donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ash Ar Najmi
Title :
   Sher Nau Ki Tafheem

 

شعر نو کی تفہیم
 
اشعر نجمی
 
شمس الرحمن فاروقی نے کبھی ظفر اقبال کے حوالے سے جو ایک بات کہی تھی، اس میں معمولی سی تحریف اور تصریف کے بعد میں انھی کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کرنا چاہتا ہوں کہ فاروقی کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ انھوں نے پوری نسل کو گمراہ کیا۔ اگر یہ صحیح ہے تو یہ بہت بڑا اعزاز ہے، کیوں کہ ایک پوری ادبی نسل کو گمراہ کرنے کا مطلب ہے ادب کا پورا رخ بدل دینا۔ آپ کسی جگہ کھڑے ہوں اور اچانک اندھیرا کرکے آپ کو دو چار چکر دیے جائیں اور پھر اسی مقام پر لا کر آپ کو دوسرا رخ کرکے کھڑا کردیا جائے تو اغلب ہے کہ آپ کو یہ معلوم ہی نہ ہوگا کہ آپ کا رخ بدل دیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر تمام ادب گمراہ ہوگیا تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ اب وہی گمرہی اس کی راہ ٹھہری، گویا نئی راہ مل گئی۔ لہٰذا یہاں عسکری کی اس بات کی تائید ہوجاتی ہے جس کے تحت انھوں نے حالی کے بعد فاروقی کو اردو کا سب سے اہم نقاد کہا تھا۔ یہاں غور طلب ایک بات یہ بھی ہے کہ حالی اور فاروقی کے درمیان کئی دوسرے بڑے نقاد موجود ہیں جن میں خود عسکری بھی شامل ہیں لیکن صرف فاروقی کا نام حالی کے بعد اس لیے لیا جاتا ہے، کیوں کہ وہ صرف نرے نقاد نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ایسے صف شکن کی حیثیت رکھتے ہیں جنھوں نے ادب کی مثبت اور آفاقی قدروں کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کا نقشہ ہی بدل ڈالا اور پورا منظر نامہ از سر نو جگمگا اٹھا۔زیر نظر مجموعے کے مرتب ارشاد حیدر کی یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے کہ "حالی نے تنقیدکو تذکروں سے نکال کر ایک نیا موڑ دیا لیکن پھر ہماری تنقید ان کے دور سے لے کر شمس الرحمن فاروقی تک کم وبیش انھیں اصولوں کے گرد گھومتی رہی جو حالی نے بنائے تھے یا جن کی طرف حالی نے اشارے کیے تھے۔ آہستہ آہستہ مشرقی شعریات پر مغربی شعریات حاوی ہوتی چلی گئی۔ رہی سہی کسر مارکس کے نظریات کے غلغلے نے پوری کردی اور 1936 کے بعد کوئی پچیس سال تک ہمارے ادب میں مارکسی فکر اور تنقید کا دور دورہ ہے۔ " چنانچہ اس اکتاہٹ اور بیزاری کے ماحول میں جب فاروقی نے لکھنا شروع کیا تو لوگ چونک پڑے۔ ایک بار پھر شعر و ادب کی ساکت لہروں میں تھرتھراہٹ پیدا ہوئی اور دیکھتے دیکھتے یہ خس و خاشاک اپنے ساتھ بہا لے گئیں اور ان کی جگہ نئے سبزے لہلہانے لگے۔تاریخ میں حالی کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا جس نے فکری سطح پر اردو ادب میں اتنا بڑا انقلاب پیدا کیا۔ پھر ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ روز روز نہ تو ادب میں ایسے انقلابی تغیرات رونما ہوتے ہیں اور نہ ہی ہر سال دو سال کے بعد حالی اور فاروقی پیدا ہوتے ہیں۔ شاید اسی لیے شمیم حنفی نے یہ بات کہی تھی کہ "ہم فاروقی کے عہد میں جی رہے ہیں"۔
 
