donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Urdu Ghazal 1920 To 1980

اردوغزل:۱۹۶۰تا۱۹۸۰ء
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
ادب زندگی کاآئینہ ہوتاہے ۔ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحث اب پرانی ہوچکی ہے۔ زندگی بجائے خود عروج وزوال ،نشیب وفرازاوراتارچڑھائو سے عبارت ہے۔ تغیروتبدیل اس کی فطرت کاخاصہ ہے یکسانیت اس کے مزاج کے منافی ہے۔ احتجاج اور مزاحمت انسانی فطرت کی دو اہم خصوصیات ہیں۔ ادب سے قطع نظراگرہم انسان کی ابتدائی تاریخ پرنظرڈالیں تو وہاں بھی کسی نہ کسی شکل میں احتجاج اورمزاحمت کا سراغ ملتاہے۔ بلکہ یہ کہنابیجانہ ہوگا کہ پتھر کے عہدStone ageمیں جنگلی قانونRule of jungle میں Might is right جہد للبقاء Struggle for existenceاور Survival of the fittest رائج تھا۔ تہذیب وتمدن کے آغازکے ساتھ ساتھ درج بالا قوانین کوتبدیل ہوجاناچاہئے تھالیکن ایسا نہیں ہوسکا اور آج کے ترقی یافتہ عہد میں بھی یہ قوانین اپنی بدترین شکل میں موجود ہیں۔ ادب کی تخلیق کا مقصدہی زندگی میں پیش آنے والے حادثات وواقعات کی ترجمانی کرناہے۔ اپنے اس منصب پر جوادب جتنا زیادہ پورا اترتاہے وہ زندگی کی بہترتصویر شی اور ترجمانی کرپاتاہے۔ یہ ایک ایسا کلیہ ہے کہ دنیاکے تمام ادب میں اس کی مثالیںنہایت ہی نمایاں اورفراواں ہیں۔
 
اردو ادب کی تاریخ کے مطالعہ سے اس بات کابخوبی اندازہ ہوتاہے کہ اس میں بھی ہردورمیں کسی نہ کسی شکل میں کہیں نہ کہیں احتجاج اورمزاحمت کاسراغ ملتاہے۔ ادب کی یگر اصناف سخن سے قطع نظر غزل جیسی نازل اور لطیف صنف میں بھی احتجاج اورمزاحمت کی لہریں کہیں واضح اورکہیں مدھم نظرآتی ہیں۔ غزل کاہر شعرچوں کہ معنی کے اعتبارسے ایک آزاداکائی ہوتاہے اس لیے ایک ہی غزل میں اگر کوئی شعرحسن وعشق کی ترجمانی کرتاہے تودوسراشعر حکایت روزگاراور زندگی کے دیگر پہلوپر بھی بھرپور روشنی ڈالتاہے شاعرعام انسان سے زیادہ حساس اورگدازدل کامالک ہوتا ہے ۔شاعرعام انسان سے زیادہ حساس اورگدازدل کامالک ہوتاہے اس لئے وہ اپنے گردوپیش کے حالات کامشاہدہ ومطالعہ بہ نظرغائرکرتاہے اور معاشرے کے حسن وقبح کومن وعن پیش کرکے سب کوآئینہ دکھادیتاہے ۔احتجاج اورمزاحمت انسانی جبلت کی بنیادی خصوصیات میںسے ہیں۔ اس لئے شعراء نے ہر دورمیں اپنے عہدکی ترجمانی کرتے ہوئے احتجاج اورمزاحمت کے عمل دخل کواپنی نگارشات میں پیش کیا ہے۔ فن کے ساتھ ایمان داری کاتقاضہ بھی یہی ہے۔ فن کاریہ فرض ہے کہ وہ اپنے گردوپیش میں رونما ہونے والے حادثات ووقعات کی سچی تصویرکشی کرے ورنہ اس پر جانب داری کاالزام آئے گا۔
 
