donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ajay Malvi
Title :
   Saifi Saronji Ka Nazmia Rango Aahang


ڈاکٹر اجے مالوی

 

 سیفی سرونجی کا نظمیہ رنگ و آہنگ


 
    اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اس ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت کے عالمی،قومی اور منظر نامہ میں سیفی سرونجی کا نظمیہ     رنگ و آہنگ اُردو ادب میں غیرمعنویت و اہمیت کا حامل ہے۔  اس ما بعد جدید منظر نامہ میں نئی نظمیہ شاعری، نئے عہد کی اضافی تخلیقیت، نئی اضافی معنویت اور نئی اضافی فنّیت سے مملو و روشن ہے۔ سیفی فرونجی کے نظمیہ آئینہ خانے میں ہمیں تیزی سے بدلتا ہوا شعری و ادبی تخلیقیت افروز منظر نامہ، عالمی،قومی اور مقامی علاقائی تہذیب و ثقافت کا شدید احساس،جاگیردارانہ عہد کے وضع کردہ ادبی اور جمالیاتی پیمانوں سے انکار،ہندوستانی ثقافت کے مشترکہ عناصر و اقدار، غیر مثروط روحانیت،مرکزیت،تکثیریت،رنگا رنگی،بو قلمونی،کثیر المعنویت اور حقیقی آزادئی فکر و نظر موجود ہے۔اس ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنے عالمانہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایک انٹر ویو میں فرماتے ہیں:

’’ما بعد جدیدیت کوئی ’’تحریک ‘‘ نہیں ہے۔ یہ ایک ثقافتی صورت حال ہے ایک زاوئیہ نظر     جس کا اثر انسانی سوچ کے تمام شعبوں پر پڑا ہے اور ادبی رویّے بھی بدلے ہیں۔ اس کا کوئی ایک پیمانہ بھی نہیں ہے کیوں کہ پش ساختیاتی فکر کے بعد اس میں نو مارکسزم کی کشادہ تعبیریں،  درید اکی رد تشکیل،نسوانیت کی عالمی تحریک اور ہندوستان میں دلت ساہتیہ اور nativism  یعنی ’دیسی واد‘ کے دھارے بھی آ ملے ہیں نیز عہد وسطیٰ کی لوک شعریات یعنی کبیر،نانک،بابا فرید،بلّے شاہ،شاہ حسین وغیرہ یعنی صوفی سنت شعریات کی باز تشکیل ہو رہی ہے اور تہذیبی تشخص اور جڑوں کے عرفان پر بھی اصرار ہے۔ اپنے وسیع معنوں میں ما بعد جدیدیت ایک بت ہزار شیوہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

ادھر بیس برسوں میں شاعری کی دُنیا خاصی بدل گئی ہے۔ اب نرے اشکال پر زور نہیں۔ ابلاغ کی آڑ میں جس مہملیت اور غیر ضروری داخلیت پر توجہ تھی وہ بھی رد ہوتی چلی گئی ہے۔ اب نظر ترسیل اور قاری سے جڑنے کے عمل پر ہے۔ براہ راست اندازِ بیان کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،البتہ ایمائیت اور رمزیت پر توجہ بڑھی ہے،اور نئی شاعری ایک ایسی دھرتی اور کھلے آسمان کے نیچے آ گئی ہے جہاں اشیا یاس زدہ اور بجھی بجھی نہیں۔‘‘

(جدیدیت کے بعد : ص  564)

     اس سے قبل کہ سیفی سرونجی کی نظمیہ شاعری پر گفتگو کی جائے پروفیسر عنوان چشتی کی فکر انگیز اور معنی خیز رائے ملاحظہ فرمائیں، جس سے سیفی سرونجی کے فکری اور فنّی شعور و آگہی کا پتہ چلتا ہے:

