donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Kalim Ajiz Ki Ghazlon Ke Qauso Qazah


کلیم عاجز کی غزلوں کے قوس وقزح


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

دربھنگہ

موبائل نمبر: 9431414586


 دبستان عظیم آباد کی شاعری اپنے دور آغاز سے ہی موضوع و اسلوب اور فن کے اعتبار سے منفرد رہی ہے ساتھ ہی ساتھ افکار واظہار میں متنوع اور بوقلمونی کا احساس کراتی رہی ہے۔ ظاہرہے کہ میر تقی میرؔ اور مرزا غالبؔ کی پیدائش سے قبل دبستان عظیم آباد کے شاعر خواجہ عماء الدین کا اردو دیوان اور غلام نقش بند سجاد کا مجموعہ اردو کلام مرتب ہوچکا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ایک زمانے تک دبستان عظیم آباد کی شاعری علاقائی تحفظ وتعصب کی شکار رہی جس کی وجہ سے یہاں اکابر شعرا کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ لیکن اب ناانصافی کا تاریک بادل چھٹنے لگا ہے اور تاریخ ادب کے اوراق میں اس ابدی حقیقت کا اعتراف کیا جانے لگا ہے کہ

 ’’بہرحال اس میں شک نہیں کہ بہار میں اردو شاعری کا آغاز اورنگ زیب ہی زمانے میں ہوچکا تھا اور اس کا دلی اسکول کی شاعری سے یقینا کوئی تعلق نہ تھا۔ بہار میں اردو شاعری کا آغاز بیدلؔ سے ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ اسی جگہ ختم نہیں ہوگیا بلکہ آگے بڑھا ، یہاں تک کہ بیدل کی وفات کو پچاس برس سے زیادہ کا زمانہ نہ گزرا تھا کہ بہار نے ایک بڑا مشہور شاعر راسخؔ پیدا کیا۔‘‘ (اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ- ڈاکٹر سلیم اختر ، ص233)

مشفق خواجہ نے بھی اپنے ایک عالمانہ مقالہ ’’غالب اور صفیر بیلگرامی‘‘ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ عظیم آباد اسکول کی شاعری نے ایک نیا شعور پیدا کیا اور بقول ڈاکٹر سلیم اختر ’’شاد ؔ ایک ایسا شاعر ہے جس پر نہ صرف بہار بلکہ سارے ہندوستان کو فخر کرنا چاہئے‘‘۔ مختصر یہ کہ عہد قدیم ہو کہ عہد جدید اور اب عہد مابعد جدید، ہر زمانے میں سرزمین عظیم آباد کا کوئی نہ کوئی ذرہ آسمان ادب پر مثل آفتاب روشن رہا ہے۔ اس تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ عروس سخن کی تزئین کاری میں دہلی اور لکھنؤ کی طرح  دبستان عظیم آباد نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور کلیم عاجز کا تعلق نہ صرف اس دبستان سے ہے بلکہ انہوںنے اس کی شعری شناخت کو استحکام بھی بخشا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف حصے کی غزلیہ شاعری اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک کی غزل گوئی کو پیش نظر رکھیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کلیم عاجز نے غزلیہ شاعری کو موضوعاتی اور فنی دونوں اعتبار سے معراج بخشا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف دہلی اور لکھنؤ دونوں دبستان کے حق پسند شعرا نے کیا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کلیم عاجزؔ کا تخلیقی عہد دراصل وہ زمانہ ہے جب ادب میں طرح طرح کے تجربات ہورہے تھے اور شاعری بھی اس سے اچھوتی نہیں تھی۔ ترقی پسندی کا زور کم ہونے لگا تھا اور جدیدیت کی آواز کو توانا بنانے کی شعوری کوششیں کی جارہی تھیں۔ اگرچہ کلیم عاجز کبھی بھی نظریاتی طور پر کسی تحریک سے باضابطہ وابستہ نہیں رہے لیکن وہ بدلتی ہوئی ادبی بالخصوص شعری فضا کے منکر بھی نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی غزل کے پیمانے کو کلاسیکی شعور وآہنگ سے لبریز رکھا اور جدیدیت کے چراغ نو سے بھی استفادہ کیا۔ غرض کہ ان کی غزل انقلابات زمانہ کے ساتھ ساتھ موضوع ومواد دونوں اعتبار سے تبدیل ہوتی رہی۔ مگر انہوں نے کلاسیکیت کی زمین سے اپنی رشتہ کبھی منقطع نہیں کیا۔

