donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Shamssuddin
Title :
   Ghalib Ki Shayari Mein Ekhlaqi Iqdar

غالبؔ کی شاعری میں اخلاقی اقدار 
 
از ۔ ڈاکٹر محمد شمس الدین 
اسسٹنٹ پروفیسر
مہاتما جیوتی با پھولے ڈگری کالج شاہ بازارناکہ گلبرگہ
 
غالب ؔ نے جہاں اپنی غزل سے حدیث دلبری کو حدیث زندگی بنا دیا وہیں اپنی شاعری میں بے شمار نئے تراکیب و جدت آمیز مضامین باندھے ہیں جس سے قاری کوحوصلہ و ہمت کی قوت اور نیر نگئی خیال کی چاشنی ملتی ہے اور وہ اپنے روز مرّہ کے معاملات میں غالب ؔ کے اشعار سے روشنی پاتا ہے جس کی اہم وجہ ا س کے کلام میں ان اخلاقی تعلیمات کی آمیزش ہے جو ہے تو بہت کم لیکن اسکی معنوی وسعت میں گہرائی و گیر ائی پائی جاتی ہے ۔
 
غالبؔ کی شاعری میں اخلاقی اقدار کی کھوج سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم کچھ حد تک اخلاقی اقدار بھی سمجھیں تاکہ اس پس منظر میں غالبؔ کی اخلاقی قدر وں کو سمجھنے میں آسانی ہوں سکے ۔فیروزاللغات عکسی جس کے مولف الحاج مولوی فیر وز الدین ہیں جو ایجوکیشن پبلکیشنزنئی دہلی سے شائع ہوئی ہے ۔ جس کا سن اشاعت ۱۹۹۵ ؁ۂے کے صفحہ نمبر ۴۶میں لکھا ہے لفظ اخلاق عربی زبان سے ہے یہ مذکر لفظ ہے جس کے معنی ہیں خلق کی جمع ۔ خصائل اور اچھی عادتیں ۔ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لفظ بطور واحد بھی مستعمل ہے اور لفظ اخلاقیات کے ایک معنی ہیں اخلاق کی جمع اور دوسرا علم الاخلاق ۔ اسی طرح اسی لغت میں اقدار کے معنی نہیں لکھے گئے بلکہ صفحہ نمبر۴۷۷میں لفظ’’قدر‘‘جو عربی زبان کا لفظ ہے جو مونث ہے جس کے معنی ۔ انداز۔ جانچ ۔ مقدار۔ قیمت ۔ عزت ۔ بزرگی ۔ رتبہ ۔ قسمت ۔ نصیب ۔ لکھے گئے ہیں اور قوسین میں لکھا ہے اس لفظ کی جمع ’’اقدار ‘‘ہے اس سے آگے لفظ قدر کرنا کے معنی عزت کرنا لکھا گیا ہے ۔ اس طرح اخلاق کے معنی اس مضمون کے لحاظ سے میں’’ اچھی عادتیں ‘‘سمجھتا ہوں اور اقدار کے معنی ’’عزت ‘‘یعنی ایک آدمی کو انسان کہلا نے کے لئے اس میں اچھی عادتیں ہوں جس کی گواہی دوسرے لوگ اس کی ان اچھی عادتوں کی بنا پر عزت کی نگاہ سے دیکھ کر دیں یا دوسرے الفاظ میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ایک شخص ہے جو نیکیوں کا پتلہ ہے جس کا اعتراف شیطان صفت آدمی بھی کرتا ہو جس طر ح ہمارے نبی ؐ کو امین و سادق کا لقب کفا ر مکہ نے بھی دیئے تھے یہ نیکی کی راہ وہی شخص اپناسکتا ہے جس کے پاس اچھے و برے کو جاننے کا علم ہواور یہ علم انسانوں کو صرف مذاہب کی تعلیم میں ملتا ہے اور اسلام ایک مکمل دین ہے ۔جو سراسر نیکی ہی نیکی ہی نیکی ہے اور اپنے دین پر چلنے والا شاعر غالب ؔ سے یقیناًیہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے کلام میں اخلاقی اقدار پر مبنی کچھ نہ کچھ اشعار ہونگے ۔
 