’’سیفی سرونجی اُردو کے مخلص شاعر ہیں اور اُردو شاعری کے نگار خانے میں اپنے خون دل سے چراغاں کر رہے ہیں،یہ بڑی بات ہے کہ انھوں نے فیشن اور فارمولے سے الگ رہ کر اس نوع کی شاعری کی ہے جس کی جڑیں ہماری لسانی،ادبی،شعری اور تہذیبی روایات کی زمین میں    پیوست ہیں، اس لئے ان کے کلام میں ترسیل کا وہ المیہ نہیں جس کا ذکر کئی نقاد بہت       کڑوے لہجے میں کرتے ہیں،انھوں نے جو کچھ محسوس کیا اس کو سلیس اور سادہ زبان          میں ادا کیا،ان کی شاعری میں ایک طرف رومان کے دھندلکے ہیں تو دوسری طرف تصنیف کی کرنیں بھی اُبھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘

(ایک لمحہ ایک خواب: ص  11)

    سیفی سرونجی کا شعری سفر بہت بڑاہے۔ اس شعری سفر کے درمیان اُن کے کئی شعری مجموعے منظر ِ عام پر آ کر عوام کے دلوں کو روشن و معطر کر چکے ہیں۔اُردو میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ’’ روشن الاؤ‘‘ 1985میں شائع ہوا تھا،دوسرا شعری مجموعہ’’ ایک لمحہ ایک خواب‘‘ 1991،تیسرا شعری مجموعہ ’’ناؤ سمندر موجیں‘‘ 2002اور چوتھا شعری مجموعہ ’’خوشبو پھیلے عام‘‘ 2010میں شائع ہو کر منظرِ عام پرآ چکے ہیں۔ سیفی سرونجی کی نظمیہ شاعری میںما بعد جدیدیت کے عنصر غالب ہیں۔ جس میںعالمی، قومی،مقامی ، تہذیبی اور گاؤں کے دیہی زندگی کے مختلف رنگ جا بجا نظر آتے ہیں۔’’ایک ماں کا خط اپنے بیٹے کے نام‘‘ اور ’’بیٹے کا خط ماں کے نام‘‘سیفی سرونجی کی نظمیہ شاعری کی عمدہ مثال ہیں۔وہ زندگی کی زمینی سچّائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ہیں بلکہ اُس کو اپنی نظمیہ شاعری کے پیکر میںڈھال کر زندگی کا آئینہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ گاؤں کے سوندھی مٹّی کی خوشبو، گھر چھوٹنے کا درد،ماں سے بے پناہ محبّت، اپنوں سے بچھڑنے کا رنج وغم اور وطن سے دور گھر نہ آنے کی مجبوری اور دشواری کو سیفی سرونجی نے بڑے ہی فنّی لطائف اور ذہانت کے ساتھ بیان کیا ہے۔سیفی سرونجی کی نظم ’’ایک ماں کا خط اپنے بیٹے کے نام‘‘ ایک شاہ کار کا درجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے اپنی نظم’’ایک ماں کا خط اپنے بیٹے کے نام‘‘میں ایک ماں کے دل کا درد، ماں کی تڑپ،ماں کی تنہائی، بیٹے کی جدائی کے غم میں ماں کابیمار ہونا، راتوں کا جاگنا ،دروازہ کو کھلا رکھنا اور دروازہ تک بار بار آنے کی تصویر کو بہت ہی خوبصورتی اور عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس پُر کیف نظم میں ایک ماں اپنے بیٹے عالم کو علالت کی کیفیت میں خط لکھتی ہے اور کہتی ہے کہ اے میرے بیٹے عالم اگر تجھے میری صورت دیکھنا ہے تو فوراً چلا آئے کیوں کہ میں دو مہینے سے سخت بیمار ہوں۔اس نظمیہ شاعری کا رنگ و آہنگ قاری کو جھکجھورتا ہے ،کچوکے لگاتا ہے اور اُن کو غور و فکر کرنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ سیفی سرونجی کی نظم’’ ایک ماں کا خط اپنے بیٹے کے نام‘‘  خاظر نشیں ہو:

