donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Rashid Aziz
Title :
   Fun Rubayee Goyi Aur Tahir Razzaqui

فنِ رباعی گوئی اور طاہررزّاقی


ڈاکٹر راشد عزیز


احساس جب الفاظ کا جامعہ پہن لیتا ہے تو شعر بن جاتاہے۔ شعری اصناف میں رباعی کو مشکل ترین صنف سخن تصور کیا جاتا ہے۔ رباعی کہنا گویا پل صراط پرچلنے جیسا ہے ۔ کیوں کہ اساتذہ فن کے نزدیک رباعی کو قطعہ بنتے دیر نہیںلگتی۔ یہی وجہ ہے کہ شعرا نے رباعی کو اپنا مستقل فن کبھی نہیں قرار دیا۔ اسی لیے رباعی ہمیشہ ضمنیات واتفاقات کا شکار رہی ہے۔

ماہر عروض ڈاکٹر طاہر رزاقی کے شعر ی مجموعے ’’رتیں‘‘ جس میں اولاً سو رباعیات درج ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ طاہر رزاقی کی ذہنی کاوشوں اور تخلیقی شعور کو صنف رباعی سے خاص مناسبت ہے۔ شاعرانہ طبیعت کا یہ فطری احساس بھی ہوسکتا ہے کیوںکہ جس وقت یہ رباعیات منصہ شہود پر آئیں موصوف پچاس کی عمر کے قریب تھے اور قدماء کے نزدیک رباعی گوئی کا سلیقہ عمر کی چالیس پچاس بہاریں دیکھنے کے بعد ہی آتا ہے۔ رباعیات کے علاوہ اس مجموعے میں سو قطعات اور سو ماہئے بھی شامل ہیں جو شاعر کی قادر الکلامی کی طرف اشارہ بھی ہیںاور مختلف اصنافِ سخن پر دسترس کا نمونہ بھی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انور سدید نے لکھاہے:

’’طاہر رزاقی نے شاعری کا ساتواں در کھولنے کے لیے اصنافِ شعر کی تین رتوں میں شاعری کی ہے۔ پہلی رُت رباعیات کی ہے،دوسری قطعات کی اور تیسری ماہئے کی۔‘‘

ہمارا مقصود ’’رتیں‘‘ کا پہلا موسم رباعیات ہے۔ رباعی کو رودد کی کی شخصی ایجاد کا نتیجہ سمجھنا تاریخی اعتبار سے درست نہیں۔ مجمع الفصح میں رضا قلق نے رود کی کی نام سے جو رباعی نقل کی ہے اُسی کو شبلی نعمانی نے پہلی رباعی کے طور پر شعرالعجم میں نقل کیاہے۔ رودکی کے نام سے منسوب رباعیات کی زبان کو رودکی کے عہد کی زبان تسلیم کرنے میں محققین کو تامل ہے۔ رباعی کی ایجاد کے سلسلے میں امیر یعقوب بن لیث صفارمتوفی 265ھ کے لڑکے کا ایک قصہ قدیم تذکروں میں ملتا ہے اور اس میں رودکی متوفی 329ھ کا ذکر بھی آتا ہے۔ لہٰذا تاریخی اعتبار سے ان دونوں باتوں میں فاصلہ پایا جاتا ہے ہے۔ پروفیسر فرمان فتح پوری نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ ابو شکور بلخی متوفی 333ھ کی ایک رباعی عوفی نے درج کی ہے اور ابھی تک کی تحقیق اور مدلل بحث کے مطابق یہی پہلی رباعی ہے:

    اے گشتۂ من زغم فراواں تویست
    شد قامتِ من زودد ہجراں توشست
    اے شستہ من از فریب دوستاں تو دست
    خود ہیج کے بسیرت و شاں تو ہست

طاہر رزاقی کا وطن سنبھل اتر پردیش ہے جو ایک تاریخ ساز قصبہ ہے جسے ماضی میں سنبھلا گرام، بان، مہدی گری، پنگل اور سمبھل وغیر ہ ناموں سے بھی جانا جاتا تھا۔ ملک خداداد تاریخ کٹھیر روہیل کھنڈ میں لکھتے ہیں:

’’سنبھل ہندوؤں کی ایک پرانی بستی ہے جس کی آبادی 52 سرائے 36 پورے اور نونگروں پر منقسم ہے۔ اس کا تذکرہ بھگوت پر ان میں درج ہے۔ راجہ انگپال وغیرہ تو مرقوم نے کئی صدیاں سنبھل پر حکومت کی۔ راجہ انگپال کی پشت کا آخری راجہ پر تھوری راج جب دہلی کے تخت پر بیٹھا تو اس نے بھی سنبھل کی جانب خاص توجہ دی، یہاں تک کہ دارالسلطنت کے لیے منتخب کیا۔‘‘