اسلام میں اخلاقی اقدار کی بنیاد صرف تین لفظوں پر منحصر ہے یہ تین الفاظ تو حید ۔ رسالت وآخرت ہی انسان کو اخلاق کے اعلیٰ معیار پر پہنچاتے ہیں آیئے دیکھیں کہ اخلاقی اقدار کے اس اعلیٰ کے معیار تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کریں اس سلسلے میں دو پہلو ہیں حقوق اللہ حقوق العباد لیکن ہم یہا ں صرف حقوق العباد میں اخلاقی اقدار تلاش کریں گے اخلاقی اقدار میں خدا پر یقین ۔رسولؐ سے محبت اور قیامت پر یقین ۔ہاتھ و زبان سے کسی کو تکلیف نہیں دینا ۔ برائی سے اجتنا ب ۔ نیکی کا پھیلا ؤ ۔ جھوٹ دغابازی خیانت وعدہ خلافی سے پرہیز ۔ و الدین کی خدمت بزرگوں کی عزت ۔حسد سے کنا رہ کشی ۔ میانہ روی ۔ اعتدال پسندی صبرو شکر کی صفت ۔ خوشامدی ۔ کنجوسی واصراف سے دوری وفا داری تیماداری غرض ہر و تعلیمات جو انسان کو انسان بنا ئے رکھے اور دنیا کی نظروں میں اس کی وقعت و سعت باقی رکھے یعنی انسان ایسا کام کرے جس کا لوگوں کو علم ہو تو وہ تعریف کریں اوروہ ایسا کام نہ کرے جس کا لوگوں کو علم ہوتو اس کو بے عزت کریں یہی نیکی و گناہ کی تعریف ہے ۔ اس طرح اخلاقی اقدار کو دنیا اس کے عمل سے تو لتی ہے کہ اس کو نیکی و بدی کے پلڑے میں رکھکر اس کے ظرف کا وزن اس کے ہاتھ میں تمھا دے ۔
 
غرض اس تما م تفہیم کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ اخلاق کا تعلق ایمان سے ہے اور ایمان کی بقا اخلاقی اقدار میں ہی مضمر ہے چونکہ ہمارے نبی ؐنے فرمایا کہ ’’ تم میں سب سے بہتر وہی ہے جس کے اخلاق بہتر ہیں‘‘ ۔
اخلاقی اقدار کی درجہ بالا تشریح کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ اخلاقی اقدار کو ہم کن معنوں میں استعمال کر یں تاکہ ان معنوں کو ہم غالب ؔ کے اشعارمیں تلاش کر پائیں ۔ اس تمہید کے بعد آئے دیکیں کہ ان اخلاقی اقدار کے محاسن کو غالبؔ کی شاعری میں تلاش کریں ۔ حضرات میں نے دیوان غالبؔ نسخہ انجمن سے استفادہ کیا ہے جو انجمن ترقی اُردو ہند نئی دہلی سے شائع ہواہے جس کا سن اشاعت ۱۹۹۳ ؁ء ہے ۔
بہتر اخلاق کے لئے سب سے اہم بات ایک ذات جو مختارِ کُل ہے پر یقین ضروری ہے اور انسان اس کی مقرر کردہ حدود کا پابند رہے اس سلسلے میں غالبؔ نے اس طرح اقرار کیا ہے ۔
؂ نہ تھاکچھ تو خدا تھا ‘ کچھ نہ ہوتا ‘ تو خدا ہوتا 
ڈبو یامجھ کو ہونے نے‘ نہ ہوتا میں ‘ تو کیا ہوتا! ۱؂
اس شعر میں غالب ؔ نے خدائے واحد کا اقرار کیا ہے اور اس بات کا اعتراف بھی کہ اگر غالبؔ نہ ہوتا بھی تو یہ دنیا ہوتی اور خدائے واحد بھی لیکن اس کا ہونا خود اس کی مصیبتوں کا باعث ہے اس شعر کا بنیادی تصور ہستی کی مذمت ہے اسی طرح وحدانیت پراور دوشعر دیکھئے ۔
؂ جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود 
پھر یہ ہنگا مہ اے خد ا کیا ہے ۲؂
؂ بیگانگی خلق سے بے دل نہ ہوغالبؔ 
کوئی نہیں تیرا تو میری جان خداہے ۳؂