کسی بھی تخلیقی فنکار کا ادبی مقام متعین کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا بھی لازمی ہے کہ وہ فنکار جس عہد کی پیداوار ہے وہ اس عہد کی علمی وادبی فضا سے کس قدر ہم رشتہ ہے اور اس کے ہم عصروں میں کون کون سے شہسوار ادب تھے اور وہ اپنے ہم عصروں کے مقابلے کس طرح یکتا ویگانہ رہے۔ کلیم عاجز کے عہد کا سرسری جائزہ لینے سے ہی یہ مسلمہ حقیقت اجاگر ہوجاتی ہے کہ ان کا عہد دبستان عظیم آباد کا ایک سنہری دور تھا کہ ایک طرف اصناف سخن کے پودوں کی آبیاری میں جمیل مظہری، شمش منیری، عطا کاکوی، رضا نقوی واہی، پرویز شاہدی، اجتبیٰ رضوی، واقف عظیم آبادی اور رمز عظیم آبادی جیسے اساتذہ فن اپنا خون جگر صرف کررہے تھے تو دوسری طرف آسمان تحقیق وتنقید پر قاضی عبد الودود، پروفیسر کلیم الدین احمد، پروفیسر اختر ارنیوی، پروفیسر حسن عسکری، پروفیسر عبد المغنی اور پروفیسر وہاب اشرفی درخشاں ستارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ افسانوی دنیا میں بھی سہیل عظیم آبادی، اختر ارینوی، شکیلہ اختر اور شین مظفرپوری کا ستارہ بلند تھا۔ دیگر شعبہ حیات یعنی صحافت، سیاست، مذہب اور ثقافت میں بھی عظیم آباد کی فضا اس قدر سازگار تھی کہ جس طرف دیکھئے، کئی تاریخ ساز شخصیات موجود تھیں۔ ایسے علمی وادبی ماحول میں سانس لینے والا تخلیقی فنکار کلیم عاجز نہ صرف اپنے ہم عصروں کی فکر وفن کی صحت مند فضا سے فیضیاب ہوئے بلکہ انہوںنے اپنی فکرنو سے اس فضا کو تازگی بھی بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں میں بھی نمایاں رہے اور بعدہ نئی نسل کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے۔

کلیم عاجز کی روداد زیست کے مطالعے سے یہ سچائی بھی سامنے آتی ہے کہ ان کی دنیا بھی میر تقی میر کی طرح بستی اور اجڑتی رہی۔ طوفان تقسیم وطن نے نہ صرف ان کے خاندان کے کئی روشن چراغوں کو وقت سے پہلے ہی بجھا ڈالا بلکہ ان کے دلوں میں بھی جل رہی نئی امنگوں کے دیے کی لو کو بھی بجھا دیا اور بقول پروفیسر وہاب اشرفی ’’اس حادثے نے ان کی شخصیت کو ایک دل دہلا دینے والی ٹریجڈی بنا ڈالا‘‘۔ ہمارے بہترے ناقدین کلیم عاجز کی شاعری کو ’حزن ویاس‘ کی شاعری قرار دیتے ہیں اور انہیں دور جدید میں میرؔ کے قافلے کا امیر کہتے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ میرؔ کے غم اور عاجزؔ کے دکھ میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ میرؔ کے یہاں ’غم‘ ان کا میلان طبع کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ عاجزؔ کے یہاں ’دکھ‘ سرمایہ زیست ہے۔پروفیسر وہاب اشرفی نے بجا لکھا ہے کہ