دیگر روایات کے مطابق سکند پران کے بھوکنڈ میں 47 ادھیائوں میں شمبھل (سنبھل) کا مہاتھ درج ہے۔ جسے مہاراجہ بیاتی یا حجاتی نے آباد کیا تھا۔ دنیا میں اس وقت تین قدیم شہر ایسے ہیں جن کی صحیح تاریخ آج تک طے نہ ہوسکی۔ ان میں ایک شہر سنبھل دوسرا دمشق اور تیسرا عراق میں موصل۔ تین سو سال قبل مسیح سے اس کا ذکر مختلف حوالہ جات میں مل جاتا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ علاقہ سنبھل (شنبھل) سمراٹ اشوک کے قبضے میں تھا۔ سنبھل، امروہہ، بدایوں اور بریلی کا علاقہ کٹھیر کہلایا۔ جس میں گیارہویں صدی میں سیدسالار مسعود غازی کی آمد اور جنگ کے بعد سے مسلم وجود واضح طور پر ظاہر ہوا۔ اس عہد میں سنبھل میں ’’مدرسہ الشرع‘‘ کا قیام خاص اہمیت رکھتا ہے جس میں درس و تدریس کے لیے شیخ عزیز اللہ طلبنوی کو ملتان سے سنبھل بلایاگیا۔ یہ مدرسہ کئی صدیوں تک چشمۂ علوم وفنون کا مرکز بنا رہا۔ شیخ حاتم اسرائیلی، شیخ اللہ جونپوری، ضیاء الدین برنی، امیر خسرو، ابوالفضل، عبدالقادر بدایونی، منشی عبدالرحمن اعظم پوری، شیخ حمید الدین سنبھلی مفسر وغیرہ اسی چشمے سے فیضیاب ہوئے۔ اٹھارہویں صدی میں طبقات الشعراء کے مؤلف قدرت اللہ شوق، انیسویں صدی میں شوق فریدی سنبھل سرکار کے مایہ ناز ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔

مذکورہ تاریخی شواہد بہت حد تک اس بات کے غماز ہیں کہ سنبھل صدیوں سے علوم وفنون کا گہوارہ رہا ہے۔ طاہر رزاقی کی پیدائش سے اُن کی پچاس برس تک کی سماجی و ادبی عمر سرزمین سنبھل کی تازہ دم آب وہوا اور سر سبزو شاداب وادیوں سے مستفیض ہوتی رہی۔ ضرورت ہے سنبھل کے  شعرائ، ادبائ، علماء اور مجاہدین آزادی کے کارہائے نمایاں کی تحقیق کی۔ کیونکہ ابھی تک کوئی ایسی تصنیف سامنے نہیں آئی جس سے سنبھل کے تاریخی ادوار کی ایک جامع تصویر بنتی ہو۔ سنبھل کے شعری ادب کی تاریخ میں رباعی کے حوالے سے ابھی تک کی تحقیق کے مطابق پہلا نام اٹھارہویں صدی میں حکیم محمد کبیر انصاری سنبھلی کاہے جن کی رباعی طبقات الشعراء میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ دوسرا نام محمود اسرائیلی کاہے جن کا کتابچہ بچوں کی رباعیات ہے۔ تیسرا نام ناظم عزیزی سنبھلی کا ہے جنہوں نے اپنی زندگی جے پور میں گزاری اور ’’رباعیات ناظم عزیزی‘‘ سنبھل کے شعراء میں پہلا مجموعہ ٔ رباعیات شائع کیا اور اس کے بعد 256 رباعیات پر مشتمل دوسرا مجموعۂ رباعیات جلال افسر ’’کہکشاں‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ رباعی کی تعریف کے حوالے سے جلال افسر کی ایک رباعی ملاحظہ کریں۔ کس سادگی سے فن رباعی کی وضاحت کی ہے:

 ہر لفظ کو اوزان میں دھوکر دیکھو
پھر ہار رباعی کا پروکر دیکھو
ہو جائے گا اعجاز کا ملکہ خود ہی
کوزے میں سمندر کو سمو کر دیکھو