اسی طرح رسالت پر غالبؔ کا یقین اس شعر سے واضح ہوتاہے ۔
؂ اس کی اُمت میں ہو ں میرے رہیں کیوں کام بند 
واسطے جس شہ کے غالب ! گنبدبے درکھلا ۴؂
اس شعر کا بنیادی تصورتسلّی قلب ہے کہ اے غالبؔ تو اس عظیم المرتبت خاتم النبیؐ کا امتی ہے جس کے لئے آسمان میں دروازہ بنا کر معراج نبویؐ کی تکمیلیت کی گئی اسی طرح غالبؔ کو یقین ہے کہ اُس کے مقاصد ضرور مکمل ہونگے ۔ اخلاقی اقدار کے لئے آخر ت کا تصور بے حد ضروری ہے جس میں حساب کتا ب کا معاملہ طئے ہے اس کی جانب غالب ؔ نے یوں اظہار کیا ہے 
؂ ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خون جگر ودیعیت مژگانِ یار تھا ۵؂
اس شعر میں ایک ایک قطرے کا حساب دینے کی بات ہے جس طرح ذرا برابر نیکی وذرا برابر بدی کے حساب کی بات کی گئی حالانکہ اس شعر میں حساب دینا فراقِ یار میں خون جگر آنکھوں سے بہانا ہے لیکن حساب دینے کا ایک احساس بھی ملتا ہے ۔
؂ آتا ہے داغ حسرتِ دل کا شمار یاد 
مجھ سے میرے گنہ کا حساب ائے خدا نہ مان ۶؂
 
اس شعر میں اپنے گناہوں کا اعترام کرتے ہوئے اللہ سے غالبؔ کہہ رہاہے کہ حساب لئے بغیر ہی کامیابی کا فیصلہ سنا دے اس شعر میں یاد تلخ تجربہ اور حسرت گناہ کی آمیزش ہے ۔
اخلاق کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ جہاں کہیں برائی دیکھیں اس کو طاقت سے روکیں اگر طاقت نہیں ہے تو زبان سے براکہہ دے اگر یہ بھی نہیں کرسکتا تودل میں برا کہہ لے اور وہاں سے چل دے اسی مضمون کو غالب ؔ نے درجہ ذیل اشعار میں باندھا ہے ۔
؂ نہ سنو!گربراکہہ کوئی
نہ کہو!گربراکرے کوئی ۱؂
؂ روک لو!گرغلط ہے کوئی
بخش دو!گرخطا کرے کوئی ۲؂
درجہ بالا اشعار میں بنیادی تصور کے سلسلہ میں پر میں یوسف سلیم چشتی نے شرح یو ان غالبؔ میں تلقین محا سن اخلاق لکھا ہے یعنی تمہیں کوئی اگر برابھلا کہہ اور تمہارے ساتھ برائی کرئے تو صبر کرو اور اگر کوئی غلط کام کر رہاہو تو اس کو روکو اور اگر کوئی غلطی کر چکا ہوتو اس کی خطا بخش دو یہ وہ اخلاقی اقدار جن پر ایمان کی بنیاد قائم ہے۔
حیا شرم وہ اخلاقی اقدارہیں جن کو ایمان کاگہنہ قرار دیاہے ان اقدار کو غالبؔ نے لطیف پیرائے میں اس طرح استعمال کیا ہے ۔
؂ دونوں جہاں دے کہ وہ سمجھے یہ خوش رہا ۔
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکر ار کیا کریں ۳؂
اس شعرکی تشریح میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے حالی کا یہ حوالہ لکھا ہے ( جو یاد گارغالبؔ صفحہ ۱۳۵سے لیاگیا ہے)
’’اس شعر میں اپنی فراخ حو صلگی اور اس کے ساتھ شرافت نفس کا
اظہار کیا ہے یعنی میں جو دونوں جہاں لے کرخاموش رہا اس کا 
سبب یہ نہیں تھا کہ ان پر قانع ہوگیا بلکہ مجھ کو زیادہ مانگنے اوتکر ار 
کرنے سے شرم آئی اسی لئے خاموشی اختیار کرلی‘‘ ۴؂
یعنی بڑے لوگو ں کے سامنے خاموشی اختیار کرنا بھی حدومر اتب کا ایک حصہ ہے جو اعلیٰ اقدار کی عمدہ مثال ہے جیسے یہ شعر 