۱۹۶۰تا۱۹۸۰ء کازمانہ سیاسی، سماجی ،تہذیبی،ثقافتی اورادبی ہرحیثیت سے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ادب کوکسی خاص جغرافیائی حدود میں مقید کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کی سرحدیں لامحدودہوتی ہیں۔ یہ سورج کی روشنی ،چاند کی خشکی، ہوائوں کی سبک خرامی، پھولوں کی خوشبواور شبنم کی رفعت پرواز کی مانند ہے۔ کوئی بھی فن کاراپنے معاصرادب سے چشم پوشی نہیں کرسکتاہے۔ اس عہد کی اردوغزلوں کے مطالعہ سے ہمیں وطن عزیز کے مسائل، سیاسی وسماجی حالات، تہذیبی وثقافتی تبدیلیوں اورا ن کے عوامل ومحرکات کاعلم تو ہوتاہی ہے ساتھ ہی دنیا کے معاصرادب کی صدائے بازگشت بھی کسی نہ کسی عنوان سے ہمارے فن کارتک پہنچتی ہے۔ اگر ایک طرف ترقی پسند ادب میں احتجاج اور مزاحمت کابڑا ذخیرہ ملتاہے تو تحریک آزادی اور تقسیم ہند کے اثرات بھی احتجاج اور مزاحمت کی شکل میں شدت ومد کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ تقسیم کے بعد برصغیر کی غزلیہ شاعری احتجاج ومزاحمت کے اثرات سے بھری پڑی ہے۔ اردو غزل کا قافلہ آگے بڑھتے ہوئے جب۱۹۶۰تا۱۹۸۰کی دہائیوں میں پہنچتاہے تواس کاچہرہ حادثات وواقعات کے گردغبارمیںاٹاہواور دل لہولہان نظرآتاہے۔ شعراء نے اپنی داخلی کیفیات کچھ اس اندازسے بیان کی ہیں کہ احتجاج ومزاحمت کی صدائے بازگشت اکثرجگہ نظرآتی ہے۔
 
۱۹۶۰ءسے ۱۹۸۰ءتک کے اردوغزل گوشاعروں کی مجبوری تھی کہ معاشرے کے بدلتے ہوئے اقدارکی وجہ سے شخصیت کے اظہارکااصول مرتب کریں۔ انہوں نے اپنی محرومیوں کاذمہ دارخانوں میں بنی ہوئی زندگی کوٹھہرایامحرومی کاشکار ہونے پر اکائی کاتصوربکھرجاتاہے اور ٹوٹے پھوٹے اور ریزہ ریزہ احساسات کے کسی گوشے میں پناہ لینے پر شاعرمجبور ہوجاتاہے۔
 
ہم جانتے ہیں کہ معاشرے کوقبول کرنے کیلئے کوئی سانچا ضرور بناناپڑتاہے۔ جس طرح اشتراکی نقطہ نظر زندگی کااسم بن گیا اور فرائڈکے انکشافات سے زندگی کی کئی تعبیریںڈھونڈی گیںاسی طرح یہ معلوم کرناہوتاہے کہ وہ کون سالمحہ تھا جب زندگی کی اکائی کاتصوربدلااوروہ مختلف ناموں اورخانو ں میں بٹتی چلی گئی۔یہ بحث طلب مسئلہ ہے جس کی یہاںگنجائش نہیں ہے۔ لیکن اتنی بات ضرورہے کہ انفرادیت پسندی آگے بڑھی جس میں افراط تفریط بھی آئی اور نئے راستے کے گھنے درخت کے سایے بھی ملے۔ خلیل الرحمن اعظمی وزیرآغا،ناصرکاظمی ابن انشامنیرنیازی، افتخارعارف، شہزاد احمد ،شاذتمکنت، حسن نعیم، عرفان صدیقی، مظہرامام ،ظفراقبال، جگن ناتھ آزاد، جون ایلیا، احمد فراز، ساقی فاروقی، رفعت سروش، پرکاش فکری، مخمور سعیدی، زبیررضوی، صدیقی مجبی، وہاب دانش ،شہر یار مجیدامجد، احمد مشاق، شجاع خاور، بشیر بدر، ندافاضلی ،سلطان اختر،باقرمہدی، کلیم عاجز، حسن امام درد، اویس احمد دوراں، منظرشہاب، سیداحمدشمیم، پروین شاکر،فہمیدہ ریاض انورسدیدبانی، نشترخانقاہی ،شاہد مابلی ،احسان دربھنگوی،مناظر عاشق ہرگانوی، لطف الرحمن، شاکرخلیق، عبدالمنان طرزی، محمدسالم، غلام مرتضی راہی ،کمارپاشی، افضل منہاس، اسعدبدایونی وغیرہ کی شناخت ۱۹۶۰سے ۱۹۸۰تک کے دوران ہی بنی جنہوں نے اردوغزل کونئے افق سے روشناس کیاہے۔
 