اوزان کے اعتبار سے اساتذۂ عروض کے نزدیک وزن رباعی بحر ہزج سے مختص ہے اور اہل فن نے بحرہزج سالم (مفاعی لن، مفاعی لن، مفاعی لن، مفاعی لن) سے دس ارکان نکالے ہیں جو رباعی کے لیے مخصوص ہیں۔ ان میں ایک رکن سالم اور باقی نوز حافات کے ساتھ آتے ہیں۔ مثلاً مفاعی لن (سالم) مفاعلن (مقبوض) مفاعیل (مکفوف) مفعولن (اخرم)مفعول (اخرب) فعول (اہتم) فاعلن (اشتر) فعل (محبوب) فاعل (ازلل) فع (ابتر)۔ لفظ رباعی عربی ہے لیکن صنف رباعی اور اوزان رباعی بمطابق حدائق البلاغت عجمی اختراع ہیں۔ رباعی کے ہر مصرع میں ربع کی مناسبت سے صرف چار ارکان اور چار مصاریع ہوتے ہیں۔ نہ تین ہوسکتے ہیں نہ پانچ۔اس سلسلے میں پروفیسر قمر رئیس جیسے ناقد و محقق اور ترقی پسند شاعر نے 54 اوزان پر مشتمل کندن لال کندن کے رباعیات کے مجموعے ارمغان رباعیات کندن میںپیش گفتار میں تحریر کیا ہے:

’’رباعی کے اوزان کا مسئلہ خاصہ متنازعہ رہاہے۔ اس سے زیادہ اس کے زحافات کی تقطیع اختلافی رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوزان و آہنگ کامطالعہ ریاضی کے مطالعے کی طرح ہے۔‘‘

اگر ہم رباعی کے 24 اوزان پر سنجیدگی سے غور کریں تو بحر متدارک اور متقارب کے 20 حرفی سیدھے سادے اوزان بھی بر آمد ہوجاتے ہیں۔ جنہیں رباعی کی توسیع کے لیے ہمیں قبول کر لینا چاہئے لیکن اس نوع کے تجربات اس درجہ کام نہ آسکے کہ رباعی کے لحن و آہنگ کو مجروح ہونے سے بچا لیتے۔

طاہر رزاقی نے ’رتیں‘‘ میں جہاں شجرۂ اخرم و اخرب کو شامل کیا ہے وہیں مستعملہ اوزان کی فہرست کی شمولیت کو بھی بہتر جاناہے تاکہ ان کی رباعیات کو آسانی سے جانچا جاسکے۔ مشمولہ رباعیات میں بیشتر کی خوبی یہ ہے کہ ان میں اکثر کا آخری مصرعہ جملۂ تام ہے۔ یعنی اگر ہم پہلے تین مصرعوں کو حذف کردیں تو بھی چوتھا مصرعہ اپنے معنی کا مکمل اظہار کر دیتا ہے۔ انہیں یہ فن ڈاکٹر اوم پرکاش اگروال زار علامی کی قربت سے حاصل ہواہے۔ مرحوم برصغیر ہی نہیں ایشیا کے ایسے بپھرے ہوئے عروضداں گزرے ہیں جو کبھی کسی کو خاطر میں نہیں لائے۔ یہی سبب ہے کہ اس مجموعے میںشامل یہ گلہائے عقیدت اعلان شاگردی کی شہادت ہیں ۔ جس کا اعتراف طاہر رزاقی اپنے ایک قطعے میں یوں کرتے ہیں:

ہے صفی اور ذوق سے نسبت
لکھنوی اور دہلوی ہوں میں
ہوں میں تلمیذ زار و معجز کا
ان چراغوں کی روشنی ہوں میں

فن رباعی پر تبھی ملکہ حاصل کیا جاسکتا ہے جب اوزان رباعی کی باریکیوں سے اچھی طرح واقفیت ہو۔ نیز تخلیقی شعور اور زبان و بیان پر بھی قدرت ہو جس میں ضرب الامثال، محاورات اور روز مرہ کا علم شامل ہے۔ تشبیہات و استعارات اور صنائع و بدائع کے استعمال سے شعری لہجہ میں جہاں زیبائش آتی ہے وہیں نئے اور روایتی احساسات اور جذبات کا بھی پتہ ملتا ہے۔ ان تمام خوبیوں کو یکجا کرلینے کے بعد ہی فنکار فنی اسلوب کا مظاہرہ کرپاتا ہے۔ اسی خیال کو ڈاکٹر طاہر کی رباعی کے پیکر میں ملاحظہ کریں:

کرتے رہو تم اپنی مساعی جب تک
قلعہ نہ ہو تعمیر دفاعی جب تک
ہوتی ہی نہیں عظمت فن کی معراج
کہتا نہیں فنکار رباعی جب تک

انسان پر جب اسرار حیات وفطرت منکشف ہوتے ہیں تبھی وجودِ ہستی کے رموز کو سمجھنے کا سلیقہ آتا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں فلسفۂ راز کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت سے روشناسی ہوتی ہے۔ اس کا عقلی اور فطری رویہ تبدیل ہوتاہے۔ حواس خمسہ بیدار ہوجاتے ہیں جو اسے ایسی دنیا میں محوکردیتے ہیں جس میں سماجی اور مذہبی پابندیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ پھر قبائلی حصاروں کی کیا اہمیت! جو لوگ رنگ ونسل اور مذہب کی سطح سے اوپر اٹھ جاتے ہیں وہ اپنے فلسفوں اور مدبرانہ تجاویز کی بنیادوں پر ایسے محل تعمیر کرتے ہیں جن میں ہم نہ صرف نشاط و فرحت کی محفلیں سجاتے ہیں بلکہ فطری حقیقتوں کا بھی ان محلوں کے درودیوار، طرز تعمیر اور ان میںموجود تصاویر سے مشاہدہ کرتے ہیں۔اسی بابت جوش ملیح آبادی نے ’’اشارات‘‘ کے ایک مضمون میں لکھا ہے:

’’یوروپ کی بے دینی اور ہندوستان کی دینداری میں یہ فرق ہے کہ وہ تفکر و تدبرپر قائم ہے اور یہ تقلید و تعصب پر۔ اُس میں تحقیق کا عنصر غالب ہے اس میں روایات و اوہام اور اس اندھیر نگری میں یہ کہنے کی جرأت کون کرسکتا ہے کہ تحقیقی کفر بہتر ہے تقلیدی ایمان سے اور امن پرور بے دینی کو فوقیت حاصل ہے فساد انگیز دینداری پر۔‘‘                

(صفحہ 109 مطالعہ جوش ملیح آباد)

حافظ و خیام ، اقبال وغالب کے نظریات کی تائید تخلیق کار اسی وقت کرتا ہے جب اپنی ہستی کی حقیقت سے روشناس ہوجائے اور اس کے مشاہدات اس منزل میں آجائیں جس میں جمال کائنات کے جملہ عناصر پائے جاتے ہیں اور جس نے بقول نطشے گوئٹے جیسا فنکار پیدا کیا۔ اسی منزل کی جانب بلیغ اشارے طاہر رزاقی کی ان رباعیات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

پھولوں میں ترا رنگ ہے خوشبو تو ہے
باغات میں کوئل کی بھی کو کو تو ہے
جس سمت بھی اٹھتی ہیں نگاہیں میری
معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہر سو تو ہے

ہوگا نہ کوئی رند جہاں میں مجھ سا
آتی ہے پسینے سے بھی بوئے صہبا
کیوں میرے لہو میں نہ حرارت آئے
بادہ میں حل کرکے خورشید پیا

انساں کو جو آجائے شعور ہستی
آباد بہت رہتی ہے دل کی بستی
اُن لوگوں پہ کھلتے نہیں اسرار حیات
جن لوگوں کو مطلوب ہے شہرت سستی

فنکار کی جمالیاتی حسیات کا اندازہ فن پاروں کے متن سے ہوتا ہے کہ آخر مستعملہ ندرت آفریں فنی چابکدستی اور استعاراتی اسلوب کو کہاں تک کامیابی ملی ہے اور فطری مناظر کے حظ میں تشبیہات کہاں تک مددگار ہیں۔ جمالیاتی عناصر کو فن پاروں کے جسم میں اتارنے کے لیے بڑی دیدہ ریزی، ریاض فن اور غیر معمولی قدرت کلام کی ضرورت ہوتی ہے اور صبر واستقلال اور اکتساب واحتساب کابھی مظاہرہ کرناہوتا ہے۔ ا ِس مقام تک آنے میں برس ہی نہیں دہے بھی لگ جاتے ہیں تب جاکر امیجز کو پیش کرنے کا شعور آتاہے۔ اسی پیرائے میں ڈاکٹر آغا سہیل ’’رتیں‘‘ کی رباعیات پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’طاہر رزاقی نے اپنے مزاج اور مذاق کو بھی ملحوظ رکھ کر رباعیاں کہیں اور بر صغیر کے اشرافیہ کے بہترین احساسات اورجذبات کے عطر کورباعیات کے موضوعات اور مضامین میں جذبے، خیال اور وجودان سے بھی کام لیا اور تفکر و تعقل کا بھی دامن نہ چھوڑا۔‘‘