آنکھ کے تارے مرے دل کے سہارے آ جا
اے مرے لعل مرے راج دُلارے آ جا
تو گیا ایسا کہ پلٹ کر نہیں آیا اب تک
چین مجھ کو بھی میسر نہیں آیا اب تک
کس لئے لوٹ کے تو گھر نہیں آیا اب تک
دور ہے تو برستی ہیں یہ آنکھیں ہر دم
تیری صورت کو ترستی ہیں یہ آنکھیں ہر دم
تیری آہٹ پہ مرے کان لگے رہتے ہیں
کب چلا آئے تو دروازے کھلے رہتے ہیں
آخری سانس ہے شائد کہ نکل جائے دم
دیکھ لے آ کے بس اک بار میری آنکھیں نم
دل میں حسرت لئے مر جاؤں نہ بیٹے عالم
آنکھ کے تارے مرے دل کے سہارے آ جا
اے مرے لعل مرے راج دُلارے آ جا

    اسی طرح سیفی سرونجی کی نظم’’بیٹے کا خط ماں کے نام‘‘ میں عہد حاضر کی حقیقی اور سچّی تصویر ننگی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے۔ جس کو انھوں نے بہت ہی سادہ اور سلیس زبان میں بیان کیا ہے۔جب بیٹا ماں کا خط پاتا ہے تووہ تڑپ اُٹھتا ہے اور بیقرار ہو جاتا۔اُ س کو اپنی ماں کی بے لوث محبّت اور اُس کی دعاؤںکا شدید احساس ہوتا ہے لیکن وقت اور حالت کے آگے وہ بے بس ،مجبور اور لاچارنظر آتا ہے ۔سیفی سرونجی کی نظم ’’بیٹے کا خط ماں کے نام ‘‘ خاطر نشان ہو:

اے مری ماں مجھے آنکھوں میں بسانے والی
لوریاں روز مجھے دے کے سلانے والی
اپنی غربت کا نہ احساس دلایا تونے
خوب کردار مری ماں کا نبھایا تونے
یہ نوازش یہ کرم اور یہ شہرت اے ماں
تونے بخشی ہے مجھے علم کی دولت اے ماں
ہے دعاؤں کا نتیجہ مری عزّت اے ماں
آج عہدے پہ ہوں میں تری بدولت اے ماں
مجھ کو کمرے میں اچانک جو نہ پاتی ہوگی
میری تصویر کو سینے سے لگاتی ہوگی
مجھ کو معلوم ہے راتوں کو جگاتی ہوگی
یاد میری تجھے دن رات ستاتی ہوگی
میں نے پائی ہے خبر آج کہ بیمار ہے تو
میں نہیں پاس تو دنیا سے بھی بیزار ہے تو
تو نے بھیجا ہے مجھے خط یہ بلانے کے لئے
میں ہوں بے چین ترے پاس میں آنے کے لئے
کیا بتاؤں ذرا فرصت نہیں رہتی مجھ کو
تجھ سے ملنے نہیں دیتی مری بیوی مجھ کو

        نظم ’’زندگی‘‘ میں سیفی سرونجی نے اپنے دلی جذبات ،خیالات،احساسات اور تجربات کو شعری پیکر میں ڈھال کر نظمیہ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ سیفی سرونجی نے اپنے اس نظم میں زندگی کو پہاڑ سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر کے دل میں پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ بار بار پیدا ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ اپاہج ہے اور معزور ہے ،اس لیے وہ پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتا ہے۔نظم کے آخری حصّے میں شاعر اپنی ناکامی و نامرادی پر بہت افسردہ اور رنجیدہ ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایک اپاہج ہوں اس لئے پہاڑ پر چڑھنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اس نظم کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

