donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Afsar Kazmi
Title :
   Rafeeq Anjum Ki Shayari

 

رفیـق انجـم کی شاعـری

 


(ڈاکٹر افسر کاظمی (جمشید پور

(Mob: 9431522233)


    غزل فارسی کی طرح اردو شاعری کی محبوب ترین صنف ہے اور یہ صنف قصیدے کی تشبیب کو الگ کرے حسن وعشق کے واردات وتجربات کی آئینہ داری کے لئے مختص کی گئی ہے۔ لیکن دلچسپ پہلو یہ ہے کہ فارسی اور اردو شاعری کی روایات وجمالیات کی تعمیر میں غزل نے مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ اس اعتبار سے شاعری کی تمام اصناف پر غزل کو فوقیت حاصل ہے۔


    اردو غزل نے عہد بہ عہد کے تہذیبی ارتقا اور ثقافتی نشو ونما کی آئینہ داری خلوص اور صداقت کے ساتھ کی۔ اس لئے مشترکہ ہندوستانی جمالیات کی سب سے بہترین عکاسی اور آئینہ داری دوسری اصناف شعری کے مقابلے میں غزل نے زیادہ معروضیت کے ساتھ کی ہے۔


    اگر تخلیق اور تنقید کی بات کریں تو اس میں نہ کسی شخص اور نہ کسی مطالعہ کی گنجائش ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ تنقید کا کام تخلیق کو پرکھنا ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب تخلیق وجود میں آچکی ہو ۔ غزل کے معاملے میں یہ راستہ اور آسان ہو جاتا ہے ہو جاتا ہے۔ الطاف حسین حالی نے اپنی کلیات کے پیش لفظ کے طورپر یا تدلیل وتوضیح کے طورپر شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ انہو ںنے کہیں کہیں انگریزی نقادوں سے فائدہ اٹھایا ہے ۔ مثلاً اچھے شعر کی تین خصوصیات سادگی ، احساسات اور حقائق کو ضروری عناصر قرار دیا ۔ اس کے بعد تنقید کا جو نظریہ سامنے آیا اس نے شاعری کی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کردیا اور عام طور پر لوگوں کو احساس ہونے لگا کہ شاعری کو سمجھنے کے لئے جس کا اصل ذخیرہ غزل تھا اس طرح کی تنقیدی بحث ضروری ہے ۔ کلیم الدین احمد کی ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ میں تو انہوں نے غزل کو ایک ’’نیم وحشی صنفِ سخن‘‘ تک کہہ دیا جسے ہم سنجیدہ کم، جوشیلا اور نجی زیادہ کہہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ایک ترچھی نظر ہو کر رہ گئی ۔ کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ’’ اردو غزل کے شیش محل میں ایک پاگل ہاتھی گھس آیا ہے‘‘۔


    جہاں تک رفیق انجم کی شاعری کا سوال ہے تو میں اس بات کا قائل ہوں کہ شاعری میں خاص طورسے غزل میں جو بھی اشعار در آتے ہیں وہ صحیح معنوں میں شاعر کے اندر کا وہ احساس ہوتا ہے جو وہ اپنے سماج، اپنے معاشرے اور اپنے آس پاس کے ماحول میں دیکھتا ہے یا جھیلتا ہے۔ رفیق انجم کا شعری مجموعہ ’’ساحل بولتا ہے ‘‘ کے مطالعے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نے زمانے کے حوادث کو خوب جھیلا ہے ۔ مجھے ان کی شاعری میں جو چیز نمایاں طورپر نظر آتی ہے وہ غم انگیز جذبات کا آئینہ ہے اور کہیں کہیں تو طنز کا تیر اتنا تیز ہے کہ اس تیر سے سیدھا گہرا زخم لگتا ہے:


بازارِ سفاکی رکھو چاہے  جتنا  گرم مگر
اگلوں کی مانند تمہارا خونی پنجہ ٹوٹے گا
ہم ایک ہی جلتا ہوا گھر دیکھ کے روئے
کچھ  لوگ  ہیں  مسرور کئی شہر جلا کر
چپ رہو آگ اسے لگانے دو
عہدِ نو  کا  ہے  رہنما  وہ بھی 
فن قصیدہ گوئی کا اعجاز دیکھئے
جگنو کو آفتاب کا رتبہ  عطا ہوا
فروعی مسئلوں کی آگ سے گھر پھونکتے ہم کیوں؟
یہ کارِ خیر مذہب کے علم بردار کرتے ہیں


    ایسا لگتا ہے کہ رفیق انجم نے اپنی زندگی رنج وغم کے درمیان گزاری ہے لیکن غالبؔ کی طرح انہوں نے ان مشکلوں کو اپنے لئے آسان بنا لیا ہے ۔ غالبؔ کہتا ہے:


ان آبلوں سے پائوں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر

اور یہ کہ:

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی  پڑیں  مجھ پر کہ آساں ہوگئیں

 اور رفیق انجم کہتے ہیں ـ:

فائدہ بھی ہے اس سے کیا انجم
میرے زخموں کو مت  شمار کرو
رہتے سلگتی دھوپ میں لمحوں کی ایک دن 
جو ہنس رہے ہیں مجھ پہ مرے یار ٹوٹتے
احسان مجھ پہ ہو نہ کسی کا خدا کر
لڑتا رہوں غموں سے اکیلا خدا کرے