مذکورہ تفصیل کے مطابق طاہر رزاقی کی رباعیات گواہ ہیں کہ تخلیق کار، کبھی موسموں کی کیفیات سے متاثر ہوکر تصورات کے عالم میں پناہ لیتا ہے تو کبھی مخلوقاتِ کائنات کی جمالیات سے محظوظ ہوتا ہوا نظر آتاہے اور کبھی غم واندوہ، ہجر و فراق اور رنج والم میں لطف اندوزی کی راہیں تلاش کرتاہے۔ مثلاً

ساون کے مہینے کی یہ کالی برسات
شادی کے لیے ہو جیسے غسل باغات
نقارہ بجاتے ہوئے کالے بادل
کیا ہاتھیوں سے چڑھتی ہے کوئی بارات

ہونٹوں پہ عجب ان کے تبسم دیکھا
جھنکار ہے جس میں وہ تکلم دیکھا
سینے میں وہ انفاس کی موجیں طاہر
اک بحر منور میں تلاطم دیکھا

خوشیوں کے نہ ملنے سے ہواہے رنجور
احساس اگر ہو تو غم میں ہے سرور
قربت میں وہ لطف آتا ہی نہیں
جو لطف کہ آتا ہے کوئی ہو جب دور

جیسا کہ سنبھل کی تاریخ اور یہاں کے آثار قدیمہ جو حکومت اور سماج کی بے حسی کا شکار ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ بہ اعتبار قدامت وشوکت سنبھل کی تہذیبی و معاشرتی اقدار سمٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور یہ زوال پذیری لمحہ ٔ فکر عطا کرتی ہے جس میں تخلیق کار بدلتی تہذیب اور بکھرتی ثقافت پر غور کرتے ہیں اور ان لمحوں کا عکس کنایوں کی مدد سے تخلیقات میںنقش ہوجاتاہے۔ اسی لیے آج کی رباعی دیرینہ سلاسل سے آزاد ہوچکی ہے۔ اب اس کے دامن میں جذبات عقیدت اور تصوف ہی نہیں، رومان پرستی، رندی اور سرمستی بھی ہے۔کہیں محبت میں ہجر ووصال کے گیت گاتی ہے تو کہیں جذباتِ وطنیت کو بھی جگاتی ہے، کبھی سیاست کے دائوں پیچ سے واقف کراتی ہے تو کہیں معاشرے اور زبان کی اصلاح کرتی ہوئی بھی نظر آتی ہے اور روایت کوبھی نہیں چھوڑتی۔

مذکورہ بالا خیالات کی روشنی میں مندرجہ ذیل تین رباعیات ملاحظہ کیجیے جنھیںبار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔

ساون کی سیہ رات خدا خیر کرے
ہوتی ہے برسات خدا خیر کرے
کیا آنے والی ہے قیامت کوئی
اٹھتے ہیں حجابات خدا خیر کرے

انسان کو انسان سے الفت نہ رہی
اخلاص نہیں، طرز اُخوت نہ رہی
ہے خون کے رشتوں میں بھی تفریق بہت
اب بھائی کو بھائی سے محبت نہ رہی

ہر رشتہ جاں توڑ دیا ہے ہم نے
اپنوں کو یہاں چھوڑ دیا ہے ہم نے
جب بھی پڑا وقت وطن پر طاہر
حالات کا رُخ موڑ دیا ہے ہم نے

    ڈاکٹر طاہر رزاقی کی شعری و ادبی خدمات کو ہمیشہ یاد کیا جاتا رہیگا۔ صرف پچپن برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے جو وافرتحقیقی ، تنقیدی،عروضی اور شعری سرمایہ چھوڑا ہے وہ نئی نسلوں کے لیے مشعل ِ راہ ہو اگر طباعت سے آراستہ ہو جائے۔ اللہ ان کے متعلقین کو توفیق بخشے کہ وہ اس باکمال اورہنرور شاعر و ادیب کے اثاثے کو مستحقین تک کا فریضہ انجام دینے کی سعادت حاصل کریں۔



ڈاکٹر راشد عزیز
شعبہ اردو
سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
سونوار، سری نگر ۔ ۱۹۰۰۰۴

موبائل : ۰۸۸۰۳۷۶۶۰۳۶

ای میل : rashidazeez128@gmail.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 925