donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Hussain Mushahid Razvi
Title :
   Akbar Ki Tanziya Wa Mazhiya Shayari

اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری
 
محمد حسین مشاہدرضوی
 
    اکبرؔ کے زمانے میں ہندوستانی معاشرے میں ہر قسم کی تبدیلیاں بہت تیزی سے رونما ہو رہی تھیَ ایک تہذیب کی بساط اٹھ رہی تھی دوسری تہذیب اپنا رنگ جما رہی تھی۔ وقت کے ساتھ ادب و شاعری کا تصور بھی بدل رہا تھا۔اکبرؔ کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ پرانے انداز کی شاعری اب بے وقت کی راگنی ہے۔ ایک طرف تو حکمراں قوم کے ظلم و ستم، جبر و استحصال پر اکبر کو غم و غصہ تھا دوسرے معاشرے میں ان کو افراتفری نظر آرہی تھی۔ جس سے ایک مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہو رہی تھی۔ انگریز نہ صرف سیاسی ہندوستان پر اپنا قبضہ جما رہے تھے بلکہ تہذیبی طور پر اسکو اپنا غلام بنا رہے تھے۔ ان کا رعب و دبدبہ اس قدر تھا کہ ان کے خلاف آواز اٹھانے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ ۱۹۷۷ء میں لکھنو سے ’’لندن پنچ‘‘ کے جوڑ پر ’اودھ پنچ‘ ایک پندرہ روزہ اخبار نکلنا شروع ہوا جس کا مقصد معاشرے کی غلط رسم و رواج کو طنز و مزاح کا نشانہ بنانا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ طنزیہ و مزاحیہ انداز میں برطانوی حکومت پر وار کرتا تھا۔ اکبرؔ نے اس اخبار میں کبھی نظم کبھی نثر میں سیاسی اور سماجی مسئلوں پر طنز و مزاحیہ شاعری میں اپنی انفرادی شان پیدا کر لی اور بہت مقبول ہوئے۔
 
    طنزومزاح میں زیادہ ہی مبالغہ سے کام لیا جاتا ہے۔ اور صورت حال میں مزاح پیدا کرنے کے لئے اس میں زیادہ شدت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے عام طور پر طنز و مزاح کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہی اکبرؔ کے ساتھ بھی ہوا کہ انھوں نے جن چیزوں پر طنز کیا یا جن پر مزاحیہ انداز میں تنقید کی اس کو غلط روشنی میں دیکھا اور اس کی غلط تعبیریں کیں۔ اسی لئے اکبرؔ کو بار بار اپنے خیالات کی وضاحت کرنی پڑی۔
    مزاح میں مزاح نگار کسی صورت حال، فرد، خیال کے مضحک پہلو کو مزاحیہ انداز میں اس طرح ابھارتا ہے کہ بے اختیار ہنسی آجاتی ہے اور بعد میں اس پر غوروفکر کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟
 
    جہاں تک طنز کا تعلق ہے اس میں ناکامی کا احساس تھوڑی سی تلخی اور ہلکا سا حزن ہوتا ہے۔ جس پر طنز نگار ہلکا سا پردہ ڈال دیتا ہے۔ طنزومزاح کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ان سب افسانوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے جن کے ناگوار گزرنے کا خیال ہوتا ہے۔ اکبرؔ کے طنزومزاح کا نشانہ نئی تہذیب، سرسیّد اور ان کی تحریک، حکومت وقت، سیاسی تحریکیں ہیں۔
 