’’کلیم عاجز کا تجربہ بھوگا ہوا ہے، برتا ہوا ہے، ایک آگ کے دریا کو پار کرنے کا تجربہ ہے جس عمل میں چہرہ تو سلامت رہا لیکن دل کباب ہوگیا ہے‘‘۔ ( کلیم عاجز کی غزل گوئی)
بہرکیف!اس مختصر مقالے میں یہ گنجائش نہیں کہ کلیم عاجز کی شخصیت کے تمام تر نشیب وفراز پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے ۔ کیوں کہ میرے عنوان کا تقاضا اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کا محور ومرکز تو کلیم عاجز کی غزل گوئی ہے۔

 غزلیہ شاعری کے ادواری مطالعے سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ بیسویں صدی کے آواخر اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک جن شعرا نے اردو غزل کو توانائی بخشی ہے ان میں کلیم عاجز کی خدمات تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔بالخصوص دبستان عظیم آباد میں تقسیم وطن کے بعد اردو شعر وادب کی ترویج واشاعت میں انہوںنے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ان کی غزلیہ شاعری کی ایک اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے شعری اظہار کے لئے دبستان عظیم آباد کی زبان کو ہی سند جانا ہے اور کبھی کسی دوسرے دبستان کی زبان کی تتبع نہیں کی۔ قدیم کلاسیکی زبان کا استعمال کرتے وقت بھی اس بات کی شعوری کوشش کی کہ ان پر کسی کی تتبع کا الزام نہ لگ سکے اور اس عمل میں وہ کامیاب بھی رہے۔ انہوںنے اگر میرؔکی زبان میں شاعری کی تو یہاں بھی اپنی لفظیات کی شناخت برقرار رکھی۔ غزل کے ارتقائی سفر کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ دبستان دہلی کی غزلیہ شاعری ’دل اور روح‘ کی ترجمان تھی تو لکھنؤ اسکول کی شاعری جسم کی پکار اور جنس کا کوائف نامہ تھی، جبکہ دبستان عظیم آباد کی شاعری نے اپنے دور آغاز سے ہی ’’لذت پرستی ‘ کو مضر جانا اور شاعری کو کبھی ’لفظی بازی گری‘ ہونے نہیں دیا۔ نتیجتاً ہر عہد میں دبستان عظیم آباد کی شاعری قابل احترام تسلیم کی گئی۔ راسخؔ اور شادؔ نے تو اردو غزل کی کایا ہی پلٹ دی۔ کلیم عاجز بھی اسی صحتمند شعری روایت کے پاسدار و علمبردار ہیں۔ ان کے پورے کلام کو پڑھ جائیے، کہیں بھی ’’جمنا کنارے بال باندھنے‘ والی شاعری نظر نہیں آئے گی بلکہ ’طرز مناجات نئی‘ کی آئینہ دار ملے گی۔   ؎

وصل لیلیٰ کی دعاوئں کا کہاں وقت رہا
اب تو ایجاد ہوئی طرز مناجات نئی

اردو غزل میں یاس وغم کا موضوع مرکزیت کا حامل رہا ہے، ظاہر ہے کہ وادیٔ حسن وعشق کی سیر کرنے والوں کے مقدر میں دکھ درد کا آنا لازمی ہے اور ہماری غزل تو شروع سے ہی جہان ذوق ونظر کی متلاشی رہی ہے تو پھر رنج وغم کے احساس فطری کا تخلیقی وسیلہ اظہار بننا بھی فطری عمل ہے۔ جب کلیم عاجز جیسا جینون فنکار اس فطری احساس سے دوچار ہوتا ہے تو غزل کی زبان میں یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ   ؎

ہر شعر ہے تصویر مرے خون جگر کی
ہاں دیکھ کہ پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا

کلیم عاجز شخصی طور پر بھی کسی تصنع کے قائل نہیں رہے اس لئے انہوں نے کبھی اپنی شاعرانہ وضع میں کسی تصنع سے کام نہیں لیا اور ان کا یہی فطری مزاج عوام میں ان کی غیر معمولی مقبولیت کا ضامن بنا۔ وہ آخری دم تک مشاعروں کے مقبول شاعر رہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جس قدر ان کے عاشقانہ اشعار مقبول ہوئے اسی قدر تصوفانہ اور فلسفیانہ اشعار بھی زبان زد خاص وعام ہوئے۔ دراصل وہ حسن وعشق کا موضوع ہو کہ تصوف وفلسفہ کا، عصری مسائل ہوں کہ ماضی کے ہولناک حادثات کی عکاسی، سب کو اپنی غزل کی ’’گنگا وجمنی‘‘ تہذیبی زبان میں پیش کرنے میں قدرت رکھتے ہیں۔ انہوںنے اپنی غزلیہ شاعری کو کبھی بھی جنس پسندی اور فحاشی کی ہوا نہیں لگنے دی بلکہ مشرقی تہذیب وتمدن کی شائستگی وپاکیزگی کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔ میری نظر میں ان کی غزل کی مقبولیت کا ایک اہم راز ان کی پاکیزہ زبان ہے۔

کلیم عاجز کی غزل میں عشق حقیقی اور عشق مزاجی دونوں کا اظہار ہوا ہے لیکن جس طرح عشق حقیقی کے مضامین کو باندھنے میں انہوںنے اپنے ضیائے باطن کا مظاہرہ کیا ہے اسی طرح عشق مزاجی کے اظہار میں بھی دامن احتیاط کو تھامے رکھا ہے۔ غزل کا مزاج مانند آئینہ نازک ہوتا ہے اس لئے شاعر کو اس بات کا خوف ہمیشہ ستاتا رہتا ہے کہ وہ جس موضوع کو شعر کے قالب میں ڈھال رہا ہے کیا وہ لفظوں کی تہذیب کو قبول کررہا ہے یا نہیں۔ اس معاملے میں بھی کلیم عاجز ایک حساس فنکار ثابت ہوئے ہیں کہ وہ اجتماعی زندگی کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں اور انفرادی درد وغم کی ترجمانی میں بھی یگانہ رہے ہیں۔ان کے یہاں افہام وتفہیم کا مسئلہ درپیش نہیں رہتا۔ ان کی غزل میں الفاظ کے بہتے ہوئے صاف وشفاف دھاروں میں معنی کی تصویر ابھرتی چلی جاتی ہے۔ کہیں بھی محض قافیہ پیمائی اور ابتذال کا احساس نہیں ہوتابلکہ ایک نئی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ آج جب ہماری غزلیہ شاعری تک بندی کی شکار ہوتی جارہی ہے، تجربے کی آڑ میں غزل کی روح مجروح ہورہی ہے، ایسے انحطاط پذیر شعری معاشرے میں کلیم عاجز کی غزلیہ شاعری صحرا میں ایک سبز گاہ کا احساس کراتی ہے۔ اشعار ملاحظہ کیجئے   ؎

ستم کرلیں جہاں تک ترے ارباب ستم چاہیں
جو تو چاہے ہے ہم سے اے زمانہ کیسے ہم چاہیں

وہی زندہ رہنے کا فن کا جانتے ہیں
جو آب دارو رسن جانتے ہیں

وقت جو قول کے بندوں سے عمل مانگے ہے
کوئی دبکے ہے کہیں کوئی کہیں بھاگے ہے

چھپا لیا ہے مشقت نے عیب عریانی
ہے گرد جسم پہ اس طرح پیرہن جیسے

ہمیں ہیں آئینہ، آئینہ ساز، آئینہ گر دیکھو
ادھر کیا دیکھتے ہو اس طرف کیا ہے ادھر دیکھو