؂ کہتے ہوئے ساقی سے حیاآتی ہے ‘ورنہ 
ہے یوں کہ مجھے دُردِ تہہ جام بہت ہے ۵؂
اس شعر میں قنا عت کے ساتھ ساتھ ساقی سے اور مانگنے میں حیا آنے کی بات بھی شامل ہے کہ مانگنے سے ہوسکتا ہے اور مل جائے پر اگر ساقی کہیں لالچی سجھ کر ذلیل کر دے تو بہت براہوگا 
وعدہ وفائی ووفاداری ایک ایسا لفظ ہے جس سے دنیا میں امن مجت رشتہ داریاں فرد اورا فراد میں تال میل اور معاشرہ کی بینا د قائم رہتی ہے اس لفظ کو غالبؔ نے کئی جگہ بہت عمدگی سے برتا ہے ملا حظہ کیجئے ۔
؂ وفا داری یہ شرط اُستواری اصل ایمان ہے 
مرے بُت نے میں تو کعبہ میں گا ڈو بر ہمن کو ۶؂
 
وعدہ وفائی میں تلسل ضروری ہے تاکہ اعتبار کیا جاسکے ورنہ وفاداری پر شک کے تیرچل سکتے ہیں وفاداری اخلاق کی اہم شق ہے اس موضوع پہ اشعار ملتے ہیں ۔
؂ تم اُن کے وعدے کا ذکر ان سے کیوں کر وغالبؔ 
یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں ۱؂
جیسے کہا گیا کہ وفاداری یا وعدہ وفائی میں تسلسل ہونا چاہئے اگر کو ئی تسلسل میں فرق پیدا کر تا ہے تو وہ کہہ گا کہ یاد نہیں اور یہ یاد نہیں کہنا اعتبار کو تو ڑ ڈالنا ہے جو اخلاق کے مغائر ہے اس لئے جو شخص اعتبار کے لائق نہیں ہے اس سے وعدہ نہ کریں اور اگر اتفاقاََوعدہ کیا ہے تو اس کا ذکر نہ کرو کیونکہ وہ ٹال دے گا ۔ وعدہ کا انکاربات پلٹا نا بھی ہوتاہے جس کے جانب غالبؔ نے اس شعر میں اشارہ کیاہے 
؂ در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا 
جتنے عرصہ میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا ۲؂
یعنی کچھ انسان اتنے شاطر ہوتے ہیں کہ وہ ایک لمحے میں وعدہ خلافی کردیتے ہیں ۔و فاداری انسان کو آزمائش میں ڈالتی ہے جس سے اس کے قول و عمل کا وز ن دیکھا جاتا ہے یہی وزن اخلاق کی میزان ہے شعر ملا حظہ کیجئے ۔
؂ نہیں کچھ سُبحہ وزنّار کے پھندے میں گہرائی 
وفاداری میں شیخ و بر ہمن کی آزمائش ہے ۳؂
وفاداری کی راز داری بھی اخلاقی محاسن ہے جس کے فاش ہونے میں تباہی و بربادی کے امکانات ہوتے ہیں اسی لئے راز داری کو غالبؔ نے بہت اہم مانا ہے شعر ملا حظہ کیجئے ۔
؂ راز معشوق نہ رسوا ہو جائے 
ورنہ مرجانے میں کچھ بھید نہیں ۴؂
اعتبار کا یہ حق ہے کہ کسی طرح بھی راز کو راز ہی رکھنا ہے ۔ اگر راز فاش ہوجائے تو کسی کو رسوائی و پریشانی کا سامنا ہوگا اور اس کی نظروں میں ہماری اہمیت ختم ہوجائے گی ۔ رازداری کو سنبھالنا بھی ہر کس و نا کس کے بس کی بات نہیں ہے اس کے لئے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس پہ ضبط زبان اور برداشت کی طاقت ہو وہی رازداری کو سنبھال سکتا ہے ۔ ورنہ کمزور ذہن اور مفا ت پرس آدمی سے راز داری کا بوج نہیں اٹھا یا جائے گا ۔ جس کی جانب غالبؔ نے یوں اظہار کیا ہے ۔ 
؂ کیا غمخوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو 