"معرفت شعر نو" دراصل فاروقی کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو گذشتہ 40 برسوں کے درمیان ہمارے مطالعے میں رہے ہیں بلکہ ان میں کچھ ایسے مضامین بھی شامل ہیں جن پر ماضی میں کافی بحث بھی ہو چکی ہے۔ لہٰذا، کہا جاسکتا ہے کہ زیر نظر مجموعے میں شامل کئی ایسے مضامین ہیں جویا تو اب تک ہمارے اذہان میں محفوظ ہیں یا پھر ہمارے بک شیلف کی زینت۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران میرا ذاتی تجربہ یہ رہا کہ:
 
اروقی نے کبھی کوئی رسمی تحریر قلم بند نہیں کی۔
انھوں نے اپنے پیشروؤں کے لیے، معاصرین کے لیے اور نئی نسل کے لیے الگ الگ پیمانے مقرر نہیں کیے۔
 
انھوں نے تقابلی طر یقۂ کار کو ہمیشہ ترجیح دی۔
اور اس طر یقۂ کار میں زیادہ تر میر کو ہی مقدم رکھا۔
 
 انھوں نے مغربی شعریات پر مشرقی شعریات کو ترجیح دی لیکن جہاں ضروری سمجھا ، مغربی شعریات سے بھی استفادہ کیا۔
 
مغربی شعریات سے بھی استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ ہر قول، قول فیصل نہیں ہوتا۔ لہٰذا جہاں مناسب سمجھا، اس کی تردید بھی کی۔
 
ان کی تحریروں میں فن کار کی شخصیت کا رعب اثر انداز ہوتانظر نہیں آتا، البتہ فن کے رعب حسن کے آگے وہ ضرور سر نگوں ہوجاتے ہیں۔
 
موماًوہ مفروضے،ادعائیت،مبالغہ آمیزی،انتہاپسندی،نمائشی باتوںکے بجائے منطقی استدلال سے کام لیتے ہیں۔
شعر کے دیگر محرکات کو وہ ثانوی درجہ دیتے ہیں۔ سب سے پہلے انھیں اس بات کی تلاش رہتی ہے کہ شعر قائم بھی ہوا یا نہیں؟
 
اس مجموعے سے اس الزام کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ فاروقی نے نئی نسل پر نہیں لکھا ہے۔ جمیل الرحمن، شارق کیفی، خواجہ جاوید اختر، انعام ندیم وغیرہ جیسے نئی نسل کے نمائندہ شاعروں پر نہ صرف لکھا بلکہ یہ بھی اعتراف کیا کہ یہ نسل اپنی پیشرو نسل کی تقلید کے باوجود کئی اعتبار سے منفرد بھی ہے۔
اس فہرست میں اور بھی اضافہ ممکن ہے لیکن درج بالا نکات کو آپ فاروقی کی تنقید کی اساس قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن ان تمام نکات کے علاوہ ایک خاص نکتہ جو مجھے اس مجموعے میں نظر آیا، اس پر خصوصی توجہ کا طالب ہوں اور جو اس مجموعے کے مطالعے کا جواز بھی ہے۔
 
اس مجموعے میں شامل ہر مضمون کا ایک علیحدہ ارتکازی پہلو ہے۔ فراق گورکھپوری سے لے کر خواجہ جاوید اختر تک جتنے بھی مضامین ہیں، ایک دوسرے کی کاربن کاپی نہیں محسوس ہوتے۔ اکثر نقادوں کے یہاں ہم کچھ ایسے عمومی بیانات دیکھتے ہیں جو وہ بڑی چالاکی سے (اور کبھی کبھی پھوہڑ پن سے بھی) ہر دوسرے شاعر پر چسپاں کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس فاروقی جس شاعر پر قلم اٹھاتے ہیں، اس کے شعری مزاج کا وہ ارتکازی پہلو ان کے سامنے ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ اس کے مکمل فن کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ زیر نظر مجموعے میں بھی شامل ان کے تمام مضامین کو پڑھیں تو آپ کو ان مضامین میں یہ نمایاں خصو صیت نظر آجائے گی، جو فاروقی کی تخصیص ہے، مثلاً:
 
٭خلیل الرحمن اعظمی کی غزل کی بنیادی صفت ایک آہستہ رو خود کلامی ہے۔
٭قاضی سلیم مجھے ان تمام معنوں میں درد سخنوری کے حامل نظر آتے ہیں۔
 