خلیل الرحمن اعظمی
بس اک حسینؐ کانہیں ملتا کہیں سراغ
یوں ہرگلی یہاں کی ہمیں کربلالگی
وزیرآغا
وفا شعار کودی تم نے دشمنوں میں جگہ
جودشمنوں میں تھا اس کوعزیزترجانا
ناصرکاظمی
آتش غم کے سیل رواں میں نیندیںجل کرراکھ ہوئیں
پتھربن کردیکھ رہاہوں آتی جاتی راہوں کو
افتخار عارف
روزاک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ
رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
شہزاداحمد
نئے چہروں سے جی گھبرارہاہے
غنیمت تھیں پرانی صحبتیںبھی
شاذ تمکنت
کچھ لوگ تھے جودشت کوآبادکرگئے
اک ہم ہیں جن کے ہاتھ سے صحرانکل گیا
حسن نعیم
پیمبروں نے کہا تھا کہ جھوٹ ہارے گا
مگریہ دیکھئے اپنامشاہدہ کیاہے
مظہرامام
تیشہ اٹھالیا ہے تو اب جو بھی زدمیں آئے
اس راستے میں تیری عمارت بھی آئے گی
شہریار
دھوپ کے قہر کاڈرہے تودیارِ شب سے
سربرہنہ کوئی پرچھائیںنکلتی کیوں ہے
احسان دانش
کہاں پہ چھوڑگئی لاکے جستجوئے سکوں
یہاںتودین ہویاعشق سب تجارت ہے
ساقی فاروقی
مجھے خبرتھی مراانتظارگھر میںرہا
یہ حادثہ تھاکہ میں عمربھرسفر میں رہا
ظفراقبال
کس تازہ معرکے پہ کیاآج پھرظفر
تلوارطاق میں ہے نہ گھوڑاہے تھان پر
مجید امجد
سلام ان پہ تہہ تیغ بھی جہنوں نے کیا
جوتیراحکم جوتیری رضاجوتوچاہے
جون ایلیا
سنوکہ فردوسی زمانہ پرکھ چکاظرف غزنوی کو
جوفکر وفن کوذلیل کرکے عزیزرکھتاہے اشرفی کو
احمد فراز
ہرگام پہ کچھ مسلے ہوئے پھول ملے ہیں
ایسے تو میرے دوست گلستاں نہیں ہوتے
بشیربدر
اے خداتونے مجھے قبر سے کم دی ہے زمین
پائوں پھیلائو ں تو دیوار میں سرلگتاہے
ندا فاضلی
کچھ لوگ یونہی شہر میں ہم سے بھی خفاہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
منیرنیازی
ملتی ہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمین پہ اٹھادینا چاہئے
پروین شاکر
سچ جہاں پابستہ ملزم کے کٹہرے میں ملے
اس عدالت میں سنے گاعدل کی تسیرکون 
باقر مہدی
اگر جلانانہ ہوتا یہ پیکرخاکی
وہ اپنی راکھ میں اپنے شرارکیوں رکھتا
کمارپاشی
لہورنگے ہاتھوں والے سب جب سے منصف بن بیٹھے ہیں
کون ہے اب اس شہر میں ایسا جس کے سرالزام نہیں ہے
افضل منہاس
وہ جنگ زرگری ہے کہ محشربپا ہوا
ہرشخص ایک عمرسے اگلی صفوں میں ہے
مرتضی برلاس
اک برگِ سبز شاخ سے کرکے جدا بھی دیکھ
میں پھر بھی جی رہاہوں میراحوصلہ بھی دیکھ