نہ لا وے تاب جو غم کی وہ میرا راز دار کیوں ہو ۵؂
یہاں ایک لطیف پہلو اس جانب بھی ہے کہ رازداری میں غم خواری بہت زیادہ اہم ہوتی ہے جو غم کو برداشت کر سکتا ہے وہی راز دارہوسکتاہے ۔
گفتگو بھی ایک اخلاقی قدرہے لب و لہجہ سے انسانی خصائل کا اظہار ہوتا ہے اور گفتگو اچھی ہو یہ بھی ایک اخلاقی خصوصیت ہے اسی طرح انداز گفتگو کے آداب غالب ؔ نے یوں پیش کیا ہے ۔؂ ہر ایک بات پہ کہتے تم !کہ تو کیا ہے ؟
تمہیں کہوکہ یہ انداز گفتگو کیا ہے ۱؂
 
یعنی اس شعر میں غالب ؔ ہر ایک کو اس کے حدومراتب کے مطابق بات کر نے کی نصیحت کرتے ہوئے نظر آتا ہے کیونکہ اسی زبان سے انسان طعنہ دینے کی روش بھی اپنا سکتا ہے اسی طرح اور ایک شعر میں غالبؔ نے طعنوں سے کام نہ لینے کی تلقین کیا ہے کہ کیاطعنے سے کسی کو مہربان یا راضی کیا جاسکتا ہے جیسے یہ شعر ۔
؂ نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبؔ 
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو ۲؂
نوحہ خوانی بھی غیر اخلاقی حرکت ہے جس کی مخالفت درجہ ذیل شعر میں غالبؔ نے تیماداری وہ نو حہ خوانی کا احساں بھی نہیں لینا چاہتا دیکھئے شعر۔
؂ پڑیئے گر بیمارتو کوئی نہ ہو تیمادار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو ۳؂ 
احساں مند ہونا اچھا انسان ہونے کی علا مت ہے لیکن کسی کا احساں نہ لینا بھی ایک ظرف ہے ۔ غالبؔ زندگی میں کسی کا بارِ احساں نہیں اٹھا نا چاہتا کیونکہ غالبؔ جانتا ہے کہ ایک بار کا اٹھا یا ہوا احساں چکا یا بھی جائے مگر اس کا احساس باقی رہتا ہے ۔ جس کی جانب غالبؔ نے اس شعر میں اشار ہ کیا ہے ۔ 
؂ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی 
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۴؂
زمانے زندگی یا جان اللہ کی دی ہو ئی ہے جو ایک احساں ہے اس ایک جان کو پالنے سنبھا لنے اسی کو گذارنے کے تمام سامان آسا ئیش آرائیش بغیر طلب دے رہا ہے اسی لئے زندگی بھر اسی کی عبادت حمد و ثنا کر یں بھی تو انسان اللہ کا حق ادا نہیں کرسکتا چونکہ غالبؔ کے نز دیک احساں لینا یہ قرض لینے کے مترادف ہے اسی لئے کسی کا احساسں نہ اٹھا نے کی وہ بات کرتا ہے جیسے ۔
؂ دیوار بارِمنتِ مزدور سے ہے خم
اے خانما ں خراب !نہ احساس اُٹھائیے ۵؂
خوش آمدپسند ی سے بے زاری بھی ایک اخلاقی حس ہے جس سے غالبؔ یو ں تنگ آگیا ہے ۔
؂ ہے بزمِ بتا ں میں سخن آزروہ لبوں سے 
تنگ آئے پس ہم ایسے خوشا مد طلبوں سے ۶؂
خوش آمد طلبی سے خود دور رہنا اور تنگ آنا بھی انسان کو بہت سی پریشانیوں سے دور رکھتا سے 
؂ خوش آمد ی کی طرح غرورو تکبر سے بازرہتا اخلاقی اقدار کے لئے بے حد ضروری سے ورنہ بُرے نتاج کا سامنا ہوگا ۔ جیسے اس شعر کو دیکھئے جس میں غرور کا سر نیچے ہونے کی بات کی گئی ہے ؂ غرّہ ء اوجِ بِنا ئے عالمِ امکاں نہ ہو 
اِس بلند ی کے نصیبو ں میں ہے پستی ایک دن ۱؂