    رفیق انجم ایک ایسا شاعر ہے جس کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل بھی ہے اور اس دل میں ان لوگوں ے ہمدردی بھی ہے جن کی زندگی بے یارومددگار ہے اور شکایت بھی ہے لیکن بہت سنبھل کر اور سلیقے سے ان لوگوں سے جو اپنے آپ کو ’’مردِ میداں‘ کہلانے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ شکایت کا لہجہ دیکھئے :


بہت اونچے مکانوں کی یہ بستی  ہے مگر پھر بھی
نہ جانے کیوں ہمارا ہی مکاں طوفاں کی زد پر تھا
لقب بخشاجہاں والوں نے تم کو ’’مردِ میدا ں ‘‘ کا 
تو پھر یہ تو کہو دل میں تمہارے خوف کیوں کر تھا
کون رکھے گا یہاں محفوظ تیری داستاں
نفرتوں کے شہر میں ایثار کو دستک نہ دے


    میرا خیال ہے کہ رفیق انجم شعر کہتے وقت ذہن کا نہیں دل کا استعمال کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں آپ بیتی کے ساتھ ساتھ جگ بیتی بھی نمایاں ہے او رکیوں نہ ہو جس کے سر سے بچپن میں ہی والدین کا سایہ اٹھ جائے اس شخص کی شاعری میں چکاچوند کرنے والی روشنی کہاں سے آئے گی۔ موصوف کی پوری شاعری داخلیت کا عنصر لئے ہوئے ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ صرف چھ ماہ کے بچے کی ماں کا دنیا سے رخصت ہو جانا اپنے آپ میں ایک بڑا المیہ ہے۔ کیسے اس بچے کی پرورش ہوئی ہوگی ۔ ہمارے ملک میں ماں اپنے بچے کو کم از کم دو سے ڈھائی سال اپنا دودھ ضرور پلاتی ہے ۔ رفیق انجم اس سے محروم رہے اور پھر اس سے آگے کی زندگی؟ ا یسی صورت میں بڑے سے بڑا جگر والا بھی ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے لیکن واہ رے رفیق انجم ہمت نہیں ہاری اور اپنی خودداری کو ہر حال میں بر قرار رکھا :


انجم کے احوال نہ پوچھو
اندر سے وہ ٹوٹ چکا ہے 
گرفتارِ بلا رہتے ہیں لیکن شکر ہے یارو
کسی طوراپنی ہم نیلام خودداری نہیں کرتے
خدا کے نیک بندوں کی ہے یہ پہچان اے انجمؔ
وہ اپنے کیا پرائے کی دل آزاری نہیں کرتے


    منافق کو اللہ پسند نہیں کرتا اور اس کی جگہ جہنم ہے ۔ رفیق انجم نے منافقت پھیلانے والوں پر اپنے طنز کا تیر بہت خوبصورت انداز میںچلا یا ہے :


ہمیں یقیں ہے بہت جلد ڈوب جائے گا
عجیب شخص ہے دو کشتیوں میں رہتا ہے 


    میں نے سنا ہے کہ رفیق انجم نے ایک بہت خوبصورت نظم لکھی ہے جس کا عنوان ’’علامہ گھونسہ دربھنگوی کے منہ پر گھونسہ‘‘ ہے ۔ اس نظم کا چرچا آج سے چند برس قبل دربھنگہ میں خوب رہا ہے اور رفیق انجم کی یہ نظم کوئی مبالغہ نہیں بلکہ ایک بڑی سچائی ہے ۔ دربھنگہ میں کچھ لوگ اپنے آپ کو اردو ادب کا شیر کہلانا چاہتے ہیں جب کہ سچائی یہ ہے کہ وہ شیر تو دور گیدڑ کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جو اعزازی کتابوں کو فروخت کرکے پیسہ کمانااپنا شرعی حق سمجھتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ وہ لوگ جو بڑی خاموشی سے اردو کی خدمت کر رہے ہیں ان پر کیچڑ اچھالا جائے۔ رفیق انجمؔ نے درباری قسم کے ان ادبی شیروں پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ہمیشہ کے لئے ان کا بوریا بستر بندھ گیا اس کام کے لئے دربھنگہ کی ادبی مجلسوں میں رفیق انجم ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے۔ انجمؔ نے اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے :


ہونے والا ہے کوئی حملہ ذرا ہشیار رہ
کھل چکا ہے اک محاذ انجمؔ یہاں تیرے خلاف

    انجمؔ صاحب! ان سازشوں سے کبھی گھبرانا نہیں چاہئے کیوں کہ جو حق پر ہوگا اللہ اس کے ساتھ ہوگا۔ ناچیز کا ایک شعر آپ کے لئے :

میں خدا کی مصلحت کا عمر بھر قائل رہا
ہو نہیں سکتاکبھی میرا خدا میرے خلاف


    جھوٹ اور سچ کی جنگ تو ازل سے چل رہی ہے لیکن اتنا تو طئے ہے کہ جھوٹ جتنا بھی سر چڑھ کر بولے لیکن فتح تو بہر حال سچ کی ہوتی ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ سچ کے ساتھ تھوڑی بہت پریشانیاں ضرور ہوتی ہیں ۔ انجمؔ صاحب کہتے ہیں:


کیوں نہ انجمؔ کو بھلا ہو ذلتوں کا سامنا
سچ کا آئینہ دکھا بیٹھا ہے جھوٹے شہر میں 

    لیکن میں اپنی بات وسیم بریلوی کے ایک شعر پر ختم کرتا ہوں کہ:

جھوٹ کے آگے پیچھے دریا چلتے ہیں
سچ  بولا  تو  پیاسہ  مارا  جائے گا


بشکریہ: مشتاق دربھنگوی

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 610