    اکبرؔ نے اپنی شاعری میں ترقی وتہذیب کے غلط تصور پر وار کیے ہیں اور نئی تہذیب کی ترویج میں چوں کہ سر سیّد پیش پیش تھے اس لیے انھوں نے ان کو اور ان کی تحریک کو بھی اپنے طنزومزاح کا نشانہ بنایا۔ ابتدا میں اکبرؔکو یہ غلط فہمی بھی تھی کہ سرسیّد یہ سب انگریزوں کی خوشامد میں کر رہے ہیں اور یہ سب کرنے کے بعد وہ ان کی نگاہ میں عزت و و قعت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور عزت و شہرت چاہتے ہیں ۔ لیکن جب علی گڑھ جا کر رہنے کے بعد ان کی ملاقات سرسیّد سے ہوئی، تبادلۂ خیال ہوا تو ان کی یہ غلط فہمی دور ہو گئی۔ اور انھوں نے سرسیّد کی نیت پر شبہ کرنا چھوڑ دیا۔ مگر ان کی ترقی اور تہذیب کے تصور میں جو غلط اثرات مرتب ہو رہے تھے اکبرؔ نے طنزومزاح کے پیرائے میں ان پر کڑی تنقید کی۔
پانو کو بہت جھٹکا پٹکا زنجیر کے آگے کچھ نہ چلی
تدبیر بہت کی اے اکبرؔ تقدیر کے آگے کچھ نہ چلی
یورپ نے دکھا کر رنگ اپنا سیّد کو مرید بنا ہی لیا
سب پیروں سے یہ بچ نکلے اس پیر کے آگے کچھ نہ چلی
    نئے زمانے کے تقاضوں سے متاثر ہو کر آزادیٔ نسواں کا مسئلہ بھی اٹھا۔ وہ عورتوں کی تعلیم کے مخالف تھے۔ اس لیے انھوں نے عورتوں کی تعلیم و ترقی و آزادی کا موضوع زیربحث لایا۔ اکبرؔ اس کو بھی مغربی تہذیب کی تقلید کا شاخسانہ سمجھتے تھے اور اس کے سخت مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندستانی عورت کو اگر مغربی طرز پر تعلیم دی گئی اور اس کو اسی طرح کی آزادی ملی تو وہ اپنی مشرقیت کھودے گی۔ عصمت و عفت کی حفاظت نہ کر سکے گی۔
بے پردہ کل جو نظر آئیں چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
    لیکن اکبرؔ نے آزادی نسواں کی اپنے بس بھر مخالفت کی مگر انھوں نے دیکھا کہ وہ رنگ جہاں کو بدل نہین سکتے اور آہستہ آہستہ وہ اس سے متفق نظر آتے ہیں کہ عورتوں کو تعلیم دینی چاہیے مگر اسی حد تک کہ وہ گھرداری کر سکیں۔ بچوں کی تربیت کریں، خاندان کی دیکھ بھال کریں۔
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
    ویسے لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت میں کسی کی فرمائش پر انھوں نے ایک نظم بھی لکھی جس میں انھوں نے اس کی وضاحت کی کہ عورتوں کو کس قسم کی تعلیم ملنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ    ؎
مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے
مغرب کے ناز و رقص کا معمول اور ہے
    اکبرؔ کی طنزیہ مزاحیہ شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا معتدبہ حصہ اس زمانے کی سیاست کا آئینہ دار ہے۔ اکبرؔ نے اردو میں پولیٹکل سٹائر کی روایت کو آگے بڑھایا  اور اس کا ایک معیار قائم کیا۔ انگریز حکومت کی چیرہ دستیاں۔ لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی، کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاست کے اتار چڑھائو، گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون، زبان کا جھگڑا، جلیان والا باغ کا حادثہ، خلافت تحریک ، اکبرؔ نے ان سب کو اپنے طنزومزاح کا نشانہ بنایا۔ حکومت وقت پر اکبرؔ نے جس طرح کھل کر تنقید کی اور برٹش سامراج کے ہر ہر پہلو پر طنز کیا ہے اور مزاح کے پیرائے میں اس پر تنقید کی ہے وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔
 
    اکبرؔ کی شاعری کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری میں طنزومزاح کی روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کی شاعری اپنے دور کی تہذیبی تصادم اور سماجی تبدیلیوں کی بہترین ترجمان ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی ’’اردو ادب میں طنزوظرافت کو سلیقہ اور صحیقہ اکبرؔ اور غالبؔ کا دیا ہوا ہے۔‘‘
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 724