٭ جدید شاعری کی نمائندگی کے لیے جب ناموں کا خیال آتا ہے تو تقریباً سب سے پہلے محمد علوی اسی لیے ذہن میں آتے ہیں کہ ہماری زندگی کا ان سے زیادہ مکمل اور متنوع اظہار کسی سے نہ ہوسکا ہے۔
٭ان کی (سید امین اشرف) چند غزلیں پڑھنے کے بعد ان کا قاری خود کو امین اشرف کا قائم مقام نہیں بلکہ امین اشرف کا ہم زاد سمجھنے لگتا ہے۔
 
٭اوم پربھاکر کی خوبی یہ ہے کہ وہ غزل میں نئی بات کہتے ہیں۔۔۔وہ غزل کے لہجے میں شعر کہتے ہیں لیکن مضمون وہ لاتے ہیں جو عام طور پر غزل میں نہیں برتا جاتا۔
 
٭ ایسے پیکروں کے وہ (شکیب جلالی) بادشاہ ہیں جو آنکھ اور سامعہ کو متاثر کریں۔
 
٭مضطرمجاز بہرحال نہ صرف یہ کہ اچھے شاعر ہیں، بلکہ ہمارے زمانے میں جو چند اچھی طویل نظمیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے ایک یعنی "شہر بقا" کے مصنف بھی ہیں۔۔۔اس نظم کی قریب ترین اصل اقبال کی طویل نظم "جاوید نامہ" قرار دی جائے تو غلط نہ ہوگا۔
 
٭حسیاتی اور جذباتی سطح پر ردعمل کی جتنی فراوانی اور جتنا تنوع شہر یار کے یہاں ملتا ہے، وہ کسی بھی معاصر شاعر کے حصے میں نہیں آیا۔
 
طوالت کے خوف سے انھیں چند حوالوں پر اکتفا کرتا ہوں لیکن ان کے تقریباً تمام مضامین میں یہ وصف نمایاں ہے کہ وہ منتشر الخیالی کے کبھی شکار نہیں ہوتے ۔ فاروقی نے اسی کتاب میں ایک جگہ ایپالیت تین (Hippolyte Taine, 1828-1893) کے حوالے سے لکھا ہے کہ "کسی شاعر کی ادبی شخصیت یا اس کے کلام کی روح ایک دو فقروں میں بیان ہوسکتی ہے، بس ضرورت ہے کہ ہم کسی طرح اس کلید کو حاصل کر لیں جس سے اس شاعر کے تخلیقی نہاں خانوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔" اگرچہ فاروقی ایپالیت تین کے اس فارمولے کو مہمل بتاتے ہیں لیکن زیر نظر مجموعے میں انھوں نے یہی طریق اپنایا ہے۔ مثلاً اگر وہ شکیب جلالی کو پیکروں کا بادشاہ کہتے ہیں تو پھر ان کا مکمل مضمون شاعر کی پیکر پر مبنی شاعری کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے۔ وہ نہ صرف اس کی ندرت اور اس کی کثیر المعنویت پر اظہار رائے کرتے ہیں بلکہ میر، فیض، ناصر کاظمی، جارج مور ، ٹی۔ایس ۔الیٹ کے اشعار سے اس کاموازنہ کرتے ہوئے اس کے مقام کا تعین بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے جس پر بھی لکھا، یہی طریقۂ کار اپنایا۔ اسی مقام پر میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ فاروقی تنقید اپنے قارئین کے لیے لکھتے ہیں، نہ کہ شاعر کے لیے یا خود اپنے لیے۔ ایسے گنجلک اور فلسفیانہ بیانات ان کے تجزیوں میں کہیں نظر نہیں آتے جو قارئین کی توجہ شاعر کے کلام سے ہٹا کر نقاد کی علمیت پر مرکوز کردیں۔ وہ اپنی تنقید میں ہمیشہ "سوتردھار" (Outsider)بنے رہتے ہیں ۔ ان کی کوشش صرف اتنی ہوتی ہے کہ متذکرہ شاعر کے کلام کی معنویت ، اس کا مجموعی مزاج، اس کے کلام کی روح اوراس کی نمایاں انفرادیت ہی نہیں بلکہ اس کے کلام کی کمیاں بھی قارئین تک پہنچا دیں۔
 
یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ فاروقی جس شاعر کے کلام کا تجزیہ کرتے ہیں، وہ اس کی بنیادی صفت کے ساتھ ساتھ اس کی کمیوں کی جانب بھی اشارہ کرتے چلے جاتے ہیں جس سے ان کی غیر جانب داری اور ان کا معروضی نقطۂ نظر ان کی تحریروں کو اعتبار بخشتے ہیں۔ مثلاً انھوں نے مصور سبزواری کے متعلق جہاں یہ لکھا ہے کہ "ان کی غزل عصر حاضر کی شاعری میں توجہ انگیز مقام رکھتی ہے"، وہیں انھوں نے اس بات کا بھی برملا اعتراف کیا ہے کہ " غیر ضروری الفاظ سے گریز کرنا ابھی انھوں نے پوری طرح نہیں سیکھا ہے۔ وزن پورا کرنے کی خاطر مانوس اور خلاف محاورہ استعمالات کو بھی وہ انگیز کرلیتے ہیں۔ بعض بعض غزلوں میں روانی کی کمی نظر آتی ہے۔ بعض اشعار میں ربط بین المصرعتین پوری طرح قائم نہیں ہوا۔ یقین ہے کہ مصور سبزواری ان کوتاہیوں کو جلد از جلد دور کرلیں گے۔۔۔۔"
 
اس مجموعے میں شامل فاروقی کے وہ تین متنازعہ مضامین بھی شامل ہیں بلکہ سر فہرست ہیں جو انھوں فراق گورکھپوری کے تعلق سے قلم بند کیے تھے اور جن کی گونج اب بھی فضائے شعر و ادب میں باقی ہے۔ "اردو غزل کی روایت اور فراق" (1982)، "اردو غزل کی روایت اور فراق: پس نوشت" (1985) اور "غزل کی شعریات: فراق اور احمد مشتاق کا محاکمہ" (1986) ، یہ تینوں مضامین فاروقی کے غیر معمولی علمی اکتساب، بے نظیر جرأت اور ان کی بے مثال قوت مدرکہ کے ثبوت ہیں۔ اس بات پر تو بڑی لے دے ہوئی کہ صاحب، فاروقی نے فراق کا موازنہ ناصر کاظمی اور احمد مشتاق سے کرڈالا لیکن آج تک اس کی ردّ میں کوئی ایسی تحریر سامنے نہ آسکی جو فاروقی کے معروضات کو دلائل اور حوالوں سے مسترد کرسکے۔ مجھے بھی فاروقی سے زیادہ فراق عزیز ہیں لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ تنقید میں رشتہ داریاں نہیں نبھائی جاتیں بلکہ علمی اور منطقی دلائل سے خوب و زشت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔فاروقی نے فراق صاحب کی روایت سے بے خبری کے باعث ان کے کے کلام کے جن عیوب و اسقام کو نشان زد کیا تھا، ان پر اب تک سوائے جذباتی اور تاثراتی بیانات کے کچھ بھی ایسا نظر نہیں آیا جو فاروقی کے دعوے کا ابطال کر تا ہو۔
 
لیکن ظاہر ہے فاروقی اپنی تمام صفات کے باوجود انسان ہی ہیں اور ان کی یہ کتاب بہرحال "کلام انسانی" ہی ہے ، لہٰذا دوران مطالعہ کچھ مقام ایسے بھی آئے، جہاں ذہن میں (مبتدیانہ ہی سہی) کچھ سوالات نے سر اٹھانا شروع کیا جس کا میںیہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔
 
جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ فاروقی منطقی طرز استدلال سے کام لیتے ہیں جو ان کی تنقید کو وقار اور اعتبار بخشتا ہے لیکن کبھی کبھی یہی ان کی کمزوری بھی بن کر سامنے آتا ہے۔ کیوں کہ منطقی طرز استدلال کی سب سے بڑی کمزوری تو یہی ہے کہ وہ کلی طور پر مفروضوں سے اپنا دامن نہیں بچا سکتا بلکہ اصولی طور پر اس کی بنیاد مفروضے ہی ہوتے ہیں۔چنانچہ اس طرز استدلال میں جو سب سے بڑی کمی ہوتی ہے، وہ یہ کہ طے شدہ نتائج تک پہنچنے کے لیے کچھ ایسے مفروضے قائم کر لیے جاتے ہیں جو منزل تک اس کی رہنمائی کر سکیں، یعنی یہاں معاملہ "دریافت" کا نہیں بلکہ اپنے دعوے کے "اثبات" کا رہ جاتا ہے۔ مثلاً فاروقی ، فراق صاحب کی سب سے بڑی خامی یہ بتاتے ہیں کہ وہ اردو شاعری کی روایت سے بے خبر ہیں اور یہ کہ وہ الفاظ کے مرتبے سے واقف نہیں ہیں لیکن ظفر اقبال کے دفاع میں وہ اقبال کو سپر بنا لیتے ہیں، " بیسویں صدی کے آغاز تک نوبت بہ ایں جا رسید کہ جدید عہد کے سب سے بڑے شاعر اقبال کی زبان پر اعتراضات ہونے لگے۔ فلاں ترکیب غلط ہے، فلاں استعمال خلاف محاورہ ہے، فلاں فقرہ غیر فصیح ہے، وغیرہ۔" مجھ جیسے فاروقی کے مداحوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ جس معاملے میں انھوں نے فراق کی گرفت کی ، اسی معاملے میں ظفر اقبال کو رعایت کیوں دے دی؟ ایک دوسری مثال بھی دیکھیے، "فیض اور کلاسیکی غزل" میں فاروقی لکھتے ہیں کہ "ظاہر ہے کہ شعر کے وہ معنی جو شاعر کے عقائد کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر بر آمد ہی نہ ہوسکیں، بالآخر باطل ہی ٹھہریں گے۔ کیوں کہ اول تو تمام شاعروں کے سیاسی عقائد کے بارے میں معلومات نہیں، بلکہ بعض اوقات تو شاعر کا نام بھی معلوم نہیں۔"لیکن فاروقی کو زیب غوری کا نام بھی معلوم تھا اور یہ بھی علم تھا کہ اس شاعر کو مصوری سے غیر معمولی شغف ہے، لہٰذا انھوں نے اس کی غزل کا تجزیہ کرتے ہوئے مصوری اور پکاسو کا ذکر خاص طور پر کیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ پھر فیض کی نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے سیاسی عقائد کو ذہن میں کیوں نہ رکھا جائے؟ میرے خیال میں ایسا تنقیدی رویہ افہام و تفہیم کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے اور کبھی کبھی یہ ادعائیت کی صورت بھی اختیار کرلیتا ہے ، مثلاً ظفر اقبال کے پہلے شعری مجموعہ کے تعلق سے فاروقی کا یہ قول کہ " دیوان غالب کی اول اشاعت (1841) کے بعد اردو غزل کی تاریخ میں دوسرا انقلابی قدم 'گلافتاب' کی اشاعت (1966 )تھی، بیچ میں کچھ نہ تھا" عبدالرحمن بجنوری کی یاد دلادیتا ہے جب انھوں نے یہ کہا تھا کہ ہندوستان کی دو ہی الہامی کتابیں ہیں، پہلا وید اور دوسرا دیوان غالب۔ اس طرح کے حکم ناطق تنقیدی اصولوں کو نہ صرف ضرب پہنچاتے ہیں بلکہ خود نقاد کی غیر جانب داری مشکوک ہوجاتی ہے۔
 
جیسا کہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ فاروقی میر کو اردو شاعری کا سب سے معتبر شاعر تسلیم کرتے ہیں، لہٰذا وہ زیر نظر مجموعے میں شامل اکثر شاعروں کا موازنہ میر سے کرتے نظر آتے ہیں۔ میر سے ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ کبھی کبھی وہ شاعر مذکور کو چھوڑ کر میر کی طرف یوں نکل جاتے ہیں کہ انھیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ بے چارہ شاعر کافی پیچھے چھوٹ چکا ہے اور اس بات کا منتظر ہے کہ کب وہ U-Turn لیتے ہیں۔ اگرچہ وہ ناسخ، مصحفی، غالب، ذوق، سودا، بودلیئر وغیرہ سے بھی کام لیتے ہیں لیکن بہرحال میر ان کے محبوب شاعر ہیں جس کا اظہارشعوری یاغیر شعوری طورپرہوتا رہتا ہے۔ یہ کوئی بری بات نہیں ہے لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا مختلف المزاج شاعروں کو ایک ہی فریم ورک میں پرکھنا درست ہے؟
 