عادل منصوری
گاڑی نے سیٹی بھی نہیں بجائی
آوازکاپائوں کٹ گیا بھی
محمدعلوی
بجی ریل کی سیٹیاںدیرتک
رہا دیر تک دل میں ڈرریل کا
جگن ناتھ آزاد
اے دل رفتہ نشاط عہد رفتہ کو نہ ڈھونڈ
یہ نی دنیا ہے اس میں کون کس کاآشنا
ماجد الباقری
میں رات بن کے سارے گھروں میں اترگیا
سورج چڑھاتولوگ مجھے ڈھونڈتے رہے
شمس الرحمن فاروقی
چھتیس تھیں بنددھواں اٹھ کے پھیلتاکیسے
ہوانہ تھی تواکیلاشرارہ کیاکرتا
کلیم عاجز
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر یہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہوکہ کرامات کروہو
شکیب جلالی
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت
بانی
نہ اب ہے آب میں موتی نہ خاک میں سونا
مری طرح ہوئے خالی یہ بحروبربھی کیا
غلام مرتضی راہی
میرادشمن اگرزمیں کانہیں
سنگ پھرآسماں سے آئے ہیں
مخمورسعیدی
میری ہی طرح قیدہے خوداپنی فضامیں
اس تک میری آوازکاجھونکانہیں جاتا
مظفرحنفی
گھرگھرسے اٹھ رہاہے دھواں دیکھناذرا
مشعل بجھاکے اپنامکاںدیکھناذرا
زبیررضوی
درختوںکی قطاریں چپ کھڑی ہیں
ہوائوں کے سنہرے پرکٹے تھے
عرفان صدیقی
یہاں وہ محشربپاتھا کہ میں بھی آخرکار
اگرچہ نقش تھا دیوارسے نکل آیا
احمد مشتاق
کوئی کمرہ ہے جس کے طاق میں ایک شمع جلتی ہے
اندھیری رات ہے اور سانس لیتے ڈررہاہوں میں
کشورناہید
جلتی ہیں ہتھیلیاں تو سوچو
یہ زہر کہاں کہاں پہ ہوگا
منظرشہاب
شیشے کی کوئی چیز سلامت نہ رہے گی
اس دور میں پتھر کی انا چاہئے یارو
نشترخانقاہی
ہرسمت سے گھرآتے ہیں شطرنج کے مہرے 
یہ دیکھ ابھی شہہ ہے ابھی مات برادر
احسان دربھنگوی
وقت رخصت نہ مجھے دیدہ ترسے دیکھو
اک مجاہد کومجاہدکی نظرسے دیکھو
حسن امام درد
برگدکے نیچے بیٹھ کے حاصل کیاگیان
حاصل شدہ گیان سے کیافائدہ ہوا
شجاع خاور
مزہ توہم کوبھی سرگوشیوں میں آتاتھا
پرآج کل ہمیں نعرے لگانے پڑتے ہیں
اویس احمد دوراں
رنجیدہ وملول ہوں لیکن میں کیا کروں
موجودہ نسل میراکہاںمانتی نہیں
صدیقی مجبی
اپناسرکاٹ کے نیزے پہ اٹھائے رکھا
صرف یہ ضدکہ میراسرہے تواونچا ہوگا
وہاب دانش
جنگلوں میں گھومتی پھرتے ہیں شہروں کے فقیہہ
کیادرختوں سے بھی چھن جائے گاعالم وجدکا
پرکاش فکری
چاروں طرف ہواکی اک موج بے عناںہے
کوئی چراغ ہم سے ایسے میں جل نہ پائے
منوررانا
ہمارے ملک میں انساں اب گھرمیں نہیںرہتے
کہیں بندوکہیںمسلم کہیںعیسائی لکھاہے
سید احمد شمیم
تھم گیاہے کیوںرگوں میں خوںچہکتابولتا
ساعتوںکے قافلے شایدٹھہرجانے کوہیں
لطف الرحمن
چاروںکھونٹ میںہم ہی لیکن بھوربھئے بربادرہے
خودہی قاتل خودہی شاہدمدعی خوداور منصف خود
افتخارامام صدیقی 
احساس کی رگ رگ پہ جوہوتی ہے دھمک سی
