرثیہ، قصیدہ یا طویل تر منظومات کو چھوڑ کر ہمارے بیشتر تخلیق کار غزل میں ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ نئی صنفوں میں ایسی شعری ہیئتیں رائج کرنے کی کوششکی جا رہی ہیں جو ہمارے مزاج کا حصہ نہیں بن سکتیں۔ اسی طرح بعض ایسی اصناف جن پر ہمارے پرانے شاعروں نے طبع آزمائی کی وہ کبھی ہماری مضبوط اور مانوس روایت کا حصہ نہیں بن پائی۔ عہد حاضر میں ان کے احیاء کے لئے کچھ کو ششیں ہو رہی ہیں۔ بلا شبہ گیت اور دوہا کا تعلق ہماری قدیم ترین اصناف شاعری سے ہے۔ ہمارے متعدد شعراء نے کئی نسلوں تک ان اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی ہمارے شعری مزاج کا حصہ نہیں بن پائیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ دوہا اور گیت تشکیلی اور ابتدائی دور کی شعری فضا میں محدود ہو کر رہ گئے۔ آج ان اصناف پر دوبارہ مشقیں ہو رہی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ پہلے ہی ہمارے ذوق میلان کا نا گزیر حصہ نہیں بن پائی تو آج ان کے احیاء کی کوشش آزمائے ہوئے کو آزمانے کے مصداق ہے۔ ان کے علاوہ آج کچھ شعراء  دوسری غیر ملکی زبانوں سے مستعار لے کر جن رجیب و غریب اصناف میں مشق سخن کر رہے ہیں ، ان کا مقدر بھی معلوم ہے۔ اس دوڑ دھوپ اور جدت کے طمطراق میں اور تجربوں کی بھیڑ بھاڑ کے ماحول میں ہم نے اپنی ان شعری اصناف سے بھی عام طور پر بے نیازی برتی ہے جن کے زریعہ ہم اپنے شعری احساس اور تجربے کو زیادہ بہتر اور موثر طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔ 
 
اسلم بدر نے اپنے تخلیقی اظہار کے لئے مثنوی کے صنف کا انتخاب کر کے پہلی ہی منزل میں ایک ایسے کارنامے کی تخلیق کی ذمہ داری قبول کی جو ہماری سابقہ شعری اقدار سے تعلق رکھتی ہے ۔ انہوں نے اپنی پیش نظر مثنوی ’کن فیکون‘ کے پیش گفتار میں با لکل صحیح لکھا ہے کہ:
 
’’۔۔۔۔۔۔قصیدے اور مرثیے کی موضوعاتی ہم آہنگیوں پر غور کیا تو مایوسی ہوئی ، لیکن مثنوی کے امکانات میں حیات و کائنات کے تخلیقی طربیے کو قلم بند کا مکمل خاکہ خود بخود تیار ہو نے لگا۔۔۔۔‘‘
یہ بات با لکل صحیح ہے کہ ہمارے یہاں مثنوی ہی وہ واحد صنف سخن ہے جس میں تمام تر تجربات  و محسوسات اور واقعات و واردات کو پیش کرنے کی گنجائش ہے۔یہی ایک صنف ہے جس کے ذریعہ ہم طویل تر اور عظیم شعری کارنامہ پیش کر سکتے ہیں۔ اور مجھے کہنے دیجئے کہ مثنوی ’کن فیکون‘ پیش کر کے اسلم بدر نے اس کے امکانات کی طرف ہماری رہنمائی کر دی ہے۔
 
’کن فیکون‘ کی ہئیت قدیم مثنویوں جیسی ضرور ہے لیکن موضوعات کے اعتبار سے یہ ہماری سابقہ مثنویوں سے یکسر مختلف ہے۔ قدیم مثنویاں لا یعنی قصوں یا سلاطین و فرماں روا کی تفریح ، سیر و سیاحت یا عشقیہ واقعات سے مملو ہیں لیکن کن فیکون ایک فطری، فلسفیانہ اور اہم علمی کارنامہ ہے ۔ یوں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمیل مظہری نے مثنوی ’آب و سراب‘ اور ’جہنم سے‘ نیز عبد المجید شمس نے مثنوی ’حیات و کائنات‘ کے ذریعہ اس صنف کے امکانات کی طرف کچھ پہلے نشاندہی کر دی تھی اور شاید لا شعوری طور پر اسلم بدر نے متذکرہ بالا مثنویوں کے تخلیقی امکانات کا اندازہ کر کے اسی نقش قدم پر ، لیکن اس سے بہت آگے چل کر ایک عظیم الشان فنی و شعری کارنامہ پیش کیا ہے۔ جس میں تخلیق کائنات کے مختلف تصورات پیش کر دئے گئے ہیں۔مثنوی میں مادیت اور روحانیت ، قدیم ترین ادیان، حیات بعد ممات، قدیم ہندو مت، یونانی فلسفے، یہودیت و عیسائیت، سائنس اور ما بعد الطبیعات غرض ہر فکر و نظر کے بہت سے موضوعات و تصورات کو اسیر کر لیا گیا ہے۔ لیکن جو چیز ہمیں بطور خاص متاثر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلم بدر نے علم و دانش اور مطالعہ و معلومات کی بھول بھلیوں قاری کو گم کر دینے کے بجائے پوری مثنوی میں ایک ایسی حسین فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے جس سے قاری شعری حسن سے بجا طور پر مسرور و مطمئن بھی ہو سکتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں فکر و دانش اور فلسفہ ، شاعری پر حاوی نہیں ہو جاتا ۔ شاعر اسلم بدر اس طرح اپنے تخلیقی فریضے سے کامرانی کے ساتھ عہدہ برا ہو جاتا ہے۔
 
اس مثنوی کی تعمیرو تکمیل میں اسلم بدر نے مختلف معتقدات، ادیان و فلسفہ کی کتابوں کی ورق گردانی کی ہو گی ۔ علم کے ہمہ جہت وسیلوں کو کھنگالنے کے با وجود ہر صورت میں ایمان و اسلام کی روش پر قائم رہے ہیں۔ پوری مثنوی پر اسلامی ایمان و اعتقاد کی استواری اردو کے بیشتر قارئین کے لئے اطمینان و مسرت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ دنیا بھر کے فلسفوں ، حوالوں کے درمیان اسلم بدر کا چراغ ایمان و ایقان اپنی جگہ روشن ہے۔ عالمی فلسفوں کے درمیان اپنے عقائد کی توانائی اور استحکام پع یہ اصرار اور اپنے مذہب و عقیدے پر ثابت قدم رہنے کی یہ ادا  Paradise Lost اور Paradise Regain جیسے عظیم تر کارناموں کی یاد دلاتی ہے۔ اپنے مرکز و محور سے یہ وابستگی اسلم بدر کے لئے امتیاز و اختصاص کا سبب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اہم شعری و تخلیقی کارنامہ اسلم بدر کی تخلیقی شخصیت کے لئے تلافیٔ مکافات کا کام بھی کرے گی۔
 
******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 694