        کچھ دنوں سے
        ایک خیال
        میرے ذہن میں
        بار بار آتا ہے
        کہ میں اس پہاڑ پر
        چڑھوں گا ایک دن
        جسے لوگ کہتے ہیں اکثر
        زندگی زندگی زندگی
        میں بھی اپنے دل میں
        ایک عزم جواں رکھتا ہوں
        لیکن افسوس کہ
        کہ میں ایک اپاہج ہوں    

    سیفی سرونجی کی نظم ’’تنہائی‘‘ ایک کامیاب نظم ہے۔ جس میں شاعر کا فنّی حسن و جمال اُبھر کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ سیفی سرونجی کا رنگ و آہنگ اور فنّی اسلوب صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ نظم تنہائی میں سیفی سرونجی کہتے ہیں کہ لوگ تنہائی سے گھبرا کر کسی نہ کسی چیز کا سہارا ڈھونڈھتے ہیں اور اپنی تنہائی کے رنج و غم کے احساس کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن سیفی سرونجی اس تنہائی کی تلاش میں ہمیشہ سر گرم نظر آتے ہیں پھر بھی اُن کو تنہائی نصیب نہیں ہوتی ہے۔ نظم ’’تنہائی‘‘ خاطر نشیں ہو:

        آج کا ہر شخص
        اپنی تنہائیوں سے گھبرا کر
        کوئی نہ کوئی شغل
        اختیار کر لیتا ہے
        کوئی شہرت کے نشے میں
        غرقاب رہتا ہے
        کوئی شراب کا سہارا ڈھونڈھتا ہے
        لیکن میں ہمیشہ
        تنہائی کی تلاش میں
        سرگرداں رہتا ہوں
        لیکن مجھے تنہائی نصیب نہیں ہوتی

    سیفی سرونجی کی نظمیہ تخلیقیت کی عمدہ مثال ’’شاعری مجھے زندہ رکھے گی‘‘ ہے۔ جس میں اُن کی فکری اور فنّی شعور و آگہی کا پتہ چلتا ہے۔سیفی سرونجی کی نظم ’’شاعری مجھے زندہ رکھے گی‘‘ خاطر نشان ہو:

        میں اگر بھاگ بھی جاؤں
        تو شاعری میرا پیچھا کرتی ہے
        میں اگر سو بھی جاؤں
        تو شاعری مجھے جگاتی ہے
        میں اگر بھول بھی جاؤں
        تو شاعری مجھے یاد دلاتی ہے
        میں اگر نہ بھی لکھوں
        تو شاعری مجھ سے لکھواتی ہے
        میں اگر جھوٹ بولوں
        تو شاعری مجھ سے سچ بلواتی ہے
        اسی لئے تو مجھے یقین ہے
        میں اگر مربھی جاؤں
        تو شاعری مجھے زندہ رکھے گی

    اس میں شک نہیں کہ زندگی کی حقیقی اور تلخ سچّائی کونظمیہ پیرائے میں سادہ اور سلیس زبان میں بیان کرنے کا ہنر سیفی سرونجی کو خوب آتا ہے۔اُن کی نظم ’اے خُدا‘‘ عہد حاضر کی حقیقی تصویر کو پیش کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔جس میں اُن کا فنیّ حسن و جمال پورے آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ سیفی سرونجی کہتے ہیں کہ ساری کائنات میں اس وقت ظلمت کا قہر ہے،چاروں طرف نفرت کا زہر پھیلا ہوا ہے لیکن میں امن و امان کی تلاش میں ہر جگہ گیا لیکن کہیں بھی میرے دل کے قلب کو سکون عطا نہیں ہوا اور جب لوٹ کر میں اپنے گھر واپس آیا تو میں نے اپنے گھر کو خاکستر پایا۔ سیفی سرونجی کی مشہور نظم ’’اے خُدا‘‘ ملاحظہ فرمائیں:

        اے خُدا تیری اس زمین پر
        آج ہر سمت
        ظلمتوں کا قہر ہے
        جدھر بھی جایئے
        نفرتوں کا زہر
        میں امن و امان کی تلاش میں
        شہر شہر گھوما
        نگر نگر پہنچا
        لیکن
        ہر جگہ سے مایوس ہو کر
        جب میں
        اپنے وطن واپس آیا
        تو اپنے گھر کو جلا ہوا پایا

