donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Aurat Ke Mukhtalif Rang Aur Urdu Shayari


عورت کے مختلف رنگ اور اردو شاعری


ڈاکٹر احسان عالم

الحراء پبلک اسکول، رحم خاں، دربھنگہ

 

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

(علامہ اقبالؔ)


    ’’عورت‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جسے ہر مذہب اور دنیا کے ہر ادب نے عظیم ہستی تصور کیا ہے۔ عورت نے پیغمبروں، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، دیگر بزرگان دین، مشہور و معروف سائنس داں، فلسفی، ادیب، شاعر اور دانشور ہستیوں کو جنم دیا۔ بڑی سے بڑی ہستیاں ماں کے سامنے سر تسلیم خم نظر کرتی آتی ہیں۔ عورت کی زندگی کئی روپوں سے گذرتی ہے ۔ کبھی وہ بیٹی بن کر ضعیف و کمزور والدین کی خدمت اتنی انکساری اور عاجزی کے ساتھ کرتی ہیں کہ مرد اس میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بہن بن کر بھائیوں کو ڈھیر سارا پیا ر دیتی ہے اور اس کی حفاظت کے لئے اپنی جان نچھاوڑ کرنے کو تیار ہوتی ہیں۔ کبھی بیوی کے روپ میں شوہر کے لئے اپنا تن ، من ، دھن سب کچھ نچھاوڑ کر دیتی ہے۔ اپنے خاندان اور اپنے والدین کو ہمیشہ کے لئے چھوڑآتی ہیں۔ اور کبھی ماں بن کر جو خدمت کرتی ہیں ان کی عظمت کو بار بار سلام کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ماں کے روپ میں وہ محمد ﷺ ، عیسیؑ، گوتم بدھ، مہاتما گاندھی ، نہرو ، ٹیگور، مولانا ابوالکلام آزاد ، علامہ شبلی نعمانی ، سید سلیمان ندوی ، مولانا علی میاں ندوی اور نہ جانے کتنی قابل فخر شخصیتوں کو اس سرزمین پر جنم دے کر دنیا والوں کے سامنے ایک مثال پید ا کردیتی ہیں۔

    ارد و شعراء کو بھی ماں جیسی عظیم شخصیتوں نے جنم دیا ہے ۔ شاعر بھی ہمارے درمیان کا ایک حساس انسان ہے۔ وہ عورت کی عظمت سے کیسے انکار کر سکتا ہے ۔ شعرائے کرام نے عورت کے سبھی روپوں کو شعری پیرائے میں ڈھالا ہے اور اسے قدرت کا ایک انمول تحفہ تصور کیا ہے۔ اردو کے معروف شاعر اختر شیرانی نے ’’عورت‘‘ کے عنوان سے ایک نظم تخلیق کی ہے جس سے ا س کی عظمت واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ پیش ہے وہ نظم:

حیات و حرمت و مہر و وفا کی شان ہے عورت
شراب و حسن و انداز و ادا کی شان ہے عورت
اگر عورت نہ ہوتی کل جہاں ماتم کدہ ہوتا
اگر عورت نہ ہوتی ہر مکاں اک غم کدہ ہوتا
وہ روتی ہے تو ساری کائنات آنسو بہاتی ہے
وہ ہنستی ہے تو فطرت بے خودی سے مسکراتی ہے
وہ سوتی ہے تو ساتوں آسماں کو نیند آتی ہے
وہ اٹھتی ہے تو کل خوابیدہ دنیا جاگ جاتی ہے
وہ کہہ دے تو بہار جلوہ مٹ جائے بہاروں سے
وہ کہہ دے تو لباسِ نور چھن جائے ستاروں سے

    عورت جسے وفا کی دیوی اور ایثار کا پیکر تصور کیا جاتا ہے ، جوہر غم اور خوشی میں مرد کا ساتھ نبھاتی ہے۔ عورت کی اس خوبی کو مہدی پرتاپ گڑھی نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں شعری زبان دی ہے:

تجھ کو فطرت نے عطا کی ہے سحر کی تقدیس
ہر کڑے وقت میں ملتی ہے تو مردوں کی جلیس

    عورت کے حسن و جمال، ناز و ادا کو شمیم کرہانی نے ایک ہی شعرمیں بڑے خوبصورت انداز میں ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ ہوں:

رنگ، خوشبو، صبا، چاند، تارے، پھول، شبنم، شفق، ابجو، چاندنی
ان کی دلکش جوانی کی تکمیل میں، حسنِ فطرت کی ہر چیز کام آگئی

    یہ وہ خیالات تھے جو عام طور پر عورتوں کی عظمت کے متعلق تھے۔ اب یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ شاعروں نے عورت کو بیوی کی شکل میں کس طرح دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ شوہر کو اپنا مجازی خدا مانتے ہوئے اس پر دل و جان نچھاوڑ کرتی ہے۔حفیظ بنارسی نے نظم ’’بیوی ‘‘ کے عنوان سے عورت کو بیوی کے شکل میں اس طرح پیش کیا ہے:

سنگیت ہے ، پازیب کی جھنکار ہے بیوی
رحمت کی گھٹا ابر گہر بار ہے بیوی
شوہر کے لئے دولتِ بیدار ہے بیوی
شوہر کی اگر مونس و غمخوار ہے بیوی
آئے نہ کوئی سنگِ جفا اس کے بدن پر
نازک ہے بہت شیشے کی دیوار ہے بیوی
آرام عطا کرتی ہے تکلیف اٹھاکر
دیکھو تو اسے کتنی وفادار ہے بیوی

    اب عورت کو بیٹی کے روپ میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ ماں باپ برسوں ناز و ادا کے ساتھ اسے پالتے پوستے ہیں۔ باپ اور ماں کی خدمت میں بیٹی دن رات ایک کردیتی ہے۔ لیکن جب وہ جوان ہوتی ہے تو وہی بیٹی رخصت ہوکر دوسرے کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں ماں باپ کے دل پر کیا گذرتی ہے اس کا نقشہ شاعر نے اس طرح کھینچا ہے:

قرارِ جان و دل ہے تو بہارِ زندگی بیٹی
ترے ہی دم سے رقصاں ہے میرے گھر میں خوشی بیٹی
مگر یہ آج منظر نہیں کچھ کم قیامت سے
گراں معلوم ہوتی ہے تمہاری رخصتی بیٹی
ترے ہی فیض سے اس گھر میں تھی اب جگمگاہٹ سی
یہ چیزیں رو رہی ہیں جن پہ تھی کل مسکراہٹ سی

    بہن عورت کا وہ حسین روپ ہے جسے شاعروں نے طرح طرح سے پیش کیا ہے۔ بہن اپنے بھائی کے لئے دعا گو ہوتی ہے کہ اس کا بھائی سلامت رہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جس سے انسانیت کا وقار جھلکتا ہے۔ ہندو مذہب میں ’’رکچھا بندھن‘‘ کا تہوار اسی پاکیزہ رشتے کی علامت ہے۔

    اب عورت کے اس روپ کا جائزہ لیں جو سب سے زیادہ قابل احترا م ہے۔ جس کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ انگریزی کے سب سے مشہور شاعر شکشپیئر نے ماں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:’’بچے کے لئے سب سے بہترین مقام ماں کی نرم آغوش ہے۔‘‘

    اور نیپولین بوناپارٹ نے کہا تھا:’’تم مجھی اچھی ماں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘
    اردو شاعر بھی ماں کی تعریف میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ایک معرو ف شاعر فرماتے ہیں:

یہ الگ بات ہے عیسیٰ نہیں ہوتا کوئی
ماں کی آغوش تو معصوم ہے مریم کی طرح

    موجودہ دور کے ایک مشہور و معروف شاعر ندیم فرخؔ نے ماں کے دلی جذبات کو اپنے خوبصورت اشعار کے پیرائے میں ڈھالا ہے:

اگر ٹوٹا ہوا چشمہ مرا بنوا دیا ہوتا
تو میں اچھا شگن اور اچھا مہرت دیکھ سکتی تھی
مجھے کب شوق دنیا دیکھنے کا تھا میرے بیٹے
مگر چشمہ لگاکر تیری صورت دیکھ سکتی تھی

    ہمارے معاشرے میں عام طور پر بچے اپنے والدین کے ساتھ اس وقت تک رہتے ہیں جب تک انہیں اُن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، مگر جب وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے لائق ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے والدین کو چھوڑ کہیں دوسرا جہان آباد کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ندیم فرخ فرماتے ہیں:

ابھی اڑتے نہیں تو فاختہ کے ساتھ ہیں بچے
اکیلا چھوڑ دیں گے ماں کو جس دن پڑ نکل آئے

    معروف شاعر منور راناؔ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے ماں کے احترام میں بے شمار اشعار کہے ہیں۔ اپنی اس کوشش میں انہوں نے غزل کی تعریف بھی بدل ڈالی ہے۔ ماں پر کہے ان کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

معمولی اک قلم سے کہاں تک گھسیٹ لائے
ہم اس غزل کو کوٹھے سے ماں تک گھسیٹ لائے

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے ادا دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی، ماں دیکھی ہے

کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں
یہ آئینہ ہمیں بوڑا نہیں بتاتا ہے

تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی

    مختلف شعراء نے عورت کے مختلف رنگوں کو اپنے اشعار کے ذریعہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے اپنے مضامین کی شروعات علامہ اقبال کے اشعار سے کی ہے۔ پہلا مصرعہ ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘واقعی اس کائنات کا رنگ عورتوں کی وجہ سے ہے۔ کبھی وہ بیٹی، کبھی بہن، کبھی بیوی اور کبھی ماں کی شکل میں اس گلشن کورنگین کرتی ہے۔ لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج اکیسویں صدی بھی روزانہ خبروں کی زینت عورتوں کی حرمت و عصمت کی پامالی بنتی ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ چند افراد اپنی ہوس کی وجہ سے عورتوں کی عزت کو تار تار کرتے ہیں، وہی عورت ان کی بہن ، بیٹی، بیوی یا ماں بھی ہے۔

(مطبوعہ روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ پٹنہ، ۹؍ نومبر ۲۰۱۵ئ)


٭٭٭

Dr. Ahsan Alam
Raham Khan, Lalbagh, Darbhanga
Email: ahsanalam16@yahoo.com    

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 625