کنجوسی بھی ایک غیر اخلاقی حرکتی ہے جس کو غالبؔ نے یوں ظاہر کیا سے جیسے
؂ کل کے لئے کر آج نہ خسّتِ شراب میں 
یہ سوءِ ظن ہے ساقی کو ثرکے باب میں ۲؂
کنجوسی غریبی کی موجب بھی ہے اسی لئے انسان کو کنجوسی اور اصراف سے پرہیز کی تعلیم اسلام میں دی گئی ہے۔ 
صبرقناعت بھی اخلاقی اقدار پر قائم رہنے میں کافی معاو ن ثابت ہوتے ہیں یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے بغیر صبرو قناعت و برداشت کے کوئی شخص اخلاق کے اعلیٰ معیار کونئی پاسکتا ہے اور نہ قائم رہ سکتا ہے۔ اس جانب غالبؔ نے اپنے اشعار میں اس طرح تو جہ کی ہے۔ 
؂ رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج 
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں ۳؂
مولانا حالیؔ نے اس شعر کی تشریح اس طرح کی ہے۔ 
’’اس سے زیادہ تصورمیں نہیں آسکتا کہ مشکلا ت کی کثرت کا اندازہ 
ان کی ضد یعنی ان کے آساں ہوجانے سے کرنا در حقیقت حسن مبا لغہ 
کی معراج ہے جس کی نظر آج تک نہیں دیکھی گئی ‘‘ ۴؂
غالبؔ نے اس شعر میں نفسیاتِ انسانی کی مجوہ عکا سی کی ہے کہ جب اول اول مصیبت نازل ہوتی ہے توانسان کچھ پریشان ہوجاتاہے اور اُس پر صبر کرنے لگتاہے اور جب مشکلات کا تانتابندھ تا جاتاہے تو صبر کرتے رہنے کی بنا پر اسی کا عادی ہو جاتا ہے یعنی وہ مصیبتیں اُس کو آسان محسوس ہوتی ہیں ۔ صبر کے ہمراہ قنا عت کی بھی اہمیت ہوتی ہے یہ دونوں لازم و ملزوم نظر آتے ہیں در جہ ذیل شعر میں خواہشات کا لامتنا ہی سلسلہ نظر آتاہے مگر اس میں قنا عت کاپہلو بھی ہے شعر دیکھئے ۔
؂ ہزاروں خواہشیں کہ ہرخواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں!لیکن پھر بھی کم نکلے ۵؂
انسانی نفسیات ہمیشہ خواہشات کی جانب گا مزن رہتی ہیں ہوسکتا ہے ہر انسان کے کئی خواہشیں تکمیل کوپہنچتی ہوں لیکن اس کی حسر تیں بھی باقی رہتی ہیں اس پر صبر بھی کرلیتا ہے اس لئے غالبؔ بہت سے ارماں کی تکمیلیت پر بھی قنا عت کے انداز میں کہتا ہے ’’پھر بھی کم خواہشیں تکمیل کو پہنچے‘‘ 
انسان سے ہی غلطی و گنا ہ سر زدہوتا ہے لیکن جاہل وہ ہے جو گنا پر اکٹر تاہے اتر اتا ہے اور اچھا انسان وہ ہے جو گنا ہ کااقرار کرتاہے ا ور پھر گنا ہوں سے باز رہنے کی کو شش کرتاہے یہی پہلو غالبؔ کے اس شعر میں ملتاہے ۔
؂ حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے 
آخر گناہگا رہوں کافر نہیں ہوں میں ۶؂
یہی موضوع اس شعر میں بھی ملتاہے۔
 
؂ نا کردہ گنا ہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب !اگر ان کر دہ گناہوں کی سزا ہے ۱؂ 