    اسی طرح اُن کی نظم ’’بوڑھا برگد‘‘ میں فکر آلود اور معنی خیز پہلو اُبھر کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ جو اکیسویں صدی کے اس ما بعد جدید دور کی عمدہ مثال ہے۔ ’’بوڑھا برگد‘‘ نظم خاطر نشیں ہو:

        میں شہر کی بڑی بلڈنگ کے
        ایک اونچے فلیٹ میں رہتا ہوں
        جہاں عیش و آرام کی ساری چیزیں
        مجھے میسر ہیں
        ایک کل وقتی خادم
        میری خدمت پر مامور ہے
        مگر اچانک میں اس پر
        برس پڑتا ہوں
        وہ حیران ہو کر پوچھتا ہے
        کیا ہوا سر؟
        اب میں اُسے کیا بتاؤں
        کہ دور بہت دور
        اپنے گاؤں کا
        بوڑھا برگد مجھے آواز دے رہا ہے

    ’’قسمت کی لکیریں‘‘،’’جزیرہ‘‘،’’عقل مند‘‘،’’کمال کے انسان‘‘،’’جنگل کی طرف چلیں‘‘،’’تمہارے درد کا مداوا‘‘،’’سچّائی‘‘،’’امتحان‘‘،’’اُداسی‘‘،’’حوصلہ‘‘،’’احساس کمتری‘‘،’’کاش‘‘،’’تیزگام‘‘،’’ایک نظم تمہارے لئے‘‘،’’ماں‘‘ اور’’ نیم کا درخت‘‘     وغیرہ لاجواب نظمیں سیفی سرونجی کی تخلیقی کاوش کا نتیجہ ہے۔جس میں سیفی سرونجی کے دل کے درد و کرب،رنج و غم اور عصر حاضر کی فنّی تصویرنمایاںنظر آتی ہے۔’’نیم کے درخت ‘‘ میں شاعر نے اپنے دلی جذبات و احساسات اور دردو کرب کو موتی کی لڑیوں میں پرو کر قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ گاؤں کے سوندھی مٹّی کی خوشبو اور دیہی زندگی کی رنگا رنگی شاعر کو اپنی جانب کھینچتی ہوئی نظر آتی ہے۔نیم کا درخت ہماری ہندوستانی ثقافت اور دیہی زندگی کا حصّہ ہے۔جس کو سیفی سرونجی نے اپنی نظمیہ شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ’’نیم کا درخت‘‘ نظم ملاحظہ فرمائیں:

        میرے گاؤں کے آنگن میں
        وہ نیم کا درخت
        آج بھی جوں کا توں کھڑا ہے
        میں جب بھی اُسے
        دیکھتا ہوںتو
        ایک یادوں کا سلسلہ
        میرے ذہن میں
        سنیما کے پردے کی طرح
        سامنے آ جاتا ہے
        اور ایک ایک تصویر
        مجھے چیخ چیخ کر پکارتی ہے
        اور نیم کا درخت میری راہ دیکھتا ہے

        اکیسویں صدی کے اس ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت کے تناظر میںسیفی سرونجی نے اپنے نظمیہ ا شعار کے ذریعہ اُردو ادب میں ایک بے بہا اضافہ کیا ہے۔ جس سے اُن کی فکری اور فنّی شعور و آگہی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سیفی سرونجی کی نظمیہ تخلیقیت میںعالمی،قومی،مقامی، سیاسی،سماجی،اخلاقی،اقداری اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا رنگ و آہنگ نظر آتا ہے۔ جس میں زندگی ہے موت نہیں ہے۔


٭٭٭٭٭٭٭


1/1278مالوی نگر،الہ آباد

(یو۔پی)

 (Mob.)09451762890    

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 575