ایک گونج ہے آوازکی وہ شکل نہیں ہے
سلطان اختر
خداوندا ترے ہوتے ہوئے بھی
ہراساں اس قدرانساں کیوں ہے
شاکرخلیق
گھرکے بٹوارے میں پنچوں کی عجب سازش ہوئی
منہدم گھرکوکیاملبے کی پیمائش ہوئی
عبدالمنان طرزی
تراقصرمعلی بہہ نہ جائے
ہے سیل اشک غم کی وہ روانی
مناظر عاشق ہرگانوی
دھرم کے نام پہ یہ قتل کی سازش کچھ سوچ
تیرے ہم سایے کابچہ بھی غزل جیساہے
محمد سالم
زلزلے سیلاب طوفان ہوگئے ہیں آج عام
عہدنوہے غالباآہ وفغاںکے واسطے
شاہد ماہلی
خوںکاسیلاب تھا،جوسرسے ابھی گذراہے
بام ودراب بھی سسکتے ہیں مگرگھرچپ ہیں
اسعد بدایونی
سنوچراغ بجھادوتمام خیمے کے
مرے عزیزشب امتحاںکی زدمیں ہیں
یہ اشعار ایک حقیقی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں تجربہ کی صداقت ہے اور اظہار کا خلوص بھی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ احتجاج اور مزاحمت کی زیریں لہر قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور نئے ماحول ،نئی معاشرت اور نئی صورت حال کی ترجمانی بھی ہے نیز ان کے یہاں نئے موضوعات کی تلاش میں انحراف کارجحان بھی نظر آتاہے۔ مگر یہ رجحان در اصل نئے عنوان کی تلاش کارویہ ہے۔ داخلی رشتے کومربوط کرنے کی عکاسی ہے۔ فکری اور موضوعاتی حوالے سے ۱۹۶۰سے ۱۹۸۰کے درمیان جوحقیقت سامنے آئی ہے اس میں احتجاج ومزاحمت کارجحان غالب نظرآتاہے۔ اخلاقی، سیاسی اور مذہبی شعبے میں بتدریج جوتبدیلیاں ہوئی ہیں ان سے مسائل کاالجھائو سامنے آیاہے۔ ساتھ ہی بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ ۱۹۶۰سے ۱۹۸۰تک کی اردو غزل نے اپنی ہئیت اوراسلوب ولہجہ کے اعتبار سے بھی نئے پن کی طرف سفرجاری رکھاہے۔ زندگی اور اشیاء کواپنی نظرسے دیکھاہے۔ اردگردکی چیزوں پرمحبت اورتجسس کی نگاہ ڈالی ہے اور یہی تجسس غزل گوشاعروں کواشیاء کی ماہیت کے بارے میں غور وفکر پرمائل کرتارہاہے۔ شعوری طورپر احساساتی اور تاثراتی امیج پیش کرتارہا ہے۔ یہی وجوہ ہیں کہ اس عرصہ کی اردو غزلوں میں انفرادی رنگ نمایاں ہے اور دل میں اوردوڑتے ہوئے لہو میں خارج کی دھوپ حرارت بخشتی ہے اور یہی چیزیں احتجاج اورمزاحمت کااہم ترین سرمایہ ہیں۔
 
۱۹۶۰سے ۱۹۸۰تک کی اردو غزلوں کی آنکھیں روشن ہیں۔ ان میں ارتکازفکر ہے اورجذبہ اورابلاغ کااظہاربھی ہے۔ ان غزلوں میں فرسودہ نظام کی عکاسی فرقہ پرستی کے زہر کاذائقہ، جبراور تشددکی شدت، معاشرتی زندگی کی وجہ بندی، ملکوں کی توسیع پسندی اور حکمرانوں کی مطلق العنانیت اور سیاسی رہنمائوں کی شعبدہ بازیوں کی بھرپورعکاسی ہے گویا۱۹۶۰تا۱۹۸۰کی اردوغزل میں احتجاج اورمزاحمت کی دھڑکن دورسے ہی سنائی دیتی ہے۔
 
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1050