ظاہر ہے اللہ نے ہر گناہ کی سزا کی حد مقرر کی ہے یقیناہر گناہ کے لئے اس کے برابر ہی سزا ہوگی اور کافروں کے لئیایک آخری فیصلہ ہوگا جہنم کا چونکہ غالبؔ مسلمان ہے تومئے نو شی کی سزا کی حد بھی طئے ہے اور یہی بات اس شعر میں کی گئی ہے ۔ گناہ کے علاوہ انسان کو چاہئے کہ وہ اچھے اور برے دنوں کا بھی اعتراف کریں چونکہ زندگی میں نشیب و فرازہو تا رہتا ہے اور اسی لئے انسان کو اپنی خاندانی شان وشوکت پر اتر انا نہیں چاہئے پتہ نہیں کب وہ ہمارا ساتھ چھوڑ دے گی اور ایسی حالت میں وہ بڑا انسان کہلا تاہے جواس تبدیلی کا بھی اعتراف کرے غالبؔ نے ایسی حالت میں بھی حق گوئی وبے باکی سے کام لیا ہے 
؂ غالب ؔ وظیفہ خوارہو‘دو شاہ کو دعا 
وہ دن گئے جوکہتے تھے ‘ نو کر نہیں ہوں میں ۲؂
دوسروں کا درد وہی شخص محسوس کرتا ہے جس کو خوددرد پہنچتا ہو اور وں کادکھ درد اپنی ذات پر محسوس کر نا بھی ایک خوبی ہے جس کا بر ملا اظہاراس شعرمیں ملتا ہے ۔
؂ میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد 
سنگ اٹھا یا تھا کہ سر یاد آیا ۳؂
غلطی کا احساس ہونا اور سی کا اقراربھی کرنا ایک حسن ہے جس کو کھلے انداز میں غالبؔ نے اس طرح پیش کہا ہے 
؂ قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ مار یئے ۔
اس کی خطا نہیں ہے ! یہ مر اقصورتھا ۴؂
اپنا قصورکسی اور پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کرنا آج کی عام روش ہے لیکن اس سے ایک مسلمان اپنے قصور کو قبول کر کے اس سے معافی کا طلبگار ہوتا ہے ۔
 
یادایک لفظ ہے جس میں سالہاسال لمحات قید رہتے ہیں اور انسان کبھی اپنے ہمدم کو کرم فرماکو ‘ اچھے دوستوں کو والدین ورشتہ داروں کو کبھی نہیں بھولتا گو کہ وکچھ عر صہ کے لئے فراموش کرتا ہے لیکن کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو ہجر وفراق کا احساس جمع غفیر وروز گارکی فکرمیں بھی تا زہ کرتی ہیں جیسے غالبؔ کا یہ شعر
؂ گومیں رہا ر ہن ستم ہائے روز گار 
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا ۵؂
مہمان نوازی اور میزبانی بھی اخلاقی اقدارکے اہم وصف ہیں لیکن زندگی میں ایسے حالات بھی آتے کہ ایک ذی شعور میزبان جو ستم ہائے روز گار سے پریشان ہو اور مہمان نوازی کی سکت نہ رکھتا ہو اس کی حالت غالبؔ کی طرح ہی ہوگی جس کانقشہ اس شعر میں کینچھا گیا ہے ۔
؂ ہے خبر گرم ان کے آنے کی 
آج ہی گھر میں بور یانہ ہوا ۶؂
 
بھلا ئی کے کام کرنا انسان کی سرشت میں ہے لیکن کچھ انسان فطرت سے انحرا ف کرتے ہوئے خود کو برائی کے دلدل میں پھنسا دیتے ہیں لیکن درویش منش انسان صرف فطرت کے پابند ہوتے ہیں اور ہرایک کو بلا لحاظ مذہب وملت بھلا ئی کا درس دیتے ہیں کہ اسی میں ان کی بھلا ئی ہے جیسے ۔
؂ ہاں بھلاکر ‘ تر ابھلا ہوگا
اور درو یش کی صد ا کیاہے ۱؂
بھلا ئی کی روش پر چلنے والے اچھی اور بری تقد یر پر بھی یقین رکھتے ہیں اور ہر اپنی غلطی کا بار دوسروں پرنہیں ڈالتے بلکہ اس کو اپنی تقد یر سمجھکر کر قبول کرلیتے ہیں غالبؔ نے اپنی تقدیر کو اسی طرح قبول کیا 
؂ تم سے بے جاہے مجھے اپنی تبا ہی کا گلہ 
اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا ۲؂
انسان فانی تو دنیا بھی نا پا ئیدار اور اسی نا پائیداری ہی نے انسان کو فنا و بقاکی صحیح تعلیم دی ہے جس کا اعتراف ایک مسلمان کو کرنا ہے جو ایمان کا جز ہے تو اخلا ق کا حصہ بھی ۔ زندگی و عمر کو کتنی باریک بینی سے غالبؔ نے دیکھا ہے ۔
؂ عمر بھر کا تونے پیما نِ وفا باند ھا تو کیا 
عمر کو بھی تو نہیں پائیداری ہائے ہائے ۳؂
موت بر حق ہے اس کاانکا رغیر اخلاقی ہوگا غالبؔ نے موت کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے ۔
؂ ہو چکیں غالبؔ ! بلا ئیں سب تمام 
ایک مرگِ نا گہانی اور ہے ۴؂
؂ موت کاایک دن معین ہے 
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی ہے ۵؂
اس سے آگے وہ کہتا ہے کہ زندگی ہے تو غم تکلفیں مصیبتیں اس کے ساتھ ہی رہیں گی ان مصیبتوں سے چھٹکا را موت کے ساتھ ہوگا دیکھئے شعر 
؂ قید حیات بندِ عم اصل میں دونوں ایک ہیں 
آدمی موت سے پہلے غم سے نجا ت پائے کیوں ۶؂
امانت کے بالمقابل خیانت ایک غیر اخلاقی فعل ہے غالب ؔ کا ایک شعر خیانت کی ترغیب دلا تا ہے جس کو ایک محا ور ے لئے طور پر ہم لوگ اکثر پیش کرتے رہتے ہیں ۔ 
؂ میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ 
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ۷؂
حالانکہ اس شعرمیں خیانت کاپہلو بہ ظاہر نظر نہیں آتا لیکن مفت ہاتھ آنا کوئی ایسی بات بھی نہیں کہ ہم آنکھیں بند کئے بھٹیں ہیں اور من وسلویٰ آسمان سے اتر رہاہے یہاں مفت ہاتھ آنے کا مطلب یہ ہے کہ غیروں کے مال پر نظر ہے
 
 
غالبؔ نے بھی اخلا قی اقدارکی تعلیم دینے والے کیلئے پہلے باعمل ہونے کی تر غیب دیا ہے اہل تصوف کایہ کام ہے کہ وہ اخلاقی تعلیم دیں اورتصوف کے بار ے میں خود کو غالبؔ ماہر قرار دیا ہے پر اپنی ایک اعترافِ غلطی کے ساتھ شعر ملا حظہ کیجئے ۔
؂ یہ مسائل تصوف ۔ تر ابیان غالب 
تجھے ہم ولی سمجھتے جونہ بادہ خوار ہوتا ۱؂
اس شعر کے علاوہ بھی غالبؔ واعظ کی حالت پر بھی نظر رکھے ہوئے کہ اخلاقی نصیحت کرنے والا پہلے باعمل ہو پھر حق کی نصیحت کرے یا پھرنصیحت قبول کرنے والے سے غالبؔ مطالبہ کررہا ہے کہ اسی کی بات قبول کی جائے جو حق پر عمل پیر اہے اس پہلوکی پوری منظرکشی یوں کی ہے ۔ 
؂ کہاں مئے خانے کا درو ازہ غالبؔ اور کہا ں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں ! کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے ۲؂
ناامید ی کفر ہے جس سے غالبؔ چھٹکا را چاہتا ہے کیونکہ نا امید ی اگر عشق حقیقی میں ہے تو اللہ کی یادے غافل ہونے کا ڈر ہے اسی لئے نا امیدی سے دور رہنے کی بات غالبؔ نے اس شعرمیں کی ہے۔ 
؂ سنبھلنے دے مجھے اے نا امید ی ! کیا قیامت ہے!
کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے ب۳؂
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1307