donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Hussain Fitrat Bhat
Title :
   Ghalib Ki Shayari Mein Ikhlaqi Taaleem

 

غالبؔ کی شاعری میں اخلاقی تعلیم  


ڈاکٹر محمد حسین فطرت بھٹ


    ٭’’غالب کی شاعری میں اخلاقی تعلیم ‘‘ بظاہر یہ عنوان عجیب سا لگتا ہے، کیونکہ غالب کی شاعری میں اس قسم کا کوئی درس اور پیغام نظر نہیں آتا جس کو ہم اخلاقی تعلیم تصور کریں۔ غالب کی شاعری چند محدود تخیلات کی آب جو نہیں، بلکہ حیات و کائنات اورزمان ومکان کے لاتعداد حقائق ومعارف کا بحر بیکراں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ غالب نے اپنی شاعری میںا نسانی زندگی کاکوئی نکتہ اور کائنات کا کوئی مسئلہ فراموش نہیںکیا۔ اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ غالب کی شاعری میں اخلاق کا کوئی پیغام نہیں ہے۔جب اخلاق بھی حیات وکائنات کا جزو لا ینفک ہے تو پھر غالب کی شاعری میںاخلاقیات کا تصور کیوں کرندارد ہوسکتا ہے۔ غالب نے اخلاقیات کا درس بھی بدرجہ اتم دیا ہے،لیکن فرق یہ ہے کہ غالب کوئی بھی بات سپاٹ انداز اور عام لہجے میں نہیں کہتا بلکہ وہ اپنے ہر زاویہ ٔ نگاہ کی توضیح وتعبیر کے لئے تغزل کا پیرایۂ اظہار اختیار کرتا ہے۔ غزل کا یہ مزاج ہے کہ اس میں ہر بات اشارے اورکنائے میں کہی جاتی ہے۔ اس لئے غالب نے بھی اخلاقی تعلیم غزل کے انداز میں دی ہے۔ مثلاًتو حید و معرفت کے سلسلے میں غالب اسی طرح رطب النسان ہیں۔ 


    ’محرم نہیں یاں تو ہی نواہائے راز کا     یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا    کا غذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں تفکر کا مادہ رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ ننھا بچہ بھی کبھی اپنی ماں سے یہ سوال کر بیٹھتا ہے کہ اللہ کیسا ہے ؟ وہ کہاں رہتا ہے؟ اس طرح جب غالب کی فکر بالغۂ عجائبِ کا ئنات کو سامنے پاتی ہے تو بے ساختہ یہ سوال کر بیٹھتی ہے:

لالہ و گل کہاں سے آئے ہیں 
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

    اس طرح غالب نے تو حید و معرفت کے موضوع پر مختلف انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے میں غالب کے بہت سے اشعار نوک قلم پر لائے جاسکتے ہیں مثلاً …

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا 
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل 
کھیل لڑکوں کا ہوا ، دیدۂ بینا نہ ہوا 

زندگی میں پیش آنے والی مشکلات میں باحوصلہ رہنے کی تعلیم ہوئی۔ 


رات دن گردش میں ہیں سات آسماں 
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا 
رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج 
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں 
زندگی میں آبرو کے ساتھ رہنا بھی 


    انسانی شرف و امتیاز کی بات ہے۔ علامہ اقبال نے جس کو خودی کا نام دیا ہے۔ غالب کے الفاظ

میں خودی کی تعلیم بڑی معنی خیز اور حقائق بردوش ہے…

درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

    خودی کی طرح جذبۂ حریت اور شیوۂ آزادی بھی انسانی شرف و امتیاز کی بنیادی شرط ہے، اس

سلسلے میں غالب فرماتے ہیں:


بندگی میں بھی وہ آزادہ خود بیں ہیں کہ ہم 
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا 

الفرض غالب کی شاعری زندگی اور کائنات کے تقریباًتمام موضوعات کا احاطہ کئے ہوئے ہے، جب ہم غالب کی شاعری میں اخلاقیات کامسئلہ اٹھاتے ہیں تو دراصل ہم مضامین نوکے انبار میں محو ہوجاتے ہیں۔ غالب نے تغزل کے انداز میں جو درس دیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مثلاً غالب عفت

نگاہ کے فقدان پر اس طرح ماتم کناں ہیں:


ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی

    غالب نے اخلاق کا بہت بلند نظریہ پیش کیا ہے کہ آدمی کی زندگی خداکی دی ہوئی امانت ہے۔ اگر آدمی موت آنے پر مرتا ہے تو دراصل وہ خدا کی امانت خداکے سپرد کرتا ہے۔ یہ مقام نوحہ وماتم کے بجائے صبروشکر اور تسلیم ورضا ہے۔ بقول غالب :


جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی 
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 


    یہ دنیائے آب وگل محنت ومشقت کی جولان گاہ ہے۔ یہاں وہی آدمی گوہر مراد حاصل کرتا ہے جو تدبیر و جستجو اور کدو کاوش کا حق  اداکرتا ہے۔ یعنی جو بوتا ہے وہ پاتا ہے۔ تدبیر و جانفشانی اور جہد ِریاض کی کیفیت کو غالب نے اپنے مخصوص شاعرانہ انداز میں اسطرح بیان کیا ہے:

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل 
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے

    اردو کا ایک محاورہ ہے۔ ’’زبان شیریں تو ملک گیری ‘‘ہماری زندگی میں حسنِ کلام اور شیریں گفتاری کی بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ میٹھے بول میں جادو ہوتا ہے اور یہ دلوں کی تسخیر کا ایک لاجواب نسخہ ہے۔ غالب نے اپنے مخصوص تغزل کے انداز میں شریں کلامی کی تاثیر اس طرح بیاں کی ہے:

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا

    اس مقام پر ہمیںیہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ غالب کی شاعری میں اخلاقی تعلیم اتنے لطیف پیرائے میں ہے کہ جس کو ہم دودھ میں شکر کے گھل مل جانے کی کیفیت سے تعبیر کرسکتے ہیں اور

یہاں یہ نکتہ بھی ہاتھ آتا ہے کہ شاعری روح کا نغمہ ہے، مفتی کا فتویٰ نہیں۔ 

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 653