رکھنا ہے کہیں پائوں تو رکھو ہو کہیں پائوں
چلنا ذرا آیا تو اترائے چلے ہو

فسانۂ لیلیٰ غم کا لیے محمل سے آئے ہیں
یہ آنسو آنکھ سے آئے نہیں ہیں دل سے آئے ہیں

فضائوں میں وہ آگ تھی اس برس
کہ اڑتے پرندوں کے پر جلے

عقل پھرتی ہے لیے خانہ بہ خانہ ہم کو
عشق اب تو ہی بتا کوئی ٹھکانہ ہم کو

تمہاری طرح زلفوں میں شکن ڈالے نہیں ہیں ہم
کہیں بات سیدھی پیچ وخم والے نہیں ہیں ہم

کیا خبر بے خودیِ شوق کہاں لے جاتی
خیریت ہے کہ ترا نقش قدم یاد رہا

اپنی صورت پہ جو سکتے کا سماں طاری ہے
آئینہ پر بھی وہ عالم نہیں حیرانی کا

یہ سمندر ہے کنارے ہی کنارے جائو
عشق ہر شخص کے بس کا نہیں پیارے جائو

میری دانست میں اردو شاعری کے زخیرے میں دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں غزلوں کا سرمایہ ہمیشہ قیمتی اس لئے رہا ہے کہ غزل کے ایک شعر یعنی دو مصرعے میں مکمل حیات وکائنات کی آئینہ داری ہوتی ہے جبکہ دیگر صنف سخن کو یہ ایجاز حاصل نہیں ہے اور غزل کا یہی تقاضاشاعر کی راہوں کو پرخار بھی بناتا ہے کہ اگر شاعر ایک شعر میں اپنے فکر ونظر کی دنیا آًباد کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا ہے تو پھر اس کا شعر محض دو لختی کا نمونہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزلیہ شاعری جو ایک طویل سفر طے کرچکی ہے مگر اب بھی ہم عہد بہ عہد غزل کے فطری تقاضوں کو پورا کرنے والے شعرا کو اپنی انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ کلیم عاجز ان شعرا کی صف میں شامل ہیں جنہوںنے غزل کی ایمائیت کا پاس رکھا ہے اور غزل تہذیب کی پاسداری کی ہے۔

کلیم عاجز درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ تھے۔ ان کا مطالعہ وسیع اور متنوع تھا۔ انہوں نے کلاسیکی شاعری کا عمیق مطالعہ کیا تھا۔ اس لئے وہ تغزل کو غزل کی روح سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی شعری فضا بدلی تو انہوں نے آنکھ بند کرکے اس روش کو نہیں اپنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل محدودیت کی شکارنہیں ہوئی بلکہ موضوعاتی کشادگی کی علمبردار رہی۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو کی صحت مند وتوانا غزلیہ شاعری کی تاریخ کا باب بغیر ذکر کلیم عاجز مکمل نہیں ہوسکتا کیوں کہ انہوں نے اپنی غزل کو صرف جسم وجان تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اسے ’مسائل زیست‘ اور ’کار جہاں دراز‘ کا آئینہ بنا دیا ہے۔ ذکر عشق ہو کہ بیان تصوف، سیاسی مکر وفریب ہو کہ سماجی ومذہبی اور اخلاقی پستی، دم توڑتی انسانیت کی آہ وفغاں ہو کہ ملک کا جلتا ہوا منظر نامہ، بین الاقوامی مسائل ہوں کہ ملکی فساد وقتل کی ہولناکیاں، تمام تر موضوعات ان کی غزلوں کے محور ومرکز بنے ہیں اور ان کی غزلیں عرفان تخیل وفنی چابکدستی کی بدولت اپنے عہد کی ترجمان بنی ہیں۔اس لئے ان کی غزلوں میں ان کے عہد کے شخصی شعور اور اجتماعی حسیت کی ہم آہنگی دیکھنے کو ملتی ہے۔انہوںنے اپنی شاعری کے متعلق ٹھیک ہی کہا تھا کہ   ؎

حقیقتوں کا جلال دیںگے، صداقتوں کا جمال دیںگے
تجھے بھی ہم اے غم زمانہ غزل کے سانچے میں ڈھال دیںگے

٭


*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1374