فاروقی اور ان کے معاصر نقادوں پر یہ الزام ہے کہ وہ نئی نسل کو قابل اعتنا نہیں گردانتے۔ جہاں تک فاروقی کی بات ہے تو ان زیر نظر تنقیدی مجموعے میں نئی نسل کے کئی شاعروں پر مضامین شامل ہیں۔ حالاں کہ ان مضامین کے علاوہ بھی فاروقی نے کئی اور نئے شاعروں اور افسانہ نگاروں پر مضامین لکھے ہیں جو اس مجموعے میں جگہ نہیں پاسکے ہیں۔ نئی نسل کے تعلق سے ایک جگہ انھوں نے اپنا موقف پوری طرح واضح کردیا ہے کہ
 
"نئے ناموں میں میرے لیے ہمیشہ ایک دلکشی رہی ہے، لیکن میں ان کے ساتھ وہ مربیانہ رویہ نہیں اختیار کرتا جو ابوالکلام آزاد نے اصغر گونڈوی کی کتاب 'نشاط روح' کا دیباچہ لکھتے وقت اختیار کیا تھا۔ میں اچھا لکھنے والے نئے ادیبوں کو محسن اور خود کو احسان مند گردانتا ہوں ، کیوں کہ اگر ایسے ادیب نہ ہوں تو نہ صرف یہ کہ ادب کی ترقی اور چہل پہل رک جائے گی بلکہ یہ بھی ہوگا کہ نئے ادیبوں کے حوالے سے پرانے ادیبوں کی دریافت نو کا کام بھی رک جائے گا"۔
 
اتنے حوصلہ افزا کلمات کے بعد بھی اگر کسی کو فاروقی سے گلہ باقی ہے تو اسے ذاتی نوعیت کا ہی سمجھاجانا چاہیے کیوں کہ ہمارے یہاں ایسے اشخاص کی کمی نہیں ہے جو خود کو خلاصۂ کائنات سمجھتے ہیں ۔
"معرفت شعر نو" فاروقی کے ایسے مضامین کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے جس میں ایک طرف تو بہت سے ایسے پرانے مباحث جمع کیے گئے ہیں جو ازسر نو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں تو دوسری طرف ایسے مضامین بھی شامل ہیں جو شعر کی افہام و تفہیم میں قدر اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس مجموعے کی ترتیب کے لیے ہمیں ارشاد حیدر کا شکرگذار ہونا چاہیے جنھوں نے صرف ان مضامین کو یکجا ہی نہیں کیا بلکہ انھیں ترتیب دیتے ہوئے کئی باتوں کا خیال رکھا ہے۔ مثلاً مضامین کی ترتیب شعرا کے سنہ ولادت کے اعتبار سے رکھی گئی ہے، مضامین کی تاریخ تحریریا تاریخ طباعت بھی درج کی گئی ہے اور کئی مضامین کے آخر میں ضروری معلوماتی نوٹ بھی فاضل مرتب (کہیں کہیں فاروقی نے) لگادیے ہیں ۔ یہ تمام چیزیں دراصل گذشتہ 40 برسوں سے زائد عرصے پر محیط فاروقی کے تنقیدی افکار کا ارتقا اور ان میں ہم آہنگی اور ہمواری کا اشاریہ بھی ہیں۔
--
(معرفت شعر نو(تنقیدی مضامین
شمس الرحمٰن فاروقی مرتب: ارشاد حیدر
ناشر : الانصار پبلی کیشنز، حیدرآباد
سن اشاعت : 2010 صفحات 360 قیمت: 400روپے
مبصرـ : اشعر نجمی
+++++++++++++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 794